امجد اسلام امجد اور ابن کنول کے نام

امجد اسلام امجد اور ابن کنول کے نام

مسعود بیگ تشنہ

ابنِ کنول کے نام
نظم : موت کا خاکہ
موت نے ایسا خاکہ کھینچا
ابنِ کنول بھی ڈھیر
سانس کی ڈوری ایسی کھینچی
ہو جائے نہ دیر

‘بند راستے` کے یہ فسانے
عالمِ آب و گِل کے فسانے
خاکے، افسانے، تنقید
یہ سب ترتیب و تدوین
ہکّا بکّا ہیں سب سارے
صدمے میں سب غم کے مارے

عالمِ آب و گِل سے نکل کر
اور اعمال کی پوتھی لے کر
کچھ خوش کچھ شرمندہ ہوں گے
دائیں ہاتھ سے لینے والے
سب خوش ہوں گے
ابنِ کنول بھی اُن لوگوں میں شامل ہوگا
نیک اعمال کی پوتھی لے کر
*
(11 فروری 2023 ،اِندور ،انڈیا)

امجد اسلام امجد اور ابنِ کنول کے نام
نظم : موت کا اشتہار
موت بھی اشتہار ہے
اچھے برے کاموں کا
کچھ سچّی کچھ گڑھی
باتوں کا، یادوں کا
آواز، تصویر، شبد، پنّے
ان گِنت بار دیکھے سُنے
اور دہرائے جائیں گے
پھر دھیرے دھیرے
ماند پڑ جائیں گے

پھر کسی کی موت آئے گی
موت آتی رہے گی
پھر کوئی موت
پھر کوئی اشتہار
یہیں چسپاں رہ جائے گا
موت کا اشتہار!

کسی دن اپنی موت بھی
آ جائے گی بِنا انتظار
پھر وہی اشتہار
یہیں چسپاں رہ جائے گا
موت کا اشتہار
ہاں موت کا اشتہار
*
(11 فروری 2023 ،اِندور ،انڈیا)
مسعود بیگ تشنہ کی گذشتہ تخلیق :کیسے مزے سے سو گئے!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے