سماجی برائیوں سے لڑنے کے لیے بعض حکومتوں کا عجلت پسندانہ اقدام

سماجی برائیوں سے لڑنے کے لیے بعض حکومتوں کا عجلت پسندانہ اقدام

مختلف صوبوں میں شہریت قانون مخالف تحریکوں کے سفّاکانہ انسداد کے بعد آسام میں اقلیت آبادی کو مشکل میں ڈالنے کی پھر ایک نئی کوشش
صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

 حکومتوں کا ایک بڑا کام یہ بھی ہے کہ وہ سماج میں پھیلی ہوئی طرح طرح کی دقیانوسیت اور برائیوں سے عوام کو بچائیں اور ایسے قوانین بنائیں کہ اُن برائیوں سے اپنے آپ ہی نجات کی صورت پیدا ہو جائے۔ تحریکِ آزادی کے دور سے چھوا چھوت سے لے کر عدم مساوات کے ہزاروں سماجی مسئلوں پر گذشتہ ایک صدی میں ہندستانی سماج اور متعدد حکومتیں سر گرمِ عمل ہیں مگر پورے طور پر اِس سلسلے سے کامیابی نہیں حاصل ہو سکی ہے۔ آئے دن یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ مختلف صوبائی حکومتیں کسی ایک قانون پر سختی سے عمل کرنے کی کوشش کرتی ہیں یا کوئی نیا قانون تیّار کرکے آناً فاناً نافذ کر دیتی ہیں اور اُن کے نفاذ کے لیے حکومت کی طاقت اور انتظامیہ کی شہ زوری میدان میں کام آنے لگتی ہے۔
گذشتہ دنوں حکومتِ آسام نے یہ فیصلہ کیا کہ اٹھارہ برس سے کم عمر کی جن لڑکیوں کی شادی پائی جائے گی، اُن کے شوہر اور اُن کے والدین پر مقدّمہ چلایا جائے گا اور اُنھیں جیل بھیج دیا جائے گا۔ ہندستان کا آئین، تعزیراتِ ہند کی متعدد دفعات اور ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے ہزاروں فیصلوں کو سامنے رکھیں تو ہزاروں کی تعداد میں ایسی سماجی برائیاں ہیں جنھیں آپ وقتاً فوقتاً ابھی بھی سماج میں موجود پاتے ہیں۔ حکومت، عدالت سے لے کر عوام تک سب کو اِن علتوں کے بارے میں معلوم ہے۔ ہندستانی سماج صرف انگریزوں کی غلامی سے جکڑا ہوا نہیں تھا بلکہ رسوم و رواج کی ہزاروں برسوں کی زنجیروں میں بھی قید تھا۔ مہاتما گاندھی اور ڈاکٹر امبیڈکر کے مختلف فرمودات کو یاد کیجیے تو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ یہ حضرات ہندستانی سماج کے لیے سب سے بڑا ناسور سماجی برائیوں کو سمجھتے تھے اور جنگِ آزادی کے دوران اُن علّتوں سے بچاؤ کے راستے سجھاتے رہے۔
سماجی برائیوں میں بے شک یہ ایک بڑا عیب ہے کہ لڑکی کی کم عمر میں شادی کردی جائے۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے مہاتما گاندھی کی شادی کی عمر یاد کیجیے جب کستوربا محض تیرہ برس کی تھیں۔ بنگال اور مہاراشٹرا میں باضابطہ ایسی تحریکیں چلیں کہ بال وِدھوا کی شادی کا سماج میں اہتمام ہو۔ پہلے یہ عام بات تھی کہ پانچ برس کا لڑکا دو برس کی بچی کے ساتھ خاندان والوں کی مرضی سے شادی کے رشتے میں بندھ گئے۔ دونوں اپنے ماں پاب کے گھر پروَرش پا رہے ہیں۔ کسی وجہ سے دو چار برس میں لڑکے کی موت ہوئی تو اُس وقت کا سماجی اور مذہبی اُصول اُس نابالغ لڑکی کو بیوہ قرار دیتا تھا اور اُس بیوہ کی دوبارہ شادی ہندستانی رسومیات میں ممکن نہیں تھی۔ جیسے جیسے تعلیم اور نئی دنیا کے تصوّرات عام ہوئے، لوگوں نے اِن برائیوں سے اپنے دامن کو پاک کیا۔ بالعموم تعلیم یافتہ طبقے میں ایسی علّتیں نہیں ہیں کہ نابالغوں کو شادی کے رشتے میں باندھ دیا جائے۔
مگر جہاں تعلیم عام نہیں ہے، جس علاقے میں خاندانی منصوبہ بندی کا کوئی تصوّر زمین پر نہیں اُتر پایا اور معاشی اعتبار سے جو لوگ بے حد پچھڑے ہوئے ہیں، وہاں ایسی برائیاں اب بھی دِکھائی دیتی ہی رہتی ہیں۔ قانون کی کتاب کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن شادی کی عمر کے سلسلے سے کئی بار تبدیلی لانے کی ضرورت پڑی، عالمی قانون کو یک جا کیا جائے تو بہت آسانی سے یہ بات نظر آ جا ئے گی کہ ہر ملک میں شادی کی عمر کے تعلق سے یک راے نہیں ہے۔
ہندستانی سماج میں ہزاروں برائیوں کی واحد جڑ جہالت ہے۔ اِسی کے ساتھ سماج میں مالی اور معیشی نابرابری نے بھی پیچیدگیوں میں اِضافہ کیا۔ حکومت کو کسی بھی قانون کے نفاذکے لیے اِن دونوں پہلوؤں سے متوجہ ہونا چاہیے. ورنہ یہی مانا جائے گا کہ سماج کی صحیح صورتِ حال سمجھے بغیر کسی قانون کا جبریہ نفاذ ایک الگ طرح کا ظلم اور سماجی انتشار کا باعث ہو سکتا ہے۔ اچھے سماج اور اچھی حکومت کی یہ پہچان ہے کہ وہ سماجی برائیوں سے لڑنے کے لیے قانون کے سخت استعمال سے پہلے بیداری کی ایک ایسی مہم چلائے جس میں سب رفتہ رفتہ شامل ہو سکیں۔ اُس کے بعد ہی مرحلہ وار طریقے سے قوانین کا نفاذ ہونا چاہیے ورنہ افرا تفری اور انتشار کا ماحول قایم ہونا لازم ہے جو ابھی آسام میں دیکھنے کو مِل رہا ہے۔
گذشتہ دِنوں آسام کی حکومت کے سربراہ ہیمنت بسوا شرما نے شب خونی انداز میں نابالغین کی شادی کے سوال پر کریک ڈاؤن کا اعلان کیا اور تابڑتوڑ کارروائیاں شروع کیں۔ اٹھارہ سال سے کم عمر کی جو بھی خاتون شادی شدہ ملیں گی، اُن کے والدین اور شوہر کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ کچھ معاملات میں والدہ سے بچوں کو بھی الگ کیا جا چکا ہے۔ ابھی تک اکیس سو کے قریب افراد گرفتار ہو چکے ہیں۔ ہر تھانے دار اِس موضوع کے حوالے سے با اختیار ہے اور کسی بھی گھر میں چھاپا مار کر گرفتاریوں کو عمل میں لا سکتا ہے۔ کئی عورتیں شوہر کی گرفتاری کے بعد بھوکے مرنے کے لیے مجبور ہوئیں۔ بعض حاملہ عورتیں اسپتال اِس لیے نہیں جا رہی ہیں کہ وہاں پہنچتے ہی اِس قانون کے اثر میں اُن کے سرپرست گرفتار ہو جائیں گے اور خود اُن کے ساتھ کیا ہوگا یہ پتا نہیں۔ اس خوف میں بعض کی موتیں بھی ہو گئیں۔ حزبِ اختلاف کے لیڈران بالخصوص کانگریس کے افراد حکومت کی اِس حرکت کو غیر منصفانہ اور غیر جمہوری کہہ رہے ہیں مگر حکومت اپنی پیٹھ تھپ تھپانے میں لگی ہوئی ہے۔
آسام کو ہندستان کے سب سے پس ماندہ اور غیر ترقی یافتہ صوبوں میں سے ایک ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ مشکل جغرافیائی صورتِ حال کے سبب صوبے کی دشواریاں الگ ہیں۔ سیلاب سے ملک کا کوئی بھی صوبہ آسام کی طرح تباہ و برباد نہیں ہوتا ہے اور اگر مرکزی حکومت کی معاونت نہ رہے تو اِس صوبے کو ہندستان کے ترقیاتی نقشے میں صفِ آخریں سے اوپر آنے کا موقع ہی نہیں مل سکے۔ دشواری یہ ہے کہ اِس خطّے میں چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بھارتیہ جنتا پارٹی اور اُس کی مدد گار جماعتیں منظم طریقے سے کام کرتی رہی ہیں۔ طلبہ کی تحریکیں چلیں اور اُن کے ہاتھ میں صوبائی اقتدار بھی آ گئی۔ بنگلا دیشی دَر اندازی کی شکایتیں ١٩٧١ء سے ہی اُس علاقے میں سب سے زیادہ ہیں اور موجودہ حکومت کے لیے ایسے سوال بڑے پھل دار درخت کی طرح نظر آتے ہیں۔ شہریت قانون کے سلسلے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی پہلی تجربہ گاہ آسام ہی ہے اور وہیں باضابطہ طور پر ڈی ٹنشن سینٹر بنائے گئے اور لوگوں کو بے یار و مددگار وہاں اب بھی رکھّا گیا ہے۔ جب سے موجودہ وزیرِ اعلا کو اچانک نئے چہرے کے طور پر امت شاہ نے پیش کیا، اُسی وقت اقتدار کی گلیوں میں یہ بات گشت کرنے لگی تھی کہ اُنھیں کچھ خاص کام کرنے کے لیے یہ ذمّہ داری دی گئی ہے۔ اب یہ باتیں کھلنے لگی ہیں اور یہ سمجھ میں آنے لگا ہے کہ وہ حقیقت میں اقلیت مخالف حکومت سازی کے کام کو مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں جہاں سے یہ اشارہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ پورے ملک میں ایسے قوانین نافذ کیے جائیں گے اور پولس کی طاقت پر سب کچھ منوا لیا جائے گا۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ آسام میں اقلیت آبادی کا تناسب اچھا خاصا ہے اور وہاں کی سیاست میں مسلم اقلیت کا زور بھی رہا ہے۔ واحد مسلم خاتون وزیرِ اعلا بھی اُسی صوبے سے آئیں اور اب بھی پارلیمنٹ اور وہاں کی اسمبلی میں مسلم اکثریتی علاقے کے نمایندگان موجود ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ ملک کے دوسرے صوبوں کے مقابلے آسام کی مسلم آبادی تعلیمی اور مالی اعتبار سے نہایت کمزور ہے۔ ایسی حالت میں بڑی تعداد میں مزدور پیشہ افراد اپنی بچیوں کو اٹھارہ سال سے پہلے ہی شادی کر دیتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ صرف آسام ہی نہیں ملک کے ہر صوبے میں غربت اور جہالت کے مارے گھروں میں یہ علّت موجود ہے۔ راجستھان میں تو اِس کی سب سے بری شکلیں نظر آتی ہیں مگر حکومت کا چوں کہ واضح مقصد ہے کہ آسام میں اقلیت آبادی کو خوف میں رکھّا جائے، آزادانہ سیاسی شاخت کے لیے اُن کی سر گرمیوں پر کسی طرح قدغن لگائی جا سکے، اِس لیے نابالغوں کی شادی کے معاملے میں گرفتار کر کے جیل میں ڈالنے کا ایک ماحول قایم کیا گیا۔ سرکار کا دوہرا منصوبہ بھی ہے کہ اِس سے ملک کے دوسرے حصوں میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے آیندہ اقدام کی سگ بگاہٹ سمجھ میں آ جائے گی مگر ملک کے عمومی امن کے لیے یہ فیصلہ خوف پیدا کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جا سکتا۔ سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اُن ہی اضلاع میں اِس کا نفاذ سختی سے ہو رہا ہے جہاں اقلیت آبادی کی کثرت ہے۔
گذشتہ برسوں میں بہار میں شراب بندی کی مہم چلی تھی۔ ابتدائی دور میں حکومت میں اتاولا پن بھی بہت تھا۔ چوک چوراہے پر کسی بھی آتے جاتے آدمی کو پولس پکڑ لیتی تھی اور ایک آلے سے اُس کی جانچ کرکے اُسے شرابی کا تمغہ دے کر جیل بھیج دیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ حکومت کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ سماجی برائی سے لڑنے کے مرحلے میں عوامی بیداری پہلے آزمائی جانی چاہیے اور بعد میں قانون کا سخت نفاذ ہونا چاہیے۔ بہار میں آج بھی نقلی شراب بنانے، زہریلی شراب سے مرنے والے اور اربوں روپے کی بلیک مارکیٹنگ کے اعداد و شمار ملتے رہتے ہیں۔ اِسی طرح آسام کی حکومت کا اگر یہ ایمان دارانہ فیصلہ ہوتا تو چھے مہینے اور سال بھر عوامی سطح پر لوگوں کو متنبہ کیا جاتا اور اُس کے بعد ہی کوئی تادیبی کارروائی کی جاتی مگر یہاں نشانہ چوں کہ اقلیت آبادی ہے، اِس لیے خاص علاقے میں اِس کا بہ عجلت نفاذ کرکے یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ صرف اور صرف سیاسی ہتھکنڈا ہے۔ آسام کے وزیرِ اعلا کو اقلیت آبادی کو پریشان کرنا ہے ورنہ اِس قانون کا نفاذ تو پورے ملک میں ہونا چاہیے تھا، اُس وقت بہت آسانی سے دیکھا جا سکتا کہ غربت زدہ طبقے میں ہر جگہ یہ عیب موجود ہے۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں] 
safdarimamquadri@gmail.com
***
ہم عصر اردو ناول: شناخت کا مقدّمہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے