متن کے آس پاس کا سچ

متن کے آس پاس کا سچ

غضنفر

بیشتر نئی تحریروں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ رخشِ خامہ جوشِ جنوں میں متن کے پاس سے دور چلا گیا ہے یا وفورِ شوقِ نگارش میں روش سے بھٹک گیا ہے، مگر سلمان عبد الصمد کی تحریروں کی ورق گردانی کے وقت یہ لگتا ہے کہ ان کا قلم متن کے آس پاس موجود ہے. اور اس کا سبب شاید یہ ہے کہ وہ متن کے مخفی مفاہیم کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اردو کے جن چند نئے قلم کاروں کے سینے میں تخلیقی آگ روشن ہے اور جن کے خامے کی سیاہی سے چنگاریاں جھانکتی ہیں اور ان چنگاریوں میں خون جگر کی سرخی شامل ہے، ان میں سلمان عبد الصمد بھی ایک ہیں۔
سلمان کو ایک اضافی استعداد یہ بھی حاصل ہے کہ ان کے پاس تخلیقیت کے ساتھ تنقیدی بصیرت بھی موجود ہے، جو ان کو متن کے آس پاس سے ہٹنے نہیں دیتی۔ ساتھ ہی مدرسے کا وہ بیک گراونڈ بھی ان کے پاس ہے جو طالب علم کو اردو زبان سے اتنا قریب کر دیتا ہے کہ غرابت دور ہو جاتی ہے اور اس میں ایسی قوتِ گویائی اور طلاقتِ لسانی بھر دیتی ہے کہ طالب علم کی اپنی علاقائی بولی کا زور بھی رفتارِ زبانِ اردو کی روانی کو روک نہیں پاتا۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ زبان و ادب کے تئیں سلمان کے رویے میں نماز والے خشوع و خضوع جیسا انہماک اس کی ادبی ریاضت کو عبادت جیسا بنا دیتا ہے. 
سلمان کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب وہ ادب شناسی کی نیت باندھتے ہیں تو ان کی نظر کے سامنے متن ہوتا ہے. وہ پورے وقت متن کے مال و منال پر اپنی نظر مرکوز رکھتے ہیں۔ مراقبے جیسے استغراق کے باعث ان کی نگاہ میں فن پارہ پوری طرح سمٹ آتا ہے اور اس کا حسن ان کے تنقیدی شعور اور طلاقت لسانی کے رنگ و نور سے آراستہ ہو کر آئینۂ قرطاس میں منعکس ہو جاتا ہے۔
آئینے میں ابھرے عکس پر نگاہ مرکوز کیجیے تو امیر خسرو، ولی، حالی، اقبال، منٹو، اکبر، فاروقی، پیغام وغیرہ کے افکار و نظریات اور محسوسات و مشاہدات کے خد و خال دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اور یہ بھی محسوس ہونے لگتا ہے کہ سلمان کی نگاہ متون کے بطون میں کہاں کہاں تک پہنچتی ہے۔
حواشی اور حوالوں سے یہ بھی جھلکتا ہے کہ سلمان کی نظریں مآخذ تک بھی رسائی حاصل کرتی ہیں اور ان کا معروضی ذہن استنباط و استدلال سے کام لے کر ادب پارے کی قدر و قیمت کے تعین میں کسی منطقی انجام تک جا پہنچتا ہے۔
ان کے تجزیاتی عکوس سے یہ حقیقت بھی مترشح ہوتی ہے کہ سلمان کا ذہن اپنے خمیر میں بے باکانہ وصف رکھتا ہے جو کسی بھی طرح کی خارجی یا داخلی دباؤ کی زد میں نہیں آتا اور وہی کہتا ہے جو اس کا ضمیر چاہتا ہے یا اسے کہنے کے لیے کہتا ہے۔ کتاب کے شروع میں جو سلمان نے اپنے بارے میں لکھا ہے وہ اس کی عملی تحریروں میں دکھائی بھی دیتا ہے۔ پرتوے تحریر سے اس حقیقت کا بھی انکشاف ہوتا ہے کہ معاشرتی اور معاشی دباؤ کے باوجود سلمان کی شخصیت کی دبازت دب نہیں پاتی۔ وہ ہر حال میں اپنی خوئے بے خوفی کو بچا کر رکھتے ہیں اور علامہ اقبال کے ایک مشہور مصرعے کی سچائی کو ثابت کر دیتے ہیں۔
سلمان نے پیغام آفاقی کے ناول "دوست" کے مقدمے کی پیروی بھی اچھی کی ہے تاکہ دوست کی سنوائی اچھی طرح ہو جائے اور فیصلہ پیغام کے حق میں لکھ جائے مگر افسوس کہ منطقی جرح اور اچھی دلیلوں کے باوجود دوست کے مقدمے کو غور سے نہیں سنا گیا اور وہ جس فیصلے کا حق دار تھا وہ فیصلہ اس کے حق میں نہ ہو سکا مگر میری طرف سے پیغام کو داد کے ساتھ ساتھ کہ اس نے مکان کے بعد ایک اور نئے انداز کا ناول اردو ناول نگاری کی جھولی میں ڈال دیا، عزیزی سلمان عبد الصمد کو بھی داد و مبارک باد کہ انھوں نے میرے دوست کے "دوست" کو فائلوں کے ملبے سے نہ صرف یہ کہ باہر نکال لیا بلکہ جھاڑ پونچھ کر اسے چمکا بھی دیا۔ اب اگر کوئی اس دوست کے روشن چہرے کو نہ دیکھنا چاہے تو قصور دیکھنے والے کی آنکھوں کا ہے یا پھر اس کی نیت کا۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :جب تنقید بھی ادب کا ایک حصہ ہے تو اس میں بھی تو ادبیت ہونی چاہیے: غضنفر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے