ترنم ریاض کے افسانوں کی امتیازی خصوصیات

ترنم ریاض کے افسانوں کی امتیازی خصوصیات

فرزانہ پروین
کولکاتا

”قلم کی طاقت تلوار سے زیادہ ہوتی ہے قلم ہمارے لیے کسی ہتھیار سے کم نہیں" ایسے جملے ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں لیکن ہوش و شعور کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد ان جملوں کی صداقت کا احساس ہوا۔ دیکھا گیا کہ قلم سے لوگوں نے ایسے ایسے کام لیے کہ ہماری عقل حیران رہ جاتی ہے، بڑے بڑے شعرا و ادبا نے اس کی بدولت قوم کی تقدیریں بدل دیں اور دنیا کے اس انبوہ کثیر میں اپنی شناخت بنائی. مزید برآں زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو صنف نازک نے اس قلم سے ہر مقام پر، ہر جگہ اپنا نقش چھوڑا ہے۔ قلم کو اپنی طاقت، اپنا ہتھیار بنانے والی شاعرات وادیبہ میں جہاں پروین شاکر، کشور ناہید، قراة العین حیدر، فہمیدہ ریاض، ادا جعفری، عصِمت چغتائی، جیلانی بانو، بانو قدسیہ، زاہدہ زیدی، ساجدہ زیدی، صالحہ عابد حسین وغیرہ جیسی ہستیوں کا نام آتا ہے وہیں ترنم ریاض کا نام بھی نہایت ادب و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ وہ بے پناہ خدا داد صلاحیتوں کی ملکہ تھیں. شعر و شاعری، ناول نگاری، افسانہ نگاری، تنقید نگاری اور ترجمہ نگاری کے میدان میں بھی انھوں نے بھر پور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ یہ تنگ زمین(1998)، ابابیلیں لوٹ آئیں گی (2000)، یمبرزل (2004)، مورتی (2004)، چشم نقش قدم (2005)، پرانی کتابوں کی خوشبو (2006)، مرا رخت سفر(2008)، فریب خطۂ گل (2009)، برف آشنا پرندے (2009)، اجنبی جزیروں میں (2015)، بھادوں کے چاند تلے (2015)، زیر سبزہ محو خواب (2015) جیسی کتابیں اُن کی شعری و نثری تصانیف ہیں جب کہ بیسویں صدی میں خواتین کا اردو ادب (2004) اُن کی ترتیب کردہ کتاب ہے۔
ترنم ریاض یوں تو کئی اصناف ادب میں مہارت رکھتی تھیں لیکن افسانہ نگاری میں ان کا جوہر کھل کر سامنے آتا ہے. انھوں نے مختلف النوع موضوعات کو اپنے افسانے کا حصہ بنایا ہے. جن میں سیاسی، سماجی، معاشرتی، بچوں کی نفسیات، کشمیری مسائل، وجود زن کا کرب، عورتوں کا استحصال وغیرہ شامل ہیں۔ ترنم ریاض نے اپنے افسانوں میں ہر طبقے کی عورتوں کا محاسبہ کیا ہے. ان کے نرم و نازک احساسات، جذبات، ان کا کرب، ان کی قربانیاں، ممتا، ایثار، خلوص اور جرأت مندی جیسی کیفیات کو صفحۂ قرطاس پر لانے سے قبل انھوں نے انھیں اپنے دل پر محسوس کیا ہے، ان کے درد کو اپنا درد سمجھا ہے تبھی وہ ہر کردار اور اس کی کیفیات کو بیان کرنے میں کامیاب ہیں۔
ترنم ریاض اپنے متعلق کہتی ہیں کہ:
”اپنے گرد و پیش کی تبدیلیوں کو محسوس کر کے میں کبھی خوش ہوتی ہوں، کبھی رنجیدہ، میں انسانوں کے بدلتے ہوئے خیالات، کردار، اطوار، طرز زندگی کا بہ غور مشاہدہ کرتی ہوں۔ انسانی احساسات کو اپنے تخلیقی نہاں خانوں میں محفوظ کر کے کہانیوں اور افسانوں کا روپ دیتی ہوں۔ تخلیق کا یہ سفر میرے لیے اذیت ناک بھی ہے اور تسکین آمیز بھی۔" (افسانوی مجموعہ:  ابابیلیں لوٹ آئیں گی۔پیش لفظ۔ص۔١٠)
ان کے چار افسانوی مجموعوں میں بیشتر کہانیاں ایسی ہیں جو ہمیں اپنی کہانی معلوم ہوتی ہیں اور جن کے اثرات دیر پا ہمارے ذہن پر قائم رہتے ہیں۔ افسانہ گونگی، تنکے، ناخدا، ایک تھکی ہوئی شام، بلبل، دھندلے آئینے، شہر، باپ، مٹی، آدھے چاند کا عکس، میرا پیا گھر آیا وغیرہ ان کے بہترین افسانے ہیں۔
ترنم ریاض نے اپنے افسانوں میں خواتین کے جذبات و احساسات کے مختلف رنگ پیش کیے ہیں۔ افسانہ ”دھندلے آئینے" ایک ایسی خوب صورت، شوخ، چنچل اور ذہین لڑکی کی کہانی ہے جس کے والدین جلد ہی اس کی شادی کر دینا چاہتے ہیں لیکن والد کی اچانک موت کے بعد لڑکی اپنے تمام ارمانوں کو سینے میں دفن کر کے ایک ذمہ دار بیٹے کا فرض نبھانے لگتی ہے۔ وہ اپنا حلیہ تبدیل کر لیتی ہے اور اپنے بال کٹوا کر لڑکوں کے لباس زیب تن کرنے لگتی ہے۔ گھر اور باہر کی تمام ذمہ داریوں کو وہ خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہے اور تب اس کی ماں کو اس سے چھوٹے تین بھائی بہنوں کی شادی کی فکر ستانے لگتی ہے اور یوں گزرتے وقت کے ساتھ وہ اس سے چھوٹی ایک بیٹی اور ایک نکمے بیٹے کی شادی کروا دیتی ہے اور اب سب سے چھوٹی بیٹی جو محض سترہ برس کی ہے، کی شادی کی تقریب میں سب مشغول ہیں، ماں کے چہرے پر خوشی اور اطمینان ہے لیکن ان کی سفاک سوچ اور ان کا یہ تلخ جملہ کہ
”گھر کی آخری شادی ہے کوئی ارمان نہ رہ جائے"
کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے وہ تو جیسے بھول ہی چکی تھیں کہ ان کا فرض ابھی باقی ہے۔ چھوٹی بہن کی شادی میں برسوں کے بعد بڑی بہن پہلے کی طرح تیار ہو کر جب سیڑھیوں سے اترتی ہے تو سارے لوگ اسے حیرت سے دیکھنے لگتے ہیں اور تب اس کا چھوٹا بھائی اپنی بہن پر طنز کے تیر چلاتے ہوئے کہتا ہے کہ:
”یہ اپی کو کیا ہو گیا ہے جو یہ حلیہ بنا لیا ہے انہوں نے"
لیکن اسی وقت رشتے کی ایک خالہ امی کے پاس آ کر انھیں احساس دلاتے ہوئے کہتی ہیں کہ:
”تمہارا چاند آج گھٹاؤں سے نکل آیا ہے اب تو اسے میرے دامن میں ڈال دو"
تب ماں کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنی بیٹی کو روتے ہوئے گلے لگا لیتی ہیں۔
”دھندلے آئینے" دراصل سماج کی ان لڑکیوں کا المیہ ہے جو گھر کے حالات سے مجبور ہو کر اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کی زندگی اور ان کا مستقبل سنوارنے کے لیے اپنے ارمانوں کا خون کر دیتی ہیں اور اپنے پیروں میں پائل کے بجائے ذمہ داریوں کی بیڑیاں ڈال لیتی ہیں لیکن تکلیف تب ہوتی ہے جب ماں خود اپنی اس بچی کی طرف سے غافل ہو جاتی ہے. دراصل انھیں یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر اُس کے ہاتھ پیلے کر دیے تو پھر مستقبل میں ان کی کفالت کون کرے گا۔
ارینج میرج میں لڑکا لڑکی اگر ایک دوسرے کے معیار پر نہ اتریں تو بعض شادیاں محض بندھن بن کر رہ جاتی ہیں، جس کا انجام طلاق ہوتا ہے. لیکن عورت اگر چاہے تو اپنے حسن اخلاق، حسن سلوک اور اپنے جذبۂ ایثار سے ٹوٹتے ہوئے رشتے کو بچا سکتی ہے اور اپنے شوہر کے دل میں پائیدار مقام بنا سکتی ہے۔
ترنم ریاض کا افسانہ ”گونگی" ایک ایسی ہی اعلا خاندان کی کم سخن، قبول صورت لڑکی کی داستان ہے جو اپنی خاموشی، ایثار، صبر، محنت، حسن سلوک اور خدمت سے گھر کے تمام لوگوں کا دل جیت لیتی ہے سوائے اپنے شوہر کے، اور نتیجتاً کچھ عرصے کے بعد اس کا شوہر دوسری شادی کر لیتا ہے اور وہ اپنی بیوی کو اس شادی کے متعلق بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ:
”وہ اب گھر آنا چاہتی ہے ورنہ وہ خلع لے لے گی"
شوہر کی بات سن کر اپنے اندر اٹھتے ہوئے طوفان کو دبا کر وہ صرف اتنا ہی کہتی ہے :
"تو ٹھیک ہے لے آئیے۔۔۔آپ جیسا مناسب جانیں"
وہ اپنی بیوی کو حیرانی و پشیمانی سے دم بخود دیکھتا رہ جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ:
”برداشت کا اتنا مادہ یہ غضب کا استقلال کیا کسی دوسری عورت میں ہو سکتا ہے"
اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جو اس کے دل کو اسیر کر لیتا ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے اپنی بیوی کے پاس لوٹ آتا ہے۔
ترنم ریاض کے افسانوں میں ایک ایسی مِقناطیسی کیفیت ہوتی ہے جو قاری کو خود سے دور ہونے نہیں دیتی ہے اور اسے اپنے سحر میں اسیر کر لیتی ہے. افسانہ پڑھتے ہوئے تمام مناظر آنکھوں کے آگے گردش کرنے لگتے ہیں اور قاری خود کو اس افسانے کا کردار محسوس کرنے لگتا ہے۔
شاید اسی لیے سلیمان اطہر جاوید رقم طراز ہیں کہ:
”ترنم ریاض کے افسانے، افسانے نہیں لگتے، معاشرے کی منہ بولتی تصویر بن جاتے ہیں."(افسانوی مجموعہ: مرا رختِ سفر۔ ص۔٢٨١)
افسانہ ”ایک تھکی ہوئی شام" فکر معاش اور ماں کی ممتا کا خوب صورت امتزاج ہے. ایک نہایت تھکی تھکی سی پریشان حال عورت "اپو گھر" کے باہر فٹ پاتھ پر کھلونے بیچنے کی سعی کر رہی ہے لیکن اس کے کھلونے سوائے ایک بچے کے اور کوئی نہیں خریدتا ہے. عورت کی پیشانی پر فکر کی لکیریں ہیں. غم سے نڈھال وہ عورت اپنے معصوم اور شاید معذور بچے پر توجہ بھی نہیں دیتی ہے، جو بار بار اس کی توجہ پانے کی سعی کر رہا ہے. وہ ماں کی گود میں آنا چاہتا ہے۔ غم و یاس کی کیفیت میں مبتلا وہ عورت بچے کو گود میں بھی نہیں لے پاتی ہے. مگر سورج غروب ہونے کے ساتھ ساتھ جب وہ اپنی دوکان سمیٹتی ہے اور پیار سے اپنے بچے کی جانب دیکھتی ہے تو اس کی آنکھوں میں ممتا کے تمام رنگ اتر آتے ہیں. بچے کو محبت کی نظروں سے دیکھتے ہی وہ اپنا سارا درد بھول جاتی ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے کہ ماں کی ممتا، اس کی محبت دنیا کی تمام تر پریشانیوں پر غالب آ جاتی ہے۔ اس افسانے میں ماں کی ممتا کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے۔
ترنم ریاض کے افسانوں کے موضوعات میں تنوع پایا جاتا ہے. ان کے افسانوں کے موضوعات ہماری آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں. روز مرہ میں پیش آنے والی چھوٹی بڑی باتیں، چھوٹے چھوٹے واقعات جنھیں ہم قابل اعتنا نہیں گردانتے، انھیں وہ بڑی چابک دستی سے اپنے افسانوں میں پیش کرتی ہیں. وہ لکھتی ہیں کہ:
”رہی بات موضوع کی تو موضوع کہاں نہیں ہے ہر شے کے بدلاؤ کے ساتھ موضوع بھی بدلتا ہے، بلکہ نئی نئی صورتوں میں، نئے نئے مسائل کے ساتھ سامنے آ کھڑا ہوتا ہے، کچھ موضوعات پرانے ہو جاتے ہیں، ان کی جگہ نئے لے لیتے ہیں اور کچھ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کبھی موضوع بدلتا ہے کبھی افسانہ نگار۔ کہانی چلتی رہتی ہے اور ضرورت یہ ہی ہے کہ کہانی چلتی رہے."(افسانوی مجموعہ: یہ تنگ زمین۔ص۔٩)
بلراج کومل فرماتے ہیں کہ :
”ترنم ریاض کے افسانوں کے موضوعات اسلوب اور اظہار کی غیر رسمی تازگی اور سادگی، تشکیلی قدرت ان کے فن کے قابل ذکر خصائص میں سے چند ایک خصائص ہیں" (افسانوی مجموعہ: یمبرزل۔ص۔١٧٨)
موضوع یا بچوں کی نفسیات کے اعتبار سے اگر دیکھیں تو افسانہ ”شہر" اپنے طرز کا ایک منفرد افسانہ ہے. عصر حاضر میں ہر شخص بڑے شہر میں رہنے کا متمنی ہے. اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہاں زندگی کی تمام سہولیات و آسائشیں میسر ہوتی ہیں. جب کہ دوسری جانب یہاں انسان ایک دوسرے سے لا تعلق و نا آشنا رہتا ہے. یہاں ہر شخص اپنی الگ دنیا بسائے رہتا ہے. کسی کو کسی کے سکھ دکھ سے کوئی سروکار نہیں ہوتا. اگر کسی کے گھر میں کوئی حادثہ رونما ہو جائے تو پاس پڑوس کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی، اخبار اور ٹی وی پر ہم ایسی خبریں اکثر سنتے رہتے ہیں۔ انوار صاحب اپنی بیوی اور دو چھوٹے معصوم بچوں کے ساتھ شہر کی ایک چودہ منزلہ عمارت کی چھت پر بنے تنہا فلیٹ میں رہنے کے لیے آتے ہیں۔ انھیں دفتر کے کام سے چند روز کے لیے شہر سے باہر جانا پڑتا ہے اور اس درمیان ان کی اہلیہ کی موت واقع ہو جاتی ہے. کمرے میں موجود ایک چھوٹا بچہ اور اس کی ڈھائی سالہ بہن اپنی ماں کو جگانے کی سعی میں رو رو کر ہلکان ہو رہے ہیں. بچہ اتنا چھوٹا ہے کہ وہ دروازے کی چٹخنی تک نہیں کھول پاتا ہے، وہ کمرے سے آوازیں بھی لگاتا ہے لیکن اس کی آواز دروازے کے اس پار جانے سے قاصر تھی، دونوں بچے روتے ہیں اور بے بسی سے اپنی ماں کو دیکھتے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس مردہ جسم میں کچھ تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں یہاں تک کہ اب اس مردہ جسم سے بدبو آنے لگتی ہے. ماں کا خوب صورت چہرہ اب خوفناک ہونے لگتا ہے. جسے دیکھ کر بچہ کمرے کے ایک گوشہ میں چھپ کر خوف سے رونے لگتا ہے. چھوٹی بہن کو بخار آجاتا ہے اور بچہ پھر اپنے خوف و غم کو بھول کر چھوٹی بہن کو تسلی دینے لگتا ہے۔
ترنم ریاض اس افسانے کے متعلق فرماتی ہیں:
”میں نے افسانہ شہر جس کرب سے گزر کر لکھا ہے وہ بیان سے باہر ہے کہ اسے خوشخط لکھنے کے خیال سے مجھ پر یاسیت طاری ہو جاتی تھی. افسانے کو دانستاً فراموش کرنے کی کوشش کرنی پڑتی تھی۔ یہاں شائع ہو جانے کے کچھ عرصہ بعد جب میں نے اس کی فوٹو کاپی پاکستان بھیجی اور وہاں سے کچھ سات ماہ بعد چھپ کر آنے پر مجھے اتفاق سے معلوم ہوا اس میں ایک جگہ کمپوزنگ کی غلطی تھی کہ وہ صفحہ اچانک سامنے آ گیا ورنہ سالم افسانہ پڑھنے کی جرأت میں اپنے آپ میں آج تک دوبارہ پیدا نہ کر سکی"۔ (افسانوی مجموعہ: ابابیلیں لوٹ آئیں گی۔ پیش لفظ۔ص۔١٠)
ترنم ریاض عورتوں کے کرب کو اپنے دل پر محسوس کرتی ہیں. ان کی نفسیات، سوچ، جذبات، خیالات پر کامل دسترس رکھتی ہیں. یہی وجہ ہے کہ اپنے افسانوں کے ذریعہ وہ بے بس، مجبور، پریشان حال عورتوں کو خود اعتمادی اور حوصلہ کا درس دیتی ہیں۔ افسانہ ”ناخدا" بھی ایم۔ اے پڑھی ایک ایسی ہی بے بس لڑکی کی کہانی ہے جو اپنی پسند سے شادی تو کر لیتی ہے لیکن بعد میں اسے علم ہوتا ہے کہ اس کا شوہر نہایت مغرور قسم کا انسان ہے جو بیوی کی کامیابی نہیں دیکھ سکتا ہے اور اسے گھر سنبھالنے والی گرہستن بنا کر رکھ دیتا ہے۔ دونوں کے درمیان یا تو خاموشی ہوتی ہے یا پھر جھگڑا۔ لڑکی دن بہ دن ذہنی طور پر بیمار ہو جاتی ہے۔ در اصل بیوی کی حد سے زیادہ پرواہ اور اس کی وفاداری ہی شوہر کو بے وفا اور مغرور بنا دیتی ہے اور جب لڑکی کو اس بات کا احساس ہوتا ہے تو اس کا اعتماد بحال ہونے لگتا ہے اور پھر دھیرے ھیرے وہ اپنے وجود کی اہمیت کو نہ صرف خود سمجھتی ہے بلکہ اپنے شوہر کو بھی سمجھا دیتی ہے۔
ترنم ریاض کے افسانوں کی عمارت کسی تصوراتی یا خیالی پلاٹ پر تعمیر نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کے اسلوب و الفاظ کو سمجھنے میں کوئی دماغی ورزش کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان کے افسانے ثقیل الفاظ سے پاک ہوتے ہیں اور اس کی فضا جانی پہچانی ہوتی ہے۔ ان کے افسانوں کی تعریف میں مظہر امام لکھتے ہیں کہ:
”ترنم ریاض کے افسانوں کی جو فضا ہے وہ بڑی مانوس سی فضا ہے جس سے ہم سب واقف ہیں۔ ان کے اظہار میں کوئی تصنع آمیز صناعی نہیں ہے۔ بہت ہی صفائی اور شستگی کے ساتھ وہ اپنے افسانوں کا تانا بانا بنتی ہیں۔ کہیں کہیں تو ان کے اسلوب میں خاص طرح کی مقِناطیسیت آ جاتی ہے جو اپنے ساتھ ساتھ پڑھنے والوں کو بہا لے جاتی ہے۔ ترنم ریاض اپنی سادگی، بے تکلفی اور بے ساختگی کی وجہ سے ہمیشہ متاثر کرتی ہیں." (افسانوی مجموعہ: یمبرزل۔ ص۔١٨١)
ایسی ہی ایک اور کہانی ”میرا پیا گھر آیا" بھی ہے جس میں شمع اور شہیر پسند کی شادی کے باوجود بھی خوش نہیں ہیں. شہیر نے سختی سے شمع کو جہیز لانے سے منع کیا تھا لیکن شادی کی پہلی رات ہی جہیز نہ لانے پر اسے طعنہ بھی دیتا ہے۔ اس سے مرد کی متضاد سوچ کا پتا چلتا ہے۔ شہیر نہایت عیاش، بد زبان، شرابی قسم کا مرد ہے جو سیدھے منہ بیوی سے بات بھی نہیں کرتا ہے اور شمع جس کا رشتہ آنسوؤں سے جڑ جاتا ہے وہ خدا کے حضور شکایتوں کے دفتر کھول کر بیٹھ جاتی ہے۔ صنف نازک اس وقت تک ہی نازک ہوتی ہے جب تک وہ آنسو بہاتی اور خود کو کم زور سمجھتی ہے لیکن جیسا کہتے ہیں نا کہ "اتنا دیا ہے درد کہ درماں بنا دیا" لہٰذا شمع بھی اپنے درد کا درماں خود ہی بن جاتی ہے. اس افسانے میں ایک الگ ہی روحانی کیفیت دکھائی گئی ہے. بیخود کا ایک شعر ہے کہ:
ان کی جفائیں باعثِ یاد خدا ہوئیں
لازم ہے لب پہ شکوۂ جورِ بتاں نہ ہو
دنیا کا ٹھکرایا ہوا انسان جب عشق مجازی سے عشق حقیقی کی جانب سفر کرتا ہے تو دنیا کی ساری تکالیف اس کے لیے بے معنی ہو جاتی ہیں اور شمع بھی جب اپنے غموں کے ساتھ خدا سے لو لگا لیتی ہے تو اسے اپنے شوہر سے پھر کوئی شکوہ باقی نہیں رہتا. وہ خود پر خاموشی کی دَبیز چادر چڑھا لیتی ہے۔ عورت کی خاموشی بڑے سے بڑے چٹان کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہے تو شہیر کیونکر بچ سکتا تھا. اس کی خاموشی شہیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے، اسے تڑپا دیتی ہے اور شہیر کی یہ حالت دیکھ کر شمع کو خدا کی ذات پر یقین اور بھی کامل ہو جاتا ہے کہ "بے شک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے"۔
حقانی القاسمی فرماتے ہیں کہ:
”ترنم ریاض ایک Sweet Temper افسانہ نگار ہیں. ان کی کہانیوں میں صوفیانہ لے اور سرمستی ہے۔ تصوف کا ایک طیف ہے جو ان کے تخیل پر محیط ہے۔ رابعہ عدویہ بصری کی طرح ان کی کہانیوں میں پاکیزگی، عطوفت، امومت اور ممتا ہے. وہ عورت اور مرد کے خانے میں تقسیم ہو کر کہانیاں نہیں لکھتیں بلکہ ان کی کہانیاں فردِ کائنات کی کہانی ہوتی ہے جس کے جذباتی ارتعاشات کو ہم ان کی کہانیوں میں محسوس کر سکتے ہیں." (افسانوی مجموعہ۔ یمبرزل۔ ص۔١٨٢)
ترنم ریاض کے افسانوں میں ایک اور اہم بات یہ بھی نظر آتی ہے کہ مردوں کے بے جا ظلم و ستم کے باوجود بھی عورت وفاداری، مشرقی تہذیب، شوہر کی خدمت اور اس کی اطاعت سے غافل نہیں ہوتی. لیکن وہ عورت کو خاموش رہنے کا بھی درس نہیں دیتی ہیں بلکہ احتجاج کرنا سکھاتی ہیں. زمانہ قدیم سے آج تک عورت کا استحصال ہوتا آ رہا ہے۔ مرد اسے اپنے پیروں تلے روندتا آرہا ہے، اس کی کامیابی کی راہ میں دیوار حائل کر دیتا ہے، اسے جسمانی اور روحانی اذیتیں دیتا ہے، لفظوں کے تیر چلاتا ہے اور قدم قدم پر اس کا فائدہ اٹھاتا آیا ہے۔ ترنم ریاض نے انہی باتوں کو بڑی بے باکی سے اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے. وہ بے خوف ہو کر لکھتی ہیں۔ انھوں نے جنسی استحصال پر بھی کئی کہانیاں لکھی ہیں۔ افسانہ باپ اور تعبیر وغیرہ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ باپ دنیا کا سب سے زیادہ قابل بھروسہ اور قابل احترام شخص ہوتا ہے. جب وہی محافظ کے بجائے لٹیرا بن جائے تو دنیا کے کسی بھی مرد پر اعتبار کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ترنم ریاض دنیا کو حقیقت کی عینک سے دیکھتی ہیں. یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایک ایسے باپ کا ذکر کیا ہے جو اپنی ہی بیٹیوں کو ہوس زدہ نظروں سے دیکھتا ہے اور اسے جنسی تسکین کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے باپ کی کمی نہیں ہے جو بیٹی کو بیٹی کے بجائے فقط ایک عورت سمجھتا ہے۔
ترنم ریاض اپنے بعض افسانوں کے متعلق لکھتی ہیں کہ:
”افسانہ مٹی نے ازحد رنجیدہ کیا تھا مجھے۔ اِس افسانے کو تحریر کرنے سے پہلے میں کچھ دیر کے لیے اُس ماحول میں رکی تھی، وہاں کی گھٹن، درد، کرب اور ہر شے پر محیط مایوسی میرے اندر جذب ہو گئی تھی تب مٹی کا ظہور ہوا۔ اس مجموعے کی دوسری کہانیاں جیسے "ایجاد کی ماں" اور”میرا پیا گھر آیا" لکھتے وقت میں نے روحانی سکھ بھی پایا تھا، آدھے چاند کا عکس لکھتے وقت میرا دل ممتا سے سرشار رہا اور باپ جیسی کہانیوں نے مجھے ذہنی تناؤ سے دوچار کیا. "
(افسانوی مجموعہ: ابابیلیں لوٹ آئیں گی۔ص۔١٠)
مذکورہ افسانوں کے علاوہ ترنم ریاض کے بیشتر ایسے افسانے ہیں جن پر دیر تک گفتگو کی جا سکتی ہے. یمبرزل، تنکے، بلبل، پانی کا رنگ، گندے نالے کے کنارے، مٹی، آدھے چاند کا عکس، اماں، آبلوں پر حنا، بی بی وغیرہ ان کے قابل ذکر افسانے ہیں۔ معاشرے میں پھیلی برائیاں، بے راہ روی، عورتوں اور بچوں کا استحصال، تہذیبی اقدار کی شکستگی، بزرگوں کے ساتھ زیادتی یہ سب ہم کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیںبلکہ ہم ہی ان کا حصہ ہیں لیکن ان برائیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت ہر کسی میں نہیں ہوتی۔ بعض تو اسے اپنی تقدیر کا لکھا سمجھ کر خاموش رہتے ہیںاور بعض لوگ یہ سوچ کر چشم پوشی کرتے ہیں کہ دوسروں کی آگ میں ہم کیوں کودیں مگر ترنم ریاض میں نہ حوصلے کی کمی ہے اور نہ جرأت کی وہ کھل کر احتجاج کرتی ہیں ، قلم سے بھر پور کام لیتی ہیں اور اپنے ذہن و دل میں آئے سوالات کو اپنے افسانوں میں جگہ دیتی ہیں جو عورتوں میں نئی تحریک اور بیداری پیدا کرتے ہیں۔
ترنم ریاض کے انداز بیاں، اسلوب، منظر نگاری ، جزئیات نگاری اور دیگر خصوصیات کی تعریف بیشتر ادبا نے کی ہے ۔ افتخار امام صدیقی رقمطراز ہیں کہ:
”ترنم ریاض! اپنے ہر افسانے کو کہانی بنا دیتی ہیں جو ہونٹوں ہونٹ سفر کرتی ہے ۔ کردار نگاری، منظر نامہ، مکالمہ نگاری سب کچھ تخلیقی بیانیہ میں اس طرح سمو دیتی ہیں کہ قاری، سامع، ناقدمتحیر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے” (افسانوی مجموعہ۔یمبرزل۔ ص۔ ١٨١)
طارق چھتاری کہتے ہیں کہ:
”کیا لکھنا ہے یہ تو سبھی جانتے ہیں ، ترنم ریاض یہ بھی جانتی ہیں کہ کیا نہیں لکھنا ہے، اور اگر لکھنا ضروری ہے تو کتنا لکھنا ہے، کب اور کہاں لکھنا ہے۔ بیان کی یہ خوبی ان کی تخلیقی مزاج کا حصہ معلوم ہوتی ہے شعوری طور پر کی گئی صناعی نہیں” (افسانوی مجموعہ۔یمبرزل کے فلیپ سے ماخوذ)
لہٰذا ان اقوال کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ترنم ریاض اس عہد کی کامیاب افسانہ نگار ہیں جو اپنی تخلیقات کی بنا پر ہمارے ذہن و دل میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
Farzana Parveen
Assistant Teacher
The Quraish Institute
5/1, Kimber Street
Kolkata- 700017
Mobile- 7003222679
email – fparveen150@gmail.com
فرزانہ پروین کی یہ نگارش بھی پڑھیں:احمد کمال حشمی کی تضمین نگاری : سنگ بنیاد کی روشنی میں

شیئر کیجیے

One thought on “ترنم ریاض کے افسانوں کی امتیازی خصوصیات

  1. خوبصورتی اور عرق ریزی سے لکھا گیا معلوماتی اور تجزیاتی مضمون ۔۔۔فرزانہ پروین نے افسانوں کے حوالے سے نہ صرف ترنم ریاض کے معاشرتی ادراک کا بلکہ ان کی ذہنی کیفیات کا بھی جائزہ لیا ہے ۔ان کی افسانوی خصوصیات پر جس قرینے سے فرزانہ صاحبہ نے سیر حاصل گفتگو کی ہے اس سےان کے عمیق مطالعے کا پتہ چلتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے