نظم رباعی

نظم رباعی

عشرت صغیر
شاہ جہاں پور
رابطہ: 9648906342

 اردو شاعری میں تجربات کا سلسلہ نیا نہیں۔ اس کی تاریخ اور پس منظر پر نگاہ رکھنے والے حضرات اس امر سے بہ خوبی واقف ہیں۔ آزاد نظموں میں تو یہ آزادی (بحور و ارکان کو چھوڑ کر) ہر طرح سے برتی گئی ہے۔ رباعی بذات خود ایک قسم کی نظم ہے مگر اس کی قید چار مصرعوں پر منتہی ہوتی ہے۔ رباعی کے اوزان میں غزلوں اور نظموں کا وجود بھی ملتا ہے. خود میں نے ایک سانیٹ نظم رباعی کے وزن میں کہی مگر جس نظم کو میں پیش کر رہا ہوں اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں ایک رباعی کے درمیان نظم کو پیوست کیا گیا ہے۔ اس کا پہلا مصرع اور آخر کے تین مصرعے مل کر ایک رباعی کو تشکیل دیتے ہیں، جن پر نمبر ڈالے گئے ہیں، جب کہ ان مصرعوں کے درمیان جتنے مصرعے ہیں سب رباعی کے اوزان پر شامل ہوئے ہیں جو آزاد نظم کی شرائط کے تابع ہیں۔ چونکہ اس تجربے کو میں نے دریافت کیا ہے، اس لیے اس تمہید کی ضرورت پڑی۔ آپ سب اس کا لطف لیں. آیندہ ان شاء اللہ اس طرح کی اور نظمیں آپ کے حضور میں پیش کی جائیں گی۔ سند رہے یہ تجربہ اس سے قبل اردو شعری ادب میں کہیں نہیں ملتا۔

نظم رباعی
حاصل کیا ہے؟
(١) وہ شخص جسے میں نے کہیں کھویا ہے
کیا اس کو یہ معلوم چلے گا آخر
رویا ہوں بہت اس سے بچھڑ کر لیکن
اس تک یہ خبر کون ہے جو پہنچا دے
کوئی بھی نہیں کیوں کہ کسی سے اب تک
اس راز کو بھولے سے بیاں ہی نہ کیا
در اصل یہ جو لوگ ہیں نشتر کی طرح
بس اپنے سوالوں کو چبھو کر اکثر
جب ترک تعلق کا سبب پوچھتے ہیں
تب درد قیامت سا گزر جاتا ہے
تکلیف تو ہوتی ہے چلو وہ بھی سہی
لیکن اب زندگی میں وہ شخص نہیں
جس کو میں سمجھتا تھا ہر اک غم کی دوا
وہ جس کو مرہم میں کہا کرتا تھا
تو کون کرے گا مندمل زخموں کو
اس درد کا اب کس سے مداوا ہوگا
بس پھر میں بہت بچ کے رہا کرتا ہوں
غم ہے تو کسی سے بھی نہیں کہتا ہوں
(٢) اس راز کو سینے میں چھپا رکھّا ہے
(٣) ہے کون وہ کیا نام ہے جانے دو سب
(٤) چھوڑو بھی اب اس بات سے حاصل کیا ہے؟
***
عشرت صغیر کی گذشتہ نگارش: تشنگان شعر و ادب کو سیراب کرتا "آبشار سخن"

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے