نشتر شہودی ادب اور احساس کے آئینے میں

نشتر شہودی ادب اور احساس کے آئینے میں

 محمد وسیم 
گیسٹ لیکچرر
اردو میڈیم گورنمنٹ پرائمری ٹیچرز ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (ہگلی، مغربی بنگال)
ای میل: wasim963258@gmail.com
فون:9804848393

محمد سعید الدین اپنے قلمی نام نشتر شہودی سے مشہور ہیں۔ ان کی پیدائش ۲/ مئی ١٩٧٣ء کومغربی بنگال کے شہر کولکاتا کے بارانگر علاقے میں ہوئی جن کا آبائی وطن اتر پردیش کے ضلع غازی پور میں دلدار نگر کا علاقہ ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ اس کے بعد اسکول میں داخل کیے گئے۔ بی۔ اے کی ڈگری کلکتہ کے ایک کالج سے حاصل کیا۔ معاشی حالات خراب ہونے کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ موصوف عالم بازار میں پروگریسیو اردو پرائمری اسکول میں بہ طور مدرس عالی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نشتر صاحب کو شاعری کا شوق بچپن سے ہی رہا یا یوں کہیے شاعری ان کی طبیعت میں متوارث تھی۔ ان کے والد محمد جلیل اپنے عہد کے نامی گرامی قواّل ہوا کرتے تھے، والد کی شفقت و رہ نمائی میں ہی شاعری کا سلسلہ شروع ہوا۔ ابتدا میں نشتر صاحب نے شاعری میں کلکتہ کے معروف و معتبر شاعر شہود عالم آفاقی سے اصلاح سخن لی اور ان کی شاگردی اختیار کی۔ شہود عالم آفاقی کا رنگ ان کی شاعری میں یکسر نمایاں نظر آتا ہے۔ شہود عالم آفاقی کے انتقال کے بعد موصوف عہد حاضر میں کلکتہ کے شعرا میں سر فہرست اپنا نام رکھنے والے جناب حلیم صابر کا تلمذ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ نشتر صاحب نے نعت، غزل، نظم، قطعہ اور قومی گیت وغیرہ اصناف میں طبع آزمائی کی۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی نظمیں لکھیں۔ بچوں کی نظموں میں ’آج کی ریل، عقلمند کوّا، ننھا کیفی، چالاک لومڑی، کیے کی سزا وغیرہ ہیں۔ ان کی شعری تخلیقات مختلف رسائل اور باڈر لائن (پاکستان)، کلکتہ کے دیگر اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
نشتر شہودی کی شاعری کے مطالعہ کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی غزلوں کے لیے زندگی کو موضوع بنایا۔ زندگی کو انھوں نے قریب سے دیکھا، اس کا مشاہدہ کیا اور اپنے تجربات کو لفظوں کا پیرہن عطا کردیا، بالکل اسی طرح جس طرح عصمت چغتائی کا کہنا ہے کہ:
”لکھنے کے لیے میں نے دنیا کی عظیم ترین کتاب یعنی زندگی کو پڑھا ہے اور اسے بے انتہا دل چسپ وموثر پایا ہے۔“
اس ضمن میں نشتر صاحب کے کچھ اشعار دیکھتے چلیں جو انسانی زندگی اور موجودہ صورت حال کا آئینہ ہے۔
دور یہ کیسا آیا بھائی
اپنا ہوا پرایا بھائی
گھر کو میرے آگ لگاکر
’پانی لے کر آیا بھائی‘
اک کھیل ہے اس دور میں بہوؤں کا جلانا
دولہے کو کسی نے کبھی جلتے نہیں دیکھا
جہد کرتا رہے زندگی کے لیے
ہے مناسب یہی آدمی کے لیے
پتھر کو راستے سے ہٹایا نہ کیجیے
طاقت کے زعم میں کبھی آیا نہ کیجیے
آپ پر انگلی اٹھائی جائے گی
انگلیاں ان پر اٹھا کر دیکھیے
آج کے ترقی یافتہ دور میں انسان کھوکھلے پن کا شکار ہے۔ نئی نئی ٹیکنالوجی کے ذریعہ جہاں انسان خلا میں پرواز کررہا ہے  وہیں دوسری طرف اس میں اخلاقی گراوٹ بھی آگئی ہے، اس دور میں انسانیت اور اخلاقیت نے گو یا دم توڑدیا ہے، رشتوں سے خلوص ختم ہوتا جارہا ہے، ان میں فقط شعبدہ بازی کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔ انسان ہی انسان کا دشمن بنا بیٹھا ہے۔ زندگی کے انھی تلخ تجربات نیز اخلاقی پامالیوں کو نشتر صاحب نے اپنی غزلوں میں بہ خوبی پیش کردیا ہے۔ اس ضمن میں ان کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
ہوگیا کیا زمانے میں یار آدمی
ہر طرف آدمی کا شکار آدمی
کیا زمانہ تھا وہ مل کے رہتے تھے سب
آج تو آدمی پہ ہے بار آدمی
دوست بن کردغا لوگ دینے لگے
کیا کسی پر کرے اعتبار آدمی
ان کی غزل پڑھ کر محمد علوی کی نظم ”اب جدھر بھی جاتے ہیں“ یا دآتی ہے، جس میں انھوں نے اسی سنجیدہ موضوع کو بالکل سہل اور عام فہم اندازمیں پیش کیا اور اس تلخ حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ اس دور میں اب محض آدمی رہ گئے ہیں لیکن ان کے اندر کی آدمیت کافور ہوچکی ہے۔ اس کی تائید میں محمد علوی کی نظم کا ایک گوشہ  دیکھتے چلیں:
گائے بھینس کاریوڑ
اب ادھر نہیں آتا
اونٹ ٹیڑھا میڑھا سا
اب نظر نہیں آتا
اب نہ گھوڑے ہاتھی ہیں
اور نہ وہ براتی ہیں
اب گلی میں کتوں کا
بھونکنا نہیں ہوتا
رات چھت پہ سوتے ہیں
بھوت دیکھ کر کوئی
چونکنا نہیں ہوتا
اب جدھر بھی جاتے ہیں
آدمی کو پاتے ہیں
ہر شاعر کو اپنی صلاحیتوں کا احساس ہوتا ہے۔ جس کا اظہار وہ اپنی شاعری میں کرتا رہتا ہے، غالب اپنے متعلق یہاں تک کہتے ہیں:
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
نشتر صاحب کو بھی اپنی شعری صلاحیت کا بہ خوبی اندازہ تھا لیکن کہیں نہ کہیں انھیں زمانے کی زبوں حالی کا سامنا رہا جس کا اظہار وہ اپنی شاعری میں کرتے رہتے ہیں۔ اس نوعیت کے اشعار ملاحظہ ہوں:
اپنے اندر وہ کمال رکھتا ہوں
آپ اپنی مثال رکھتا ہوں
مفلسی میں گھرا ہوں ورنہ
میں بھی اونچا خیال رکھتا ہوں
نشتر صاحب کے اشعار پڑھ کر دل کی دھڑکن تیز ہونے لگتی ہے. ان کی شخصیت اور شاعری کا مطالعہ کرنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعہ عوام کو سبق و پیغام دینے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ انھوں نے انسانی زندگی کی قدروں اور اس کی گہرائی کو بہت سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مختلف استعارات اور علامات کے ذریعہ وہ اپنی قلبی کیفیات کو نہایت کامیابی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:
مجھ پہ کچھ لوگ ناحق خفا ہوگئے
ان کے جب روبرو رکھ دیا آئینہ
حرف غلط سمجھ کر مٹانے لگے ہیں وہ
اوقات میری کیا ہے بتانے لگے ہیں وہ
جن سے خود اپنے گھر کا اندھیرا نہ مٹ سکا
غیروں کے گھر میں دیپ جلانے لگے ہیں وہ
تیرا یہ طرز ہم نشیں اک دن
مجھ کو بیمار کرنے والا ہے
انسان کی زندگی میں اس کے استاد کا بہت اہم رول   ہوتا ہے اور انسان اپنی زندگی میں جو کچھ بھی حاصل کرتا ہے اس میں بڑا حصہ اس کے استاد کا ہوتا ہے۔ یہ استاد ہی ہیں جو انسان کے اندر چھپی حیوانیت کو ختم کر نے، اپنے وجود کو پہچاننے، حق و راست پر قائم رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے مذہب کے بارے میں علم بھی استاد کے ذریعہ ملتا ہے۔ حتی کہ اللہ کو بھی ہم اپنے استاد کے ذریعہ ہی جانتے ہیں. گویا دنیا کی تمام چیزوں سے استاد ہی ہمیں روشناس کراتے ہیں۔ ہماری زندگی میں استاد کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ نشتر صاحب بھی اپنے استاد کی اہمیت و قدر و منزلت کا اعتراف اپنے اشعار میں کچھ اس طرح کرتے ہیں:
ماں باپ سے بھی بڑھ کر استاد ہیں ہمارے
پاتے ہیں کامیابی ہم ان کے ہی سہارے
اللہ اور نبی کا درجہ انہیں سے جانا
ہیں ان کی بدولت دنیا کے یہ نظارے
یہ امن وآشتی کا دیتے ہیں درس ہم کو
کچھ ایسے ہیں یہ روشن جیسے کہ چاند تارے
استاد کا ادب جو کرتے نہیں بچے
پھرتے ہیں در بدر وہ دنیا میں مارے مارے
نشتر صاحب کی شاعری میں موضوعات کا تنوع ہے۔ انھوں نے سیاسی، سماجی، معاشی اور اقتصادی موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے اور بڑی خوب صورتی سے اپنی نظموں اور غزلوں میں پیش کیا ہے۔  نشتر صاحب  فرقہ وارانہ پالیسی سے بیزار نظر آتے ہیں اور حکومت کے احمقانہ نظریے اور رویوں پر طنز کستے پیچھے نہیں ہٹتے۔  ان کے یہ اشعار ملاحظہ کریں:
پھیلا ہے جب سے بغض و کدورت کا وائرس
نابود ہوگیا ہے شرافت کا وائرس
یہ کس نے وائرس کو مسلمان کردیا
مذہب سے کیسے جڑگیا بھارت کا وائرس
تھالی بجانے والوں نے ثابت یہ کردیا
گھیرے ہوئے ہیں ان کو جہالت کا وائرس

اب تو ہونے لگی لاشوں پہ سیاست ہارو!
رہ نما آج کا مکّار نظر آتا ہے
موصوف مہاماری کے دور میں اپنے اشعار کے ذریعہ ہدایت بھی دیتے ہیں:
چہار سمت کرونا کے سانپ بیٹھے ہیں
تم اپنے گھر سے نکلنے میں اجتناب کرو
یہ امتحان ہے نشترؔ تمسخر چھوڑو
اب اپنے اپنے گناہوں کا احتساب کرو
نشتر صاحب کی زبان سلیس و عام فہم ہے. اکثر وہ سہل و فصیح انداز میں بڑی سے بڑی بات کو بیان کر دیتے ہیں۔ ان کی شاعری کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اکثر چھوٹی بحروں میں شعر کہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں، جو اردو شاعری میں ان کی انفرادیت اور شناخت کی دال ہے۔ اس نوعیت کے اشعار دیکھیں:
خود کو نہ بھول جانا
جب آئینہ دکھانا
لینا دعائیں ماں کی
جب بھی سفر پہ جانا
حق بات پر بھی ایمان
کیوں ڈگمگارہا ہے
برسوں سے مجھ کو نشتر
وہ آزما رہا ہے
نشتر صاحب کی شاعری ان کی زندگی کی درد مندی کا آئینہ ہے. وہ جس زماں و مکاں کے حدود میں رہتے ہیں ان میں در پیش مسائل کو انھیں اپنی شاعری میں بڑی خوب صورتی سے پیش کرنے کا موقع دستیاب ہوتا ہے۔ موصوف کے یہاں موضوعات کا تنوع ہے. وہ کسی ایک بات پر گفتگو کرنے کے عادی نہیں، بلکہ اپنی شاعری میں روایتی تقاضوں کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کا بھی التزام رکھتے ہیں۔ امید قوی ہے کہ ان کا شعری سفر یوں ہی جاری رہے گا اور آئندہ دنوں میں وہ اسی طرح اپنے قارئین کو محظوظ کرتے رہیں گے۔ آخر میں میں اپنی بات داغ  کے اس شعر پر ختم کرنا چاہوں گا:
خط ان کا بہت خوب عبارت بہت اچھی
اللہ کرے حسنِ رقم اور زیادہ
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: کتاب: بنگال میں اردو ناولٹ نگاری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے