مولانا آزادؒ کی سحر طراز سخن سرائی

مولانا آزادؒ کی سحر طراز سخن سرائی

حیدرعلی صدّیقی
(سوات، پاکستان)
haidersiddiqui276@gmail.com

امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ کی جامع اور ہمہ جہت شخصیت سے کون واقف نہیں. جو بیک وقت بلند پایہ مفکر، عظیم دانشور، زبردست صحافی، محقق مصنف، بالغ النظر مفسر، عبقری سیاست دان، آفتاب علم و دانش، مجتہد بالغ نظر، کوہِ عزم و ثبات، سالارِ حریت، خطیب معجز بیان، ادیب سحر طراز، صاحب اسلوب انشا پرداز، شاعرِ سخن رس کے عملی تصویر تھے۔ متضاد حیثیتوں پر مبنی زندگی کے مالک مولانا آزاد نے جس میدان میں بھی قدم رکھا تو کامیابیوں اور کامرانیوں کو اپنا مقدر پایا۔ آزاد جی بہ ظاہر ایک جسم و جان تھے لیکن شورش کاشمیریؒ کے بہ قول ابوالکلام آزاد کئی دماغوں کا ایک انساں تھے۔ نثر نگاری اور انشا پردازی تو جیسے آپ کا خاصہ تھا، جس کے متعلق بڑے بڑے ادیب انگشت بدنداں تھے اور یہ اقرار کیے بنا نہ رہ سکے کہ مولانا آزاد نثر میں شاعری کرتے ہیں۔ آپ کی نثر کے متعلق بلند پایہ غزل گو شاعر جناب حسرت موہانی نے کہا تھا: ؎
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں بھی مزا نہ رہا
اللہ کریم کی طرف سے ہر انسان کو مختلف تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا جاتا ہے، لیکن انسان حالات، معاشرتی رجحان یا ستم ہائے روزگار کی وجہ سے خود کو ایک کام کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں اور باقی دیگر تخلیقی صلاحیتوں کا ان سے خاطر خواہ اظہار نہیں ہوتا۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھی ایسی ہی ایک شخصیت تھی، جو بہ ظاہر تو ایک حق گو صحافی، مفسر اور نثر نگار تھے۔ لیکن اس کے ساتھ وہ ایک سحر طراز قسم کے شاعر اور سخن ور بھی تھے۔ شعر و شاعری کا شوق انھیں بچپن سے تھا، اور کیوں نہ ہوتا کہ آپ کے والد گرامی مولانا خیرالدینؒ ایک پیر و مرشد ہونے کے ساتھ ایک بلند پایہ عربی شاعر اور مصنف بھی تھے۔ مولانا آزاد کے بڑے بھائی غلام یاسین ابونصر آہ جن کا جوانی میں انتقال ہوگیا تھا، وہ بھی ایک بے مثل شاعر تھے، اور داغ دہلوی سے شعرگوئی کی اصلاح لے چکے تھے۔ مولانا آزاد کی بہنیں بھی تعلیم یافتہ اور اعلا شعری اور ادبی ذوق کی حامل تھیں۔ مولانا آزاد کی ذوق سخن آرائی میں اس ماحول کا دخل تو تھا ہی، لیکن عملی طور پر آزادؔ کی شعر گوئی کے متحرک مولوی عبدالواحد خان سہسرامی تھے۔ مولانا آزاد ان سے بے تکلفی اور آزادی کے ساتھ شعر گوئی اور ادب کے موضوعات پر گفتگو کرتے تھے۔ مولانا آزاد کی طبیعت بچپن میں زوروں پر تھی لیکن کم عمری میں خود اعتمادی کے فقدان کی وجہ سے وہ اپنے اشعار کسی کو سنا نہ سکے، حتی کہ اپنے شعری ذوق کے متحرک مولوی عبدالواحد خاں کو بھی نہیں سنائے، اور اسی طرح آزاد جی کے سینکڑوں اشعار کا مجموعہ محفوظ نہ رہا۔ مولانا آزاد کی پہلی غزل کی سرگزشت سنہ 1898ء کی بات ہے، کہ ان دنوں بمبئی سے حکیم عبدالحمید فرخؔ نے ایک گلدستہ ”ارمغان فرخ“ نکالا تھا، اس میں دی گئی طرحوں پر شعرا غزلیں بناتے اور پھر ماہوار مشاعرہ ہوتا تھا۔ اس گلدستے کی ایک طرح ”پوچھی زمیں کی تو کہی آسمان کی“ پر مولوی عبدالواحد خاں نے غزل بنائی اور اس کے چند اشعار مولانا آزاد کو سنائے۔ پھر کیا تھا کہ یہ اشعار مولانا آزاد کے ذوق سخن سرائی کے لیے متحرک بنے۔ مولانا آزاد کی افتاد زوروں پر تھی، چنانچہ آپ نے اس طرح پر تیس اشعار نکالے، جن میں سے سترہ اشعار منتخب کرکے غزل بنائی۔ لیکن طبیعت مطمئن نہیں تھی اور کسی کو سنانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے، بار بار اصلاح اور کوشش کے بعد آزاد جی نے مولانا عبدالواحد خاں کو مطلع سنایا تو وہ چیخ اٹھے اور خوب تحسین و تعریف کی۔ مولانا آزاد نے اور اشعار سنائے اور وہ ہر ایک شعر پر خوب داد و تحسین سے نوازتے۔ اس کے بعد مولانا آزاد نے اگلے دن ہونے والے مشاعرے میں اس غزل کو سنانے کا ارادہ کیا، لیکن ابھی ان کی عمر بہ مشکل دس بارہ برس تھی، خود اعتمادی کا فقدان تھا، مجمع عام میں سنانے کا حوصلہ نہ تھا، اور پھر کچھ خاندانی روایات اور والد محترم کے خوف سے اس مشاعرے میں شرکت مناسب نہیں سمجھا۔ مولانا آزاد نے اس غزل کو مولوی عبدالواحد خاں کو دی کہ وہ مشاعرے میں سنائے، جب انھوں نے یہ غزل مشاعرے میں سنائی تو مجمع عام بھی داد و تحسین سے نوازے بنا نہ رہ سکا۔ مذکورہ غزل کے چند ابیات قارئین کے پیش خدمت ہیں: ؎
نشتر بہ دل ہے آہ کسی سخت جان کی
نکلی صدا تو فصد کھلے گی زبان کی
گنبد ہے گردباد تو ہے شامیانہ گرد
شرمندہ میری قبر نہیں سائبان کی
ہوں نرم دل کہ دوست کے مانند رو دیا
دشمن نے بھی جو اپنی مصیبت بیان کی
آزادؔ بے خودی کے نشیب و فراز دیکھ
پوچھی زمین کی، تو کہی آسمان کی
جب مولانا عبدالواحد خاں کے ذریعے مولانا آزاد کو مجمع عام کی طرف سے داد و تحسین کا پتا چلا تو آزاد جی خوشی سے شادماں اور مخمور ہوگئے۔ ایک ماہ بعد یہ غزل ”ارمغان فرخ“ میں بھی شائع ہوئی، اور اسی طرح یہ آزاد جی کی پہلی باقاعدہ غزل ہونے کے ساتھ پہلی مطبوعہ غزل بھی قرار پائی۔ زندگی میں پہلی بار اپنا کلام اور نام کسی رسالے میں چھپا ہوا دیکھ کر مولانا آزاد کو جو خوشی محسوس ہوئی اس کے متعلق وہ خود چھتیس (36) برس بعد مولانا غلام رسول مہر کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں کہ وہ خوشی میں آج بھی اسی طرح محسوس کر رہا ہوں۔
مولانا آزاد علمی اور تحقیقی، قلم آرائی اور سخن وری، ہر ایک میدان میں امتیازی حیثیت رکھتے تھے، جس طرح وہ نثر نگاری میں ممتاز تھے اسی طرح وہ شعر گوئی اور سخن سرائی میں بھی ممتاز تھے۔ آپ کی یہ رباعی تو قارئین سے بارہا داد وصول کرچکی ہے ؎
تھا جوش و خروش اتفاقی ساقی
اب زندہ دلی کہاں ہے باقی ساقی
مے خانے نے رنگ روپ بدلا ایسا
میکش میکش رہا، نہ ساقی ساقی
عام طور پر شعرا حمد یا نعت بہت کم ہی کہتے ہیں، زیادہ تر ان کی شاعری محبت، وصال، فراق، احساسات، ارمانوں اور تمناؤں سے عنوان ہوتی ہے، اور اسی طرح وہ حمد یا نعت کو اپنی شاعری کے لیے بہ طور تمہید کہتے ہیں، خصوصا جب اپنا شعری مجموعہ شائع کرتے ہیں۔ لیکن مولانا آزادؒ اس حوالے سے بھی ممتاز حیثیت کے حامل ہیں، جو شعرا دنیا جہاں کی باتیں اپنی شاعری میں سمو دیتے ہیں، لیکن نعت گوئی کے لیے ان کے پاس الفاظ نہ ہوں تو ایسے شاعروں پر آزاد جی طنز کرتے ہوئے فرماتے ہیں:؎
شمہ ثنائے شاہ رسلﷺ کا نہ لکھ سکے
بیکار شاعروں کی سخن گستری ہوئی
مولانا آزاد اپنی نعتیہ شاعری کو اپنے لیے ذخیرۂ آخرت، وجہ شہرت اور قیامت میں آرزوئے شفاعت مانتے ہیں۔ آزاد جیؒ کے نزدیک جب وہ کائنات کی عظیم ہستی اور افصح العرب کا ثنا خواں ہے تو اس کی سخن وری اور قلم آرائی میں فصاحت و بلاغت کیونکر نہ ہو؟ فرماتے ہیں: ؎
میں افصح العرب کا ثنا خواں ہوں دوستو
کیونکر نہ ہو سخن میں فصاحت بھری ہوئی
یوں تو مولانا آزاد نے نثر نگاری سے پہلے شعر گوئی شروع کی تھی، اور اس دور میں مشاعروں کے علاوہ اس دور کے ”مخزن“ جیسے مؤقر رسائل میں آپ کا کلام شائع ہوتا تھا۔ لیکن بعد میں آپ نے شاعری کو یکسر چھوڑ کر خود کو نثر نگاری کے دائرے میں داخل کردیا تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترک سخن وری میں مولانا آزاد کے شعوری عمل کا دخل تھا۔ مولانا آزادؒ نے انتہائی کم سنی میں 1898 کے قریب شاعری کا آغاز کیا تھا، جب کہ ابھی ان کی عمر کے بچے کھیل کھود سے فارغ نہیں ہوئے تھے۔ سنہ 1902 کا دور آپ کی شاعری کا دورِ عروج ہے۔ اس کے بعد مولانا آزادؒ تراجم، مضمون نویسی اور علمی و ادبی تالیفات کو شعر گوئی پر ترجیح دیتے تھے، یعنی اب مولانا کا رجحان شعر نگاری کے بجائے نثر نگاری کی جانب ہوگیا۔ اور بالآخر انھوں نے 1904 میں شعر گوئی ترک کردی، اور اس کا محرک یہ تھا کہ مولانا آزاد شاعری سے بڑے علمی و مذہبی کاموں کے لیے وقت نکال سکیں۔ اور ایک طرح ان کی ترک شعر گوئی اچھی ثابت ہوئی، کیونکہ اگر آپ شعرگوئی میں منہمک رہتے تو آج ہم ان کی اس نثر سے محروم ہوجاتے جس نثر سے فصاحت و بلاغت کے چشمے نکلتے ہیں، جس میں علم و تحقیق، ادب و دانش کا دریا جاری ہے۔
مولانا آزادؒ کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے کلام میں تخیل آفرینی، صفائی زبان، معاملہ بندی، زور بیان، قادر الکلامی، فصاحت و بلاغت، خلوص، صداقت، علمیت اور روانی جیسے خصوصیات پائے جاتے ہیں۔ محبان آزاد کے نام ایک رباعی پیش خدمت ہے: ؎
آفتِ جاں ہے قصّۂ جوانی میرا
ظاہر ہے حالِ نوحہ خوانی میرا
اک جان بچاؤں میں کس طرح آزادؔ
دل کا دشمن ہے یارِ جانی میرا
مولانا آزادؒ کی شعر گوئی صرف اردو زبان تک محدود نہیں، آپ نے فارسی زبان میں بھی خوب سخن آرائی کی ہے۔ ایک رباعی قارئین کے ذوق کے لیے پیش خدمت ہے: ؎
ساقی تو نگاہ کن بریں ابر و بہار
یک ساغرے دیدہ و بیں لطف خمار
وقتیست کہ ماہ روئے با ناز و ادا
یک زیر نظر باشد و یک زیر کنار
مولانا آزادؒ کی نثرنگاری انتہائی مشکل ہے، جو بہت سعی طلب ہے، جس میں علم و دانش، شعور و ادراک کے علاوہ الفاظ کا ایک خزانہ موجود ہے، تاہم انھوں نے شعر گوئی میں سہل اندازی اور سلاست سے کام لیا ہے اور بہت ہی آسان لفظوں میں اپنے مطلب کو بیان کیا ہے، جس سے روانی ابھر کر ظاہر ہورہی ہے، جس کی بدولت ان کے کلام میں رنگینی اور دل کشی پیدا ہوتی ہے اور قاری پر وجد طاری ہوجاتا ہے۔ مولانا آزادؒ کی شاعری سے اس وجہ سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ یہ صرف پندرہ برس سے کم عمر ایک بچے کا کلام ہے، کیونکہ مولانا آزاد کا کلام کسی بھی طور اردو کے متوسط درجے کے شعرا کے کلام سے کم نہیں ہے۔ جس سخن ور کے کلام کو دیکھ کر غزل خواہوں کے امام حسرت موہانی بھی اپنی نظم کو ” بے مزہ“ کہنے لگے تو اس بچے کے کلام کو ناپختہ کہنا سراسر ناانصافی اور دیوالیہ پن ہے۔ مولانا آزاد کی شاعری اس دور کی مقبول عام شاعری تھی اور ”مخزن“ جیسے معیاری ادبی پرچے میں تواتر کے ساتھ ان کے کلام کا شائع ہونا ان کی عظمت کا بین ثبوت ہے۔ اور پھر امیرمینائی، شوق جیسے بڑے اور بلندپایہ شعرا بھی آپ کی شاعری کو قابل اعتناء سمجھتے تھے، اور ان کے کلام کی اصلاح کرتے تھے اور مولانا آزاد نے ان سے خود بھی اصلاح لی تھی اور بارہا امتحان لینے کے باوجود یہ تینوں مولانا آزاد کی سخن وری سے استعجاب میں تھے۔ اگر چہ ان دنوں داؔغ کی شہرت کا ڈنکا بج رہا تھا لیکن مولانا آزاد کے نزدیک استادی کے لیے معیار، شہرت اور ہر دل عزیزی نہیں تھا، اس معیار پر داؔغ تو پورے نہ اترے لیکن یہ فضیلت کی دستار اور جبۂ معلمی شوؔق کے قامت زیبا پر موزوں ہوا.
مولانا آزاد کی سخن وری علم و ادب کے شہ پاروں سے بھری ہوئی ہے، جو علم و ادب کے شائقین، اور تشنگان سخن آرائی کے لیے دعوت عام دے رہی ہے۔ جن لوگوں کو سخن وری کا شوق ہے تو ان کو مولانا آزاد کی علم و ادب سے بھر پور سخن سرائی کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے، اور کیونکر چاہیے کہ آزاد جی خود صلائے عام دے رہے ہیں: ؎
اے گلشن سخن کے ہوا خواہ شائقو
آؤ آؤ بہارِ بے خزان کے مزے لوٹو
***
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش :رموزِ اوقاف اُردو

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے