’بازگشت‘: ایک تنقیدی جائزہ

’بازگشت‘: ایک تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر مجاہد الاسلام
اسسٹنٹ پروفیسر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی
لکھنؤ کیمپس، لکھنؤ، ہند
ہارون شامیؔ کم و بیش چالیس سال سے غزل کے گیسو سنوارنے میں اپنا خون جگر صرف کر رہے ہیں۔ فی الوقت میرے سامنے ان کی غزلوں کا تیسرا مجموعہ ’باز گشت‘ ہے۔ مجموعے پر پروفیسر محمود الٰہی، پروفیسر ملک زادہ منظور احمد، پروفیسر عباس رضا نیر، ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی، ڈاکٹر عمیر منظر، ڈاکٹر ہارون رشید اور ڈاکٹر رضوان الرضا رضوان جیسے ناقدین فن نے مہر تصدیق ثبت کیا ہے۔
عام طور سے اردو شعرا کی روایت رہی ہے کہ وہ اپنے مجموعۂ کلام کی شروعات حمد و ونعت و منقبت وغیرہ سے کیا کرتے ہیں اور یہ روایت اتنی مستحکم ہے کہ اسی لکھنؤ میں جب ١٨٤١ میں پنڈت دیا شنکر نسیم نے اپنی مثنوی’گلزار نسیم‘ تصنیف کی تو اس کی شروعات بھی حمد باری تعالیٰ سے ہی کی:
ہر شاخ میں ہے شگوفہ کاری
ثمرہ ہے قلم کا حمدِ باری
مجموعے میں حمد و نعت و سلام کے بعد تقریباََ چوراسی غزلیں شامل ہیں۔ جب کبھی غزل کا ذکر آتا ہے تو عام طور سے یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں عشق و عاشقی کی ہی باتیں ہوں گی۔ غزل کی تاریخ کی ابتدائی دو تین صدیوں تک یہ مبنی بر حقیقت بھی تھی۔ غزل کے اس یک رخے پن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا محمد حسین آزاد نے لکھا تھا کہ یہ سب مرتبان میں رکھی ہوئی ٹافیوں کی طرح یک مزہ ہیں، البتہ ان کی پنّیاں ضرور بدلی ہوئی ہیں۔ اُس وقت مولانا الطاف حسین حالی نے بھی آزاد کی ہاں میں ہاں ملائی تھی اور اپنے مقدمے میں غزل کے موضوع اور اس کی لفظیات پر سخت تنقید کی۔ حالانکہ اس عہد تک غالب  جیسا عظیم المرتبت شاعر غزل کے موضوعات کو وسعت بخش چکا تھا اور آگے چل کر ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعرا نے تحریک کے منشور کے خلاف جا کر غزل کے موضوعات و لفظیات کو وسعت دیتے ہوئے اسے کائنات کے سارے موضوعات سے ملا دیا اور اب ہارون شامی کے مجموعۂ غزلیات ’باز گشت‘ کے قاری کے سامنے مذکورہ الزام بالکل باطل ہو کر رہ جاتا ہے۔
شعر و ادب کی تنقید سے سروکار رکھنے والے اشخاص جانتے ہیں کہ کسی بھی ادبی تخلیق کو دو سطحوں پر جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ پہلی سطح مواد یا مٹریل کی ہے اور دوسری سطح اسٹائل یا اسلوب کی ہے۔ اس کو مختصر لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کیا اور کیسے؟ یعنی شاعر نے کیا کہا اور کیسے کہا ہے؟
جب قاری ’بازگشت‘ کی غزلوں کو مواد و مٹریل کی سطح پر پرکھتا ہے تو پہلی قرأت کے بعد ہی اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ شاعر نے حیات سے لے کر ممات تک کے جو بھی معاملات و مشاغل ہیں ان سب پر طبع آزمائی کی ہے بلکہ کچھ اشعار میں تو بعد الممات کے معاملات کو بھی سامنے لایا گیا ہے۔ گرچہ ان میں سے ہر ایک کے ذکر کا یہاں موقع نہیں پھر بھی ان میں سے چند کا ذکر نہ کرنا بڑی ناانصافی ہوگی۔ ان میں سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ انسانی فطرت میں اللہ میاں نے جو چیز وافر مقدار میں ودیعت کی ہے وہ ہے محبت و درد کا جذبہ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم عالمی ادبیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کا بیشتر حصہ اسی ذیل کا پاتے ہیں۔ شامیؔ کے یہاں اس طرح کے جو اشعار ہمیں نظر آتے ہیں ان میں ایک طرح کی پاکیزگی کا احساس ہوتا ہے۔ پھوہڑ پن اور لچر پن کا اس میں شائبہ نظر نہیں آتا۔ مثالوں سے یہ باتیں اور بھی واضح ہو جائیں گی۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
کچھ ترے حسن کی تاثیر ہے دل میں پنہاں
کچھ ترارنگ بھی شامل مرے جذبات میں ہے (ص: 193)
وہی چہرہ جسے دیکھا نہ سنا ہے پہلے
وہی چہرہ مرے احساس و خیالات میں ہے
کیوں حسیں لگتی ہے دنیا کی ہر ایک شے مجھ کو
کیا ترا حسن نہاں میرے خیالات میں ہے
اسے ہماری محبت کا پاس ہو کہ نہ ہو
ہمیں تو ہر گھڑی رہتا ہے بس اسی کا خیال (ص: 29)
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شاعر و ادیب سوسائٹی کے عام لوگوں کے معاملے میں بہت ہی زیادہ حساس ہوتا ہے، دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ادب میں کوئی بھی بات دو دو چار کی طرح نہیں کہی جاتی۔ فارسی کا مشہور شعر ہے:
برہنہ حرف نگفتن کمال گویائیست
حدیث خلوتیاں جُز بہ رمز و ایمائیست
(بیان کا کمال یہ ہے کہ فاش انداز میں بات نہ کہی جائے۔اہل خلوت صرف رمز و اشارے سے اپنا مطلب بیان کر جاتے ہیں)۔
یہ دیکھنا دل چسپ ہوگا کہ ان مواقع کے اظہارات کو ہارون شامی نے اپنی شاعری میں کس انداز سے جگہ دی ہے۔ یہاں تین مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
مگر جو بات تھی کہنے کی وہ کہی نہیں گئی
میں ان کے دل میں رہا ان کے درمیاں بھی گیا (ص: 111)
کچھ تری یاد میں کچھ تیری شناسائی میں
زندگی گزری ہے خوابوں کی پذیرائی میں (ص: 118)
جتنی کوشش کی پاس آنے کی
بڑھ گئیں دل کی دوریاں کچھ اور (ص: 105)
ان اشعار میں شامیؔ نے جس خوب صورتی سے خلوت اور آرزوئے وصال کے موضوعات کو باندھا ہے، اس سے ان کی خوش سلیقگی کا اظہار ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جو چیزیں ہمیں بہ کثرت میسر آتی ہیں اس کی قدر ہم بہت جلد کھو دیتے ہیں۔ اس کی اہمیت کا ہمیں بہ خوبی احساس رہے، اس کے لیے ہمیں بیچ بیچ میں قدرت کی طرف سے ہجر و فراق کا جھٹکا بھی لگتا رہتا ہے۔ جیسا کہ اصغر گونڈوی نے کہا ہے ؎
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہوجائے
ہارون شامی کے اس مجموعے میں اس قبیل کے اشعار بھی ہمیں دیکھنے کو مل جا تے ہیں:
اس سے بچھڑ کے مدتوں میں سوچتا رہا
شاید مری طرح وہ مجھے چاہتا نہ ہو (ص: 180)
آنکھوں میں رنگ، دل میں کسک بے زبان سب
شامیؔ وداع یار کا منظر نظر میں ہے (ص: 29)
کبھی کبھی تجھے دیکھا ہے میں نے خوابوں میں
کبھی کبھی تری آنکھوں میں خواب دیکھتا ہوں (ص: 85)
ہزار بار وہ مجھ سے ملا خیالوں میں
الجھ گئی ہے میری زندگی سوالوں میں
ہجر کے مناظر کا یہ بیانیہ ہمیں شامی کی قوت مشاہدہ اور ان کی بصیرت پر ایمان لانے کو مجبور کرتا ہے۔ انسانی زندگی میں کیریکٹر و کردار کی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے۔ چاہے فائدہ ہورہا ہو یا نقصان کا اندیشہ، اس کو ہمیشہ ایک حالت پر قائم رہنا چاہیے۔ تھالی کے بیگن کی طرح کبھی ادھر تو کبھی ادھر نہیں پسر جانا چاہیے۔
انگریزی کی بھی ایک مشہورکہاوت ہے:
Character is lost then every thing is lost
معروف پاکستانی شاعر ظفر اقبال نے تو یہاں تک کہہ دیا:
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر ؔ
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے
اس انسانی خصلت کی تہہ داریوں کو ہارون شامی نے مختلف انداز میں شعری پیکر عطا کیا ہے اور قاری کو دعوت فکر دیا ہے۔ ان میں سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
منزل بھی تیرے قدموں کو چومے گی ایک دن
بس ایک بار وقت کے سانچے میں ڈھل کے دیکھ (ص: 141)
جو نہ بدلے تو بدل دے گی یہ دنیا تم کو
وقت کے ساتھ بدل جانے کی تدبیر تو ہے (ص: 164)
مدتوں بعد یہ ہوا معلوم
فائدہ حکم کی تعمیل میں ہے (ص: 165)
وقت کے ساتھ ساتھ چلتا ہوں
اپنے ماضی کا حال ہوں کوئی (ص: 154)
ان اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شامی نے ایک ہی موضوع کو کس قدر خوب صورتی کے ساتھ الگ الگ انداز میں باندھا ہے۔ تجربہ کہتا ہے کہ آدمی کو کسی بھی معالے میں ہرکسی پر اعتماد و بھروسا نہیں کرلینا چاہیے بلکہ اپنے دل و دماغ کی آنکھیں بھی کھلی رکھنی چاہئیں۔ عبداللہ بن مقفع کی مشہور کتاب ’کلیلہ و دمنہ‘ میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ ’لاشئی اخفُ و اسرعُ تقلبا من القلب‘ (یعنی پلٹنے کے لحاظ سے کوئی بھی چیز دل سے زیادہ ہلکی اور تیز نہیں ہے)۔ اسی واقعے میں آگے یہاں تک کہہ دیا گیا کہ موقع بہ موقع والدین، بھائی برادر اور دوست و احباب کے دل کو ٹٹولتے رہنا چاہیے کہ کسی خاص وقت میں ان سب کے دل میں اِن کے لیے کیا ہے۔ ان سب کے باوجود دیکھا گیا ہے کہ آدمی ہر ایرے غیرے پر بھروسا کرلیتا ہے۔ نتیجتا دھوکا کھاتا ہے۔ ان ہی صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے ’باز گشت‘ کے شاعر نے دیکھیے کس انداز سے اپنے خیالات کو پرویا ہے:
اب کس امید پر غیروں پر بھروسہ رکھوں
میرا سایہ بھی مجھے چھوڑ گیا ہے شاید (ص: 135)
چہروں پہ کتنے چہرے لگائے ہوئے ہیں لوگ
یہ شہر دیکھنا ہے تو چہرہ بدل کے دیکھ (ص: 140)
مجھ کو ڈر لگتا ہے اپنوں کی ریا کاری سے
اور انہیں خوبی کردار سے ڈر لگتا ہے (ص:143)
جہاں بھی جاؤ وہی خواب ڈسنے لگتا ہے
کہ اپنے سایے سے ڈر ڈر کے بھاگتا ہے کوئی
مولانا الطاف حسین حالی کی غزل کا مشہور شعر ہے:
آ رہی ہے چاہِ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
دور جدید کا بھی ایک شاعر کہتا ہے:
ان سے ملیے تو خوشی ہوتی ہے ان سے مل کر
شہر کے دوسرے لوگوں سے جو کم جھوٹے ہیں
اس نوع کے گلہائے شعر سے ہارون شامیؔ کے بازگشت کا دامن بھرا ہوا ہے، چند مثالیں ملاحظہ کیجئے:
ہر ایک شخص کے چہرے پہ ہے نقاب یہاں
ہر ایک شخص عجوبہ دکھائی دیتا ہے (ص: 211)
ایسا نہ ہو کہ تم کو عدو کی خبر نہ ہو
آتے ہیں کس طرف سے یہ پتھر بھی دیکھ لو
تری دنیا نے شامیؔ اس قدر دھوکے دیے ہیں
کہ انسانوں سے کیا سایوں سے ڈر ہونے لگا ہے (ص: 169)
دور حاضر کی سیاست پر بھی ہارون شامیؔ کے یہاں بہت کچھ ہے۔ غالباََ شاد عارفیؔ کا شعر ہے:
ہمارے یہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
ہم یہاں ہارون شامی کے بھی کچھ اشعار سے محظوظ ہو سکتے ہیں:
سنتے ہیں ظالموں کی حکومت ہے ان دنوں
یارب! پھر اس زمیں پہ کوئی کربلا نہ ہو  (ص: 181) جب حکمرانِ وقت ہو مائل بہ انتقام
پھر کیوں کسی کو جرم میں شامل کہا گیا (ص: 185)
اب کسی کے سامنے یہ سر نہ جھکنا چاہیے
جھگ گیا یہ سر تو پھر یوں ہی جھکا رہ جائے گا (ص: 220)
مواد و میٹریل کے بعد ہم آتے ہیں شامی کی ان غزلوں کے اسٹائل و اسلوب کی طرف جس کو ہم انداز بیان بھی کہہ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انداز بیاں ہی وہ شے ہے جو کہ ایک قادرالکلام شاعر کو موزوں طبع اشخاص سے اور ایک ادیب کو صحافی سے ممیز و ممتاز کرتی ہے۔ ابن خلدون کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے تنقید نگاروں میں علامہ شبلی نعمانی نے سب سے زیادہ اس پر توجہ دی ہے اور موازنۂ انیس و دبیر لکھ کر انداز بیان کی اہمیت کو استناد بخشا ہے۔ ہارون شامی کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اکثر اشعار اپنی دل کشی و دل آویزی، معنی و کوائف میں ایک دوسرے سے جدا اور ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ ان کو پڑھنے سے طبیعت پر وجد و انبساط کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ قاری کا آگے بڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ’دل ہر جا کشد کہ می گزرد‘ کا احساس ہوتا ہے۔
بہت غرور تھا جس پر وہ مہرباں بھی گیا
زمیں تو تھی ہی نہیں، سر سے آسماں بھی گیا
پہلے تنہائی کے احساس سے ڈر لگتا تھا
اب مجھے مجمع انصار سے ڈر لگتا ہے
مانا خیال و فکر میں جدت ہے لازمی
لیکن اب اپنا طرزِبیاں بھی بدل کے دیکھ
طوالت کی وجہ سے بقیہ مثالوں سے میں عمدا گریز کر رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ شامی کے اس مجموعے کی صدائے بازگشت دیر تک سنی جاتی رہے گی۔ شکریہ
Dr. Mujahid Ul Islam
Asisstant Professor, MANUU Lucknow Campus, 504/ 122, Tagore Marg, Near Shabab Market, Daliganj, Lucknow -226020
Mob. 9628845713
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :‘بالا سور‘ یاترا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے