قدیر سنبھلی کی شاعرانہ قدر و منزلت

قدیر سنبھلی کی شاعرانہ قدر و منزلت

سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی
ہلال ہاؤس
مکان نمبر ١١٤ /۴
نگلہ ملاح سول لائن
علی گڑھ یوپی
موبائل:9219782014

کسی شاعر کی شاعرانہ قدر و منزلت سمجھنے کے لیے لازم ہوتا ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ شاعر کس دور میں شعر و سخن کے جوہر نمایاں کر رہا ہے اور اس کا مزاج کیسا ہے؟ اس کا اسلوب کیسا ہے؟ کیا اس کے یہاں سطحیت ہے؟ یا پھر اس کی شاعری میں آفاقیت نظر آتی ہے؟ کیا وہ اپنے اسلاف کے بنائے ہوئے راستے پر چل رہا ہے؟ یا اس کے یہاں نئے نئے مضامین اور شگفتگی و برجستگی صاف طور سے نظر آتی ہے؟ یا وہ محض مقلد ہے؟ یا پھر اس کے یہاں قوی مشاہدہ اور عمیق مطالعہ نظر آتا ہے؟ کیا وہ صرف الفاظ کے در و بست، جوڑ توڑ کا قائل ہے؟ یا پھر اس کے یہاں لفظ و معنی ساتھ ساتھ اپنی جاذبیت کا احساس کراتے ہیں؟ اسی طرح کے متعدد سوالات ایک قاری خصوصاً ایک فن پارے کو پرکھنے والے کے ذہن میں ابھر سکتے ہیں۔ اس کے جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ حقیقتاً شاعر وہی ہے جس کے یہاں عصرِ حاضر کے مسائل اور مناظر کے ساتھ ساتھ اسلاف سے استفادہ اور نئی فضا کا احساس موجود ہوتا ہے۔ اس ضمن میں اگر قدیرؔ سنبھلی کی شاعری جو کہ دو مجموعۂ کلام ”گلزارِ غزل" اور”گفتارِ غزل“ کی صورت میں منظرِ عام پر آچکی ہے، کا مطالعہ کرتے ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ ان کے یہاں وہ تمام عناصر موجود ہیں جن کی جانب مندرجہ بالا سطروں میں متوجہ کیا گیا ہے۔جس کی وجہ سے ہم انھیں ان کے ہم عصروں میں ممتاز و منفرد دیکھتے ہیں۔
موصوف کی شاعری کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے غزل کے اصل مفہوم کو سمجھتے ہوئے غزل کہی ہے۔ تمام اہلِ ادب جانتے ہیں کہ غزل کس کو کہتے ہیں اور اس کے فنی تقاضے کیا ہیں؟ میرا خیال ہے کہ بیشتر افراد اس سلسلے سے اپنی مختلف رائے ظاہر کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کریں گے کہ غزل کا دائرہ عصرِ حاضر میں نہایت وسیع ہوچکا ہے۔ یہ مابعد جدیدیت کا دور ہے، اس میں کوئی منتخب اسلوب یا غزل کا محدود دائرہ نہیں بلکہ اس کے دامن میں رنگ رنگ کے گل ہائے دل کش خوش بو بکھیر رہے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اہلِ فہم حضرات اس بات کی ضرور تائید کریں گے کہ غزل مضامینِ حسن و عشق کے بغیر ادھوری ہے۔ اس میں عشق کا جذبہ ہر دور میں غالب رہا ہے اور رہے گا۔ یعنی غزل آج بھی محبوب اور عاشق کی وارداتِ قلبی کی مظہر ہے اور اگر یہ نہ ہو تو غزل کی روح غائب ہے اور صرف جسم موجود ہے۔ قدیرؔ سنبھلی کی غزل آج کے دور میں بھی اپنے مفہوم کے اعتبار سے بہ خوبی غزل ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ ان کے یہاں حسن و عشق کا جذبہ ان کی غزلیہ شاعری پر حاوی نظر آتا ہے اور وہ قدم قدم پر تغزل کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ ان کی راویت کی پاس داری بھی ہے اور مطالعہ کا اثر بھی۔ آئیے ان کی غزل میں تغزل کے کچھ عناصر دیکھتے ہیں۔ مثلاً غزل میں محبوب کی زلفوں اور اس کی آنکھوں کا ذکر ہمیشہ سے ملتا ہے. شعرا نے زلف اور آنکھوں پر مبنی مضامین کو اپنے اپنے زاویوں سے پیش کیا ہے۔ قدیرؔ سنبھلی بھی اس سے مبرا نہیں، لیکن ان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ یہاں تغزل کے پاس دار اور روایت کے امین ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی الگ پہچان بھی رکھتے ہیں۔ کچھ اشعار زلف کے حوالے سے دیکھیں:
محسوس ہو رہا تھا گھٹا قید ہوگئی
زلفیں سنوارنے کا بھی انداز دیکھئے

آج کالی گھٹا گھر کے آنے لگی
غالباً زلف ان کی کھلی رہ گئی

میں سمجھتا ہوں خورشید چھپ جائے گا
زلف شانوں پہ جب وہ بکھر جائے گی

چھیڑ کر ذکر ان کی زلفوں کا
دھوپ کو سائبان دے دوں گا
عموماً زلف کو سیاہ رات سے تشبیہ دی گئی ہے یا پھر اسے گھٹا کہا گیا ہے جیسا کہ اولین دو اشعار سے واضح ہے کہ قدیرؔ سنبھلی روایت کے پاس دار ہیں، لیکن تیسرے شعر میں ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے زلف کے ذکر کو ہی سائبان قرار دیا ہے اور خصوصاً دھوپ جیسی شے کے لیے زلف کو سائبان کہنا ان کی بلند پراوزِ فکر کی  نشان دہی کرتا ہے اور یہ بات ثابت کرتا ہے کہ وہ روایتی ہونے کے ساتھ ساتھ زلف کو نئے رخ سے بھی دیکھتے ہیں۔ اسی طرح غزل میں محبوب کی آنکھوں کا ذکر بھی خوب ملتا ہے۔ شعرا محبوب کی آنکھوں کو کہیں شراب کہتے ہیں تو کہیں جھیل سے تشبیہ دیتے ہیں۔ قدیرؔ سنبھلی بھی اس سے پیچھے نہیں کہتے ہیں:
ہم تھے مارے ہوئے نگاہوں کے
لوگ سمجھے شراب نے مارا

ان کی آنکھوں سے میں جو پیتا ہوں
اس کو ناداں شراب کہتے ہیں

ڈوب جانے کی ضد ہوئی دل کو
دیکھ کر تیری جھیل سی آنکھیں
لیکن اس روایتی انداز کے علاوہ بھی موصوف آنکھوں کے تحت ایک اور متاثر کن مضمون بیان کرتے ہیں اور اپنی نئی فکر کا احساس دلاتے ہیں۔ شعر ہے:

کیوں میں احسان لوں چراغوں کا
گھر میں روشن ہیں جب تری آنکھیں
یعنی وہ چراغوں کے رہینِ منت نہیں، وہ محبوب کی قربت اور اس کی آنکھوں کو چراغوں سے کم نہیں جانتے. یہاں غور کی بات یہ ہے کہ محبوب کی آنکھوں کو چراغ سے تشبیہ دینا صرف اس مضمون کے تحت ہی نہیں کہ وہ خوب صورت اور چراغوں کی مانند سرخ یا روشن ہیں بلکہ یہاں اس بات کا احساس بھی نظر آتا ہے کہ محبوب کی آنکھیں عاشق کے لیے بے پناہ عشق کا مظاہرہ کرتی ہیں اور اس کی فکر میں رہتی ہیں۔
روایتی غزل میں قدم قدم پر مختلف تشبیہات اور استعارات کا سہارا لے کر شعرا نے اپنی بات کہی ہے۔ قدیرؔ سنبھلی بھی بہترین تشبیہات پیش کرتے ہیں اور اپنی روایت پسندی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً ان کے یہاں بھی محبوب کے حسن و جمال کو چاند سے تشبیہ دی گئی ہے، کہتے ہیں:
پیکرِ حسن کو جو ایک نظر دیکھ لیا
یوں لگا جیسے زمیں پر ہی قمر دیکھ لیا
لیکن چونکہ وہ غزل کی نئی راہ کے مسافر ہیں، اس لیے اپنی غزل میں نئی نئی تشبیہات کا بھی سہارا لیتے ہیں، جو نئی غزل کا خاصہ ہے۔ مثلاً:
یاد اس کی اندھیری راتوں میں
اک سنہری لکیر ہے یارو
یعنی اندھیری رات میں محبوب کی یادوں کو سنہری لکیر جیسی روشنی کی علامت قرار دینا غزل کے ترو تازہ اور انوکھے لہجے کا عکاس ہے۔
قدیرؔ سنبھلی زندگی کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ وہ اپنے نصیب کو بادل کی بوند کہتے ہیں:
مرا نصیب بھی بادل کی بوند جیسا ہے
کبھی فلک پہ کبھی خاکِ رہگزر میں ہوں
گویا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قدیرؔ سنبھلی غزل کے روایتی پہلو پر بھی نگاہ رکھتے ہیں اور ادب کے عصری تقاضوں کو بھی خوب نبھاتے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ روایتی غزل نئی غزل سے منفرد ہے۔ مثلاً اس میں بہت سے ایسے مضامین ہیں جو آج کی غزل میں بہت کم پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان مضامین کو کمال و جمال کے ساتھ نئی غزل میں پیش کرنا قدیرؔ سنبھلی کی قدرت شاعری کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ رہ زن اور رہ بر کا ذکر اور ان سے شکوہ روایتی غزل کا خاصہ ہے لیکن قدیرؔ سنبھلی بھی خوب صورتی کے ساتھ اپنی غزل میں رہ زن و رہ بر کا ذکر کرتے ہیں۔ کہتے ہیں:
رہزنوں سے تو کوئی خوف نہیں
ہاں مگر، رہبروں سے ڈرتا ہوں

نفرت سی ہوگئی مجھے رہبر کے نام سے
جب رہبروں کی شکل میں رہزن بہت ملے
روایتی غزل میں واعظ کو قدم قدم پر طنز کا شکار بنایا گیا ہے۔ قدیرؔ سنبھلی بھی کہتے ہیں:
دل کے حالات خدا جانے جنابِ واعظ
دیکھنے میں تو مسلمان نظر آتے ہو
روایتی غزل میں نامہ بر کا کردار بھی نظر آتا ہے جس کی آج کی غزل میں کوئی اہمیت نہیں لیکن قدیرؔ سنبھلی اس کو بھی اپنی غزل میں زندہ رکھتے ہیں۔ شعر ہے:
منتظر ہوں کہ نامہ بر آئے
تھا سلام و پیام کا وعدہ

نامہ بر کچھ تو کہہ خدا کے لئے
کچھ تو اس نے کہا سنا ہوگا
روایتی غزل میں ساقی اور پیرِ مغاں کی اہمیت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ قدیرؔ سنبھلی اپنی نئی غزل میں ان کرداروں کو بھی فراموش نہیں کرتے۔ کہتے ہیں:
محدود رہی میری ساقی سے شناسائی
ہاتھوں میں مرے کوئی کب جامِ شراب آیا

آج پیرِ مغاں کا سب سے ہے
میکدے میں نظام کا وعدہ
روایتی غزل میں محبوب انا پرست ہونے کے ساتھ ساتھ خود کو عاشق سے دور رکھتا ہے۔ عاشق اس کی ایک جھلک کا منتظر رہتا ہے اور اس سے منتیں کرتا ہے۔ جب کہ آج کے دور میں دیکھا جائے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں، اب نہ عشق میں پہلے جیسی پختگی ہے اور نہ محبوب کا یہ انداز کہ وہ عاشق سے خود کو دور رکھے بلکہ حسن خود دیدار کے لیے آمادہ رہتا ہے۔ لیکن قدیرؔ سنبھلی اپنی روایت کو فراش نہیں کرتے۔ کہتے ہیں:
کبھی کبھی تو لبِ بام آہی جایا کرو
تمہارے کوچے سے مایوس لوٹ جاتا ہوں

دم مریضِ وفا کا نکلنے کو ہے
اپنی آمد کو اتنی نہ تاخیر دیں

مرنے کے بعد حوریں کریں گی کوئی علاج
اس دردِ دل کی میرے جہاں میں دوا نہیں
محبوب کی سیرِ گلشن جہاں پھولوں کے مسکرانے کی وجہ ہوتی ہے وہیں عاشق کو بھی قلبی سکون دیتی ہے۔اشعار ملاحظہ کریں:
گلشن کی فضا مہکی ہر گل پہ شباب آیا
جب سیرِ گلستاں کو وہ رشکِ گلاب آیا

جب سے اس نے گلشن میں آنا جانا چھوڑا ہے
رنگ اور خوشبو کو تتلیاں ترستی ہیں
عاشق چاہے کتنا ہی وفادار ہو، محبوب اسے بے وفا ہی سمجھتا ہے۔ یہ روایتی مضمون قدیرؔ سنبھلی اس طرح بیان کرتے ہیں:
جان و دل سے اسے ہم نے چاہا مگر
پھر بھی اس نے ہمیں بے وفا کہہ دیا
لیکن غور کیا جائے تو مندرجہ بالا شعر کو ہم صرف روایت کے دائرے میں ہی محدود نہیں کرسکتے بلکہ یہ شعر آج کے دور میں بھی صادق اترتا ہے کیوں کہ جاں نثاری اور اس کی بے قدری کا سلسلہ ہر زمانے میں نظر آتا ہے۔ گویا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قدیرؔ سنبھلی صرف روایت کے دلدادہ نہیں بلکہ عصری شعور بھی رکھتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں مابعد جدیدیت کے نقوش بھر پور انداز میں دکھائی دیتے ہیں۔
روایتی شاعری میں ہجر و وصال کی لذتوں اورکلفتوں کا بھی خوب رنگ نظر آتا ہے۔ قدیرؔ سنبھلی بھی اس سے مبرا نہیں. وہ شگفتگی و برجستگی کے ساتھ ساتھ اپنے ہجر کی داستان اور اس کی تکالیف کا ذکر کرتے ہیں، لیکن ان کے یہاں ہجر میں بھی وصال کا احساس ہوتا ہے۔ وہ ایسے افسردہ اور نمدیدہ شاعر نہیں جو ہجر کو اپنے لیے عذابِ جان سمجھیں بلکہ وہ ہجر میں لذت ملاقات محسوس کرتے ہیں۔ کچھ اشعار ملاحظہ کریں:
تنہائی کا ملال بھی ہونے نہیں دیا
تصویر تیری مجھ سے سدا بولتی رہی

میں جدائی میں بھی تنہائی کا مرکز نہ بنا
ان کے غم پاس رہے جب مجھے تنہا دیکھا

یادیں تمہاری آکے مجھے چھیڑتی رہیں
تنہائیوں سے میرا کہاں واسطہ رہا

تاریکیاں بھی گھر میں اندھیرا نہ کر سکیں
جب تک تمہاری یادوں کا روشن دیا رہا
یہاں رقم کیے گئے تمام اشعار میں ہجر کی بات کی گئی ہے لیکن اس خوب صورتی کے ساتھ کہ گویا ہجر بھی عاشق کے لیے ایک نعمت ہو۔ جس میں محبوب سے باتیں، جدائی میں تنہائی نہ محسوس کرنا اور گھر کے روشن ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ گویا کہ یہ قدیرؔ سنبھلی کا کمالِ فکر ہے کہ وہ روایتی مضامین میں بھی اپنے لیے نئی راہ نکال لیتے ہیں۔
قدیرؔ سنبھلی کو روایت سے استفادہ اور ادب کے عصری تقاضوں سے اپنی فکری اور شعری صلاحیتوں کے چراغ روشن کرنے کا ہنر بہ خوبی آتا ہے۔ ان کی نگاہ حالاتِ حاضرہ سے ذرہ برابر بھی نہیں ہٹتی۔ اسی لیے ان کے یہاں زمانے کے جدید مسائل، گرد و پیش کے قدم بہ قدم بدلتے ہوئے مناظر، انسان کی انسان سے فکری اور ذہنی دوری کا ذکر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ مثلاً:
زندگی اس قدر آج مصروف ہے
بات کرنے کا بھی وقت ملتا نہیں

اس نے پوچھا ہے میں کیا لاؤں تمہارے واسطے
کہہ رہے ہیں اس سے تھوڑا وقت لے آنے کو ہم
شعر میں آج کی مصروف دنیا میں گم انسانوں کی تصویر صاف نظر آتی ہے، جہاں انسان اپنے عزیزوں اور اقربا کے لیے وقت نہیں نکال پاتا ایسے معاشرے میں کسی کے لیے ملاقات کے لیے وقت نکالنا بھی کسی نعمت اور دولت سے کم نہیں۔ آج کے معاشرے میں یوں تو جہاں جائیے وہاں ایک ہجوم نظر آتا ہے لیکن اس ترقی یافتہ ماحول اور معاشرے میں انسان ہجوم میں گھرا ہونے کے باوجود خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ اس تنہائی کا احساس قدیرؔ سنبھلی کو بھی شدت کے ساتھ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں:
کشتی کو جیسے کوئی کنارا نہیں ملا
ہم کو جہاں میں کوئی ہمارا نہیں ملا
شعر کی تشریح کی جائے تو ظاہر ہوگا کہ یہاں شخصی تنہائی کے ساتھ ساتھ اجتماعی تنہائی کا بھی شعور نظر آتا ہے لیکن قدیرؔ سنبھلی کے یہاں اس سلسلے سے ان کی ذاتی زندگی کے نقوش و احساسات بھی نظر آتے ہیں، جن کے مطالعے سے لگتا ہے کہ وہ اپنی وارداتِ قلبی بیان کر رہے ہیں۔ مثلاً:
سب زندگی کی دوڑ میں آگے نکل گئے
میں منزلوں کے خواب سجانے میں رہ گیا

زندگی ساری سفر میں کٹ گئی
میں مسافر اور تو منزل رہا

تنہا مری حیات گزر تو گئی مگر
صدیوں سے بھی طویل مہینے پڑے مجھے
ان اشعار سے ظاہر ہے کہ شاعر کو اس کا مدعا نہ مل سکا اور تنہائی اس کا مقدر بنی لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ یہاں اشعار محدود پس منظر میں نہیں بلکہ قدیرؔ سنبھلی کی آپ بیتی جگ بیتی نظر آتی ہے۔
آج کے دور میں انسان کی انسان سے دشمنی، تعصب اور نفرت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ قدیرؔ سنبھلی بھی اس مسئلے کو اپنے سماج میں دیکھتے ہیں تو ان کا درد مند دل مضطرب ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں:
الفت کے ہر اک پھول کو ہی خار کر دیا
نفرت نے برگِ گل کو بھی تلوار کر دیا
یہاں پھول اور برگِ گل سے مراد وہ افراد ہیں جو کبھی امن و آشتی اور اتحاد کے قائل تھے اور فساد سے خود کو دور رکھتے تھے لیکن سماج میں پھیلی ہوئی نفرت نے ان کی فکر کو بھی نفرت زدہ کردیا ہے جس سے گرد و پیش کے ماحول میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور انسان کی انسان سے دوری بڑھی ہے اور اسے اپنی جان کا خطرہ دکھائی دیتا ہے۔
قدییرؔ سنبھلی کا خیال ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے اور محبت کی جگہ نفرت نے جگہ لے لی ہے. یعنی زمانے میں تغییرات قدم قدم پر نظر آرہے ہیں لیکن ایک چیز کو دوام حاصل ہے اور وہ ہے فساد یعنی کسی صورت انسان سے انسان کی نفرت ختم نہیں ہوتی۔ شعر ہے:
کتنے گھر جل گئے کتنی جانیں گئیں
پھر بھی ہیں سب فسادات اپنی جگہ
ان کے یہاں جہاں روایتی رنگ ہے وہیں وہ مابعد جدیدیت سے بھی متاثر نظر آتے ہیں. ان کے یہاں تازہ کاری کے نقوش اور پرانے مضامین کو نئے انداز میں کہنے کا انوکھا انداز ملتا ہے۔ مثلاً غزل میں یہ موضوع عام ہے کہ دشمن دھوکا دیتا ہے، قدیرؔ سنبھلی دشمن کے وار کرنے کو اپنی منفرد نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کہتے ہیں:
دشمن کے ایک سنگ نے زخمی تو کچھ کیا
غفلت کی نیند سے مجھے بیدار کر دیا
یعنی انسان کا دھوکا کھانا بھی اسے تجربہ دیتا ہے، جس سے آنے والی زندگی کے لیے وہ بیداری اور ہشیاری حاصل کرتا ہے۔ اسی بات کو موصوف ایک اور زاویے سے کہتے ہیں:
ایک ٹھوکر زیست کا حاصل بنی
کھول ڈالیں ذہن کی سب کھڑکیاں
آج کے دور میں ایک دوسرے پر بے یقینی میں بھی اضافہ ہوا ہے کیوں کہ انسان دیکھتا ہے کہ قدم قدم پر فریب دینے والے افراد موجود ہیں اور جب بے یقینی حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو انسان خود پر بھی بھروسا نہیں کر پاتا کیوں کہ وہ خود بھی ایسے سماج کا فرد ہے جہاں قدم قدم پر لوگ رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ شعر ہے:
وہ اعتبار بھلا کیا کرے زمانے کا
وہ شخص جس کو خود اپنا بھی اعتبار نہ تھا
ان کے ہاں عصری مسائل کی بہترین نمائندگی نظر آتی ہے، وہ اپنے گرد و پش پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ اس سلسلے سے انھیں لگتا ہے کہ بعض لوگ اپنے ہی گھر میں اجنبی کی صورت میں زندگی گزارتے ہیں۔ شعر ہے:
اپنے ہی گھر میں رہتا ہوں مہمان کی طرح
لگتا ہے میرا گھر بھی مرا اپنا گھر نہیں
یہاں شعر صرف کسی مخصوص گھر کی داستان ہی نہیں سناتا بلکہ یہاں ”گھر“ ایک علامت کی صورت اختیار کرتے ہوئے ملک کے حالات بھی بیان کرتا ہے۔ اسی طرح انھیں جب کہیں اتحاد کے بجائے اختلاف نظر آتا ہے تو وہ کہتے ہیں:
بھائیوں کا خون مٹی میں یکایک مل گیا
اک ذرا سی بدگمانی نے انھیں خنجر دیا
وہ اپنے معاشرے میں یہ مسئلہ بھی دیکھتے ہیں کہ پڑھے لکھے افراد ترقی اور منصب سے محروم نظر آتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس رشوت دینے کے لیے زر نہیں ہوتا۔ شعر ہے:
کیسے پڑھ لکھ کے میں کوئی افسر بنوں
پہلے رشوت میں دینے کو زر چاہئے
انھیں یہ بھی احساس ہے کہ سماج میں بے روزگاری اور غربت کا چلن عام ہے۔ ایسے ماحول میں جہاں غربت عروج پر ہو اور امرا کسی غریب کو نہ پوچھتے ہوں تو حساس دل کو لگتا ہے کہ اس کا تمام شہر ہی غریب ہے۔شعر ہے:
افلاس کی عینک سے غریبی کے نگر میں
خاموش کھڑا سب کی نظر دیکھ رہا ہوں
وہ سماج میں یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب کم ظرف لوگوں کو اعلا عہدے مل جاتے ہیں تو وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور تکبر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ شعر ہے:
کرسی ملتے ہی خود کو خدا کہہ اٹھے
ان خداؤں کو خوفِ خدا ہی نہیں
آج کا سماج اس قدر بدل چکا ہے کہ حق بات کہنے والے کو ہی ظلم و جبر کا شکار بنایا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں جب حق گوئی کی راہ میں شدتیں اور دشواریاں ہوتی ہیں تو ایک لمحے کے لیے حق پرست بھی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ کیا کرے؟ شعر ہے:
حق بات کہہ کے میں تو صلیبوں کی زد میں ہوں
مر جاؤں یا بیاں سے مکر جاؤں کیا کروں
ہمارے عہد کے ادب کا خاصہ یہ بھی ہے کہ اس میں نئی علامتیں تشکیل دی گئی ہیں۔ قدیرؔ سنبھلی بھی نئی اور جاذبیت سے پُر علامتیں اختراع کرنے کا ہنر بہ خوبی جانتے ہیں۔ شعر ہے:
تیرگی تھکی ہاری در بدر سے آئی تھی
سوگئی مرے گھر میں، اپنے پاؤں پھیلا کر
شعر میں اگر غور کیا جائے تو ”تیرگی“ کسی ایک ایسے شخص کی علامت ہوسکتی ہے جو دن بھر کڑی محنت کرتا ہے لیکن حصول مقصد نہیں ہوتا۔ وہ دیر رات محنت کرکے اپنے گھر میں آتا ہے اور گھر والوں کو بھی وقت دیے بغیر گھر میں پاؤں پھیلا کر تھک کرسوجاتا ہے۔ اسی طرح قدیرؔ سنبھلی کے یہاں ”چاندنی“ بھی بہ طورِ علامت نظر آتی ہے۔ شعر ہے:
آج کل اماوس میں نیچے کب اترتی ہے
چاندنی کے پیروں کو سیڑھیاں ترستی ہیں
غور کیا جائے تو یہاں ”اماوس“ بھی ایک علامت ہے جس کو محرومی سے یا کسی چیز کی پابندی سے عبارت کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ”چاندنی“ اس نعمت یا شے کی علامت بھی ہوسکتی ہے جس کی کسی کو اشد ضرورت ہوسکتی ہے اور”سیڑھیاں“ضرورت مند افراد کی مظہر ہوسکتی ہیں۔خاص بات یہ ہے کہ یہاں شعر کے دوسرے مصرعے میں جہاں تازہ کاری ہے وہیں محاکات کا حسن بھی اپنی مثال آپ نظر آتا ہے۔
قدیرؔ سنبھلی کے یہاں ”دھوپ“ بھی ایک علامت بنتی ہے۔ وہ ”دھوپ“ کو شدائد اور آلام کا استعارہ قرار دیتے ہیں۔ کہتے ہیں:
میں تیز دھوپ کی انگڑائی سے نہیں ڈرتا
میں اپنے ذہن میں کچھ سائبان رکھتا ہوں
لیکن شدائد و تکالیف کے باوجود وہ حوصلہ مند نظر آتے ہیں اور ذہن کی آسودگی اور مضبوطی کو سائبان جانتے ہیں۔ وہ زندگی میں کسی امتیاز کی وجہ سے کسی کو حقیر نہیں سمجھتے بلکہ ادنیٰ سی شے سے بھی اگر استفادہ حاصل کرتے ہیں تو اس کی تعریف ضرور کرتے ہیں۔ شعر ہے:
چھوٹا سا ایک جگنو جو رستہ دکھا گیا
وہ چاند سے زیادہ منور لگا مجھے
اگر دیکھا جائے تو جگنو اور چاند کی روشنی کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن تاریک تر راتوں میں جب چاند راستہ دکھانے کے لیے نہیں ہوتا تو جگنو رہ نمائی کرتا ہے۔ ظاہر ہے یہاں چاند ایک ایسے شخص کی علامت ہے جو کسی بھی معاملے میں زیادہ صلاحیتوں، اثر و رسوخ یا مال و دولت وغیرہ کا مالک ہو سکتا ہے اور جگنو ایک ایسے شخص کی علامت ہوسکتا ہے جس کا دائرہ محدود ہے لیکن بعض مرتبہ محدود اور کم تر حضرات بھی لوگوں کو اپنی ذات سے فائدہ پہنچا کر بڑے لوگوں سے کہیں زیادہ مقبول و معروف اور ہر دل عزیز ہوجاتے ہیں۔
قدیرؔ سنبھلی چراغ اور ہوا کو بھی علامت بنا کر اپنی شاعری میں پیش کرتے ہیں۔ شعر ہے:
جس گھر کے سب چراغ ہوا نے بجھا دیے
اس گھر میں آنسوؤں کی بڑی روشنی رہی
ظاہر ہے شعر میں ”چراغ“سے مراد کسی گھر کے اطفال یا نوجوان نسل یا کسی کی اولاد سے ہوسکتی ہے جن کی وجہ سے گھر کے افراد کا مستقبل تابناک ہوسکتا تھا اور ہوا یعنی ناگہانی موت نے ان کو اپنے آغوش میں لے کر گھر والوں کو رنج و الم یعنی آنسوؤں سے ہم کنار کردیا۔
اسی طرح وہ بہت سے اشعار میں ہوا کو کسی پریشانی، تباہی یا موت کی علامت بناتے ہیں اور سوکھے درخت کو بھی کسی معمر شخص یا ضعیف انسان کی علامت بناتے ہیں۔ شعر ہے:
سوکھے ہوئے درخت سے کچھ بھی نہیں کہا * پھل دار ہر شجر کو ہوا چھیڑتی رہی
شجر کی علامت ان کی شاعری میں متعدد جگہ نظر آتی ہے۔ مثلاً:
عمر بھر دھوپ میں ہی چلتا رہا
راہ میں کوئی تو شجر ہوگا
شعر میں دھوپ اگر محنت و مشقت اور پریشانی کی علامت ہوسکتی ہے تو شجر ایک سائبان یعنی شفقت و محبت کرنے والے افراد کا استعارہ نظر آتا ہے۔
وہ شجر کو کسی ایسے عمل کی بھی علامت بناتے ہیں جس کی بنیاد رکھنے کے بعد ایک زمانہ گزرنے پر وہ زمانے کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ شعر ہے:
میں نے بچپن میں جو لگایا تھا
وہ شجر سایہ دار ہے اب تو
شجر کے علاوہ وہ ”سمندر“ کو بھی علامت بناتے ہیں۔ شعر دیکھیں:
جس سمندر سے تشنگی نہ مٹے
ہم تو اس کو سراب کہتے ہیں
یعنی جو شخص بہ ظاہر مہربان ہو اور اس سے کسی کو فیض حاصل نہ ہو تو شاعر کے خیال میں وہ سراب کی مانند ہے۔
وہ جب گرد و پیش کے مناظر بدلے ہوئے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں:
سونے سے پہلے عرش پہ تارے تھے بے شمار
سوکر اٹھے تو ایک بھی تارا نہیں ملا
ظاہر ہے شعر میں ”تارے“ ان افراد کی علامت ہیں جو ایک انسان کو اس کے عہدِطفلی سے ملتے ہیں لیکن جب وقت آگے بڑھتا ہے تو وہ معدوم ہوجاتے ہیں اور جب انسان کو احساس ہوتا ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ان کے یہاں ”تتلی“ کو بھی علامت بنایا گیا ہے۔ شعر ہے:
جہاں پہ سارے ہی کاغذ کے پھول ہوں یارو
وہاں پہ تتلی کے جانے سے فائدہ کیا ہے
ظاہر ہے تتلی کا کام خوش رنگ اور اصلی پھولوں سے استفادہ کرنا ہوتا ہے. وہ کاغذی پھولوں کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتی، لیکن کبھی کبھی جھوٹی نمائش بھی حقیقت پرست انسانوں کو متاثر کر دیتی ہے، جس کے نتائج ٹھیک نہیں نکلتے۔ گویا کہ شعر میں ”تتلی“ ان افراد کی علامت ہے جو حسن پرست ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت شناس بھی ہوتے ہیں۔
ان کے یہاں ”پرندے“ بھی علامت کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ شعر ہے:
سارے پرندے مر گئے نظروں کے تیر سے
اس کی کماں سے تیر بھی کوئی چلا نہیں
شعر میں ”پرندے“ عشاق کی علامت ہیں جو محبوب کی نگاہ کے تیر پر فدا نظر آتے ہیں۔ اس شعر میں جہاں علامت کا تاثر موجود ہے وہیں غزل کا نکھرا ہوا مزاج بھی نمایاں ہے، جس میں روایت کی توسیع نظر آتی ہے۔بہ الفاظِ دیگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قدیرؔ سنبھلی جہاں روایت کے پاس دار ہیں وہیں نئی غزل کہنے کے ساتھ ساتھ اپنے پیش رو شعرا سے ملے ہوئے مضامین کی توسیع بھی کرتے ہیں۔ شعر ہے:
سب مجھے دیکھ کر سنورتے تھے
بزم میں آئینہ رہا ہوں میں
پیش کیے گئے شعر میں ایک روایتی مضمون کی پاس داری نظر آتی ہے. یعنی محبوب یا عاشق ”آئینے“ کی مثل ہے جس کو دیکھ کر زمانہ زندگی گزارنے کا ہنر سیکھتا ہے۔
محبوب کی ذات سراسر سکونِ قلب و نظر ہونے کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی معطر کرتی ہے۔ اس کا نام بھی خوش بو بکھیرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اشعار دیکھیں:
پہلے میری غزلوں کو خوشبوؤں سے مہکا دو
پھر کسی کے آنگن کا تم گلاب ہو جانا

گھر میں خوشبو سی بکھر جاتی ہے
جب ترا نام لیا کرتے ہیں
اس کے علاوہ اب ان کی غزل سے ایک ایسا شعر ملاحظہ کریں جو بالکل نئی آب و تاب کے ساتھ اردو غزل کی راویت کی پاس داری کرتا ہے۔ شعر دیکھیں:
چھیڑ کر پاؤں سے رستے میں بھرے پانی کو
چھینٹیں پانی کی اڑاؤ تو غزل ہوتی ہے
پہلے محبوب کی مختلف اداؤں میں تغزل نظر آتا تھا اب نئی غزل کا نیا انداز ہے. اسی لیے قدیرؔ سنبھلی کا کمال یہ ہے کہ محبوب کی ایک ایسی شرارت جو معیوب قرار دی جاسکتی ہے، وہ اس کو بھی اپنی غزل کا موضوع بناکر تغزل پیدا کرتے ہیں۔
غزل میں جہاں تغزل ہوتا ہے وہیں یادِ ماضی کا بھی ذکر جا بجا ہر دور میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ قدیرؔ سنبھلی بھی قدم قدم پر ماضی کو یاد رکھتے ہیں۔ جس میں حسن محبوب سے محرومی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ مثال کے لیے کچھ اشعار دیکھیں:
رکھا ہوا کتاب میں جو برگِ گل ملا
مانند تازہ پھول تری یاد ہوگئی

اس نے میرے سینے پر، اپنے سر کو رکھا تھا
خوشبوئیں نکلتی ہیں، اب بھی میرے سینے سے

گھر میں رہ کر بھی لاپتہ ہوں میں
اس کی یادوں میں کھو گیا ہوں میں
رقم کیے گئے اشعار میں واضح ہے کہ ان کو محبوب کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کی شدت کے ساتھ یاد آتی ہے اور وہ جس کو اپنی زندگی کا سرمایہ جانتے ہیں۔
ان کی غزل کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں کہیں گنجلک الفاظ اور پیچیدگی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ان کی شاعری میں برجستگی، شائستگی اور بےباکانہ انداز ملتا ہے۔ ان کے یہاں گفتگو کا انداز بھی متاثر کرتا ہے۔کچھ اشعار ملاحظہ کیجئے:
اپنی زلفوں کی طرح خود بھی ہو الجھے الجھے
کیا ہوا کیسے پریشان نظر آتے ہو

اس جھوٹی تسلی پر رکھو گے مجھے کب تک
آتے نہیں کہتے ہو آیا میں جناب آیا

ہچکیاں کیوں ستا رہی ہیں مجھے
کیا تمہیں یاد آرہا ہوں میں

یہ دل تمہارا ہے اس میں کوئی نہیں رہتا
تمہارے واسطے خالی مکان رکھتا ہوں

اس قدر بے رخی تیری اچھی نہیں
کوئی مرنے پہ مجبور ہوجائے گا
ان اشعار کے علاوہ ان کے یہاں بہت سے اشعار مل جائیں گے، جن میں ایک گفتگو کا سا انداز نظر آتا ہے. ایسا لگتا ہے کہ شاعر اپنے محبوب سے بلا جھجھک بات کر رہا ہے اور یہ رنگ آج کی شاعری کا ہے، جس میں محبوب اور عاشق کے درمیان بے تکلفی زیادہ سے زیادہ نظر آتی ہے۔
ان کی غزل میں اس قدر سادگی اور سلاست ہے کہ جو اپنی مثال آپ ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ اگر ان کے سادگی سے پُر اشعار کی نثر بنائی جائے تو ایک دو الفاظ کی ترتیب بدلنے کے بعد ہم دیکھیں گے کہ ان کے شعر، ان کے مضمون پر اور ان کے اسالیب پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔بلکہ بعض اشعار میں ترتیب بدلنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ کچھ اشعار دیکھیں:
ہر شخص جانتا ہے کہ قاتل ہے میرا کون
اور سب یہ کہہ رہے ہیں ہمیں کچھ خبر نہیں

ٹوٹ جاتا ہوں اتنا اندر سے
جتنا باہر سے میں سنورتا ہوں

راہِ وفا میں چلتے رہنا
کام کوئی آسان نہیں ہے

پھول لو گے کہ گلستاں لوگے
خود تمہیں انتخاب کرنا ہے

کچھ ہے کم گوئی کی عادت ان کو
کچھ تکلف بھی کیا کرتے ہیں
اس سلسلے سے بہت سے اشعار پیش کیے جاسکتے ہیں، لیکن مضمون کی طوالت کا خیال رکھتے ہوئے گریز کرنا مناسب ہے اور مختصر طور پر اتنا کہا جاسکتا ہے کہ اگر قدیرؔ سنبھلی کی شاعری کے متعلق چند الفاظ میں کہا جائے تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ قدیرؔ سنبھلی غزل کے مزاج سے واقف، روایت کے شناسا، اپنے گرد و پیش سے باخبر اور نئی فکر کے متحمل ہیں۔ ان کے یہاں غزل کا وہ لہجہ ملتا ہے جو کسی اسلوب کی اندھی تقلید نہیں کرتا بلکہ روایت اور عصری حسیت کی آمیزش سے اپنی تکمیل کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بعض مقامات پر اپنے لیے خود راستہ تیار کرتا ہے اور اس پر سفر اختیار کرتا ہے۔ اس لیے پورے وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ادب میں کبھی فراموش نہیں کے جا سکتے۔
***
صاحب مقالہ کی گذشتہ نگارش :یہ ہماری بستی ہے


شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے