کس کے جلوؤں کا رقص جاری ہے

کس کے جلوؤں کا رقص جاری ہے

افضل الہ آبادی

کس کے جلوؤں کا رقص جاری ہے
آئینے پر بھی وجد طاری ہے

یہ جو بکھرے ہیں کائنات میں رنگ
کس مصور کی دستکاری ہے

کوئی تعمیر کر رہا ہے مری
مجھ میں اک ٹوٹ پھوٹ جاری ہے

دل کی دنیا میں اک زمانے سے
بے قراری ہی بے قراری ہے

کوزئہ تشنگی سے جو چھلکی
آج بھی وہ سبیل جاری ہے

چاند آنکھوں میں آکے ڈوب گیا
اب نجوم سحر کی باری ہے

ہم پہ طاری تھا وصل کا عالم
ہجر کی رات یوں گذاری ہے

اے عروس شب فراق نہ بھول
ہم نے قسمت تری سنواری ہے

میں نے روشن تو کردیا افضل
اب چراغوں کی ذمے دادی ہے
***
افضل الہ آبادی کی گذشتہ غزل :ایسے دل کا مقام کیا ہوگا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے