لطف الرحمن کی تنقید: ایک بازدید

لطف الرحمن کی تنقید: ایک بازدید

ڈاکٹر قیصر زماں

جدید ادبی تنقید یا نئی تنقید کے رجحان کو عام کرنے والوں اور اس کے خط و خال مرتب کرنے والوں میں آل احمد سرور، خلیل الرحمن اعظمی، شمس الرحمن فاروقی، محمود ہاشمی، وارث علوی، وحید اختر، باقر مہدی، فضیل جعفری، گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی (ہندستان میں) اور پاکستان میں محمد حسن عسکری، وزیر آغا، سلیم احمد، شمیم احمد وغیرہ کے ساتھ ساتھ لطف الرحمن کا نام اور کام نا قابل فراموش ہیں۔ لطف الرحمن کا اختصاص یہ ہے کہ انھوں نے جدیدیت کے ہراول دستے میں عجلت سے نہیں بلکہ بڑی سنجیدگی اور متانت کے ساتھ قدم رکھا۔ انھوں نے شمس الرحمن فاروقی، محمود ہاشمی، فضیل جعفری اور عمیق حنفی کی طرح ترقی پسندوں سے پنجہ آزمائی نہیں کی بلکہ جدید افکار و خیالات، ادبی رجحانات کو بڑے ہی سلیقے اور سنجیدگی سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوششیں کیں۔
لطف الرحمن بنیادی طور پر شاعر ہیں اور جدید لب و لہجے کے نمائندہ شعرا میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان کے شعری مجموعے، ان کی غزلیں اور نظمیں اس پر دال ہیں۔ ان کا مطالعہ بے حد وسیع تھا، مشرقی اور مغربی ادبی رجحانات اور افکار کا بالواسطہ مطالعہ کیا تھا۔ ان کی تنقیدی نگارشات میں فکر و آگہی کا گہرا شعور اور عرفان نظر آتا ہے۔
١٩٦٠ء کے بعد جدیدیت کی لہر اور جدید رجحان کو عام کرنے والوں میں شمس الرحمن فاروقی اور ان کا رسالہ ”شب خون“ کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ ١٩٦٧ء میں ”جدیدیت اور ادب“ کے موضوع پر علی گڑھ میں سرور صاحب کی سربراہی میں ایک بڑا اور اہم سمینار کا انعقاد ہوا تھا۔ اس موضوع پر کتاب بھی شائع ہو چکی ہے۔ اس میں جدید نقادوں اور فن کاروں کے علاوہ ترقی پسندوں نے بھی حصہ لیا، خصوصی طور پر احتشام حسین، پروفیسر عقیل احمد رضوی، پروفیسر محمد حسن اور قمر رئیس وغیرہ نے مقالہ بھی پڑھا، مذاکرے اور بحث میں حصہ بھی لیا۔ اسی سمینار نے ترقی پسندی اور جدیدیت کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی۔ اسی زمانے میں اختر علی تلہری، رشید احمد صدیقی، عمیق حنفی اور احتشام حسین کے درمیان ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی گرما گرم بحثیں بھی ہوئیں۔ ان بحثوں کو احتشام صاحب کی کتاب ”روایت اور بغاوت“، ”پس منظر اور پیش منظر“ کے علاوہ ”شب خون“ کے شماروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سمینار میں وحید اختر نے کہا تھا کہ ”جدیدیت ترقی پسندی کی توسیع ہے۔“ انھوں نے روحانی اور ما ورائی تصور حیات کے بجائے سائنسی رویے کو جدیدیت کے لیے لازمی قرار دیا۔ ان کا یہ خیال کہ مارکس کی جدلیاتی مادیت نے جماعت پر ضرورت سے زیادہ زور دیا۔ اس لیے اس کے نتیجے میں جو ادب پیدا ہوا اس میں فرد کی ذات کا انکشاف بہت کم ہو سکا۔ اس لیے موجودہ دور میں وجودیت کے فلسفے کی طرف ادیبوں کی توجہ زیادہ ہے کیوں کہ وجودیت فرد کی ذات کا اثبات کرنے کے بعد کائنات سے اپنا رشتہ جوڑتی ہے، جو جدلیاتی مادیت کے نتیجے میں سامنے آیا تھا. یعنی وہ تحریک جسے ہم ترقی پسند تحریک کہتے ہیں وہ سارتر کی وجودی فکر کو عہد حاضر کی سب سے موثر قوت مانتی ہے۔ اسی لیے وحید اختر نے جدیدیت کو ترقی پسندی کی توسیع کہا ہے۔ اسی کے بعد لطف الرحمن ”جدیدیت: ایک موضوعی مطالعہ“ کے عنوان سے ایک معرکے کا مضمون لکھا اور انھوں نے جدیدیت کو ”وجودیت“ کا بنیادی حوالہ قرار دیا اور لکھا کہ:
”جدیدیت وجودیت کی توسیع ہے، میرے نزدیک جدیدیت کے غالب رجحانات فلسفۂ وجودیت کی مختلف لہریں ہیں، لیکن ان میں دوسرے نظریات و افکار، علوم و فنون کی قدریں بھی عصری تقاضوں کے تحت شامل ہو گئی ہیں۔“
(”جدیدیت:ایک موضوعی مطالعہ“)
لطف الرحمن نے وجودیت کو بنیادی حوالہ قرار دیتے ہوئے دوسرے علوم و افکار کی ادبی معنویت سے انکار نہیں کیا، چونکہ شعر و ادب میں کوئی تحریک یا رجحان یکا یک نمودار نہیں ہوتے بلکہ ادبی روایت سے ہی نئے اور جدید افکار و خیالات پنپتے اور نمو پاتے ہیں۔ عصری ادب یا عصری حسیت روایت کی کوکھ ہی سے جنم لیتے ہیں۔ اسی لیے عصری ادب اور ادبی روایت کے تعلق کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔ عسکری صاحب نے کہا ہے کہ: [؟] 
لطف الرحمن کی کتاب ”جدیدیت کی جمالیات“ جو ١٩٩٣ء میں منظر عام پر آئی۔ اس کے مرتب ڈاکٹر شاداب رضی ہیں۔ انھوں نے اپنے مقدمے میں یہ بات کہی کہ
”مقدمہ شعر و شاعری، مطبوعہ ١٨٩٣ء کے حوالے سے جدید اردو تنقید کی صدی تقریبات کا سلسلہ شروع ہونا چاہئے۔ چنانچہ ”جدیدیت کی جمالیات“ کی اشاعت کو اس سلسلے کا نقطہ آغاز کہنا شاید نا مناسب نہ ہوگا۔“
(”جدیدیت کی جمالیات“مرتب:شاداب رضی،ص:۱)
”جدیدیت کی جمالیات“ جس کے مندرجات یہ ہیں: ”جدیدیت کے مضمرات“، ”جدیدیت ایک موضوعی مطالعہ“، ”وجودیت کے موضوعات“، ”وجودیت اور جمالیات“، ”مارکسیت اور وجودیت“، ”جدیدیت کی روایت“ کے علاوہ تجزیے کے طور پر تین مضامین ”احساس تنہائی اور نئی غزل“، ”خانے اور تہ خانے“ اور ”بیانات“ مسائل کے عنوان سے دو مضمون”ترسیل کی ناکامی“ اور ”عصری ادب اور میری پہچان“۔ اس کتاب میں چھ نظریاتی مضامین جدیدیت کے رجحان اور رویہ، علوم و افکار کو سمجھنے میں بڑے ہی معاون ہیں۔ یہاں جدید ادبی تھیوری اور جدید نظریاتی بحثیں نظر آتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ان نظریات اور رجحانات کے عملی اور اطلاقی نمونے کے طور پر نئی غزل، غیاث احمد گدی کا افسانہ اور جوگندر پال کے ناولٹ پر اطلاقی اور تنقیدی نمونے مل جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لطف الرحمن نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے کسی فن پارے کا مطالعہ کس طرح کرتے ہیں اور ان تناظر اور رجحان سے فن پارے کا مطالعہ کیا نکتہ پیش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جدیدیت میں ترسیل کی ناکامی پر بڑے ہی فکر انگیز خیالات مل جاتے ہیں۔ اس کتاب کا سب سے طویل مضمون ”عصری ادب اور میری پہچان“  ہے جو تقریباً ٨٠/صفحات پر پھیلا ہوا ایک بھرپور اور عمدہ مضمون ہے۔ جس میں جدیدیت اور جدید ادب کے تعلق سے بڑی ہی کار آمد گفتگو پیش کی گئی ہے۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ جدیدیت کے رجحان میں ان کا یہ مضمون ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتاب میں ”اردو تنقید کا نیا نصاب“ کے عنوان سے وہاب اشرفی نے لکھا ہے کہ:
”لطف الرحمن کے یہاں انسانی تباہی کے خوف کا احساس، ان کی تنقید کے مرکزی تصور پردال ہیں۔۔۔ ان کی تنقیدی روش میں اخلاقی قدروں کا احترام ایک روشن لکیر ہے، جن کی شکست و ریخت حقیقتاً انسان کی شکست و ریخت ہے۔ تباہی اور بربادی ہے۔۔۔ لطف الرحمن کی فنی تنقید اسی احساس کو جگاتی اور انسان، انسانیت اور دنیا کی سالمیت کے خطرات کو آئینہ دکھا کر ذی ہوش اور دانش مند بنانے کا مشکل کام سر انجام دیتی ہے۔“
(”جدیدیت کی جمالیات“)
لطف الرحمن کی تنقید اردو کی ادبی روایت کا اعتراف بھی کرتی ہے اور عصری حسیت کے تقاضوں کو بھی بروئے کار لاتی ہے، یہ حقیقت ہے کہ ادب خلا میں پروان نہیں چڑھتا اور نہ ہی انسانی زندگی کسی کتاب کا سادہ ورق ہوتی ہے۔ اردو کا تنقیدی سرمایہ اپنی تہذیبی روایت کے تسلسل کا غماز ہے، چونکہ ادب و فن اپنے تہذیب کا مظہر ہوتا ہے۔ وارث علوی کہتے ہیں کہ:
”وہ (فن کار) ایک بڑی تہذیبی اور سماجی روایت کا وارث ہوتا ہے، لیکن اپنا ویژن اور اپنی اقدار آپ تخلیق کرتا ہے، جو اس روایت کی نفی نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہوتی ہے، کلاسیکیت کا مطالعہ ذہن کو ایک خوش گوار سنجیدگی عطا کرتا ہے، جب کہ محض عصری ادب سے لگاؤ جذباتی اور ذہنی خلفشار اور فکر و نظر کے انتشار کا موجب بنتا ہے۔“
لطف الرحمن کی تنقیدی نگارشات میں کلاسیکیت کا شعور اور عصری حسیت کا آگہی و عرفان نظر آتا ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین کے عنوانات دیکھئے: عصر حاضر میں مثنوی معنوی کی اہمیت، اقبال ایشیائی بیداری کا نقیب، مخدومؔ، جوشؔ اور اقبالؔ، جوش اور غزل، شبلی کا تنقیدی رویہ، فرد کی آزادی کا مسئلہ اور غالب اور عہد غالب وغیرہ عنوانات ان کی کتاب ”تعبیر و تقدیر“ میں شامل مضامین کے ہیں۔ ان عنوانات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لطف الرحمن نے کلاسیکیت اور جدیدیت کو اپنے مطالعے کا موضوع بنایا، ان کے فنی اور تجزیاتی مطالعے میں اکہرا پن نہیں بلکہ ان کے یہاں نظری اور عملی تقاضے بھر پور انداز میں مل جاتے ہیں، جس سے قاری ان کے وسیع مطالعے کا بہ خوبی اندازہ آسانی سے کر سکتا ہے۔ مجھے حیرت اور تاسف اس بات پر ہے کہ جدید تنقید کے اس منفرد نقاد کو اس طرح نہیں پڑھا گیا جیسا کہ دوسرے نقادوں کی فہرست سازی کی جاتی رہی ہے۔ ان کی تنقیدی روش اور رویے کو سمجھنے کے لیے ان کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں، جو انھوں نے اپنی کتاب ”جدیدیت کی جمالیات“ میں ”پیش آہنگ“ کے عنوان سے لکھا ہے:
”گذشتہ چند برسوں میں تاریخ نے بعض بے حد سفاک فیصلے رقم کیے ہیں۔ زوال روس، عصر حاضر کا ایک ایسا ہی سانحہ ہے۔۔۔ روسی نظام کا انتشار اشتراکی فلسفے کا مظہر نہیں بلکہ اشتراکی نظام کے ذمہ داروں کی ذاتی کمزوریاں اور شخصی ناکامیوں کا منظرنامہ ہے۔۔۔ چنانچہ انسانیت کی بقا کا سوال آج بھی اتنا ہی اہم ہے، جتنا زوال روس سے قبل تھا۔۔۔ بقائے انسانیت فن اور جمالیات کا بنیادی مسئلہ ہے۔۔۔ جدیدیت کی جمالیات اسی شعور اور ذمہ داری کا احاطہ کرتی ہے۔۔۔ جدیدیت کوئی منفی تحریک نہیں، بلکہ عصر حاضر کی میکانکی زندگی اور منتشر معاشرے میں مثبت اقدار حیات کی نایابی کی نوحہ خواں اور ان کی از سر نو بازیافت اور ترویج و توسیع کی نغمہ گر ہے، اس حقیقت کی تفہیم کے بغیر جدیدیت کی تفہیم مشکل ہے۔۔۔ یہی طرز فکر ان مضامین کی تحریر کا محرک رہا ہے۔“
(”جدیدیت کی جمالیات“)
مذکورہ بالا اقتباس میں لطف الرحمن نے واضح طور پر اپنے تنقیدی موقف اور اس کے نظری و اطلاقی پہلو کو اپنے پڑھنے والوں پر واضح کر دیا ہے۔ ان کی تنقیدی کتابیں ’جدیدیت کی جمالیات‘، ’نقد و نگاہ‘، ’نثر کی شعریات‘ اور ’تعبیر و تقدیر‘ میں شامل مضامین اور ان کے موضوعات پر ایک نگاہ ڈالنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کی تنقیدی نگاہ میں کس قدر وسعت، پھیلاؤ اور تنوع ہے۔
جدید ادبی تنقید کے علما اور ان کے ہم عصروں نے شعوری طور پر لطف الرحمن اور ان کی تنقید پر ایک ترچھی نگاہ بھی ڈالنا گوارا نہیں کیا، یہ ایک المیہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ جدید ادبی تنقید یا نئی تنقید کا منصفانہ جائزہ لیا جائے تو کئی دوسرے اہم جدید نقادوں میں لطف الرحمن کا قد بلند نظر آئے گا۔ ان کی ناقدانہ بصیرت کے حوالے سے یہاں چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ شبلی کے تنقیدی رویے پر اظہار کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
”ادب فکر و فن کے امتزاج کا نام ہے۔ مختلف عہد میں مختلف نقادوں نے فکر و فن کو مختلف ناموں سے یاد کیا۔ مواد اور ہیئت، لفظ او رمعنی اور فکریات اور جمالیات کی اصطلاحیں اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ افلاطون اور ارسطو سے عہد حاضر تک نقادوں کی ایک قابل لحاظ تعداد تخلیق ادب کے لیے لفظ اور معنی یا مواد اور ہیئت کے امتزاج کو ناگزیر تسلیم کرتی رہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ علمائے ادب و انتقاد کے ترجیحی رویوں کے افراط و تفریط کو بھی راہ دی ہے۔“
(”تعبیر و تقدیر“)
علمائے نقد و ادب کے جن ترجیحی رویوں کی جانب لطف الرحمن نے اشارہ کیا ہے اس کی بہترین مثال [؟] ”جدید ادبی و تنقیدی رویوں“ کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جاتی ہے اور اسے انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے لیکن سچ پوچھیے تو یہ کتاب تنقیدی رویے سے زیادہ انعامی رویے کی مستحق قرار پائے گی۔ موجودہ ادبی تنقید میں نظریہ سازی اور تھیوری پر مغرب کے مردہ افکار و خیالات کی بھر مار مل جائے گی اور اس افراط و تفریط کے ماحول میں سنجیدہ علمی و ادبی، تہذیبی و فکری بحثیں جو ادب کے بنیادی تقاضے ہیں وہ پس پشت جا پڑے ہیں۔ اردو کا ادبی و تنقیدی رویہ چاپلوسی اور جعل سازی سے مالا مال ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ آج ہم اپنے اہم نقادوں کو اور ان کے تنقیدی افکار و خیالات کو پڑھیں اور سمجھیں اور ان کے تنقیدی افکار و خیالات سے کسب نور حاصل کریں تو ممکن ہے ادب و فن کے مثبت اقدار کی بحالی ہو۔ لطف الرحمن نے اپنی کتاب ”تعبیر و تقدیر“ کے پیش لفظ میں بڑے ہی واضح انداز میں لکھا ہے کہ:
”کتابیں کسی زمانے اور زبان کی ہوں، انسان کی دانشورانہ میراث ہیں، ان میں حسن، خیر و صداقت کے عناصر ہوتے ہیں۔ ہمدردی، اخوت اور رحم دلی کا جذبہ ہوتا ہے، جو کسی خاص قوم، ملک یا زمانے تک محدود نہیں ہوتا۔ عظیم کلاسیک میں فکر و نظر کی وسعت ہوتی ہے۔۔۔ تعمیر و ترقی کا آفاقی اور عالمگیر احساس ہوتا ہے۔ ابدیت کی لا زوال تجلی ہوتی ہے۔۔۔ کتابیں مختلف کلچر کے درمیان پل کا کام کرتی ہیں، زمانے اور وقت کی دوریوں کو ختم کرتی ہیں۔ تہذیبی اور قومی اختلاف کو مٹاتی ہیں۔۔۔تمام ماضی اور ساری دنیا کو دل میں زندہ رکھنا تہذیب کی علامت ہے۔ موجودہ عہد میں۔گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے کی کیفیت ہے۔ اس لیے آج مطالعۂ ادب زیادہ ضروری ہے۔“
(”تعبیر و تقدیر“)
لطف الرحمن کا تنقیدی زاویۂ نظر کلاسیکی اور جدید افکار سے ہم آہنگ ہے۔ ان کے مطالعے سے ادب پارے کی خوبی اور خامی اجاگر ہو جاتی ہے، ساتھ ہی فن پارہ جس تہذیبی اقدار و آثار کا مظہر ہے اس کی بھر پور نمائندگی بھی ہو جاتی ہے، لہٰذا ان کا طریقۂ کار بڑی حد تک تعمیم سے ہٹ کر تخصیص تک پہنچ جاتا ہے۔ ان کے یہاں اعلا درجے کی بصیرتیں اور آفاقی سچائیاں روشن نظر آتی ہیں جو جدیدیت کے ہیئت پسند نقادوں کے یہاں خال خال ہی نظر آئیں گی، ان کے یہاں وجدان اور شعور کا احساس نظر آتا ہے۔ اسی لیے ان کے تنقیدی تجزیے اور استدلال قاری کو ایک Insight عطا کرتے ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین ایسے Insights سے بھرے ہوئے ہیں۔ انھوں نے ادب کو صرف آنکھ سے نہیں بلکہ دل و دماغ سے بھی پڑھا ہے۔
اپنی کتاب”جدیدیت کی جمالیات“ کے ”پیش آہنگ“ میں لطف الرحمن لکھتے ہیں:
”یہ مجموعہ جدیدیت کی وکالت یا کسی تنقیدی ادعائیت پر مبنی نہیں بلکہ ادب کے ایک قاری کی حیثیت سے جدیدیت اور جدید حسیت پر میرے طرز احساس و ادراک کی تفسیر ہے۔ واضح رہے کہ افکار بڑی حد تک مشہور و مستند علمائے فلسفہ و ادب سے مستعار و متاثر ہیں۔ لیکن طرز احساس و اظہار میرا ہی ہے۔۔۔ جدیدیت کے فکری و جمالیاتی پہلوؤں پر کئی تنقیدی تصنیفات اور مجموعہ ہائے مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ لیکن جدیدیت آج بھی ایک نزاعی مسئلہ ہے۔ یہ مجموعہ مضامین شاید مختلف مسائل و مباحث اور متضاد نظریات و خیالات میں ہم آہنگی کی ایک بنیاد فراہم کرنے میں معاون ہو۔“
(جدیدیت کی جمالیات، ص: ١٢)
محولا بالا اقتباس میں وضاحت کے ساتھ لطف الرحمن نے اپنے افکار و خیالات کو بڑے واضح انداز میں پیش کر دیا ہے۔ ساتویں دہائی میں آل احمد سرور سے لے کر جدیدیت کے سب سے بڑے علم بردار شمس الرحمن فاروقی تک جدیدیت کے فلسفیانہ رجحان اور خیالات کو پیش کرنے والوں میں کئی لوگوں کا نام لیا جاتا ہے لیکن افسوس ہے کہ لطف الرحمن اور محمود ہاشمی حاشیے پر بھی نظر نہیں آتے۔ یہاں محمود ہاشمی کا تذکرہ ضمناً آگیا ہے۔ اس لیے کہ جدیدیت کے ہراول دستے میں کسی زمانے میں محمود ہاشمی کا نام نامی اور اسم گرامی بڑے ادب و احترام سے لیا جاتا تھا۔ اور شب خون کے اولین شماروں میں ترتیب و تہذیب کے خانے میں ان کا نام جلی حروف میں نظر آتا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ جدیدیت کا یہ تنہا اور اپنے تبحر علمی سے بھر پور نقاد ہمارے درمیان سے چلا گیا اور ایک بھی بھر پورمضمون کم از کم ہماری نگاہ سے نہیں گزرا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے زبیر رضوی مرحوم کا جنھوں نے اپنے ادارے سے ان کے کچھ مضامین جمع کر کے ”انبوہ زوال پرستاں“ کے نام سے ایک مجموعہ مضامین شائع کرا دیا۔ اور اس پر بھی کوئی قرار واقعی تبصرہ تک نہیں ملتا۔ یہ تو ہمارے عہد کا المیہ ہے۔ بہر حال یہ چند باتیں جملہ معترضہ کے طور پر آگئی ہیں۔
”جدیدیت کی جمالیات“ سے پہلے شمیم حنفی کی کتاب ”جدیدیت کی فلسفیانہ اساس“ اور ”جدید شعری جمالیات“ دو حصوں میں ان کا تحقیقی مقالہ شائع ہو چکا تھا۔ اس کے بعد لطف الرحمن کی کتاب ”جدیدیت کی جمالیات“ دوسری یک موضوعی کتاب ہے۔ لطف الرحمن نے لکھا ہے کہ یہ مضامین مختلف اوقات میں لکھے گئے۔ مضامین کی ترتیب حال سے ماضی کی طرف لوٹنے کا نظر آتا ہے جس کا اعتراف انھوں نے پیش لفظ میں کیا ہے۔
لطف الرحمن پر لکھتے ہوئے مجھے ان کے دو مضامین کا خیال آیا جو میرے حافظے میں کہیں محفوظ تھا۔ مثلاً ٢٠٠٨ء میں ”ذہن جدید“ میں ان کا ایک فکر انگیز اور متنازع مضمون ”ما بعد نو آبادیاتی تہذیبی جارحیت“ شائع ہوا۔ یہ مضمون ان معنوں میں فکر انگیز ہے کہ لطف الرحمن ادیب ہونے کے ناطے سوسائٹی اور اس کے مسائل سے بالکل الگ بھی نہیں رہتے بلکہ ان کی نگاہ سماجی اور سیاسی مسائل پر بھی رہتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
”تیسری دنیا کے خلاف تہذیبی جارحیت میں امریکا اور یورپ دونوں برابر کے شریک ہیں۔ دونوں کے مقاصد مشترک ہیں۔ یعنی تیسری دنیا کے قدرتی وسائل پر تسلط، تیسری دنیا کو دست نگر رکھنا، تیسری دنیا کو ترقی اور طاقت کے حصول سے باز رکھنا، اس خطے پر مغربی کلچر کو مسلط کرنا، اس خطے کی آبادی کو ذہنی غلام بنانا، ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک میں باہمی محاذ آرائی پیدا کرنا اور ہتھیاروں کے کاروبار کے ذریعے ان کی معیشت کا استحصال۔ ان مقاصد کی تکمیل کے لیے ہر ممکن طریقۂ کار استعمال کیا جا رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ادب اور آرٹ کو بھی ایک زبردست وسیلے کے طور پر کام میں لایا جا رہا ہے۔۔۔اس مقصد کے لیے ادب، فن اور علم و دانش کے تعلق سے ہر ملک میں ان کے ایجنٹ دن رات متحرک تھے۔ ہندوستان ان کا خاص مرکز ہے۔ یہ لوگ سماج میں اہل علم اور دانشور کی حیثیت سے خود کو قائم کرنے میں ہر طرح کے توڑ جوڑ سے کام لے کر آج کلیدی مقامات پر فروکش ہیں۔ اور پدم شری وغیرہ کے خطابات و اعزازات سے سرفراز ہو چکے ہیں۔ یہ نام نہاد دانشور عملاً ملک دشمن سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور ذہنی اور دانش ورانہ سطح پر دہشت گردی پھیلا رہے ہیں جو مسلح دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے۔“
(”ما بعد نو آبادیاتی تہذیبی جارحیت“ ذہن جدید، شمارہ -٥٢، ص:٧٤)
یہ اقتباس نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لطف الرحمن کی نگاہ صرف اور صرف ادب اور ادبی مسائل کے گنبد میں قید رہ کر تسبیح کے دانے پڑھنا نہیں، جیسا کہ عام طور پر ہمارے یہاں ادیبوں کا رویہ رہا ہے بلکہ لطف الرحمن بہر صورت ادبی سچائیوں کے علاوہ زندگی اور ان کے مسائل، سیاسی حالات اور اس سے پیدا شدہ مسائل پر ان کی نگاہ ہمیشہ رہی ہے اور وہ ایک ادیب، شاعر اور فن کار ہونے کے علاوہ سماجی صورت حال سے بھی بھر پور آگہی رکھتے تھے۔ اسی لیے ان کا رخ سیاست کی جانب بھی گیا اور وہاں رہ کر سیاسی صورت حال، اس کے پیچ و خم اور اس کے مثبت و منفی پہلوؤں کو دیکھا اور برتا بھی۔
”ہندوستان کی تحریکات آزادی کے احترام و وقار کو سنگھ پریوار خاطر میں نہیں لاتا۔ ہندوستانی آئین، ہندوستان کی سیکولر جمہوریت کو منسوخ کرتا ہے۔۔۔کلچر کی مرکزی حیثیت سے مذہب کی مخصوص تعبیر و تفسیر سنگھ پریوار کی فرقہ وارانہ سیاست پر مہر ثبت کرتی ہے جو ایک خاص مذہب اور نسل پر مبنی ہے۔“
لطف الرحمن کی نگاہ عالمی ادب کے مسائل کے علاوہ موجودہ ادب پر اتنی تازہ کار ہے کہ کبھی کبھی ان کے مطالعے پر رشک آتا ہے۔ جدیدیت کے بہت کم نقاد عالمی ادب اور عالمی سیاست پر ایسی نگاہ رکھتے ہوں۔ ایک دوسرا نام وارث علوی اور باقر مہدی کا بھی آتا ہے جنھوں نے منفی اور مثبت اقدار، ادب اور سیاست، سماجی ادب کی بحث اور ادب اور فن ٹاسیزم جیسے مسائل پر بھر پور انداز سے لکھا اور میرا خیال ہے کہ اردو کے نقادوں میں وارث علوی نے سب سے زیادہ نظریاتی مضامین لکھے۔ لیکن اردو کا تنقیدی رویہ ان چیزوں سے الگ رہا ہے۔ کچھ تو سر سید تحریک میں یہ بات نظر آتی ہے، اس کے علاوہ ترقی پسندوں کے یہاں بھی عالمی ادب اور عصری ادب نے سماجی مسائل کو موضوع گفتگو بنایا لیکن جدید ادب میں ان مسائل پر کوئی گفتگو نظر ہی نہیں آتی۔ اس معاملے میں لطف الرحمن کا یہ اختصاص رہا ہے کہ روایت اور جدیدیت کی گفتگو کے ساتھ ساتھ سماجی اور عالمی مسائل پر ان کے یہاں بھر پور بحثیں مل جاتی ہیں جو ایک طریقے سے لطف الرحمن کا تنقیدی اور فطری اختصاص ہی سمجھا جائے گا۔ شمیم حنفی کی کتاب ”جدیدیت کی فلسفیانہ اساس“ پر گفتگو کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
”بعض مستقل تصنیفوں کے باوجود جدیدیت آج بھی ایک معمہ ہے۔ جدیدیت کی فلسفیانہ اساس، ربط و تسلسل، نظم و ترتیب، تنقیدی شعور اور تہذیبی بصیرت و بصارت سے محروم اتنی طویل اور صبر آزما تحریر سے گزرنے کے بعد جدیدیت کی فلسفیانہ اساس کی تعیین کے طور پر شمیم حنفی کے یہ زریں خیالات سامنے آتے ہیں۔ فلسفہ ایک عقلی سفر ہے۔ اور انسان کی مادی ضرورتوں کی تکمیل کے عمل سے لا تعلق اور ایک معالج جو روح کی زخموں کو مندمل کرنے کی قوت رکھتا ہے۔“
ان جملوں کوذیل کی ترتیب کے ساتھ سامنے رکھیے:
”فلسفہ ایک عقلی سفر ہے، اور انسان کی مادی ضررورتوں کی تکمیل کے عمل سے لا تعلق ہے، اور ایک معالج جو روح کے زخموں کو مندمل کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ اور اب ذرا تجزیہ کیجیے۔ فلسفہ ایک عقلی سفر ہے۔ سائنسی علوم عقلی ہیں کہ نہیں؟ اور اگر فلسفہ عقلی سفر ہونے کی بنا پر انسان کی مادی ضرورتوں کی تکمیل کے عمل سے لا تعلق ہے۔ تو سائنسی علوم کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ اور اس سے بھی قطع نظر مارکس کے نظریات فلسفہ ہیں کہ نہیں؟ یہ عقلی سفر کے دائرے میں آتے ہیں کہ نہیں؟ اور معاشرے کی ضرورتوں سے متعلق ہیں کہ نہیں؟۔۔۔اور اگر فلسفہ عقلی سفر کی بنا پر ایک معالج ہے، جو روح کے زخموں کو مندمل کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ تو پھر مارکسی فلسفہ بھی روح کے زخموں کو مندمل کرنے کی قوت یقینا رکھتا ہوگا۔ رہ گئے مذہب، ادب، تصوف اور دوسرے فنون لطیفہ تو یقینا فلسفہ اور دوسرے عقلی علوم یعنی سائنسی علوم کے مقابلے میں روح کے زخموں کے معالج کی حیثیت سے ان کی تو کوئی گنتی ہی نہیں۔ ’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘ ایسی ہی غیر منطقی اور لا یعنی گفتگو کا مجموعہ ہے۔۔۔یوں تو ڈاکٹر شمیم حنفی نے اس کتاب میں بیسویں صدی کے افکار کی مختلف لہروں کا ذکر بھی کیا ہے اور مشہور و مقبول مفکرین کے حوالے بھی دیے ہیں۔ لیکن تمام باتوں کے باوجود اتنی ضخیم کتاب کے مطالعے کے بعد آخری تاثر یہی ہوتا ہے کہ۔ معلوم شد کہ، ہیچ معلوم نہ شد۔“
(”جدیدیت کی روایت“مشمولہ ”جدیدیت کی جمالیات“)
اس طویل اقتباس کے نقل کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لطف الرحمن کی تنقیدی نگاہ سائنسی ہونے کے ساتھ ساتھ بالکل واضح اور روشن تھی۔ پوری کتاب پڑھ جائیے کہیں بھی کوئی پیچیدگی کا احساس نہیں ہوگا جب کہ عموماً جدیدیت کے رجحان سازوں نے جدیدیت پر لکھتے ہوئے اس قدر واضح انداز فکر کو نہیں اپنایا۔ مجھے یہاں وارث علوی کا ایک مضمون یاد آرہا ہے جو جدیدیت کی فلسفیانہ اساس پر انھوں نے بڑی طوالت اور شرح و بسط کے ساتھ لکھا تھا اور ان کا یہ غیر معمولی مضمون کافی ہنگامہ خیز اور بحث کا موضوع بھی رہا اور اب ان کی کتاب کا حصہ بن چکا ہے۔ اس ضمن میں باقر مہدی کی کتاب ”تنقیدی کشمکش“ کا یہ اقتباس نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو انھوں نے ”ترقی پسندی اور جدیدیت کی کشمکش“ کے عنوان سے ١٩٦٨ء میں ”اردو ادب“ کے شمارے میں شائع کرایا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
”جدیدیت انسان کو ایک فرد سمجھتی ہے۔ لا شعور اور شعور کی آویزش کو زندگی کی دلیل اور شخصیت کے پروان چڑھنے کا ذریعہ سمجھتی ہے، جدیدیت ایک طرف اقدار کے قدیم پیمانوں کو رد کرتی ہے تو دوسری طرف ذاتی تجربے اور جستجو کو لبیک کہتی ہے، وہ انسان کو خارجی حالات سے ٹکرانے پر اس لیے نہیں اکساتی کہ وہ ایک جیل سے نکل کر دوسری جیل میں چلا جائے بلکہ وہ سرکشی کو مفاہمت پر فوقیت دیتی ہے۔۔۔جدیدیت نے دنیا کو جنت ارضی بنانے کا بیڑا اٹھا کر ”جہنم“ نہیں بنایا ہے جیسا کہ ترقی پسندی نے کیا ہے۔ جدیدیت ”تعمیر و تخریب“ کی پر فریب اصطلاحوں کو رد کرتی ہے، وہ ادب کو سب سے پہلے ذات کا آئینہ دار قرار دیتی ہے لیکن ذات کو حرف آخر نہیں سمجھتی۔ اس لیے کہ جدیدیت ”حرف آخر“ کی سرے سے قائل نہیں۔“
(تنقیدی کشمکش، ص:٢٣)
لطف الرحمن کی کتابیں ”جدیدیت کی جمالیات“، ”نقد نگاہ“، ”نثر کی شعریات“ اور ”تعبیر و تقدیر“ پر ایک نگاہ غلط بھی ڈال جائیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ لطف الرحمن کس روشن تنقیدی فکر کے حامل نقاد تھے۔ لطف الرحمن کو پڑھتے ہوئے ہماری نگاہ ان کے اس مضمون پر جاتی ہے جو ”رابندر ناتھ ٹیگور کی صدی کے حوالے سے ایک بڑے پروجیکٹ کے طور پر شعبۂ ادو، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے مستقل طور پر رابندر ناتھ ٹیگور کے تمام تر علمی اور ادبی کاموں کا احاطہ کیا اور ١٤/جلدوں میں کتابی شکل میں شائع بھی ہوا۔ اسی ضمن میں ”رابندر ناتھ ٹیگور: فکر و فن“ کے عنوان سے سہ روزہ سیمینار ٢٠١١ء میں منعقد ہوا تھا جس میں پڑھے گئے مقالات کو کتابی شکل میں خالد محمود اور شہزاد انجم نے مرتب کیا۔ اس میں ٹیگور کی شاعری کے حوالے سے لطف الرحمن کا ایک مضمون ”ہندوستان کے دو روحانی سفیر: ٹیگور اور کبیر“ کا خیال آتا ہے۔ انھوں نے ان دونوں ادبی درویشوں کا بڑا ہی خوب صورت مطالعہ پیش کیا ہے۔ ”یوں تو ہندوستان زمانہ قدیم ہی سے دیوی اور دیوتاؤں اور اوتاروں کی سرزمین رہا ہے۔ لیکن صوفی اور شاعری کی حیثیت سے صرف دو لوگوں نے روحانی سفر کا کردار ادا کیا وہ ٹیگور اور کبیر ہیں۔ دونوں میں بہت سی قدریں مشترک ہیں۔ زمانی اعتبار سے کبیر قرون وسطیٰ کے آدمی تھے اور ٹیگور جدید عہد کے نمائندہ۔ لیکن اپنے غیر معمولی کارناموں کی وجہ سے عہد وسطیٰ کے صوفی شاعر کبیر عہد جدید کی نمائندگی کرتے ہیں۔۔۔ٹیگور اور کبیر دونوں ہی Identity Crisis کے شکار تھے۔۔۔ٹیگور کو نسبتاً کم ظالمانہ سماج سے سابقہ پڑا۔ پھر بھی ان کے دور میں اور آج بھی ہندوستانی سماج کو اس لعنت سے مکمل طور پر نجات نہیں مل سکی ہے۔ اسے اپنے عصری نظام سے مکمل بغاوت کا پر خلوص جذبہ کبیر کو عہد وسطیٰ میں دور جدید کا نمائندہ شاعر اور صوفی کا درجہ دیتا ہے۔۔۔ٹیگور کو اس امر پر سخت حیرت تھی کہ عہد وسطیٰ کے شاعر کبیر کے یہاں اتنا جدید رجحان و میلان کیسے پیدا ہوا۔ کبیر کی شاعری کا مطالعہ شاہد ہے کہ وہ عہد وسطیٰ میں اتنے ہی جدید تھے جتنے ٹیگور بیسویں صدی میں۔ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ اگر کبیر آج ہوتے تو ٹیگور ہوتے اور ٹیگور اگر عہد وسطیٰ میں ہوتے تو کبیر ہوتے۔“
یہ مضمون کا ایک ہلکا سا اشاریہ ہے۔ لطف الرحمن کی نگاہ کتنی وسیع تھی اور عالمی ادب کے علاوہ ہندستان کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت پر ان کی نگاہ گہری تھی۔ ایک ذرا ٹھہر کر صرف ان کی ایک کتاب ”تعبیر و تقدیر“ میں شامل مضامین کے عنوان ہی کو دیکھ لیجئے، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ان کی تنقیدی نگاہ کی وسعت کہاں تک تھی۔ مثلاً ”عصر حاضر میں مثنوی معنوی کی اہمیت“، ”اقبال ایشیائی بیداری کا نقیب“، ”مخدوم -جوش اور اقبال“، ”جوش اور غزل“، ”شبلی کا تنقیدی رویہ“، ”فورٹ ولیم کالج سے قبل“، ”اردو نثر کا آغاز و ارتقا“، ”فرد کی آزادی کا مسئلہ“، ”جنگ آزادی کے تناظر میں بہار اور بنگال کا کردار“ اور ”غالب اور عہد حاضر“۔یہ صرف نمونہ مشت از خروارے کے طور پر پیش کیا گیا تاکہ ان کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ کر سکیں۔
لطف الرحمن کی تنقیدی بصیرت کا اختصاص یہ ہے کہ وہ آرٹ، ادب کی حقیقت و ماہیت، ادب کے تخلیقی عمل اور اس کے فنی اور ہیئتی پہلو سے بحث کرتے نظر آتے ہیں اور فن کار کے نقطۂ نظر کو خصوصیت کے ساتھ اجاگر کرتے ہیں۔ تاکہ فن کار کا تخلیقی ذہن، اس کے تخیل کی کرشمہ کاری اور فن پارے میں زبان کے تفاعل کا قاری بہتر طور پر اندازہ کر سکے۔ جس سے تخلیق کے مفہوم و معنی اور اس کے ابعاد اور جہتیں واضح ہو جاتی ہیں۔ وہ مختلف علمی، فنی، تہذیبی اور معاشرتی اثرات کے علاوہ تحریکات، رجحانات اور مسائل و مباحث کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جس سے ان کی تنقید کی تفہیم کا اندازہ ہو جاتا ہے اور تفہیم و تنقید کی پیچیدگی پڑھنے والوں کے لیے آسانی فراہم کر دیتی ہے۔میرے خیال سے یہی خوبیاں لطف الرحمن کی تنقید کو وسعت عطا کرتی ہیں۔
Dr.Quaisar Zaman
Urdu Ghar,Suleman Colony
Hazaribagh(Jharkhand)
Mob:09031919207
Email:quaisarzaman98@gmail.com
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :اردو تنقید کا شمس : شمس الرحمن فاروقی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے