محلہ سرکار پٹی کا تاریخی پس منظر

محلہ سرکار پٹی کا تاریخی پس منظر

محمد شہباز عالم مصباحی
سرکار پٹی، گنجریا، اسلام پور، مغربی بنگال

"سرکار پٹی" محکمہ اسلام پور، ضلع اتر دیناج پور (مغربی بنگال) کے تحت آباد تاریخی گاؤں "گنجریا" میں لگ بھگ 500 سال سے مہذب، شریف، زمین دار اور خاندانی لوگوں کا ایک محلہ ہے جو ابھی تقریباً سات مشترکہ گھرانوں پر مشتمل ہے. یہ سارے گھرانے ایک ہی شخص کی نسل سے ہیں جس کی وجہ سے یہ تمام گھرانے والے آپس میں خونی رشتے رکھتے ہیں.
ماسٹر محمد اسلم (ساکن سرکار پٹی، گنجریا و قدیم استاذ جامعہ اہل سنت جوہر العلوم گنجریا) کے حسب روایت محلہ سرکار پٹی کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ 38-1537ء میں مغلیہ عہد میں نیپال کے راستے سے بعض حملہ آور داخل ہو کر ہندستان کے چند علاقوں پر قابض ہو گئے تھے۔ دہلی کے مغل بادشاہ محمد ہمایوں کو جب اس کی خبر لگی تو بڑے پریشان ہوئے اور چار جرنلوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ ان بیرونی حملہ آوروں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ ان چاروں جرنلوں نے فوجیوں کی ایک ایک ٹکڑی لے کر ان حملہ آوروں سے ان علاقوں میں جا کر، جہاں ان سبھوں نے پڑاؤ کیا تھا، جم کر جنگ کی اور انھیں نیپال ہی کے راستے ہندستان سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ دہلی کے مغل بادشاہ تک جب یہ خبر پہنچی تو بہت خوش ہوئے اور جن علاقوں کو ان جرنلوں نے واگذار کیا تھا وہ علاقے انعامیہ بہ طور جاگیر ان کے حوالے کر دیے۔ چنانچہ "گنجریا" کا علاقہ ایک میجر جرنیل (گل محمد) کے حوالے کیا، "سرائے کوری ــــ (مہین گاؤں)" کا علاقہ ایک کے حوالے، "گوا گاؤں" کا علاقہ ایک کو دیا تو "بوگرا" کا علاقہ (جو ابھی بنگلہ دیش میں واقع ہے) ایک جرنیل کو بہ طور جاگیر سونپا۔ بعد میں ان چاروں جرنلوں نے ان علاقوں کو خوب آباد کیا اور ہر جگہ نہایت ہی منظم آبادی بسائی اور عظیم رقبے پر مشتمل وسیع زمین داری قائم کی۔
گل محمد دہلی کے اطراف میں دکھن پچھم سمت کسی علاقے کے رہنے والے تھے، نسلی طور پر شیخ صدیقی تھے اور ہمایوں کے دربار سے ایک فوجی کے طور پر وابستہ تھے۔ گل محمد کو انعام کے طور پر جو گنجریا کا علاقہ دیا گیا تھا اس میں سات موضع: گنجریا، موہنیا، ڈھیکی پارہ، مہیس مارا، رتن پور، مریا اور بلدی ہاٹا آتے تھے۔ ان سات موضع کے زمین دار گل محمد تھے جس کا کھیوٹ نمبر: 07 ہے۔ گل محمد کے والد کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا۔ ماں بیوہ ہو چکی تھیں جنھیں بعد میں گل محمد اپنے علاقے سے گنجریا لے کر آگئے تھے۔ گنجریا میں یہ اول اول وہاں بسے تھے جہاں ابھی گنجریا ریلوے اسٹیشن واقع ہے اور اپنے ہاتھی اور گھوڑوں کو پانی پلانے کے لیے جھل جھلی میں ایک بڑا سا تالاب کھدوایا تھا جو اب بھی باقی ہے۔ گل محمد کی شادی طوفان علی زمین دار کی اکلوتی صاحب زادی سے ہوئی تھی جن کا گھر گنجریا کے جناب احمد (بلاک ممبر) کے گھر کے پیچھے تھا جہاں ابھی ایک اسکول قائم ہے۔ گل محمد کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ بڑے بیٹے لعل محمد (بڑے سرکار) اور چھوٹے بیٹے کالو محمد (چھوٹے سرکار) تھے، پھر لعل محمد کے دو بیٹے تھے اور کالو محمد کے پانچ بیٹے جن میں سے ایک کا نام دادن علی تھا۔ بڑے لڑکے (بڑے سرکار) کی اولاد سے جو خاندان آباد ہوا اس کا نام "بڑا سر کار پٹی" رکھا گیا اور چھوٹے لڑکے (چھوٹے سرکار) کی اولاد کے خاندان کا نام "سرکار پٹی" پڑا۔
گل محمد کے بعد کے پوتوں میں محمد جنید (عرف کانا مہاراج)، حاجی حیدر بخش، مرشد احمد تحصیل دار، عثمان سرکار اور سبحان میاں بہت نامور اور با رعب ہوئے۔ محمد جنید کے کار پرداز مظفر خان اور مرشد احمد تحصیل دار کے کار پرداز کریم الدین عرف بسواس جی تھے۔ کھگڑا، کشن گنج کے آخری نواب اور مرشد احمد تحصیل دار کے مابین بڑے گہرے تعلقات تھے اور نواب صاحب بذات خود ایک بار تحصیل دار صاحب سے ملنے ان کے گھر آتے تھے۔ بڑا سرکار پٹی اور سرکار پٹی کی حالیہ نئی نسل گل محمد کی نویں پشت سے تعلق رکھتی ہے۔
گنجریا شمالی بنگال میں ایک واحد بستی ہے جہاں چودہ ذات کے ہندو بستے ہیں۔ ان سب کو مختلف کاموں کے لیے گل محمد ہی نے بسایا تھا۔ ان کے علاوہ مختلف پیشوں سے وابستہ مسلم برادری کے افراد کو بھی مختلف گاؤں سے لاکر گنجریا میں بسایا گیا تھا۔ذیل کی تصویر حاجی حیدر بخش مرحوم، ساکن سرکار پٹی (بانی جامع مسجد، گنجریا) کے محل کے کھنڈرات کی ہے.
***
محمد شہباز عالم مصباحی کی گذشتہ نگارش :شہرِ تصوف میں چند دن

شیئر کیجیے

One thought on “محلہ سرکار پٹی کا تاریخی پس منظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے