ظریفانہ صحافت اور پنچ اخبارات

ظریفانہ صحافت اور پنچ اخبارات

ڈاکٹر محمد ذاکر حسین ندوی
خدا بخش لائبریری، پٹنہ
Email: zakirkbl@gmail.com
Mobile: 09199702756

١٨٢٢ء میں جب اردو صحافت کا آغاز ہوا تو اُس کی بنیاد سنجیدہ صحافت پر رکھی گئی۔ اِس طرز صحافت کو ۵۵/ برس گزرجانے کے بعد سماج اور معاشرہ کی ناہمواریوں اور خاص طور پر مغربی تہذیب و تمدن کی یلغار اور انگریزوں کے ظالمانہ رویوں اور جابرانہ سنسرشپ نے اُس وقت کے صحافیوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ موجودہ طرزصحافت درپیش خطرات و خدشات کا تنہا مقابلہ نہیں کرسکتی، اِس کے لیے ایک ایسا راستہ اختیار کرنا ہوگا جس کے توسط سے سنسرشپ سے بچا جائے اور جو بات کہنی ہے اور جو پیغام لوگوں تک پہنچانا ہے، اُس میں کوئی رکاوٹ بھی نہ آئے۔ یہی وہ غرض و غایت تھی جس نے ’اودھ پنچ‘ کی راہ ہموار کی۔ یہ تجربہ بہت کامیاب رہا۔ سنجیدہ اخبارات کی بہ نسبت اِس اخبار کا سرکولیشن بہت زیادہ تھا۔ ’اودھ پنچ‘ کی مقبولیت اور اُس کی شہرت سر چڑھ کر بولنے لگی۔ پھر کیا تھا مختلف علاقوں سے پنچ نام سے اخبار نکلنے لگے، جس کی تعداد ستّر (٧٠) بتائی جاتی ہے۔ ’اودھ پنچ‘ کے بعد پنچ نام سے جو اخبار نکلے، اُن میں پٹنہ، بہار سے نکلنے والے ’الپنچ‘ کی خاصی مقبولیت رہی۔ زیر نظر تحقیقی مقالہ میں پنچ نام سے نکلنے والے اخبارات: بہار پنچ، پٹنہ، سرپنچ، لکھنؤ، انڈین پنچ، لکھنؤ، دہلی پنچ، لاہور، الپنچ، بانکی پور، لاہور پنچ، دہلی پنچ، دہلی، گیا پنچ، گیا، سرپنچ، لکھنؤ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اِن پنچ اخبارات میں شائع تحریروں کی روشنی میں اُن کی قدر و قیمت اور اُن کی افادیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اِن پنچ اخبارات میں کوئی بھی ’اودھ پنچ‘ کے معیار کو قائم نہیں رکھ سکا۔ البتہ ’الپنچ‘ بانکی پور نے بہت حد تک کوشش کی اور کچھ حد تک کامیاب بھی نظر آتا ہے۔ کیونکہ ’اودھ پنچ‘ کے بعد پنچ اخبارات میں ’الپنچ‘ ہی شہرت حاصل کر سکا۔ اِن پنچ اخبارات نے اردو صحافت کو ایک انوکھے انداز بیان سے روشناس کرایا۔
جب سماج اور معاشرہ ذہنی طور پر مختلف گروہوں میں بٹ جاتا ہے تو وہیں سے کش مکش اور تصادم کی فضا ہموار ہونے لگتی ہے، جس کی وجہ سے عدم توازن کا ماحول پنپنے لگتا ہے۔ آگے چل کر یہی عدم توازن ناپسندیدگی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے، اور تب اسی ناپسندیدگی کی کوکھ سے طنز و ظرافت کا جنم ہوتا ہے۔ اِس پس منظر میں ١٨٥٧ء کے بعد کے ہندستانی سماج و معاشرہ کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہی فضا یہاں اپنا پاؤں پسارنے لگی ہے اور انگریزوں کے تسلط کے بعد مغربی تہذیب و تمدن کی نسبت سے ہندستانی معاشرہ دو طبقوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک طبقہ مغربی تہذیب کی کورانہ تقلید میں اس حد تک ڈوب گیا اور اس کی چمک دمک سے ایسا مسحور ہو گیا ہے کہ اپنی تہذیب کے تعلق سے وہ شدید احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے۔ دنیا جہان کی تمام خوبیاں اور ترقیاں اُسے اِسی جدید تہذیب کے اپنانے میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ طبقہ تعداد میں چھوٹا ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات وسیع پیمانے پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس دوسرا طبقہ اپنی تہذیب کو جان سے عزیز تر مانتا ہے اور نئی تہذیب کی مسلسل یلغار سے دفاعی پوزیشن میں آجاتا ہے۔ تب اپنی تہذیب کے دفاع میں طنز و مزاح کا سہارا لے کر نئی تہذیب کی دھجیاں اڑانا شروع کردیتا ہے۔ یہی وہ حالات تھے جس کے سبب ظریفانہ صحافت عالم وجود میں آئی اور اِس آن بان شان کے ساتھ آئی کہ اُس کے آگے کسی کا چراغ جل نہ سکا۔
اردو کے پہلے ظریفانہ اخبار کے تعلق سے محققین کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن ڈاکٹر طاہر مسعود نے شواہد کی روشنی میں ثابت کردیا ہے کہ ’اودھ پنچ‘ ہی اردو کا پہلا ظریف اخبار ہے، جو ١٦/جنوری ١٨٧٧ء کو منظر عام پر آیا۔ ’پنچ‘ نام کے تعلق سے سید حسن نے اپنی کتاب ’سلک مضامین‘ میں لکھا ہے کہ: ’پنچ انگریزی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی بُونا مسخرا کے ہیں۔ اُس زمانے میں لندن سے ایک ہفتہ وار ظریف اخبار اسی نام سے شائع ہوتا تھا‘۔ ڈاکٹر طاہر مسعود بھی اس سے متفق نظر آتے ہیں۔ چنانچہ اپنی کتاب ’اردو صحافت: انیسویں صدی میں‘ اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’اودھ پنچ جو اردو کا پہلا مزاحیہ اخبار تھا، ’پنچ‘ لندن سے متاثر ہوکر جاری کیا گیا تھا‘۔ لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ جس زمانے میں ’پنچ‘ نام سے اخبار نکلنے لگے، اُس وقت ہندستانی معاشرہ میں ’پنچ‘ عمومیت کا درجہ حاصل کر چکا تھا۔ اسی سے پنچایت، سر پنچ، پنچ نامہ جیسے اصطلاحات رائج ہو چکے تھے۔ اِس لیے اس نام کو انگریزی کی بجائے ہندستانی لفظ تسلیم کیا جائے تو برمحل اور زیادہ مناسب ہوگا۔ اس کی تصدیق خیر رحمانی دربھنگوی، جنھوں نے ١٦/ برس نامہ نگار، نائب ایڈیٹر اور ایڈیٹر کی حیثیت سے ’الپنچ‘ کی خدمت کی تھی، کے ’الپنچ‘ میں شائع اس جملے سے ہوتی ہے: ’پنچوں کے سرپنچ مہا پنچ مولانا الپنچ دامت پنچایتکم!‘۔ اِس جملے میں پنچ، سرپنچ، مہاپنچ اور پنچایت اُسی معنی میں استعمال ہوا ہے جو عام طور پر ہندستانی معاشرہ میں رائج ہے۔
’اودھ پنچ‘ ٣٦/ برسوں تک منشی سجاد حسین کی ادارت میں نکلتا رہا اور اُن کی علالت کی وجہ سے ١٩١٢ء میں بند ہو گیا تھا۔ اُس زمانے میں ’اودھ پنچ‘ تیرہ ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا تھا۔ جب کہ عام اخبارات کی اشاعت دو تین سو سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ تین ساڑھے تین برس کے وقفہ کے بعد حکیم محمد ممتاز علی عثمانی نے جسٹس کرامت حسین کے مشورہ سے ٢٦/اکتوبر ١٩١٦ء کو اِسے دوبارہ جاری کیا۔ ١٩٣٣ء میں اس کی اشاعت گھٹ کر ٦٥٠/ رہ گئی تھی۔ حکیم محمد ممتاز علی عثمانی کے انتقال کے بعد اُن کے لڑکے ظہیر حیدر نے اُسے زندہ رکھنے کی کوشش کی لیکن ١٩٣٤ء میں آخرکار اس کا سورج غروب ہوگیا۔ ’اردو جرائد خدا بخش لائبریری میں‘ کے مطابق ٢٩/مئی ١٨٧٧ء تا ١٢/ اگست ١٩٢١ء کے شمارے اس لائبریری میں موجود ہیں۔
’اودھ پنچ‘ ابتدا میں آٹھ صفحات پر مشتمل ہوتا تھا لیکن جیسے جیسے اس کی شہرت اور مقبولیت بڑھتی گئی اس کے صفحات میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور اس کے صفحات کی تعداد ١٢/ تک پہنچ گئی۔ یہ اخبار دو تہذیبوں کی کش مکش اور تصادم کے نتیجہ میں منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوا تھا۔ منشی سجاد حسین (١٨٥٦ء۔۲۲/جنوری ١٩١٥ء) اِس کے مالک اور مدیر تھے۔ وہ انگریزی حکومت اور مغربی تہذیب و تمدن کے شدید مخالف تھے۔ اِسی وجہ سے وہ سرسید اور ان کی تحریک کے بھی سخت ناقد تھے۔ مغربی تہذیب اور سر سید کی مخالفت، حکومت پر جرأت مندانہ تنقید، انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت اور لکھنوی زبان و ادب کا تحفظ وغیرہ اِس اخبار کی پالیسی کے نمایاں نکات تھے۔شوخی، شگفتگی اور مزاح اِس کی بنیادی خصوصیت تھی اور Life is pleasure اِس کا نصب العین تھا۔خبریں معروضی کی بجائے تبصرے کے انداز میں لکھی جاتی تھیں۔ یہ اخبار سیاسی اعتبار سے باشعور تھا اور انگریزوں کے سیاسی داؤ پیچ کو خوب سمجھتا تھا۔منشی سجاد حسین ’اودھ پنچ‘ کو اعلا نہج عطا کرنے کے لیے مغربی اخبارات کا بہ غائر مطالعہ کرتے اور جو کچھ اس سے سیکھتے اُسے انگریزوں ہی کے خلاف استعمال کرتے۔ سیاسی و سماجی طنز و مزاح اور ادبی تنقید اور ادبی معرکہ آرائیوں میں اِس اخبار کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اکبرالہ آبادی کو طنز و مزاح کی طرف مائل کرنا، اس اخبار کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ اِس اخبار سے اردو صحافت کو فائدہ کے ساتھ نقصان بھی پہنچا۔ ڈاکٹر عبد السلام خورشید اس پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اودھ پنچ سے اردو صحافت کو نقصان بھی پہنچا، اس نے مزاح میں ابتذال اور پھکڑپن کو فروغ دیا۔ بڑے بڑے ادیبوں نے یہی رنگ اختیار کر لیا اور پھر اس کی تقلید میں جو پنچ اخبار ہندوستان کے طول و عرض سے نکلے انھوں نے پھکڑپن، ابتذال اور فحش نگاری میں انتہا کردی“۔ (صحافت پاکستان و ہند میں، ص ٢٤٧)
’اودھ پنچ‘ کی ظریفانہ اور مزاحیہ صحافت نے صحافتی دنیا میں ہلچل پیدا کردی۔ اِس کی شہرت و مقبولیت سے متاثر ہوکر پنچ نام کے اخبار کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کی اطلاع کے مطابق ’انیسویں صدی میں ہندوستان کے ٢٨/ شہروں سے تقریباً ٧٠/ پنچ اخبارات منظر عام پر آئے‘ (اردو صحافت انیسویں صدی میں، ص ٩٣٧)۔ یہ سلسلہ بیسویں صدی میں بھی جاری رہتا ہے۔ اِن ٧٠/ پنچ اخبارات میں سے صرف ٤٢ کے نام ملتے ہیں، وہ ہیں: سرپنچ ہند لکھنؤ (یکم ستمبر ١٨٧٧ء)، مدراس پنچ مدراس (١٨٧٧ء)، بہار پنچ پٹنہ (قبل ١٨٨٥ء)، روہیل کھنڈ پنچ مرادآباد (١٨٧٨ء)، جالندھر پنچ جالندھر (١٨٧٧ء)، انڈین پنچ لکھنؤ (یکم مئی ١٨٨٠ء)، دہلی پنچ لاہور(یکم جون ١٨٨٠ء)، بنگال پنچ کلکتہ (یکم جولائی ١٨٨٠ء)، میرٹھ پنچ میرٹھ (۱۸۸۱ء)، راجپوتانہ پنچ اجمیر (۱۸۸۱ء)، باوا آدم پنچ بنارس (١٢/اکتوبر ۱۸۸۱ء)، بنارس پنچ بنارس (١٢/اکتوبر ۱۸۸۱ء)، سرپنچ سیدپور (١٠/ستمبر ١٨٨٢ء)، لکھنؤ پنچ لکھنؤ (۸/جنوری ١٨٨٣ء)، کٹھیر پنچ بدایوں (یکم مئی ١٨٨٣ء)، سرپنچ بمبئی (١٥/ مئی ١٨٨٣ء)، ہریانہ پنچ جھجھر (٢٠/فروری ١٨٨٤ء)، کرناٹک پنچ مدراس (یکم اپریل ١٨٨٤ء)، جھجھر پنچ جھجھر (یکم ستمبر ١٨٨٤ء)، دکن پنچ مدراس (یکم جنوری ١٨٨٥ء)، الپنچ پٹنہ (۵/فروری ١٨٨٥ء)، کڑا پنچ الہ آباد (١٤/ فروری ١٨٨٥ء)، فتح گڑھ پنچ فرخ آباد (١٥/ اگست ١٨٨٥ء)، برار پنچ کولہاپور (مارچ ١٨٨٦ء)، سرپنچ میرٹھ (١٨٨٦ء)، فیروزپور پنچ فیروزپور (٢٤/اکتوبر ١٨٨٦ء)، گجرات پنچ گجرات (اکتوبر ١٨٨٦ء)، صدر پنچ دہلی (یکم فروی ١٨٨٧ء)، دکن پنچ حیدرآباد (یکم جون ١٨٨٧ء)، آگرہ پنچ آگرہ (۴/فروری ١٨٨٨ء)، آگرہ پنچ آگرہ (١٨٨٩ء)، قنوج پنچ قنوج (١٨٩٠ء)، لاہور پنچ لاہور (١٨٩١ء)، بے مثال پنچ دہلی (١٨٩٢ء)، دہلی پنچ دہلی (۸/جنوری ١٨٩٥ء)، گیا پنچ گیا (١٨٩٥ء)، بمبئی ابوالپنچ بمبئی (١٨٩٦ء)، بمبئی پنچ بہادر (١٨٩٦ء)، سرپنچ لکھنؤ (١٩٣١ء)، بہار پنچ پٹنہ (١٥/نومبر ١٩٥٢ء)، مگدھ پنچ پٹنہ (١٩٨٠ء؛ ’اردو جرائد خدا بخش لائبریری میں‘کے مطابق یکم جنوری تا ١٦/نومبر ١٩٨٠ء اور ۸/ اکتوبر تا ٢٤/دسمبر ١٩٨٢ء کے شمارے اس لائبریری میں موجود ہیں)، اردو پنچ راولپنڈی (’اردو جرائد خدا بخش لائبریری میں‘ کے مطابق جلد ۱ شمارہ ۱،۲ ،١٠، جلد ۳شمارہ ۴ ،۶ اور جلد ۶ شمارہ ١٢/ اس لائبریری میں موجود ہیں)۔ اس کے علاوہ ’اودھ پنچ‘ کی مقبولیت سے متاثر ہو کر سیاسی و سماجی اخبارات نے ضمیمہ کے طور پر ظریفانہ اخبار نکالنا شروع کیا۔ چنانچہ ’اخباروں کا قبلہ گاہ‘ نے ’پنجاب پنچ لاہور‘، ’طوطی ہند‘ نے ’میرٹھ پنچ‘، ’اخبار ہند‘ نے ’لکھنؤ پنچ‘، ’قیصر ہند میرٹھ‘ نے ’سرپنچ‘، ’راجپوتانہ گزٹ اجمیر‘ نے ’راجپوتانہ پنچ‘، ’طلسم حیرت‘ نے ’مدراس پنچ‘ اور ’افضل الاخبار‘ نے ’دہلی پنچ دہلی‘ کے نام سے ضمیمہ کے طور پر ظریفانہ اخبار نکالا۔ اِن میں سے سارے پنچ اخبارات تو متداول نہیں ہیں۔ البتہ ان میں سے چند خدا بخش لائبریری میں محفوظ ہیں اور چند کے بارے میں کتابوں میں مختصر تفصیل موجود ہے۔ دونوں کا مطالعہ نیچے پیش کیا جارہا ہے:
بہار پنچ:
یہ ہفت روزہ اخبار تھا جو مطبع انتظامی، پٹنہ سے ۸/ صفحات میں شائع ہوتا تھا۔ محمد اکثیر خاں اس کے مالک اور منشی نوروز علی خاں شیدا مہتمم تھے۔ اس کے سنہ اجرا کے بارے میں محققین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اختر شہنشاہی کے مؤلف نے ٢٦/ نومبر ١٨٧٦ء تاریخ اجرا بتائی ہے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود اسے مشکوک مانتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
”ہماری رائے میں یہ تاریخ اجرا مشکوک ہے۔ اس لیے کہ اس کی تصدیق کسی اور ذریعہ سے نہیں ہوتی۔ بہار کے جس پنچ اخبار کو سب سے زیادہ شہرت ملی وہ بانکی پور سے ١٨٨٥ء میں نکلنے والا الپنچ تھا۔ انڈین کرانیکل پٹنہ نے ۹/مارچ ١٨٨٥ء کی اشاعت میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ: ’ہمارے شہر میں ایک پنچ کی ضرورت تھی اور چند برس پیشتر دو پنچ شائع ہوئے لیکن ایک بھی جاری نہیں رہا‘۔ اگر بہار پنچ پہلا مزاحیہ اخبار ہوتا تو انڈین کرانیکل یقیناً اس کی نشان دہی کرتا لیکن چند برس پیشتر نکلنے والے جن دو مزاحیہ احًبارات کا وہ ذکر کر رہا ہے یقیناً وہ پنچ صحافت کے آغاز کے بعد کے اخبارات تھے اور تعجب نہیں کہ ان دو اخبارات میں بہار پنچ بھی شامل ہو“ (اردو صحافت انیسویں صدی میں، ص ٩٤١)
چونکہ’بہار پنچ‘ کے شمارے دستیاب نہیں ہیں، اس لیے کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔ البتہ یہ طے ہے کہ ١٨٨٥ء سے قبل یہ اخبار ضرور جاری ہوا تھا۔ اِسی نام سے ١٥/ نومبر ١٩٥٢ء کو ایک اور ظریف اخبار نکلا۔ اس کا نام بھی ’بہار پنچ‘ رکھا گیا۔ شمارہ ۱ جلد ۱، ١٥/ نومبر ١٩٥٢ء میرے پیش نظر ہے۔ خدا بخش لائبریری میں نومبر ١٩٥٢ء اور جنوری تا مئی ١٩٥٣ء کے شمارے موجود ہیں۔ فاروق احمد پیامی عظیم آبادی اِس کے سرپرست اور نگراں تھے اور مجلس ادارت میں ضیاء عظیم آبادی، محمد شمیم کھگولولی اور مظہر الحق عظیم آبادی شامل تھے۔ ضیاء عظیم آبادی مدیر مسؤل اور مظہر عظیم آبادی نائب مدیر تھے۔ جلد ۲ شمارہ ١٤، ١٥، ٢٩/ اپریل ١٩٥٣ء میں بہ طور مدیر مظہر عظیم آبادی کا نام مرقوم ہے۔ اِس اخبار میں ارشد کاکوی، عطا کاکوی، رضا علی وحشت کلکتوی، پیامی عظیم آبادی، قلندر عظیم آبادی، بگٹٹ عظیم آبادی، مظہر الحق عظیم آبادی کی نظم و نثر شائع ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ خلاصۃ الاخبار کے تحت ذیلی عنوان سے بھارتی خبریں، اسلامی خبریں، بیرونی خبریں شائع ہوتی تھیں۔ دوبدو، ٹیلی فون پر، قہقہے کے مستقل عنوان سے ظریفانہ اور مزاحیہ تحریریں شائع ہوتی تھیں۔
سرپنچ ہند لکھنؤ (١٨٧٧ء):
’اودھ پنچ‘ کے اجرا کو ابھی نو (۹) مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ اُسی سرزمین لکھنؤ سے ایک اور ظریف اخبار ’سرپنچ ہند‘ کے نام سے ١٥/ستمبر ١٨٧٧ کو جاری ہوا۔ منشی انبکا پرشاد اس کے مالک اور ایڈیٹر تھے۔ آٹھ صفحات پر یہ اخبار شائع ہوتا تھا۔ اِس کا اپنا کوئی مطبع نہیں تھا۔ پہلے مطبع حسینی پھر مطبع مجمع العلوم سے طبع ہونے لگا۔ ’اختر شاہنشاہی‘ کے علاوہ اُس وقت کی کسی کتاب میں اس کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اس لیے گمان غالب ہے کہ انیسویں صدی میں ہی یہ اخبار بند ہوگیا۔ اخبار کے پہلے صفحہ پر’ضوابط سرپنچ‘ کے تحت یہ عبارت درج ہوا کرتی تھی:
”ہر ہفتے یہ اخبار شائع ہوگا۔ طمع تعصب طرفداری سے ہر حال میں پرہیز ہے“۔
اُسی کے نیچے ’ضبط مراسلات‘ میں مراسلہ نگاروں کے لیے یہ ہدایت رقم ہوتی تھی:
”(تحریریں) پھکڑ جگت سے خالی ظرافت سے مملو پر مطلب“ ہوں۔
منشی انبکا پرشاد مشرقی تہذیب و تمدن کے دل داہ اور ہندستانی طرز زندگی کے حامی تھے۔ اس لیے اخبار میں مغربی تہذیب و معاشرت کا دل کھول کر مضحکہ اڑایا جاتا تھا۔ جہاں تک اس اخبار کے طرز بیان اور اسلوب نگارش کا تعلق ہے تو ہم عصر ظریف اخباروں کی ہی جھلک یہاں نظر آتی ہے۔ البتہ اپنے کارٹونوں کی وجہ سے دیگر اخبارات پر فوقیت رکھتا تھا۔ اس کے کارٹون دل چسپ اور معنی خیز ہونے کے ساتھ ساتھ فنی اعتبار سے لائق تحسین ہوتے تھے۔ مقامی، ملکی اور غیر ملکی خبریں اختصار سے اِس اخبار میں شائع ہوتی تھیں اور سیاسی، سماجی، معاشرتی اور بین الاقوامی صورت حال کا بھی جائزہ لیا جاتا تھا۔ روس اور ترکی کی جنگ میں یہ ترکی کا طرف دار تھا اور ترکی کی مخالفت پر انگریزوں کو آڑے ہاتھوں لیتا تھا۔ مضامین کے علاوہ نظمیں اور غزلیں بھی چھپتی تھیں۔ البتہ مغربی تہذیب و معاشرت کی بخیہ گیری میں طنز و مزاح کی جو زبان استعمال ہوتی تھی، وہ کبھی کبھی ذوق سلیم پر گراں گزرتی ہے۔ ’تہذیب کا خاکہ‘ میں مستعمل زبان و بیان ملاحظہ فرمائیں:
”سرپنچ صاحب آج میں گول گول باتیں کروں گا۔ آپ احمق نہ بن جائیے گا۔ بڑی بڑی آنکھیں اور اندھا پن یقینی نہ ہو تو عینک گواہ ہے۔ ٹہلنے کے وقت پتلون میں سے دونوں چوتڑ ہلتے دکھائی دیں اور پھر آدمیت کے جامے میں رہیں۔ یہ بھی گورنمنٹ کی بعض مصلحتوں سے کم نہیں۔ ہگا اور کاغذ سے پونچھ لیا۔ کھایا اور (تولیہ) رومال سے منھ صاف کرلیا۔ بے فکری اور آزادی اسی کا نام ہے لیڈی کا ہاتھ پکڑ بگھی پر بٹھایا اور چور کی طرح بھاگ گئے۔ چلو شادی ہوگئی ہینگ لگی نہ پھٹکری۔ کھڑے کھڑے موتا“۔
’انڈین پنچ، لکھنؤ (١٨٨٠):
یہ ہفت روزہ اخبار یکم مئی ١٨٨٠ء کو لکھنؤ سے جاری ہوا۔ منشی نوروز علی خاں شیدا اِس کے مالک اور ایڈیٹر تھے۔ اخبار کے پہلے صفحہ پر رسالہ کی قیمت اور محصول ڈاک وغیرہ کی تفصیل کے بعد یہ تحریر ملتی ہے: العبد محمد نوروز علی خاں شیدا۔ گویا یہ اس رسالہ کے مالک اور ایڈیٹر ہیں۔ اس کی تصدیق صفحہ ۸ پر شائع اس عبارت سے بھی ہوتی ہے: ’مطبع مصطفوی واقع شہر لکھنؤ محلہ پل غلام حسین سے محمد نوروز علی خاں شیدا نے چھپواکر شائع کیا‘۔
خدا بخش لائبریری میں اس کا ایک شمارہ محفوظ ہے، جس پر نمبر ١٠ جلد ۱، ۸ جولائی ١٨٨٠ء مرقوم ہے اور یہ دس صفحات پر مشتمل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پہلا شمارہ یکم مئی ١٨٨٠ء کو نکلا۔ سر ورق پر یہ عبارت درج ہے:
ہاں طالبان گنج ظرافت چلو چلو لو لٹ رہی ہے یہ دولت چلو چلو
’جملہ صاحبان ظرافت پسند کو مژدہ ہو کہ جناب سری مسٹر انڈین پنچ صاحب بہادر نے جلوس فرمایا ہے اور حسب شرائط ذیل ہر ایک صاحب سے ملاقات کی ٹھہری اور یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ فی الحال تو بخط فارسی ہی شائع ہوا ہے اور بعد گزرنی درخواست قدردانان کی دوسرا حصہ ناگری میں اور تیسرا حصہ رومن بخط انگریزی بھی شائع ہوگا۔ تفصیل شرائط: ۱۔ہر مہینہ انگریزی کے یکم، ۸، ١٦، ٢٣ کو اشاعت قرار پائی ہے۔ ۲۔بلا وصول قیمت پیشگی کسی صاحب کو پرچہ نہ ملے گا۔ ۳۔درخواست پر ایک پرچہ بطور نمونہ مل سکتا ہے۔۴۔ قیمت بذریعہ پارسل زر نقد یا منی آڈر۔۔۔۵۔ جو قیمت کہ اثناے راہ میں تلف ہو جائیں گی مطبع ذمہ دار نہ ہوگا‘۔
قومی اور لوکل خبروں کے علاوہ ’جام جہاں نما: تار برقی کا خلاصہ‘ کے تحت روس، انگلستان، افغانستان، غزنی، ایران، چین، دہلی، قندھار وغیرہ مقامات کی اہم خبریں شائع ہوتی تھیں۔ خبریں نقل کرنے کے بعد قوسین میں ظریفانہ تبصرہ بھی کیا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں دو چھوٹی چھوٹی خبریں ملاحظہ فرمائیں:
”غزنی کے حاکم سردار عالم خاں جس کو انگریزوں نے حاکم غزنی مقرر کیا تھا باغیوں نے قید کر لیا (نیا شگوفہ کھلا)“۔(ص۷)
”کرنل گارڈن کے چین جانے پر روسی بے چین ہیں (یا رب کسی کا باغ تمنا خزاں نہ ہو)“۔ (ص۷)
سیاسی و سماجی خبروں کے ساتھ شعر و ادب بھی بڑے اہتمام سے شائع ہوتے تھے۔ نیا وزن کے عنوان سے ایک غزل صفحہ ۵ پر درج ہے۔ پہلے غزل کا تعارف کرایا گیا ہے:
”مائی انڈین پنچ۔ ایک غزل گنگا جمنی زبان میں ہم کہہ کے لایا ہے۔ تم اپنے پنچ میں چھاپ دو۔۔۔یہ گنگا جمنی زبان کیسی، قبلہ گنگا جمنی اسے کہتے ہیں جس میں دو رنگ ہوں۔ پس یہ غزل بھی دو رنگ کی زبان ہے یعنی قافیہ انگریزی اور سب اردو اس وجہ سے گنگا جمنی زبان کہنا لازم آیا۔۔۔“
تہِ دل سے دعا دیتے ہیں ہم ببر جارج کوپر کو
کہ اَیَرلنڈ کے ہوئے گورنرشپ ہزآنر کو
(چ۔ل)
ہرچند کہ اخبار میں ظریفانہ انداز اور مزاحیہ لب و لہجہ اپنانے کی بڑی کوشش کی گئی ہے، لیکن انصاف کی بات ہے کہ یہ اسے سنبھال نہ سکا۔ جملوں کو بنانے اور سنوارنے کے چکر میں اس کا حسن ہی زائل ہوگیا ہے۔ اس قسم کے جملے سے فرحت و انبساط کی بجائے کدورت کی فضا قائم ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
”چمن چمن اس باغبان حقیقی کی ثنا لازم ہے، روش روش اس گل گلزار نبوت کی نعت باغ باغ ہوکے ادا کرنا مناسب ہے کہ جس کی شگفتگی کے واسطے گلستان کائنات میں رنگ رنگ کے گل کے لیے باد صبا مژدہ تروتازہ سناتی ہے۔ خوش الحان ترانہ مسرت افزا گاتی ہے۔‘‘ (’حیدرآباد دکن‘، ص۲)
”ظریفوں کے بادشاہ اور مسخروں کے قبلہ گاہ مسٹر انڈین پنچ زاد مزاحکم۔ بعد بہت سے لمبے چوڑے گُڈ ڈے اور مزاج پرسی کے، عرض حاجت پرتو حاجت نیست میدانی کہ چیست۔ جس واسطے غلام حاضر ہوا ہے۔ ضمیر مہر تنویر پر بوجہ احسن ہویدا اور روشن ہے“ (عیاشوں اور قرض داروں کو مژدہ، ص۲)
’دہلی پنچ‘ لاہور(١٨٨٠ء):
’دہلی پنچ‘ یکم جنوری ١٨٨٠ء کو دہلی سے جاری ہوا اور فوراً لاہور منتقل ہوگیا اور مقام اشاعت دہلی سے تبدیل ہوکر لاہور ہوگیا۔ منشی حسین علی فرحت دہلوی اِس کے مالک، منشی اللہ دین ایڈیٹر اور بابو پرتاپ سنگھ مہتمم تھے۔ اپریل ١٨٨٢ء میں منشی حسین علی فرحت دہلوی جو اِس اخبار کے مالک تھے، انھوں نے اسی اخبار کے منیجر مولوی فضل الدین کے ہاتھوں اسے بیچ دیا۔ اس اخبار کا نمبر ١٧ جلد ۳، ١٧/مئی ١٨٨٢ء میرے پیش نظر ہے جو خدا بخش لائبریری میں موجود ہے۔ اِس میں پروپرائٹر کے طور پر فضل الدین کا نام مرقوم ہے۔ صفحہ ۱۱ پر یہ تحریر ملتی ہے: ’خاکسار فضل الدین پروپرائٹر دہلی پنچ، لاہور‘۔ ١٩٨٩ء کے بعد یہ اخبار ’وفادار‘ نامی اخبار میں ضم ہوگیا۔ یہ اخبار ١٢/ صفحات میں شائع ہوتا تھا۔ سر ورق پر کارٹون بنا ہوا ہے جس کے دائیں طرف ”پنچ مل کیجئے کام“ اور بائیں طرف ”ہارے جیتے آئے نہ لاج“ لکھا ہوا ہے۔ اس کے نیچے یہ عبارت درج ہے، جس میں اخبار کے نصب العین اور طرز صحافت پر روشنی ڈالی گئی ہے:
”ظریف اخبار ملک کے واسطے گلدستہ ظرافت ہے اور آئینہ فطرت۔ یہ اسی کا کام ہے کہ ایک نمکین جملہ میں ملکی رائے ختم کرتا ہے اور بغلیں بجا بجا کر رعایا اور گورنمنٹ کی دوستی کا دم بھرتا ہے۔ کبھی بانتیجہ راگوں سے رعایا کو وجد دلاتا ہے اور کبھی ظریفانہ اشعار سے ملک اور گورنمنٹ دونوں کو جگاتا ہے۔ نئے نئے روپ بھر کر ملک کے سامنے آتا ہے اور ہر ایک فقرہ میں اتے پتے کی کہہ جاتا ہے۔ حرف زوائد کا استعمال نہیں کرتا خوشامدانہ بے نتیجہ مضامین نہیں بھرتا۔ اردو زبان کا چمکانے والا ہے اور غیر فصیحوں کج فہموں کا دھمکانے والا۔ فقط زبان قلم سے ہی محظوظ نہیں کرتا بلکہ ملکی مضمونوں کو تصویروں کے لباس میں لاتا ہے جس میں سینکڑوں آرٹیکلوں کا مزا آتا ہے“۔
’دہلی پنچ‘ لاہور بے حد جرات مند اور بے باک اخبار تھا۔ انگریزی حکومت کے خلاف نڈر ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کرتا تھا۔ ہندستان میں اُس زمانے میں بے روزگاری اس حد تک یہاں کے باشندوں کو اپنے چپیٹ میں لے چکی تھی کہ افلاس کی صورت حال پیدا ہو چکی تھی۔ ان دونوں مسائل پر اخبار کا بے باکانہ اظہار خیال ملاحظ فرمائیں:
’ہندوستان اور بے روزگاری‘: ’کیوں بھائی چاند خاں، بیکاری تو بے ڈھب پنجہ جھاڑ ہمارے گرد دہماکی (؟) ہے۔در بدر خاک بسر، دنیا بھر کی خاک چھانی، چپّہ بھر زمین نہ چھوڑی، آج یہاں تو کل وہاں، مگر جہاں گئے، یہی زمین، یہی آسمان اور ریاستوں کا حال تو بس کچھ بھی نہ پوچھئے۔ انگرریزی عملداری سے بھی ہزار درجہ بدتر‘۔(ص۲)
’ہند کے افلاس تیرا ستیاناس‘: ’کیوں بھائی ملکی ریفارمروں، قومی خیرخواہو، اپنے بھائیوں کی بہبودی کا بیڑا اٹھانے والو۔۔۔کچھ ہمت کرو، اظہار حق پر کمر باندھو، ع: نیم تن در گور باشد نیم تن در زندگی
کچھ نہیں، ملک تو تباہ ہوگیا، برباد ہوگیا، لٹ گیا، اجڑ گیا، تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو‘۔(ص۳)
واضح ہو کہ ہندستان اور بے روزگاری، فسانہ نواب لاڈلے منا اور حاضر جوابی ڈراما کے انداز میں تحریر کیے گئے ہیں۔
صفحہ سات پر ’نمکین خبریں کے عنوان سے چھوٹی چھوٹی خبریں طبع ہوتی تھیں جن پر ظریفانہ اور طنزیہ جملے لکھے جاتے تھے۔ بہ طور مثال دو نمونے ملاحظہ فرمائیں:
”جنرل اسکوبلاف کو زار روس نے قید کا حکم دے دیا، (پنچ) جنگ زرگری ہو۔ ع: من خوب می شناسم پیران پارسا را
”زار روس کا ارادہ ہے کہ تخت سلطنت اپنے ولی عہد کے سپرد کرکے آپ اللہ اللہ کریں۔ (پنچ) سچ ہے۔ع: اگر پدر نتواند پسر تمام کند۔
صفحہ دس پر لوکل کے عنوان سے مقامی خبریں شائع ہوتی تھیں۔ ایک خبر ملاحظہ فرمائیں:
”١٢ مئی کی شام کو انجمن ہال میں سرآمد فضلای عصر، علامہ دہر، ناظم بے نظیر، نثار بے عدیل، شہنشاہ اقلیم سخن مولوی محمد عبد الحکیم صاحب فارسی نے فضیلت زبان اردو پر وہ لکچر دیا کہ سامعین پر ایک عالم حیرت چھا گیا۔ اللہ اللہ تقریر تھی کہ ایک سیل رواں، جس نے اعتراضات معترضین کو خس و خاشاک کی طرح بہادیا۔ ماشاء اللہ یہ جودت و روانی طبع آپ کا ہی حصہ ہے۔ اب بھی اگر کوئی معترض جاہلاں ہٹ سے باز نہ آئے تو شوق سے آتش جہالت میں ستی ہو مرے“۔
الپنچ بانکی پور (١٨٨٥ء):
’اودھ پنچ‘ کے بعد ’پنچ سیریز‘ میں جس اخبار کو عام مقبولیت اور سب سے زیادہ شہرت ملی، وہ بانکی پور پٹنہ سے نکلنے والا ہفت روزہ اخبار ’الپنچ‘ ہے۔ اِس اخبار کی جدت اُس کے نام سے ہی جھلکتی ہے۔ ظریفانہ جدت طرازی کے حامل چند نوجوانوں نے ’اودھ پنچ‘ کی شہرت و مقبولیت سے متأثر ہوکر ہی ’الپنچ‘ اخبار نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ مگر ایک روایت یہ بھی ہے کہ شاد عظیم آبادی کی مخالفت کے پیش نظر اِسے جاری کیا گیا لیکن یہ روایت کم زور معلوم ہوتی ہے، مخالفت ضرور تھی لیکن اسی مخالفت کی وجہ سے ’الپنچ‘ کا اجرا ہوا ہو، ایسا نہیں تھا۔ عبد الغنی استھانوی کی زیرِ ادارت نکلنے والے ’اردو انڈین کرانیکل‘ کے ۲/ فروری ١٨٨٥ء کے شمارے میں الپنچ کے جاری ہونے کی اطلاع دی گئی تھی:
”اِس ہفتے میں ایک اور ظریف اخبار ’الپنچ‘ کی آمد آمد ہے۔ اشتہار سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی بطور آزمائش چار مہینے کے لئے جاری ہوا ہے۔ مہتمم منشی محمد اعظم ہیں“۔ (چند اہم اخبارات و رسائل/ قاضی عبد الودود، ص ١٩٩)
جاری ہوتے ہی’الپنچ‘ کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور دن بہ دن اِس کا گراف بڑھتا ہی چلا گیا۔ لوگوں کی خاص توجہ اِسے حاصل ہوتی چلی گئی۔ اِس کی مقبولیت کا اندازہ ’اردو انڈین کرانیکل‘ کے ۹/ مارچ ١٨٨٥ء کے شمارے میں شائع اِس خبر سے لگایا جاسکتا ہے:
”اِس وقت تک اس کے چار پرچے شائع ہو چکے ہیں۔ چند تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ہفتہ وار پنج شنبہ کو چار ورقوں پر شائع ہوتا ہے۔ نہایت معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ تیسرے ہی پرچہ سے اشاعت ٧٥٠ تک پہنچ چکی ہے“۔ (چند اہم اخبارات و رسائل/ قاضی عبد الودود، ص ١٩٩)
’چند تعلیم یافتہ نوجوانوں‘ میں مولوی سید شرف الدین (سرپرست)، منشی محمد اعظم (مہتمم)، مولوی سید رحیم الدین استھانوی (ایڈیٹر) اور فضل حق آزاد اِس اخبار کے اصل روح رواں تھے۔ ١٨٩٠ء کے آس پاس مولانا سید ابوالخیر مظہر عالم خیر رحمانی دربھنگوی کی اِس جماعت میں شمولیت ہوتی ہے اور جنوری ١٩٠٦ء تک وہ اس اخبار سے منسلک رہتے ہیں۔ ’پنچ اخبارات‘ میں ’اودھ پنچ‘ کے بعد ’الپنچ‘ ہی وہ اخبار ہے جو ظریفانہ صحافت میں اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔ اِس اخبار کو بامِ عروج تک پہنچانے میں دیگر اصحاب کے علاوہ مولوی سید رحیم الدین استھانوی اور مولانا خیر رحمانی دربھنگوی کا بھی نمایاں کردار رہا ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اِن دونوں کی خدمات کی پذیرائی اس پیمانے پر نہیں کی گئی، جس کے یہ مستحق ہیں۔ جب کہ اُس زمانے میں سب سے لمبی مدّت تک شائع ہونے والا یہی اخبار تھا۔ قاضی عبد الودود نے اِس ضمن میں لکھا ہے: ”آج کل جو اردو کے اخبار بہار میں جاری ہیں، اُن کی عمر کیا ہوگی، اِس کے بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں۔ مگر یہ مسلّم ہے کہ جو اخبارات اب زندہ نہیں ہیں، اُن میں سب سے طویل عمر ’الپنچ‘ نے پائی“ (چند اہم اخبارات و رسائل۔ ص ١٩٩)۔
’الپنچ‘ ۵/فروری ١٨٨٥ء کو جاری ہوا اورتقریباً ۲۲/ سال علمی، ادبی اور صحافتی خدمات انجام دیتے ہوئے ١٩٠٧ء میں بند ہوگیا۔ اِس سے قبل پٹنہ سے دو ظریف اخبار نکل کر بند ہوچکے تھے۔ چند عنوانات اس میں مخصوص تھے جیسے ’چیدہ خبریں‘ کے تحت ملکی اور غیر ملکی خبروں کا انتخاب پیش کیا جاتا تھا۔ ’لوکل‘ کے عنوان سے مقامی خبریں اور ’تازہ تار برقی‘ کے تحت تازہ خبریں پروسی جاتی تھیں۔ ظریفانہ اور مزاحیہ تحریروں کے ساتھ ملکی و تمدنی، سیاسی و معاشرتی، علمی اور اخلاقی مضامین شائع ہوتے تھے۔ اُس زمانے کی مشہور شخصیات اور سربرآوردہ دانشوروں جیسے سرسید، وقار الملک، شبلی نعمانی، مولانا محمد علی مونگیری وغیرہ کے بارے میں اہم اور دل چسپ معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ سرسید اور مولوی سمیع اللہ خاں میں مخالفت چلی آرہی تھی اور جب دونوں میں صلح ہوئی تو ’صلح مبارک‘ کے عنوان سے مزاحیہ انداز میں یہ خبر شائع کی گئی۔ اِس اخبار میں کارٹونوں کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ اکثر کارٹونوں میں مسلم ممالک میں برطانوی پالیسی پر طنز کیا گیا ہے۔
شاد عظیم آبادی کے خلاف ادبی معرکہ آرائی تو شروع سے جاری رہی لیکن خیر رحمانی دربھنگوی کے دور ادارت میں اس سلسلہ کو ختم کیا گیا۔ شوق نیموی کی مثنوی ’سوزوگداز‘ جب شائع ہوئی تو فضل حق آزاد اور اُن کے شاگردوں نے اُس مثنوی کے خلاف لکھنا شروع کیا جو ’الپنچ‘ میں شائع ہوتے تھے۔ اِس ادبی تنازع میں ’الپنچ‘ اور ’گیا پنچ‘ کے بیچ نزاع کی صورت پیدا ہوگئی۔کیونکہ شوق کے خلاف الپنچ میں جو کچھ لکھا جاتا تھا، شوق نیموی اُس کا جواب ’گیاپنچ‘ میں دیتے تھے۔شروع میں یہ مباحثہ خالص علمی اور تحقیقی انداز میں ہوتا تھا، رفتہ رفتہ یہ ہجوگوئی اور خرافات نویسی میں بدل گئی۔
جب خیر رحمانی ایڈیٹر ہوئے تو برابر اُن کی یہ کوشش رہی کہ شاد عظیم آبادی کا بائیکاٹ اب بند ہونا چاہئے۔چنانچہ سید رحیم الدین کے انتقال پر شاد عظیم آبادی نے جو قطعات تاریخ لکھے تھے، خیر رحمانی نے بڑے اہتمام سے اس کو ۲/اگست ١٩٠٢ء کے شمارے میں شائع کیا اور عنوان لگایا: ”قطعات تاریخ انتقال پُر ملال مولوی سید رحیم الدین مہجور مدیر الپنچ از فکر رسا شاعر بے ہمتا جناب خان بہادر مولوی سید علی محمد صاحب شاد عظیم آبادی“۔ ١٤ اور ٢٥/ اکتوبر ١٩٠٢ء کے شمارے میں عظیم آباد کے تاریخی مشاعرہ کے سلسلے سے جو رپورٹنگ کی گئی، اُس میں شاد عظیم آبادی کا بھی نام شامل کیا۔ ۳/جنوری ١٩٠٣ء کے شمارے میں شاد عظیم آبادی کی دو نظمیں بڑی پذیرائی کے ساتھ شائع کی گئیں۔ اِن دونوں نظموں کا تعارفی لب و لہجہ ملاحظہ فرمائیں:
”آج ہم ’اعیان دولت‘ کے تحت میں نہایت فخر کے ساتھ اپنے شہر کے ہردل عزیز رئیس اور مشہور شاعر جناب خان بہادر مولوی سید علی محمد صاحب شاد کی دو نظم شائع کرتے ہیں۔ حضرت شاد اپنا کلام کسی اخبار میں شائع نہیں کراتے۔ ہمارے اصرار پر آپ نے الپنچ کی رونق بڑھائی ہے۔ ہم ان کے کلام کو سخن فہموں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ دیکھیں کہ کس پائے کی نظم ہے۔کیا کیا بات پیدا کی ہے۔ ہم آئندہ حضرت شاد کے کلام اور ان کی محنت کی حقیقت لکھیں گے“ (چند اہم اخبارات و رسائل/ قاضی عبد الودود، ص ٢٠١)۔
٣١/جنوری ١٩٠٣ء کے شمارے میں شاد عظیم آبادی کی کتاب ’اردو تعلیم‘ کی تعریف کی گئی ہے اور اُس کی اہمیت و افادیت واضح کرتے ہوئے اُسے نصاب میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایڈیٹر کی ذمہ داری سنبھالتے ہی خیر رحمانی صلحِ کُل کے راستے پر چل پڑے تھے۔ چنانچہ اس سلسلے میں پہلا کارنامہ یہ انجام دیا کہ شاد عظیم آبادی کو الپنچ کے قریب لے آئے اور شایانِ شان اُن کی پذیرائی کی۔ ١٩٠٥ء کے اکتوبر، نومبر اور دسمبر کے متعدد شماروں میں فیض آزاد کے آٹھ مضامین شاد عظیم آبادی کی غزلوں پر تنقید کے تعلق سے شائع ہوئے اور یہ سلسلہ لگاتار ١٩٠٦ء تک جاری رہتا ہے۔
خیر رحمانی نے اپنی ادارت میں الپنچ کو اُسی نہج پر جاری و ساری رکھا جو پہلے سے چلا آرہا تھا۔ چونکہ اس اخبار کا مقصد سیاسی و سماجی اصلاح کے ساتھ بغیر نظریاتی اختلافات اور گروہ بندی کے علم و ادب، شعر و سخن اور فکر و فن کی آبیاری بھی تھا۔ یہی سارے پہلو خیر رحمانی کی ادارت والے الپنچ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ١٩٠٣ء کے شمارے میں ’شاہی اعلان‘ کے تحت ’الپنچ‘ کے اصول و ضوابط کے ضمن میں جو باتیں کہی گئی ہیں، وہ ساری باتیں خیر رحمانی کی ادارت میں نکلنے والے ’الپنچ‘ پر صادق آتی ہیں۔ لیجئے ’شاہی اعلان‘ ملاحظہ فرمائیں:
”کیا آپ نے اب تک مولانا الپنچ کو نہیں دیکھا ہے۔ ضرور دیکھئے جو اخبار نہیں چلتا ہوا جادو ظرافت کا پورٹ، ایک جملہ پڑھئے اور ہنستے ہنستے بے خود نہ ہو جائیں تو ہمارا ذمہ۔ ایک خبر دیکھئے اور پیٹ نہ پکڑ لیجئے تو ہم گنہگار۔ پھر یہی نہیں کہ صرف ہا ہا ہی ہی کے سوا کام کی باتیں بالکل ندارد، نہیں، پولیٹکل، سوشل، مارل آرٹیکل سے مالا مال، ملکی ترقی اور تمدنی مضامین پر زبردست چٹکیاں لینے میں گرو گھنٹال۔ اس پر زبان کی صفائی، محاورات کی بندش کا کیا کہنا، پڑھے اور لوٹ پوٹ ہوجائے“ (چند اہم اخبارات و رسائل/ قاضی عبد الودود، ص٢٠٠)۔
’الپنچ‘ کی تحریروں میں ایڈیٹر کی حق گوئی اور بے باکی خوب مترشح ہوتی تھی۔ صحافتی دیانت داری کا خوب پاس رکھا جاتا تھا۔ ’شحنۂ ہند‘ کے ایڈیٹر کی ڈینگ بازی کا محاسبہ کرتے ہوئے جب اس کا اندیشہ ہوا کہ چونکہ ایک معاصر ایڈیٹر کے خلاف باتیں ہیں، اس لیے اشاعت میں تردد ہو، تو ’الپنچ‘ کو بھی کٹگھرے میں کھڑا کردیا۔ ایڈیٹر نے بھی صحافتی ذمہ داری کا پاس رکھتے ہوئے، اُس تحریر کو شائع کردیا:
”مولانا الپنچ! تم نے ۸/مئی کے شحنۂ ہند میں ایڈیٹر (حضرت شوکت) کی بے جا ڈینگ تو دیکھی ہی ہوگی۔ بھلا تم کو بے جا کاہے کو معلوم ہونے لگی۔ تم سب اخبارچی تو ایک ہو۔ ہم کو شبہ ہے کہ اپنے ہم عصر کی پاسداری میں کہیں اس مراسلہ ہی کو ردّی کے ٹوکرے کے حوالے نہ کردو۔ مگر مجھ کو اس کی پرواہ نہیں ہے۔ میں نے اِس کی ایک نقل رکھ لی ہے۔ اگر نہ چھاپوگے تو کسی دوسرے آزاد اخبار میں بھیج دوں گا اور اس کے ساتھ ہی تمہاری بے جا طرفداری کی بھی دھجیاں اڑاؤں گا۔ مجھ کو یقین ہے کہ تم کو بھی اپنی آزادی کا ویسا ہی دعوی ہے جس طرح میاں شوکت کو ہمہ دانی کا“۔
’الپنچ‘ کی اداریہ نویسی کے تعلق سے دو تحریریں پیش کی جاتی ہیں؛ ایک میں ناظم ندوۃ العلماء کے استعفی اور اس پر اپنی رائے۔ اور دوسری میں کلکتہ کی طوائفوں کے سلسلے سے عوام کی بیداری اور اِس بارے میں بہار کے عوام کی سردمہری پر اظہار خیال کیا گیا ہے:
”مولوی محمد علی صاحب ناظم ندوۃ العلماء نے اپنی نظامت سے استعفا دیا جس کا اعلان الپنچ مطبوعہ ١٣/جون ١٩٠٣ء میں شائع ہوچکا ہے۔ پھر اس کے لیے کسی کی درخواست ندوہ میں آئی یا نہیں؟ اور آئندہ کون ناظم ندوہ ہوگا۔ اس کا علم تو خدا کو ہے لیکن جہاں تک ہم نے اپنے ذہن میں اس کے لیے لوگوں کو منتخب کیا ان سب میں مولوی حبیب الرحمن صاحب رئیس بھیکم پور کو نہایت ہی موزوں پایا۔ مولوی صاحب ممدوح میں ہر طرح کی قابلیتیں ایسی مجتمع ہیں کہ دوسروں میں بہت کم پائی جائیں گی۔ خدا کرے مولوی صاحب موصوف اس بار عظیم کو اپنے اوپر اٹھانا قبول کر لیں۔“ (الپنچ، ٢٧/ جون ١٩٠٣ء)۔
”کلکتہ کے ایک محلہ میں دشمن اخلاق طوائفوں کی بھرمار سے تنگ آکر وہاں کے باشندوں نے ایک درخواست جس پر عام لوگوں کے علاوہ عمائد و حکام ہائی کورٹ اور وکلاء وغیرہ کے بھی دستخط ہیں پولس کمشنر کے حضور میں پیش کی ہے کہ پولس شارع عام سے بازاری عورتوں کا ڈربہ ہٹا کر کہیں اور جگہ منتقل کردے۔ درخواست تو معقول ہے۔ امید ہے کہ اس پر عمل درآمد بھی ہو۔ کیا بانکی پور کے غیرت مند بھی اس قسم کی کوئی درخواست لوکل گورنمنٹ میں پیش کر سکتے ہیں؟ کیونکہ زیادہ تر ضرورت ہے کہ یہاں کے اسکولیطلبا سے ان چڑیلوں کا سایہ الگ کیا جائے۔“ (الپنچ، ٢٧/ جون ١٩٠٣ء)۔
’اردو جرائد خدا بخش لائبریری میں‘ کے مطابق ٢٠/جنوری ١٨٩٠ء تا ۳/جنوری ١٩٠٧ء کے متعدد شمارے اس لائبریری میں موجود ہیں۔
’لاہور پنچ‘ (١٨٩١ء):
یہ اخبار ١٨٩١ء میں لاہور سے جاری ہوا۔ عبد الرحمن اس کے مالک اور ایڈیٹر تھے۔ زیادہ تر مزاحیہ مضامین، مزاحیہ نظمیں، لطائف اور ساقی نامہ شائع ہوتے تھے۔ ’خبروں کا گلزار‘ کے عنوان سے ایک صفحہ پر ایک ایک سطر کی مختصر خبریں طبع ہوتی تھیں۔ خاص خبریں الگ صفحہ پر شائع ہوتی تھیں۔ ادبی مجلسوں اور انجمنوں کی خبریں نمایاں طور پر چھاپی جاتی تھیں۔ مقامی خبریں ’لوکل‘ عنوان سے شائع ہوتی تھیں۔ مغربی تہذیب و معاشرت کا سخت ناقد تھا، البتہ سنجیدہ پیرایے میں گرفت کرتا تھا۔
’لاہور پنچ‘ کے دو شمارے جلد ١٣، نمبر ٢١، یکم جون ١٨٩٨ء اور جلد ١٣ نمبر ۲۲، ۷/جون ١٨٩٨ء خدا بخش لائبریری میں محفوظ ہیں۔ چند مخصوص عنوانات جیسے اینجانب، لوکل، خبروں کا گلزار کے تحت مضامین، روداد اور خبریں شائع ہوتی تھیں۔ اِس اخبار میں آٹھ صفحات ہوتے تھے۔ یکم جون ١٨٩٨ء کے شمارہ میں اینجانب کے ذیل میں سنٹرل محمڈن نیشنل ایسوسی ایشن پنجاب لاہور کا جلسہ کے عنوان سے جلسہ کی روداد چھاپی گئی ہے۔ صفحہ ۳ پر علی گڑھ کالج کے آئندہ انتظام کی نسبت مولوی محرم علی صاحب چشتی و نواب محسن الملک کی خط و کتابت کے عنوان سے چشتی صاحب کی چٹھی شائع کی گئی ہے جو صفحہ ۷/ تک چلی گئی ہے۔ ۸/ جون ١٨٩٨ء کے شمارے میں اینجانب کے تحت ریٹ پیرز ایسوسی ایشن لاہور کی کیفیت اور صفحہ ۳ پر اسی ایسوسی ایشن کے جلسہ کی روداد چھاپی گئی ہے۔ صفحہ ۴ پر نواب محسن الملک کی چٹھی اور صفحہ ۷ پر لوکل کے عنوان سے مقامی خبریں پروسی گئی ہیں۔ ’خبروں کا گلزار‘ کے عنوان سے جو مختصر خبریں چھپتی تھیں، بہ طور نمونہ دو خبریں ملاحظہ فرمائیں:
”ملک احمد خاں۔۔۔اسسٹنٹ بجرم رشوت ۳ ماہ قید ہوا تھا افسوس کہ فوت ہوگیا۔“
”کراچی میں پٹھانوں و بلوچیوں نے طاعون پر فساد کیا تھا اس لئے ٦٢ آدمی گرفتار زیر تحقیقات ہیں“۔
دہلی پنچ‘ دہلی (جنوری ١٨٩٥ء):
یہ مستقل بالذات اخبار نہیں تھا بلکہ یہ ’افضل الاخبار‘ کا ضمیمہ تھا۔ امداد صابری کی بھی تحقیق یہی ہے۔ لیکن ڈاکٹر طاہر مسعود اس سے اتفاق نہیں رکھتے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:
”امداد صابری نے لکھا ہے کہ دہلی پنچ، افضل الاخبار کا ضمیمہ تھا۔ حالانکہ انھوں نے اپنی کتاب تاریخ صحافت اردو جلد سوم (ص ٦٤٧) میں افضل الاخبار کے سرورق کا جو عکس شائع کیا ہے اس میں ان دونوں اخباروں کا اشتہار موجود ہے۔ اس اشتہار سے پتا چلتا ہے کہ یہ دونوں علاحدہ اخبار تھے“ (اردو صحافت انیسویں صدی میں، ص ٩٧١)
مذکورہ بالا اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر طاہر مسعود کے پیش نظر ’دہلی پنچ دہلی‘ نہیں تھا، اگر ہوتا تو امداد صابری کی بات کا انکار نہیں کرتے کیونکہ دہلی پنچ دہلی کے ہر صفحہ پر ضمیمہ افضل الاخبار درج ہوتا تھا۔ ریختہ پر ١٩٠٥ء، ١٩٠٦ء، ١٩٠٨ء اور ١٩١١ء کے چند شمارے موجود ہیں، جن کے ہر صفحہ پر ضمیمہ افضل الاخبار لکھا ہوا ہے۔ ’اردو جرائد خدا بخش لائبریری میں‘ ۸/ فروری تا ١٦/ دسمبر ١٨٩٦ء اور ١٦/ جنوری تا یکم ستمبر ١٨٩٧ء کے شمارے اس لائبریری میں موجود ہیں۔
’دہلی پنچ دہلی‘ جنوری ١٨٩٥ء میں جاری ہوا۔ مرزا محمد عبد الغفار بیگ اس کے مالک و مہتمم اور مولانا عبد الرحمن راسخ ایڈیٹر تھے۔ بیسویں صدی کے اوائل تک یہ نکلتا رہا۔ ریختہ پر ١٩١١ء کے جو شمارے موجود ہیں، ان میں سب سے آخری یکم اکتوبر ١٩١١ء کا ہے۔ اِس میں ’اینجانب‘ کے عنوان کے تحت رمضان شریف کو الوداع کہا گیا ہے اور رویت ہلال کے تفرقہ کے سبب دو عید منائی گئی، اس پر اظہار خیال کیا گیا ہے:
”حضرات۔ لیجئے مبارکباد۔ رمضان شریف اپنی تشریف کا ٹوکرا لاد، وُد کرچلتے ہو گئے۔ اور عید کے ندیدوں نے تین روز پہلے ہی ان کو الوداع کہہ دیا۔ دیدبازوں کی عید ہو گئی۔ مگر پیر کو بڈھی عید ہوئی۔“
یہ پورا شمارہ رمضان پر ہی ہے۔ نثر کے علاوہ دو نظمیں بھی شائع ہوئی ہیں۔ اُن میں ایک نظم ’خدا بچائے‘ ہنٹر پھٹکار کی ہے۔ اس نام سے خیر رحمانی دربھنگوی جو مولوی سید رحیم الدین کے بعد الپنچ کے مدیر ہوئے تھے، الپنچ میں لکھا کرتے تھے۔ خدا بچائے: ”چور خدمتگار سے/ ظالم خونخوار سے/ بنئے کی اُدھار سے/ بڈھے بیمار سے/ مسلمان سودخوار سے/ کج فہم نامہ نگار سے/ نائکہ عمر دراز سے/ خدائی فوجدار سے/ ننگی تلوار سے/گردوں پھٹکار سے/ ترش انار سے/ میلہ کی بھیڑ بھاڑ سے/ روٹی جوار سے/ جرم کے اقرار سے/ پنچایتی اخبار سے/ آپس کی تکرار سے/ معاملہ کے طومار سے/ طعن کی بوچھاڑ سے/ پازیب کی جھنکار سے/ شتر بے مہار سے/ پیر بدکار سے/ بی جہنا کی چوٹی سنگھار سے/ ٹٹی کے شکار سے/ تحصیل کی بیگار سے/ چوہوں کے اچار سے/ مرہٹی دربار سے/ آسیب کے پھیر پھار سے/ شاعر عیار سے/ فلک ناہنجار سے/ شیر کی ڈکار سے/ سرکتی بیوپار سے/ ڈھیلی ازار سے۔۔۔۔کافر گنہ گار سے/ راقم ہنٹر پھٹکار سے۔
ستمبر ١٩٠٦ء میں دہلی میں بڑی زوردار بارش ہوئی تھی، اس کی منظر کشی کرتے ہوئے اخبار لکھتا ہے:
”۔۔۔اب کی برسات نے بھی وہ موسلا دھاری دھماچوکڑی مچائی کہ الہی توبہ۔ سارا لیپا پوتا بہہ گیا۔ کہیں تو سر ڈباؤ پانی کی دھکا پیل کردی اور کہیں ناک ڈباؤ پانی کی۔جنگلوں میں نباتات کو لٹایا تو بستیوں میں مکانات کو گرایا۔۔۔جاڑے کے مارا آدمی حتی المقدور آگ تاپنے سے پہلو تہی نہیں کرتا۔ رندان بادہ خوار نے بتقاضائے بشریت کپکپی میں دل و جگر کو آتش رواں سے سینکا“۔ (یکم اکتوبر ١٩٠٦ء)۔
چونکہ یہ افضل الاخبار کا ضمیمہ تھا، اس لیے خبریں وغیرہ اس میں شائع نہیں ہوتی تھیں بلکہ زیادہ تر ظریفانہ اور مزاحیہ تحریریں ہی چھپتی تھیں۔ سنجیدہ تحریریں بھی طبع ہوتی تھیں۔’دہلی پنچ دہلی‘ اپنے زمانے کے صحافتی معیار اور اخبار نویسوں کی روش سے مطمئن نہیں نظر آتا ہے۔ اس پہلو پر بے باکی سے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”ہندوستان میں اخبار بینی کا مذاق اٹھ گیا ہے۔ اخباروں کی حالت دم بہ دم خراب ہوتی جاتی ہے۔ پرچوں کی کثرت سے ملک اچھے اخبارات کو بھی ناقدری کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ جس کے پلے چار ٹکے ہوئے جھٹ سے پرچہ نکال دیا۔ پھر ایڈیٹر بھی اخبار کی حیثیت کے موافق دستیاب ہوئے ایک تو کڑوا کریلا دوسرے نیم چڑھا۔ پرانے اخبارات کے مضمون چرا چرا کر ملکی چور یا پولیٹیکل ڈاکو کا خطاب مل گیا۔ جہاں کسی ریاست میں کوئی تقریب ہوئی اور رنڈی بھڑووں کی جماعت میں اپنا نام لکھوا کر در دولت پر آ موجود ہوئے“۔ (بحوالہ اردو صحافت انیسویں صدی میں)
’گیا پنچ‘ گیا (١٨٩٥ء):
اس اخبارکا نمبر ١٣ جلد ۷، ٢٣/ ستمبر ١٩٠١ء میرے پیش نظر ہے۔ صرف یہی ایک شمارہ خدا بخش لائبریری میں موجود ہے۔ یہ اخبار ١٨٩٥ء میں مطبع محمد واقع محلہ کٹوکھر تالاب گیا سے جاری ہوا۔ شیخ محمد حسین اس کے منیجر تھے۔ ۸/ صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ سرورق پر ضوابط اخبار گیا پنچ کے تحت یہ عبارت درج ہوتی تھی:
”یہ پرچہ ہفتہ وار ہر دو شنبہ کو گیا سے شائع ہوتا ہے سوائے خاص حالتوں کے بلا ایصال زر پیشگی پرچہ روانہ نہیں کیا جائے گا۔
اس اخبار کو مذہبی جھگڑوں سے کوئی سروکار نہیں ہے اگر کوئی ایسا موقع پیش ہو تو اس کے دفع کرنے میں کوشش کرے گا۔
حضرات نامہ نگاران کی خدمت میں ایک پرچہ مفت نذر کیا جائے گا۔“
صفحہ ۲ پر’انتقال پر ملال پریسیڈنٹ میکن لی‘، ’کھیل کا کھیل تماشا کا تماشا‘ (قسط دوم)، صفحہ ۳ پر ’گیا مینوسپلٹی کی ٹراموے‘، صفحہ ۴ پر’مراسلات‘، صفحہ ۶ پر ’چیدہ خبریں‘، صفحہ ۷ پر ’تار کی خبریں، لوکل خبریں‘ کے عنوان سے اداریہ، مضامین، مراسلے اور مختلف نوعیت کی خبریں شائع ہوتی تھیں، جن کے مطالعہ سے اُس دور کی صورت حال کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔۔ایک دو خبریں بہ طور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
”ایک مقدمہ باجلاس جناب ششن جج درپیشی میں تھا، گوبندپور کے ہڈ کانسٹبل کے مارے جانے کی علت میں چند شخص ملزم تھے، ان کی رہائی ہو گئی“۔
”لندن ١٩/ستمبر سلطان مراکو نے واسطے رہائی قیدیان ہسپانیہ کے جو قبالیوں کے قبضے میں ہیں دس ہزار فوج روانہ فرمایا“۔
مراسلے کے تحت غم دردناک کے عنوان سے شوق نیموی عظیم آبادی کا ایک قطعۂ تاریخ شائع ہوا ہے۔ اس کی ابتدا حسب ذیل عبارت سے ہوتی ہے:
”افسوس ہزار افسوس کہ اسلام کے دلی ہمدرد سچے بہی خواہ ندوہ کے جاں نثار ہمارے دوست ہمارے غم گسار ہمارے شفیق مکرم ہمارے انیس ہمدم مولوی علی اسلم مرحوم رئیس پٹنہ نے اس ہفتہ میں انتقال فرمایا۔۔۔
زد رقم شوق مصرعۂ تاریخ
شد بہ گلزار خلد اہل ہمم
بہار کی بدحالی کا ماتم کرنے کی روایت بہت پرانی چلی آرہی ہے۔ اِس اخبار میں بھی اس کی بدحالی اور پسماندگی کا ذکر کرتے ہوئے ترقی کی ترغیب دلائی گئی ہے:
یا رب یہ التجا ہے کرم تو اگر کرے
وہ بات دے زبان پہ کہ دل میں اثر کرے
”مجھے اپنے ملک اور خاص صوبہ بہار کی حالت پر رونا آتا ہے کہ تمام دنیا کی قومیں تو انواع و اقسام کی ترقی کر رہے ہیں۔ مگر ایک ہم ہیں کہ وہی لہو و لعب اور وہی ناچ و رنگ۔ باوجودیکہ ندوۃ العلماء کے جلسے ہوئے، کانفرنس کی آمد آمد ہوئی، اسپیچیں ہوئیں اتنے وعظ سنے مگر ع: شکست رنگ شباب و ہنوز رعنائی۔۔۔مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایسے خواب غفلت میں پڑے خراٹے لے رہے ہیں کہ اگر قیامت بھی آجائے تو ہم کو اصلا خبر بھی نہ ہوگی۔ اس میں شک نہیں کہ یہاں کا مذاق اور صوبوں سے بالکل جداگانہ ہے اور علم کی تو بو ہی کسی کے دماغ میں نہیں پہنچی جس وقت اسپیچ سنی اس وقت تو ایسا جوش ظاہر کیا کہ کیا کچھ نہ کر ڈالیں گے مگر کام کے وقت تو ایسا معلوم ہوگا کہ کچھ سنا ہی نہیں“۔
اس اخبار سے اہم شخصیات جیسے علامہ شبلی نعمانی اور شیخ عبد القادر بی اے وغیرہ کے سلسلے سے اہم معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ ١٨٩٥ء میں علامہ شبلی نعمانی کی پٹنہ آمد اور پٹنہ کالچ میں اُن کے لکچر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
”آپ نے سنا ہوگا کہ ١٨٩٥ء میں شمس العلما مولانا شبلی نعمانی نے پٹنہ کالج میں ایک مؤثر لکچر دیا تھا اور اسی کے ضمن میں کتب خانہ کی ضرورت کو بیان فرمایا تھا“ (٢٣/ ستمبر ١٩٠١ء)۔
’سرپنچ‘ لکھنؤ (١٩٣١ء):
اس اخبار کا نمبر ١٥ جلد ۱، ٣٠/ دسمبر ١٩٣١ء میرے پیش نظر ہے۔ اس اعتبار سے اس کا پہلا شمارہ ۷/ ستمبر ١٩٣١ء کو نکلا۔ شوکت تھانوی اس کے ایڈیٹر، امین سلونوی معاون اور نسیم انہونوی مینیجنگ پروپرائٹر تھے۔ بڑا دن (ص۳)، چغتائی صاحب کا استعفی (ص۴)، پٹے اور خوب پٹے (ص۵)، آئیئے ہر بیت میں معنی کا دفتر دیکھئے (ص۷)، گیارہواں مکتوب: ہمارا سفر لندن (ص۸)، کھلکھلستان، توتو میں (ص۹)، کارٹون: سرپنچ کی سالگرہ، حکومت کانگریس اور انقلاب پسند تحریک (ص١٠)، بزمیات، افکار فلش، بزم لکھنوی (ص۱۱)، پنچایت (ص ۲۱) کے عنوان سے نظم و نثر شائع ہوئی ہیں۔ ’پنچایت‘ کے عنوان سے دوسرے اخبار کی اہم تحریروں کو شامل کیا جاتا تھا۔ مذکورہ اخبار میں اس کے تحت ’چہ می گوئی‘ از امین سلونوی، سہیلی لاہور، سالگرہ نمبر ١٩٣٢ء، ’گفت و شنید‘، رضاکار لکھنؤ، ١٧/دسمبر ١٩٣١ء، دو دو باتیں، اودھ اخبار، ٢٠/دسمبر ١٩٣١ء اور افکار و حوادث، انقلاب لاہور، ٢٠/دسمبر ١٩٣١ء جیسی تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ ’چغتائی صاحب کا استعفی‘ دل چسپ تحریر ہے:
”لیکن سب سے زیادہ پرلطف جواب سرپنچ کے خاص مربی برادرم مرزا عظیم بیگ چغتائی کا ہے جنھوں نے سالگرہ کے لئے مضمون بھیجا اور مضمون کے ساتھ ساتھ ایک استعفی بھی بھیج دیا ہے کہ سرپنچ اس کا اعلان کردے کہ مرزا صاحب آج کی تاریخ سے نہ مزاح نگار ہیں نہ انشاپرداز بلکہ آپ محض بی اے ایل ایل بی وکیل چیفکورٹ ماڑواڑ ہیں“۔
مواد، اسلوب اور پالیسی کے اعتبار سے پنچ اخبارات میں یکسانیت تھی اور ان کا مشترکہ ہدف مغربی تہذیب اور اس کی اندھی تقلید کے مضر اثرات سے عوام الناس کو بیدار کرنا تھا۔ اس معاملے میں پنچ اخبارات کی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں۔ ان اخبارات نے نہ صرف مغربی تہذیب اور سرسید تحریک کے مضحک پہلوؤں کو عیاں کیا بلکہ ١٨٥٧ء کی ناکامی کے بعد جو بوجھل پن، مایوسی اور دل شکستگی ہندستانی معاشرہ میں چھائی ہوئی تھی، ان اخبارات نے اسے دور کرنے کی کوشش کی اور ’زندگی زندہ دلی کا نام ہے‘ کے پیغام کو گھر گھر تک پہنچایا۔ مغربیت کے انتہا پسندانہ رجحانات اور اس کی کورانہ تقلید پر اپنی سخت گرفت کے ذریعہ اعتدال اور توازن کی راہ ہموار کی اور ہندستانی تہذیب و ثقافت کے تعلق سے جو احساس کم تری پنپنے لگی تھی، ان اخبارات نے اپنی شگفتہ اور مزاحیہ تحریروں کے ذریعہ اُس فضا کو یکسر تبدیل کر دیا۔
مراجع:
۱۔ اردو جرائد کا ذخیرہ خدا بخش لائبریری میں / خورشید عالم، پٹنہ: خدا بخش لائبریری، ١٩٩٥ء، ۶۶ ص
۲۔ اردو رسائل کا ذخیرہ خدا بخش لائبریری میں، پٹنہ: خدا بخش لائبریری، ١٩٩٣ء، ۴۰۴ ص
۳۔ اردو رسائل کا ذخیرہ رضا لائبریری رامپور میں، پٹنہ: خدا بخش لائبریری، ١٩٩٣ء، ٣٦ ص
۴۔صحافت انیسویں صدی میں / ڈاکٹر طاہر مسعود، کراچی: فضلی سنز، ۲۰۰۲، ١٢٣١ ص
۵.اردو صحافت بہار میں: تحقیق/ ڈاکٹر سید احمد قادری، دہلی: الائیڈ پرنٹنگ سروس، ٢٠٠٣، ٣٠٠ص
۶.الپنچ، بانکی پور (پٹنہ)، مخزونہ خدا بخش لائبریری، پٹنہ
۷۔ انڈین پنچ، لکھنؤ، نمبر ١٠، جلد ۱، ۸/جولائی ١٨٨٠، مخزونہ خدا بخش لائبریری، پٹنہ
۸۔ اودھ پنچ، لکھنؤ، مخزونہ خدا بخش لائبریری، پٹنہ
۹ ۔ پاکستان میں اردو رسائل: کتابیات/ مرتبہ رفیع الدین صدیقی، کراچی: ڈاکٹر محمود حسین لائبریری، ١٩٧٥، ١٨٧ ص
١٠۔چند اہم اخبارات و رسائل/ قاضی عبد الودود، پٹنہ: ادارہ تحقیقات اردو، ١٩٩٣ء، ٢٢١ص
۱۱۔ دہلی پنچ، دہلی، ١٩٠٥، ١٩٠٦، ١٩٠٨، ١٩١١، مخزونہ ریختہ
١٢۔ دہلی پنچ، لاہور، نمبر ١٧، جلد ۳، ١٧/مئی ١٨٨٢ء، مخزونہ خدا بخش لائبریری، پٹنہ
١٣۔ سرپنچ، لکھنؤ، نمبر ١٥، جلد ۱، ٣٠ دسمبر ١٩٣١ء، مخزونہ خدا بخش لائبریری، پٹنہ
١٤۔ سوانح عمری اختر شاہنشاہی: مفصل کیفیت مع تقریظ ہر ایک اخبارات اردو و فارسی و عربی/ سید محمد اشرف، لکھنؤ: مطبع اختر پریس، ١٨٨٨ء، ٢٩٠ص
١٥۔ صحافت پاکستان و ہند میں / ڈاکٹر عبد السلام خورشید، لاہور، مجلس ترقی ادب، ١٩٦٣ء،٥٨٨ ص
١٦۔ صحافت: کتابیات/ ڈاکٹر محمد ذاکر حسین، پٹنہ: مکتبہ بزم صدف، ٢٠٢٢، ٦٢٤ص
١٧۔ گیا پنچ، گیا، نمبر ١٣، جلد ۷، ٢٣/ستمبر ١٩٠١ء، مخزونہ خدا بخش لائبریری، پٹنہ
١٨۔ لاہور پنچ، لاہور، جلد ١٣، نمبر ٢١، یکم جون ١٨٩٨ء، جلد ١٣، نمبر ۲۲، ۷/ جون ١٨٩٨ء، مخزونہ خدا بخش لائبریری، پٹنہ
١٩۔ ہمدرد میں محفوظ اردو رسائل و اخبارات/ مرتبہ شکیل شمسی و ڈاکٹر محمد ذاکر حسین، پٹنہ: خدا بخش لائبریری، ١٩٩٣ء، ٤٣ص
***
صاحب مقالہ کی گذشتہ نگارش : الپنچ اور خیر رحمانی دربھنگوی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے