‘بالا سور‘ یاترا

‘بالا سور‘ یاترا

ڈاکٹر مجاہدالاسلام
مانو لکھنؤ کیمپس، لکھنؤ

اڈیشا اردو اکادمی کی طرف سے ’بالاسور‘ میں منعقد ہونے والے قومی سیمینار میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو اس شہر کے تعلق سے قومی اخبارات میں چھپنے والی خبریں یاد آتی چلی گئیں۔ یہ ہندستان کے مشرقی گھاٹ کی پہاڑیوں پر سمندر کے کنارے بسا ایک خوب صورت اور پُرفضا شہر ہے جو بالیشور ضلع کا صدر مقام ہے اور اڑیسہ کی راجدھانی بھونیشور سے ۱۹۴ کیلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔ مغربی بنگال کا ’مِدنا پور‘ ضلع مشرقی سمت سے اس سے لگتا ہے۔ اکتوبر ۱۸۲۸ میں اس ضلع کی تاسیس ہوئی تھی۔ ۳۶۳۴ مربع کیلو میٹر میں پھیلے اس ضلع کی کل آبادی تقریبا ۲۴ لاکھ ہے اور تعلیمی لحاظ سے اڈیشا کے نمایاں اضلاع میں شمار ہوتا ہے۔ عموماََ بالاسور کے خبروں میں رہنے کی وجہ ’چاندی پور بیچ‘ ہے جسے ’میزائل سٹی ‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جب بھی ڈی آر ڈی او کسی میزائل وغیرہ کی آزمائش کرتا ہے تو یہ شہر قومی و بین الاقوامی میڈیا کی سرخیوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ ایسے خوب صورت اور اہم شہر کی زیارت کی تمنا لیے ہم نکل پڑے ۲۶؍ جنوری ۲۰۲۲ کی شام کو ۔ حالانکہ ابتدائے عمر سے ہی مجھے سیر و تفریح سے کوئی خاص دل چسپی نہیں رہی۔ علی گڑھ کے زمانۂ طالب علمی میں بڑے بھائی کی مدد سے ایک مرتبہ لال قلعہ ہو آیا تھا۔ پھر جے این یو میں داخلہ ملا تو ڈی ٹی سی کی بسوں کے ذریعے کئی معروف جگہوں کے سا تھ ساتھ قطب مینار وغیرہ کی بھی سیر کی، کبھی نزدیک سے تو کبھی دور ہی دورسے۔ محبت کی لازوال نشانی تاج محل کو پہلی بار اس وقت دیکھا جب ایک ریفریشر کورس کے لیے لکھنؤ سے علی گڑھ حاضر ہوا،  تو پھر یہیں سے اکیڈمک اسٹاف کالج کی انتظامیہ نے مجھ سمیت تمام شرکا کو آگرہ پہنچانے کا بندوبست کیا، جہاں ہمیں جذبیؔ پر منعقد ہونے والے ایک قومی سیمینار میں شرکت کرنی تھی۔ علی گڑھ سے جب آگرہ پہنچ ہی گیا تو معروف ادیبہ سعدیہ سلیم صاحبہ کے شوہر جنابِ سلیم شمسی، جو پیشے سے وکیل ہیں، کی مہربانی سے تاج محل کا دیدار نصیب ہوا۔ کچھ اپنی علمی و تعلیمی مصروفیات اور سیر و تفریح کے تقاضوں سے میل نہ کھانے والے مزاج نے مجھے دنیا کی عظیم خوب صورتیوں سے لطف اندوز ہونے سے روکے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لکھنؤ میں رہ کر بھی ہم نے ابھی تک لکھنؤ کو بہت قریب سے نہیں دیکھا ہے۔ میرے رشتے دار اور دوست و احباب اکثر یہ طعنہ دینے میں کوئی کور و کسر باقی نہیں رکھتے کہ تم تو لکھنؤ میں رہتے ہوئے بھی ’لکھنؤ والا‘ نہیں بن سکے۔ نیوز میں کسی جگہ کا نام سن کر جب وہ پوچھتے ہیں کہ’ تم نے فلاں جگہ تو دیکھا ہو گا، اور وہاں فلاں فلاں چیزیں بھی دیکھی ہوں  گی‘  تو ان کے اس استفسار پر نفی میں سر ہلاتے ہوئے اکثر دل ہی دل میں مسکرا دیتا ہوں۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کلّی طور سے مجھے سیر و تفریح کی جگہوں سے کوئی دل چسپی ہی نہ ہو، یا پھر میری دلچسپیات کے مراکز و منابع کچھ اور ہوں۔ بس نہیں گئے تو نہیں گئے اور اگر کبھی اتفاق سے کہیں نکل گئے تو پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔
 جب بالاسور میں منعقد ہونے والے قومی سیمینار میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو پتہ نہیں کیوں، اس سفر کے لیے اندر سے ایک خوشی و مسرت کا احساس ہوا۔ حالانکہ اڈیشا کا میرا یہ کوئی پہلا سفر نہیں تھا، اس سے پہلے اکادمی ہی کی دعوت پر اڈیشا کے مختلف شہروں بھونیشور، کٹک اور بھدرک وغیرہ حاضر ہو آیا ہوں۔ ان سفروں سے لوٹ کر آنے کے بعد میرے شاگردوں کی خواہش ہوتی تھی کہ میں اپنے سفر کی تفصیلی روداد رقم کروں لیکن ایسا بہ وجوہ نہیں کر سکا۔ اس دعوت نامے کا سن کر میرے عزیز شاگرد شاہد حبیب کا اصرار بڑھ گیا کہ’ سر! اس بار آپ ضرور اپنے سفر کی روداد قلم بند کریں گے‘۔ ان کے اس محبت آمیز اصرار سے مجبور ہو کر نہ صرف حامی بھر دی بلکہ ضروری نکات نوٹ کرنے کے لیے ایک نوٹ بک بھی ساتھ رکھ لی۔ اس بار کا سفر معروف شاعر و دانشور ’کرامت علی کرامت‘ کے فن اور شخصیت کے حوالے سے منعقد سیمینار میں شرکت کے باعث ہوا تھا۔ سیمینار کا دعوت نامہ اڈیشا اردو اکادمی کے سکریٹری جناب ڈاکٹر سید مشیر عالم کی طرف سے ملا تھا۔ ڈاکٹر سید مشیر عالم جے این یو کے میرے دوستوں میں سے ہیں۔ وہ ایک علمی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں اور مزاجاََ انتہائی مہذب اور شریف واقع ہوئے ہیں۔ محنت اور اپنے کام میں تسلسل ان کی پہچان ہے۔ انتظامی ذمہ داریوں کے باوجود خود بھی پڑھنے لکھنے میں لگے رہتے ہیں اور پڑھنے لکھنے والے لوگوں کی اپنی حد تک سرپرستی کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ جے این یو کے زمانۂ قیام میں ہم لوگوں کا ایک دوسرے سے ملنا جلنا ہمہ وقت لگا رہتا تھا۔ لیکن وہاں سے نکلنے کے بعد یہ تعلقات کسی قدر تعطل کا شکار ہو گئے. چار پانچ سال قبل جب وہ پہلی بار اڈیشا اردو اکاڈمی کے سیکرٹری بنائے گئے تو یہ خبر فیس بک کے توسط سے میری نظروں سے گذری۔ میں نے منقطع تعلقات کو بحال کرنے کاموقع مناسب جانا اور علیک سلیک کی ابتدا کی کوشش کی، جس میں کامیابی ملی۔ سیمینار وغیرہ کے توسط سے یہ تعلقات اور بھی مستحکم ہوتے چلے گئے۔ سید مشیر عالم کی نگرانی میں اڈیشا اردو اکادمی تواتر کے ساتھ نت نئے موضوعات پر سیمینار، ورکشاپس، مشاعرے، قوالیاں اور دیگر بہت سے ثقافتی پروگرام کا انعقاد کرتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ اکادمی مستقل طور سے مختلف موضوعات پر کتابیں بھی شائع کرتی ہے اور ایک سہ ماہی رسالہ ’فروغ ادب ‘ کے نام سے پابندی سے نکال رہی ہے۔ اردو کے طلبہ کو مختلف نوعیت کے وظائف بھی دیتی ہے۔ میری معلومات کی حد تک اڈیشا اردو اکادمی اب تک کی اپنی تاریخ میں اتنی زیاد متحرک و فعال کبھی نہیں رہی۔
 پروفیسر کرامت علی کرامت جیسی ذی علم شخصیت کے فن کی قدردانی کے حوالے سے منعقد ہونے والے سیمینار میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو فوراََ ہی   ریزرویشن کرالیا اور کچھ دنوں کی کوہ کنی کے بعد پیپر بھی لکھ ڈالا، مگر جب رخت ِسفر باندھنے کی ساعت آئی تو وہی تذبذب و گو مگو کی کیفیت۔۔۔۔۔ جنوری کی ٹھنڈ کی شدت کو دیکھ کر بار بار میر انیسؔ کے مر ثیے کا یہ مصرع تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ذہن کے پردے پر کوندنے لگتا 
  اس سردی کے موسم میں کہاں جاتے ہیں شبیر
بہرحال ہم نے’ بھونیشور راجدھانی‘ کا ٹکٹ لے کر پا بہ رکاب ہونے میں ہی بہتری سمجھی، جسے مجھے  کان پور سے پکڑنا تھا۔ لکھنؤ سے کان پور کی مسافت ۷۰ کیلو میٹر ہے، جسے لوکل ٹرینیں کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرتی ہیں۔ لیکن سفر شروع کرنے کا ارادہ بنالینے کے بعد بھی یہ فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ کان پور تک بس سے جاؤں یا ٹرین سے۔ اسی تذبذب اور گو مگو کی کیفیت میں گھر سے نکل پڑا، چونکہ لکھنؤ کا بین ریاستی بس اڈہ اور چار باغ ریلوے اسٹیشن دونوں قریب قریب ہی واقع ہیں۔ تو جب ذرا قریب پہنچا اور دو راستوں میں سے ایک کے انتخاب کا حتمی فیصلہ کرنے کا وقت آ گیا تو پھر اس تعین میں دیر نہیں لگی کہ ٹرین سے ہی کان پور پہنچنا بہتر رہے گا۔ جب چار باغ ریلوے اسٹیشن پہنچا تو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ کچھ ہی دیر میں’چترکوٹ ایکسپریس‘ پلیٹ فارم نمبر ۴ پر لگ رہی ہے جو کان پور ہوتے ہوئے جبل پور جائے گی۔ فوراً ہی Unreserved کلاس کا ایک ٹکٹ لے کر سامنے لگے ڈبے میں سوار ہو گیا ۔چونکہ یہ ٹرین لکھنؤ سے ہی کھلتی ہے، اس لیے ٹرین میں کوئی خاص بھیڑ نہیں تھی۔ بہر حال ’راجدھانی ایکسپریس‘ کے متعینہ وقت سے کچھ پہلے کان پور پہنچ گیا۔ کنٹرول روم سے ’بھونیشور راجدھانی‘ کی آمد کے تعلق سے ابھی تک کوئی اناؤنسمنٹ نہیں ہوا تھا۔ سوچ رہا تھاکہ کوئی اناؤنسمنٹ ہو تبھی کسی دوسرے پلیٹ فارم کا رخ کروں، گرچہ موبائل پر این ٹی ای ایس ایپ کے ذریعہ اس کی پل پل کی حرکات سے واقف ہو رہا تھا۔ پلیٹ فارم پر لگے ایک اسٹال سے چائے پی، بیگم نے رات کے کھانے کے لیے ایک توشہ دان بھی باندھ دیا تھا تو کئی مرتبہ سوچا کہ کھانے وغیرہ سے انتظار گاہ میں ہی فارغ ہو جائوں۔ مگر ذہن کو جب بھی ٹٹولا، کھانے کی خواہش کو مفقود ہی پایا. کچھ ہی دیر میں پلیٹ فارم نمبر ۶ پر ہماری ٹرین کی آمد کا اعلان ہوا۔ تیزی سے متذکرہ پلیٹ فارم پر پہنچا تو ٹرین اب پلیٹ فارم پر آتی دکھنی شروع بھی ہو گئی تھی. مسافروں کی طرف سے تھوڑی سی مزاحمت کے بیچ اپنی نشست تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور  فوراً گاڑی کھل بھی گئی۔ تھرڈ اے سی کا ایک بے رنگ سا ڈبہ اور ایک لمبے سفر کی تکان کا احساس۔ بے رنگ اس لیے کہ اے سی کلاس میں پردے وغیرہ کا جو تام جھام ’کرونا‘ سے قبل ہوا کرتا تھا، وہ اب نہیں تھا۔ سامان کو برتھ کے نیچے رکھنے کے بعد میں نے جیسے ہی نظر ذرا اوپر اٹھائی تو دیکھا کہ سامنے سائڈ والی برتھ کے مسافر نے ریلوے کی طرف سے جو دو چادریں ملی ہیں، انھی میں سے ایک کو دونوں سائڈ سے باندھ کر ایک جھونپڑی سی بنالی ہے۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر ذہن میں دبی ایک بہت پرانی بات یادآگئی۔ قریب تیس چالیس قبل جب دیہات میں شرفا کی خواتین بیل گاڑی پر سوار ہو کر نکلتی تھیں توگاڑی کے اوپر لکڑیوں اور چادروں کی مدد سے ایسی ہی جھونپڑی نما ایک ڈھانچہ تیار کر لیا جاتا تھا تاکہ کسی غیر مرد کی نظر سے بچا جا سکے۔ جدید سہولیات سے آراستہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی راجدھانی ایکسپریس کی انتظامیہ کی تھوڑی سی سستی کی وجہ سے ضرورت پڑنے پر لوگ کیسے پرانے جگاڑ کو اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اس کی ایک مثال سامنے دیکھ کر حیرت کر رہا تھا اور ریلوے کو اپنی پالیسی میں تبدیلی لانے کی ضرورت کا احساس کرانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ کچھ ہی دیر میں ’جھونپڑی‘ کے اندر سے ایک بچے کے رونے کی آواز آئی اور برابر آتی ہی چلی گئی۔ اسی کے ساتھ ایک عورت کے ذریعے اس بچے کو لوری دینے اور پھر  فوراً ہی ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی آوازیں بھی کمپارٹمنٹ کی خاموش فضا کو چیرتے ہوئے ذہن کو مکدر کرنے لگیں ۔اب پردہ پوری طرح ایک طرف سے کھسک کر دوسری طرف کو ہو چکا تھا۔ دیکھا تو اس ’جھونپڑی‘ میں بچہ اور عورت کے علاوہ ایک مرد بھی نظر آرہا تھا۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ معمولی شکل و صورت کی خواتین کبھی کبھی پردے کا اتنا زیادہ اہتمام کرلیتی ہیں کہ عام حالات میں اگر کوئی جمالیاتی طور سے حساس شریف النفس آدمی کی نظر ان پر پڑجائے تو پھر وہ زندگی بھر دوبارہ اُدھر دیکھنے کاحوصلہ نہیں کرپائے گا۔
 کچھ ہی دیر میں بیرا پانی کا بوتل تھما گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد آکر ڈنر کے بارے میں دریافت کیا۔ میں نے حامی بھری تو اس نے پوچھا کہ ویج (Veg) یا نان ویج (Non-Veg)؟ تھوڑے سے توقف کے بعد کہا : ویج ۔ گرچہ ریزرویشن کراتے وقت نان ویج کا ہی کالم فِل کیا تھا۔ لیکن نہ جانے کیا سوچ کر بیرے کو ویج لانے کا کہہ دیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ کبھی کبھی انسان کے تحت الشعور پر مذہب، کلچر اور روایت کی چھاپ اتنی گہری ہو تی ہے کہ وہ کسی بھی لمحے اس سے آزاد نہیں ہو پاتا، میرے ساتھ بھی شاید ایسا ہی کچھ ہوا۔ ویج  اور نان ویج کی گردان میرے ذہن کے پردے پر تیز تر ہو تی گئی لیکن ذہن یہ ماننے کے لئے بالکل تیار نہیں تھا کہ ایک اضافی چیز ’حلال‘ کے چکر میں ٹرین کی کینٹین کا عملہ کیوں کر دردسر مول لے گا؟
جب کہیں باہر سفر پر نکلتا ہوں تو عام حالات کے برعکس میرے تئیں میری بیگم کے دل میں محبت کا جذبہ کچھ زیادہ ہی شدید ہو جاتا ہے اور جیسا کہ اوپر عرض کیا، انھوں نے میری مرضی کے خلاف رات کے لیے ایک توشہ دان بھی ساتھ کر دیا تھا. عشائیہ کے لیے دسترخوان بچھایا تو خراب ہوجانے کے اندیشے سے اسے بھی نکال کر سامنے رکھ لیا۔ اب ایک طرف بیگم کے پیار کا مظہر تھا تو دوسری طرف ٹرین کے نئے ذائقے کو ٹیسٹ کرنے کی چاہت اور۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر! بات جو بھی ہو مگر کھانے کی ڈِشز کی کثرت کے سامنے میری خواہش بڑی کہتر نظر آ رہی تھی۔’فلائنگ کِس‘ کے انداز میں جلدی جلدی ان سبھی سے کچھ نہ کچھ نوچ کھسوٹ کھایا، نئے ذائقے کا لطف بھی لیا اور بیگم کے پیار کا احساس بھی کیا۔ بہرحال شکم سیر ہوکر فوراً ہی بستر بچھا کر لیٹ گیا ۔ چونکہ مجھے اونچے تکیے کی عادت ہے لہذا کمبل کو تہہ کرکے تکیے کے او پر ڈال لیااور ایک چادر کو بچھا کر دوسری کو اوڑھ لیا۔ اس طرح سے کچھ ہی دیر میں نیند کی آغوش میں پہنچ گیا۔
 غالباً رات کا ایک ڈیڑھ بج رہا ہوگا، بلڈ پریشر کی دوا کی وجہ سے میرے اوپر نیند کا بھاری غلبہ تھا کہ اچانک سامنے والی’جھونپڑی‘ میں سے ایک بار پھر بچے کی دھاڑیں مار کر رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ دل ہی دل میں جز بز ہوا لیکن کر بھی کیا سکتا تھا۔ اے سی کلاس کا ٹکٹ لیتے ہوئے آدمی کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ کوچ میں سکون رہے گا، پڑھنے لکھنے کا پورا موقع ملے گا یا پھر کسی خاص موضوع پر اطمینان سے’ غوروفکر‘ ہی کر سکے گا۔ مگر یہاں تو حالات بالکل برعکس تھے، کیونکہ وہ خاتون اب بھی گھوڑا بیچ کر سو رہی تھی اور بے فکری کی نیند کے مزے لوٹنے میں لگی ہوئی تھی۔ شاید وہ اس فکر کی حامل رہی ہوگی کہ بچے کو کبھی بھی رونے اور چیخنے چلانے کا پورا لائسنس حاصل ہے۔ چاہے دیگر لوگوں کا آرام اور اس کی نیندیں بھاڑ ہی میں کیوں نہ جائیں۔عورت کی اس لاپرواہی پر غصہ تو بہت آرہا تھا، مگر ۔۔۔۔۔میں نے سختی سے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور لمبی، گہری سانسیں لینے لگا۔ پھر نہ جانے کب نیند آگئی۔
صبح کے چھ سات بجے کا وقت رہا ہوگا، درمیان والی برتھ پر سوار مسافر اچانک نیچے آ دھمکا۔ عمر کوئی چالیس کے آس پاس رہی ہو گی۔۔۔۔۔ نیچے اتر کرکہنے لگا کہ ’اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم اپنی برتھ فولڈ کر کے نیچے بیٹھ جائیں، مجھ سے اب لیٹا نہیں جارہا ہے‘۔ میں نے لیٹے ہی لیٹے اس سے کہا: بھئی! ابھی رات کافی ہے، تم ابھی اوپر ہی جا کر بیٹھو، میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اس لیے ابھی کچھ دیر اور سونا چاہتا ہوں۔ اس نے کوئی ضد نہیں کی، وہ بھلے مانس کی طرح  فوراً ہی اوپر اپنی برتھ پر چلا گیا۔ بعد میں جب اپنی نیند مکمل کر چکا تو خود ہی اس کو آواز دی اور کہا کہ’اب تم اپنی برتھ فولڈ کر سکتے ہو۔۔۔۔۔۔‘ وہ فوراً اپنی برتھ فولڈ کرکے نیچے آکر بیٹھ گیا۔ کافی دیر تک اس سے مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ دوران گفتگو پتہ چلا کہ اس کا نام گورویندر سنگھ ہے، پنجاب کے سنگرور ضلعے کا رہنے والا ہے اور بالاسور میں جاب کر تا ہے۔ یہ سب بتاتے ہوئے کہیں نہ کہیں وہ شرمندگی محسوس کر رہا تھا کہ پنجاب جیسے خوش حال اور زر خیز علاقے کو چھوڑ کروہ کہیں اور جاب کے لیے جا رہا ہے۔ اس درمیان اور بھی کئی مسافر درمیانی اور اوپر والی برتھوں پر آتے گئے جن میں اکثریت خواتین کی تھی، یہ کچھ اسٹیشنوں کا سفر کر کے اتر جاتیں لیکن بالاسور تک یہ لڑکا ساتھ رہا۔ بالاسور پہنچا تو اسی نے ٹرین سے اترنے میں میری مدد کی، اس کی رفاقت کی وجہ سے بیگ وغیرہ اتارنے میں کافی مدد ملی۔ از راہ تشکر میں نے چند جملے کہے تو چلتے وقت وہ موبائل نمبر کا تبادلہ کرتے ہوئے رخصت ہوا۔
بالا سور میں’ اڈیشا اردو اکادمی‘ کے ذمہ داران نے جس ہوٹل میں میرے ٹھہرنے کا انتظام کیا تھا، وہ تین ستارہ ہوٹل تھا، نام تھا ’پنج جنیہ‘۔ چونکہ یہ ہوٹل اسٹیشن سے بالکل قریب ہی واقع تھا، اس لیے میں نے اکادمی کے عملے کو اسٹیشن پر آنے سے منع کردیا تھا۔ خود ہی آٹو لے کر ہوٹل پہنچ گیا. ہوٹل پہنچنے کے دورانیہ میں اچٹتی سی نگاہ آس پاس کے مناظر پر ڈالتا رہا۔ یہاں کے حسن سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پہلا تاثر ذہن میں یہ آیا کہ شمالی ہند کے شوخ و چنچل حسن کے برخلاف یہاں کی نازنینوں میں معصومیت و ملاحت کے عناصر زیادہ واضح ہیں۔ اسی کیفیت میں گم ہوٹل کے گیٹ پر پہنچا تو یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ یہاں پر کہیں بھی ہوٹل کے نام کی تختی یا کوئی سائن بورڈ وغیرہ کچھ بھی نہیں لگا ہے، جس سے شناخت ہو سکے۔ اسی کے ساتھ جگہ بھی بڑی سنسان لگ رہی تھی، حالانکہ مین روڈ پاس میں ہی تھا۔ پیچھے مڑ کردیکھا تو آٹو والا غائب۔اب یہ فکر ستانے لگی کہ اگر یہ ہوٹل ’پنج جنیہ‘ نہیں ہو ا تو پھر کیا ہوگا؟ ’آگے کنواں، پیچھے کھائی‘ والی مثل پورے طور پر صادق آرہی تھی۔ ابھی انھی سوچوں میں گم تھا کہ سامنے اندر کی جانب ایک شخص نظر آیا، آگے بڑھ کر پوچھا کہ’ کیا یہ ’پنج جنیہ‘ ہوٹل ہے؟ اس نے اثبات میں سر ہلایا، تب جاکر تسلی ہوئی۔ پھر وہ خود ہی میرے سامان کو لے کر ہوٹل کے کاؤنٹر پر پہنچا۔ یہاں پر منیجر نے تفصیلات کی خانہ پری کے لیے ایک فارم میری طرف بڑھایا۔ فارم قدرے طویل تھا اور میرا چشمہ سامان کے ساتھ بیگ کے اندر ہی پیک تھا، لہذا میں نے اندازاََ قلم چلانا شروع کر دیا۔ بہ مشکل چند ایک خانے اس کی ہدایت کے مطابق پُر کیے ہوں گے کہ اس نے فارم پر دستخط کرواکر مجھ سے لے لیا۔ اب ہوٹل کے اسی ملازم کی معیت میں اپنے کمرے کی طرف چلا۔ روم تک پہنچا کر اس نے مجھ سے لنچ کے لیے پوچھا، میں نے نفی میں جواب دیا کیوں کہ کچھ ہی دیر قبل ٹرین میں لنچ کر چکا تھا۔ البتہ شام کی چائے و ناشتے وغیرہ کے بارے میں تفصیلات معلوم کیں۔ اس کے بعد پانی کی دو بوتلیں رکھ کر وہ وہاں سے چلا گیا. اس کے جانے کے بعد میں فریش ہوکر بستر پر آگیا. سوچا کہ پہلے کچھ دیر نیند لے لوں پھر ’مقالے‘ پر نظر ثانی کروں گا۔ مگر گدے میں اس قدر زیادہ فوم پڑا تھا کہ جس سائڈ بھی کروٹ لیتا، گدے کے اندر دھنستا چلا جاتا اور اسی تناسب سے دوسری سائڈ اوپر کو اٹھ آتی۔ الغرض کسی بھی طرح سے نیند کا آنا محال لگ رہا تھا۔ اپنی یہ حالت دیکھ کر علامہ اقبال کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ کہیں پڑھا یا سنا تھا کہ جب والیِ ریاست بھوپال کی دعوت پر اقبال بھوپال تشریف لے گئے اور نواب صاحب کے مہمان بنے تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ واقعہ پیش آیا تھا۔ بستر کے حد درجہ نرم گداز ہونے کی وجہ سے وہ سو نہ سکے اور ساری رات کروٹیں بدلتے ہی گزار دیے۔ صبح کو جب خادم خبرخیریت کے لیے ان کے کمرے میں پہنچا تو ان کو باتھ روم کے فرش پر لیٹے ہوئے پایا۔ اسی طرح کی عجیب کیفیت میرے ساتھ بھی پیش آرہی تھی۔ دریں اثنا اڈیشا اردو اکادمی کے سیکرٹری ڈاکٹر سید مشیر عالم کا فون آگیا۔ حال احوال کے بعد کہنے لگے کہ میں ساڑھے آٹھ بجے تک ہوٹل پہنچ رہا ہوں، ڈنر آپ تمام معزز مندوبین کے ساتھ ہی کروں گا۔ فون رکھ کر پھر لیٹ گیا لیکن مشکل سے تھوڑی نیند آئی ہوگی کہ بیرا روم کھٹکھٹانے کے بعد خود ہی اندر داخل ہو گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ چائے کے ساتھ شام کے ناشتے میں اور کیا چیز مل سکتی ہے؟ اس نے سب سے پہلے مختلف انواع و اقسام کے پکوڑوں کے نام گنوانے شروع کردیے۔ میں نے اس کو درمیان میں ہی روکا اور پنیر پکوڑے کے بارے میں پوچھا۔۔۔۔۔ اس نے کہا کہ جو بھی چیز آپ لینا چاہیں گے، مل جائے گی لیکن وہ فل پلیٹ ملے گی۔ آپ ہاف پلیٹ یا کوارٹر پلیٹ منگوائیں گے تو بھی وہ فل پلیٹ ہی شمار ہوگی۔ میں نے بہت زیادہ سمع خراشی کو برداشت نہ کرتے ہوئے سیدھے سیدھے صرف چائے اور پنیر پکوڑے کا آرڈر دے دیا۔ وہ فوراً ہی چائے اور پنیر پکوڑے لے کر نمودار ہوگیا۔ خیر چائے وائے سے فارغ ہونے کے بعد صبح کو پڑھے جانے والے اپنے مقالے کی قطع و برید میں لگ گیا۔
کام سے فارغ ہو کر ابھی میں اپنی گھڑی دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک سیکرٹری صاحب کے پی اے کا فون آیا کہ ’ سیکرٹری صاحب ڈائننگ ہال پہنچ چکے ہیں، آپ بھی پہنچیں‘۔ بیرے نے مجھے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ آپ لوگوں کے لیے  فش کا اسپیشل آرڈر دیا گیا ہے۔ چنانچہ میں تیار ہوکر کچھ ہی دیر میں ڈائننگ ہال پہنچ گیا۔ سیکرٹری صاحب نے خوش مزاجی سے ہمارا استقبال کیا ، بشاشت ان کے چہرے سے جھلک رہی تھی ۔ان کے علاوہ جو چند لوگ وہاں پر موجود تھے ان میں ڈاکٹر احمد بدر صاحب (کریم سٹی کالج ،جمشید پور)، ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ (سریندر کالج فار وومین، کولکتہ)، ڈاکٹر ایاز احمد صاحب (گورنمنٹ انٹر کالج، اٹوا، سدھارتھ نگر) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ ہم نے ایک دوسرے سے سلام کلام کے بعد کھانا شروع کیا۔ پوری ٹیبل ہی انواع و اقسام کی ڈشز سے بھری ہوئی تھی۔ مچھلی کے قتلوں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ مچھلی کی جسامت آٹھ دس کلو سے کم کی نہیں رہی ہوگی۔ سیکرٹری صاحب کے باربار اصرار پر ہم لوگوں نے لذت کام و دہن کی ساری حسرتیں پوری کر ڈالیں اور شکم سیر ہو کر اللہ پاک کا نام لیا۔ ڈائننگ ٹیبل سے اٹھتے ہوئے اشاروں اشاروں ہی میں سیکرٹری صاحب نے بتادیا کہ صبح کا ناشتہ ہو ٹل والوں کی طرف سے ہے جو ’فری ‘ ہے۔ لہذا صبح کو جو کچھ بھی سامنے آئے، اس سے پورے طور سے متمع ہوں. کھانے سے فارغ ہو کر ہم نے ہوٹل کے کیمپس میں تھوڑی سی چہل قدمی کی، پھر اپنے اپنے کمرے میں آگئے اور میں ایک بار پھر اپنے مقالے کی نوک پلک درست کر نے میں لگ گیا۔ اس سے فرصت ملی تو کچھ دیر موبائل پر ہاتھ صاف کیا اور سونے کے لیے بستر پر آگیا۔ بستر کا حال میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ اس کی نرم گدازی ہی میری نیند کے لیے آفت بن رہی تھی۔ لیکن سفر کی تکان چونکہ ابھی بھی غالب تھی، اس لیے کروٹ کی ادلا بدلی میں کب نیند آ گئی، خبر نہ ہوئی اور صبح اس وقت آنکھ کھلی جب بیرے نے ڈور بیل بجاکر جگایا. جلدی سے اٹھ کر غسل وغیرہ سے فارغ ہوکر کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ سیکرٹری صاحب نے ناشتے کے لیے فون کر دیا، وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ ناشتے کی ٹیبل پر پہلے سے ہی موجود ہیں۔
ناشتے کے بعد فقیر موہن یونی ورسٹی (ایف ایم یو)، جہاں یہ سیمینار منعقد ہونا تھا، وہاں جانے کی تیاری میں جُٹ گیا۔ کچھ ہی دیر میں گاڑی آگئی. ہم لوگ سوار ہو کر ایف ایم یونی ورسٹی کے لیے نکل پڑے. ہوٹل سے سیمینار ہال کی مسافت مشکل سے آٹھ دس کلومیٹر رہی ہوگی۔ گاڑی میں بیٹھ کر گفتگو کا سلسلہ پھر شروع ہوا تو ہم نے یونی ورسٹی کے بارے میں جاننا چاہا۔ ہمیں بتایا گیا کہ فقیر موہن یونی ورسٹی اڑیہ زبان کے مشہور شاعر و ادیب، مفکر اور سماجی مصلح فقیر موہن سیناپتی (1847-1918) کے نام سے موسوم ہے. فقیر موہن کا شمار اپنے وقت کے گنے چنے اساتذہ میں ہوتا تھا۔ اڑیہ زبان اور نسل کو مستحکم شناخت دلانے میں اور ان کے اندر قوم پرستی کا بیج بونے میں فقیر موہن کا بنیادی کردار رہا ہے، اس لیے انھیں جدید اڑیہ ادب کا بانی بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی فکر کی اشاعت و ترسیل کے لیے اڑیہ زبان میں کئی رسالے نکالے اور ناول، افسانے اور شعری مجموعے یادگار چھوڑے۔ ان کی طویل نظم ’اُتکلا برہمانم‘ کو اڑیہ زبان و ادب میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔۔۔۔ یہ معلوماتی گفتگو جاری تھی کہ ہم لوگ سیمینار ہال پہنچ گئے۔ وہاں پر ہمارا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ پورا ہال طلبہ و طالبات، اساتذہ اور باذوق سامعین سے کھچاکھچ بھرا تھا. طلبہ کے مقابلے میں طالبات کی تعداد زیادہ تھی۔ سب سے پہلے اسٹیج پر سبھی بیرونی و مقامی مندوبین کی گل پوشی کی رسم پوری کی گئی۔ اس کے بعد پوسٹ گریجویٹ کونسل کے چیئرمین پروفیسر منیش چند ادھیکاری کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ ادھیکاری صاحب یونی ورسٹی کے فزیکس ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر ہیں۔ ان کی تقریر انگریزی زبان میں تھی لیکن انھوں نے اپنی باتوں کو سمجھانے کے لیے بیچ بیچ میں اڑیہ زبان کا بھی سہارا لیا۔ آپ نے احمد وصی کے اس شعر پر اپنی بات ختم کی :
وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے
  اس نوع کی گفتگو سے ان کی اردو زبان و ادب سے شغف ظاہر ہورہی تھی اور ہم بطور خاص محظوظ بھی ہو رہے تھے اور اردو کی مرکزی بستیوں سے دور بہت دور اردو کی مقبولیت و محبوبیت کا مشاہدہ کر کے حیرت زدہ بھی تھے۔ ادھیکاری کے بعد یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سنتوش کمار ترپاٹھی کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ وائس چانسلرصاحب کی گفتگو بھی انگریزی میں ہی تھی۔ وہ خود بھی اڑیہ زبان کے شاعراور افسانہ نگار ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے نہ صرف اردو زبا ن و ادب کی جم کر تعریف و تحسین کی بلکہ انھوں نے اپنی یونی ورسٹی کے اساتذہ سے اردو زبان سیکھنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ دوران گفتگو وہ یہاں تک کہہ گئے کہ اس یو نی ورسٹی کے جس شعبے میں پہنچ کر انھیں سب سے زیادہ تسکین قلب حاصل ہوتی ہے، وہ یہاں کا شعبۂ اردو ہے۔ شعبے کے اساتذہ کی طرف سے ان کو مل رہی عزت و اکرام کا انھوں نے بطورخاص ذکر کیا۔ فیض کے اس شعر پر انھوں نے اپنی گفتگو ختم کی :
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کے گلشن کا کاروبار چلے
اس کے بعد اڈیشا اردو اکادمی کے سیکرٹری ڈاکٹر سید مشیر عالم کو خطاب کی دعوت دی گئی. آپ نے تمام ہی سیمینار کے شرکا و سامعین کو خوش آمدید کہا، ان کا دل کھول کر استقبال کیا اور ساتھ ہی سیمینار کے اغراض و مقاصد پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی. انھوں نے اڈیشا اردو اکادمی کی سرگرمیوں کا بھی اجمالاََ تعارف کرایا۔
افتتاحی سیشن کی آخری کڑی کے طور پر ڈاکٹر احمد بدر صاحب کو کلیدی خطبے کے لیے دعوت دی گئی۔ اپنے خطبے میں انھوں نے پروفیسر کرامت علی کرامت کی ہمہ جہت شخصیت پر روشنی ڈالی اور خاص طور سے اڑیہ زبان و ادب سے ان کی دل چسپی و لگاؤ کا ذکر کیا جو خود اردو زبان و ادب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے بھی ایک نادر و نایاب چیز تھی، جسے سامعین نے خوب سراہا۔ اس سیشن کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر شاداب عالم (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو، ایف ایم یونی ورسٹی) نے انجام دیے۔ ڈاکٹر شاداب عالم، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں۔ کچھ دنوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی تدریس کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ معلوم ہو رہا تھا کہ آپ نے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور ہندی زبان و ادب کا بھی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ کیونکہ آپ نے اپنی باتوں کو باوزن و بامعنی بنانے کے لیے موقع بہ موقع اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور ہندی زبان و ادب کے شعری و نثری حوالوں کا بہ خوبی سہارا لیا۔
 چائے کے مختصر وقفے کے بعد سیمینار کے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا۔ اس سیشن میں خاص طور سے باہر سے آئے مندوبین نے اپنے اپنے مقالے پیش کیے جس میں یہ نابکار بھی شامل تھا۔ میرے مقالے کا موضوع تھا ’تنقید کا سنگ میل: کرامت علی کرامت‘۔ میں نے اپنے پیپر کے توسط سے بتایا کہ :
 ’’پروفیسر کرامت علی کرامت ایک معتبر تنقید نگار ہونے کے ساتھ ایک اعلا پائے کے شاعر بھی ہیں۔ جہاں اردو شعر و ادب میں ان کے مجموعے ’شاخ صنوبر‘ ، ’گل کدۂ صبح شام‘ اور’شعاعوں کی صلیب‘ ان کی شہرت عام اور بقائے دوام کے ضامن ہیں، وہیں ان کی شاعری کے انگریزی ترجمے ’ God Particle and Other poems،‘  اور ’The Story of the way and other poems‘ بھی بڑے پیمانے پر دنیا میں اردو شعر و ادب کے تعارف کا ذریعہ بنے ہیں۔
دراصل کرامت علی کرامت کی شاعری کے یہ مجموعے اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ وہ ایک اچھے ناقد تھے کیونکہ کسی شاعری میں موجود شاعر کے تخلیقی کرب کو سمجھے بغیر شاعری کے حسن و قبح کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ ایسی خوبی ہے جس سے ایک اچھے تنقید نگار کا واقف ہونا لازمی ہے۔ کرامت علی کرامت کو یہاں پر یہ فضیلت بھی یہ حاصل ہے کہ ایک سر کردہ نقاد ہو نے کے ساتھ ایک مخصوص ادبی تھیوری کے بھی بانی مبانی ہیں، جس کو انھوں نے ’اضافی تنقید‘ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو اردو تنقید کے ایک سنگ میل کے طور پر یاد رکھا جائے گا ‘‘۔
اس سیشن کے اختتام پر لنچ کے وقفے کا اعلان ہوا، جس کا اہتمام اکادمی کی طرف سے ہی کیا گیا تھا۔ اس میں طلبہ، اساتذہ اور مندوبین سبھی نے شرکت کی۔ باہر سے آئے مہمانوں کی خدمت میں وہاں کے اساتذہ و طلبہ بچھے جارہے تھے۔ ایسا جذبہ کم ہی جگہوں پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ کھانے کے بعد کچھ دیرکے لیے میں  شعبۂ اردو کی طرف چلا گیا جو پاس ہی میں تھا۔ شعبے کی پوری عمارت صفائی ستھرائی کا ایک الگ ہی نظارہ پیش کر رہی تھی اور پوری بلڈنگ آئینے کی طرح چمک رہی تھی۔ اساتذہ کے چیمبرس بہت ہی زیادہ کشادہ، کمپیوٹر، پرنٹر و دیگر تمام ہی جدید سہولیات سے آراستہ تھے۔شعبۂ اردو میں ہی میری ملاقات شعبے کے ایک استاد ڈاکٹر محمد شارب سے ہوئی، آپ حیدر آباد سنٹرل یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں اور ایک ذی علم و منکسر المزاج شخصیت کے مالک ہیں۔
کچھ ہی دیر میں خبر پہنچی کہ بہت جلد سیمینار کا تیسرا سیشن شروع ہونے جارہا ہے۔ ہم نے فوراً ہی سیمینار ہال کا رخ کیا۔ یہ سیشن خاص طور سے مقامی کالجز اور یونی ورسٹیز کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز کے لیے وقف تھا، جو دیر شام تک چلتا رہا۔ سیمینار کے خاتمے پر ایک بار پھر ہم ہوٹل میں تھے۔ سیمینار کے دوران میں ہی ہم لوگوں کو ڈاکٹر شمشاد عالم نے اپنے گھر پر عصرانے کی دعوت دے دی تھی، جس میں پہنچنا ضروری تھا۔ مختصر سے آرام کے بعد ہم سبھی لوگ ان کے دولت کدے کی طرف نکل پڑے۔ موصوف نے لذت کام و دہن کا پرتکلف انتظام کر رکھا تھا۔ دسترخوان پر مقامی و بین الاقوامی نوعیت کی مٹھائیوں و نمکین اور بسکٹ و مشروبات کے وافر حصے کو سجا دیا تھا۔ گفتگو ہوتے ہوتے شام ہو چکی تھی، اس لیے ہم اس یادگار عصرانے کے میزبان سے اجازت لے کر ہو ٹل لوٹ آئے۔ ایک بار پھر رات کا کھانا اور صبح کا ناشتہ ہم لوگوں نے سیکرٹری صاحب کے ساتھ کیا اور ایک دوسرے کو الوداع کہتے ہوئے اپنے اپنے مستقر کی طرف روانہ ہوگئے اس امید کے ساتھ کہ ایک نئی جگہ پر ایک نئے سیمینار میں پھر ملاقات ہوگی اور ہم ادب کے فروغ کے لیے اپنے حصے کی شمع یوں ہی جلائے رکھیں گے جیساتکہ پروفیسر کرامت علی کرامت نے اپنی زندگی کے روشن و تابناک مراحل کے ذریعے ہمارے سامنے ایک قابل تقلید مثال پیش کی ہے۔ (ختم شد)
Dr. Mujahid Ul Islam
Asisstant Professor, MANUU Lucknow Campus, 504/ 122, Tagore Marg, Near Shabab Market, Daliganj , Lucknow -226020
Mob. 9628845713
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : سلیم محی الدین کے شعری امتیازات
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے