جاوید نہال حشمی____پیکر صفات

جاوید نہال حشمی____پیکر صفات

فرزانہ پروین

خالق کائنات نے بے شمار لوگوں کو اس دنیا میں بھیجا اور ان بے شمار لوگوں میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جنھوں نے اپنی صلاحیتوں سے اپنی شناخت بنائی۔ دنیا میں آمد و رفت کا سلسلہ چلتا رہا ہے۔ کروڑوں لوگ آتے اور جاتے ہیں اور ہم انھیں پرانے نصاب کی طرح فراموش کر دیتے ہیں، لیکن ہمارے ارد گرد کچھ ایسی بھی شخصیتیں ہوتی ہیں جو ہمیشہ یاد رہتی ہیں. ایسی ہی شخصیات میں ایک اہم نام جاوید نہال حشمی کا ہے. بنگال والوں کے لیے یہ نام نیا نہیں ہے۔ ان کی تین کتابیں منصۂ شہود پر آ چکی ہیں. 2016 میں ان کے افسانوں کا مجموعہ "دیوار" منظر عام پر آیا. اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی بنگال اردو اکاڈمی نے اس کتاب پر انھیں علامہ راشدالخیری ایوارڈ اور بہار اردو اکادمی نے اس کتاب پر دس ہزار روپے کے انعام سے سرفراز کیا. دیوار کے بعد ان کی دوسری کتاب "کلائیڈوسکوپ"  جو افسانچوں کا مجموعہ ہے، 2019 میں شائع ہوئی. کلائیڈوسکوپ کو بنگال میں افسانچوں کی پہلی کتاب ہونے کا شرف بھی حاصل رہا ہے. اس کتاب پر مغربی بنگال اردو اکاڈمی نے انھیں پریم چند ایوارڈ سے نوازا. اس کے بعد ان کی تیسری کتاب "کوئی لوٹا دے مرے" (انشائیوں کا مجموعہ 2021) میں منظر عام پر آئی. 
جاوید نہال حشمی کا تعلق کانکی نارہ کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے. ان کے والد معتبر انسان ہونے کے ساتھ استاد شاعر بھی تھے. وہ ساری زندگی معلمی کرتے رہے_ علم حاصل کرنا اور اسے نئی نسل کو ودیعت کر دینا ان کے خاندان کا ایک خاص وصف رہا ہے. جاوید نہال حشمی بھی پیشے سے معلم ہیں، جو کولکاتا کے تاریخی اسکول، مدرسہ عالیہ کے اینگلو پرشین ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں، انھیں لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن ہی سے رہا ہے اور کیوں نہ ہو والد محترم ایک اچھے اور ایمان دار معلم، شاعر و ادیب بھی تھے، لہذا بچپن ہی سے علمی و ادبی گفتگو سننا، کھلونا، پیام تعلیم اور نور جیسے رسائل پڑھنا، تعلیم یافتہ لوگوں سے ملنا جلنا ہوتا رہا جس کا اثر یہ ہوا کہ زمانہ طالب علمی ہی سے کئی صفات ان میں نظر آنے لگیں جیسے کارٹون بنانا، کہانیاں پڑھنا اور لکھنا، رسائل میں شائع ہونا ان کا جنون بن گیا. 
بہ حیثیت ادیب میں نے ان کا نام سنا تھا، ان کی تخلیقات بھی پڑھی تھیں، لیکن روبرو ملنے کا اتفاق 2017 میں ہوا جب میں عالیہ یونی ورسٹی سے بی-ایڈ کر رہی تھی تو ٹیچر ٹریننگ کے لیے مجھے مدرسہ عالیہ بھیجا گیا تھا، وہاں چار مہینے میں نے درس و تدریس کے فرائض انجام دیے، اسی دوران وہاں کے کئی اساتذہ کو قریب سے جاننے کا موقع ملا. ان میں جاوید نہال حشمی بھی تھے. پہلی ملاقات اسکول کے کینٹین میں ہوئی جہاں ہم انھیں روز بریک ٹائم میں کھانا کھاتے ہوئے دیکھتے تھے، مزے کی بات یہ ہے کہ وہ کھاتے وقت کبھی بھی کسی کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ وہ کھانے کے دوران اس قدر مگن ہوتے تھے کہ آس پاس کی انھیں خبر بھی نہیں ہوتی تھی، تبھی میں نے یہ اندازہ لگایا کہ وہ کھانے کے بے حد شوقین ہیں اور بعد میں یہ اندازہ درست بھی ثابت ہوا. 
درس و تدریس کا پیشہ بے حد پاکیزہ مانا جاتا ہے. دیانت داری اس کی اولین شرط ہوتی ہے. عصر حاضر میں بیشتر اساتذہ صرف نصاب مکمل کرانے پر توجہ دیتے ہیں. بہت کم ہی اساتذہ ایسے ہوتے ہیں جو بچوں کو نصاب سے پرے بھی بہت کچھ سکھانا چاہتے ہیں. جاوید نہال حشمی کا شمار بھی ایسے ہی اساتذہ میں ہوتا ہے. وہ بچوں کو بڑی محبت و شفقت سے پڑھاتے ہیں. پڑھائی کے دوران اکثر رنگین چاک سے بورڈ پر موضوع سے متعلق تصاویر بنانا اور اسے سہل اور انوکھے ڈھنگ سے سمجھانا ان کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے. اکثر و بیشتر وہ بچوں کے اسمارٹ کلاسز بھی لیتے ہیں اور پروجیکٹر کے ذریعہ بچوں کو تعلیم دیتے ہیں. یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمارے درمیان ایک ایسے استاد موجود ہیں، جو جدید ٹیکنالوجی سے بھر پور استفادہ کرتے ہیں. اردو اسکولوں میں تدریس کی ڈیجیٹلائزیشن بہ طور خاص سائنس کی تدریس میں inter-active پاور پوائنٹ پریزینٹیشن کے لیے بھی وہ کافی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی انھی خوبیوں کی بنا پر اگر انھیں اے پی ڈپارٹمنٹ کلکتہ مدرسہ میں اسمارٹ کلاسز کا سرخیل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا-
جاوید نہال حشمی گرچہ سائنس کے معلم ہیں لیکن سائنس کے علاوہ ان کی اردو اور انگریزی بھی بہت اچھی رہی ہے. یہی وجہ ہے کہ انھوں نے آن لائن بچوں کو انگریزی سکھانے کے لیے مفت کلاسز بھی دینے شروع کیے. اس کام کے لیے انھوں نے ایک واٹس ایپ گروپ بھی بنایا تھا، اس گروپ میں مختلف اسکولوں کے طلبہ شامل تھے، خود میں نے بھی اپنے کئی شاگردوں کو اس گروپ میں شامل کروایا تھا، پڑھائی کی شروعات بہت اچھی ہوئی، بہت سارے طلبہ اس کی تعریفیں کر رہے تھے اور اس سے فیضیاب ہو رہے تھے پر کسی سبب یہ سلسلہ دراز نہ رہ سکا. 
مذکورہ صفات کے علاوہ ان میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ کمپیوٹر کی جدید ٹیکنالوجی سے بہ خوبی واقف ہیں، خوب صورت بینر بنانا ہو، یا کتاب کی رونمائی، مشاعرے میں اسٹیج کے بیک گراؤنڈ وال کی نمائش ہو یا کتابوں کا سرورق، وہ ان میں ایسے ایسے کمالات دکھاتے ہیں کہ لوگ اش اش کرتے رہ جاتے ہیں، اکثر اپنے دولت کدے پر جب وہ ادبی نشست کرواتے ہیں تو آف لائن نشست کو آن لائن بیٹھے لوگوں سے یوں جوڑ دیتے ہیں جس سے دیگر علاقوں اور شہروں میں بیٹھے لوگ بھی ان نشستوں میں نہ صرف شامل ہوتے ہیں بلکہ اپنے تاثرات کا اظہار اور سوالات بھی بہ ا آسانی کر پاتے ہیں. 
2007 میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے مرکز فروغ سائنس کے تحت ہونے والے پندرہ روزہ ورک شاپ میں نہ صرف انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ اپنے بلیک بورڈ اسکیچز اور اسمارٹ کلاسز کے لیے 2017 کے اردو سائنس کانگریس میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی حیدرآباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی موجودگی میں عثمانیہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر راما چندرم کے ہاتھوں انھیں توصیفی سند بھی عطا کی گئی۔ کہتے ہیں کہ انسان کی محنت کبھی نہ کبھی رنگ ضرور لاتی ہے، لہٰذا یہ اسی محنت کا ثمرہ ہے کہ انھیں یہ اعزاز ملا. 
میں نے 2009 مغربی بنگال اردو اکاڈمی سے کمپیوٹر کا بیسک کورس مکمل کیا تھا، کورس مکمل ہونے کے بعد پھر کبھی پریکٹس کا موقع نہیں ملا اور میں ان پیج کا سارا کام بھولتی گئی۔ ڈیڑھ سال قبل لیپ ٹاپ لینے کے بعد میں نے جاوید نہال حشمی سے کہا کہ بھائی ان پیج کے کام میں میری تھوڑی مدد کر دیں گے؟ وہ خلاف توقع فوراً راضی ہوگئے اور مجھے اپنے اسکول میں بلا کر تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے میں کافی کچھ سمجھا دیا، سمجھانے کا انداز بھی اتنا سہل کہ انسان عرصے تک کچھ نہ بھول پائے، میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ جس طرح ان میں نئی چیزیں سیکھنے کا جذبہ ہے اسی طرح دوسروں کو کچھ سکھا کر بھی بے حد خوشی محسوس کرتے ہیں، مجھے جب بھی کمپیوٹر کے معاملے میں کوئی دشواری پیش آتی ہے میں ان سے کال کر کے فوراً پوچھ لیتی ہوں. جاوید صاحب نے اپنی تمام تر مصروفیتوں کے باوجود مجھ سے بارہا کہا کہ فرزانہ تم تھوڑا سا وقت نکالو تو میں تمھیں بہت کچھ سکھا دوں گا لیکن یہ میری بد بختی اور کوتاہی ہے کہ میں دوبارہ کبھی گئی ہی نہیں. ان باتوں سے یہ نکتہ واضح ہو جاتا ہے کہ جو سچے اور ایمان دار استاد ہوتے ہیں وہ علم کے خزانے کو خود تک محدود رکھنے کے بجائے بانٹنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں. دراصل یہ خوبی ان کے تمام بھائیوں کو وراثت میں ملی ہے، کیونکہ اکثر شاعری کے دوران استاد محترم جناب احمد کمال حشمی سے کسی افاعیل یا شاعری کے فن اور اس کی باریکیوں کے متعلق جب میں کوئی سوال کرتی ہوں تو وہ مطلوبہ جانکاری دینے کے ساتھ مزید کچھ اور باریکیوں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ جاوید نہال حشمی بھی بالکل وہی کرتے ہیں۔کسی سوال کا ایک دو لفظوں میں جواب دینے کے بجائے اس کے سیاق و سباق پر بھی روشنی ڈالتے ہیں تاکہ سوال کرنے والے کے ذہن میں جواب پوری طرح واضح ہوجائے۔ وہ اپنے علم کو بانٹنے میں بے حد خوشی محسوس کرتے ہیں _
جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ وہ تصویریں بہت خوب صورت بناتے ہیں کسی بھی شخص کا چہرہ تختہ سیاہ پر ہو یا کاغذ پر، من و عن اتار دیتے ہیں۔ فیس بک پر ان کی بنائی ہوئی کئی تصاویر محفوظ ہیں جنھیں دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ واقعی ہاتھ سے بنائی ہوئی تصاویر ہیں_ 13، اگست 2019 کو جب مشہور شاعر علقمہ شبلی کی وفات ہوئی تو جاوید نہال حشمی نے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی نہایت شان دار تصویر بنائی اور ایک بڑے سے فریم میں قید کر کے انھوں نے یکم جنوری 2020 کو جمیل منظر کے گھر ایک تاریخی مشاعرے میں شبلی صاحب کے بڑے صاحب زادے شہر یار شبلی کو تحفتاً پیش کیا. اس تصویر کو لوگوں نے کافی پسند کیا۔ ڈاکٹر شاہد ساز کو وہ تصویر اتنی پسند آئی کہ 2020 میں انھوں نے اسے اپنی کتاب "علقمہ شبلی کا جہانِ رباعیات" کا سرورق بنا دیا. 
اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی بنائی ہوئی سر سید احمد خان کی ایک تصویر جو نعیم انیس سر لے گئے تھے وہ کولکاتا کے قدیم ادارے مسلم انسٹی ٹیوٹ میں محفوظ ہے، انھوں نے مشہور گلوکار محمد رفیع کی بھی ایک بے حد خوب صورت بڑی سی تصویر بنائی تھی جسے ان کے رشتے دار مٹیا برج کے کسی کلب کے لیے لے گئے، کانکی نارہ اردو گرلس اسکول والوں نے بھی ان سے مرزا غالب، علامہ اقبال اور مولانا ابولکلام آزاد کی واٹر کلر پینٹنگس بنوائی تھیں جو شاید اسکول ہذا میں آج بھی موجود ہے_ جاوید نہال حشمی نے عباس علی خان بیخود کی بھی ایک بے حد دل کش بڑی سی تصویر بنائی تھی اور پروفیسر محمد منصور عالم سر نے جب پروفیسر عباس علی خان پر ایک کتاب ترتیب دی تو اس کتاب کے اجرا کی تقریب میں مولانا آزاد کالج میں پوڈیم کے سامنے یہ تصویر رکھی گئی تھی جسے بےخود صاحب کے بھانجے رونق نعیم نے بڑی محبت سے مانگ لی اور اسے اپنے ساتھ رانی گنج لے گئے. امام خمینی کی کلر پورٹریٹ مرشد آباد میں آفاق مرزا آفاق مرحوم کو تحفتاً انھوں نے پیش کردیا تھا. اس کے علاوہ مہاتما گاندھی، امیتابھ بچن، ٹیپو سلطان، بہادر شاہ ظفر اور اپنے والد حشم الرمضان وغیرہ کے اسکیچز آج بھی ان کے پاس محفوظ ہیں- غرض کہ ان کے بنائے ہوئے ایسے کئی پورٹریٹ کو نہ صرف پسند کیا گیا اور سراہا گیا بلکہ اسے محفوظ بھی کر لیا گیا. 
جاوید نہال حشمی کی شخصیت کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ وہ بہت زیادہ باتیں کرتے ہیں. میں جب بھی انھیں کال کرتی ہوں تو کوشش کرتی ہوں کہ اپنی بات پہلے کہہ لوں ورنہ مجھے بولنے کا موقع شاید نہ ملے. ان کی باتیں بڑی دل چسپ اور معلوماتی ہوتی ہیں جسے سن کر مخاطب کبھی بیزاری محسوس نہیں کرتا، ان کے پاس بات کرنے کے لیے موضوعات کی کوئی کمی نہیں ہوتی ہے، میرے احباب کو اکثر مجھ سے یہ شکایت ہوتی ہے کہ "فرزانہ تم مسلسل بولتی ہو سامنے والے کی پوری بات سنتی ہی نہیں" لیکن جب میں جاوید بھائی سے بات کرتی ہوں تو مجھے دلی اطمینان ہوتا ہے کہ مسلسل بولنے والے لوگوں میں، میں تنہا نہیں ہوں بلکہ مجھ سے زیادہ بولنے والے بھی اس جہاں میں موجود ہیں. میں نے اکثر بزرگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ مسلسل بولنے والے لوگوں کا دل آئینے کی طرح شفاف ہوتا ہے. 
آج کل بیشتر لوگ "من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو" کے مقولے پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ لوگ جنھیں عزیز رکھتے ہیں، ان کی توصیف کرتے وقت اکثر مبالغے سے کام لیتے ہیں، لیکن بچوں کا دل مکر و فریب سے پاک ہوتا ہے اور وہ بہت معصوم ہوتے ہیں، لہٰذا جب وہ کسی کی تعریف و توصیف کرتے ہیں تو دل کو خود بخود ان کی باتوں پر یقین آ جاتا ہے. میں متعدد کوچنگ سینٹر میں اردو کی کلاسز لیتی ہوں جہاں اے پی ڈپارٹمنٹ کلکتہ مدرسہ کے کئی اسٹوڈنٹس تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پڑھائی کے دوران بچے اکثر جاوید نہال حشمی کی تعریف کرتے ہیں. اتنا ہی نہیں بلکہ میں نے جب انھیں اپنے پسندیدہ استاد پر مضمون لکھنے کو کہا تو کئی بار بچوں نے جاوید نہال حشمی پر مضمون لکھا. اس سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بچے انھیں کس قدر پسند کرتے ہیں. ایک استاد اپنی پوری زندگی میں بھلے ہی دولت کمائے نہ کمائے لیکن اس نے اپنے شاگردوں کے دل میں اگر اپنی جگہ بنا لی تو یہی اس کی زندگی کا کل اثاثہ ہوتا ہے. 
جاوید نہال حشمی سے اکثر میری گفتگو ہوتی رہتی ہے. میں بڑے بھائی کی طرح دل سے ان کی عزت کرتی ہوں. جب بھی میرا کوئی مضمون یا نئی غزل کسی رسالے میں شائع ہوتی ہے، وہ میری حوصلہ افزائی ضرور کرتے ہیں. ان کی مذکورہ بالا خوبیوں نے مجھے بے حد متاثر کیا. میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ پاک انھیں مزید کامیابی و کامرانی عطا فرمائے آمین. 
مکمل پتہ:
Farzana Parveen
Assistant Teacher
The Quraish Institute
5/1, Kimber Street
Kolkata – 700017
Mobile – 7003222679
Email – fparveen150@gmail.com
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: ترنم ریاض کے افسانوں کی امتیازی خصوصیات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے