صفدر امام قادری کے لیے ظفر کمالی کی ‘سوغات`

صفدر امام قادری کے لیے ظفر کمالی کی ‘سوغات`

محمد ولی اللہ قادری

استاد، گورنمنٹ انٹر کالج (ضلع اسکول)، چھپرا

صفدر امام قادری اور ظفر کمالی دونوں کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ دونوں میں لازم و ملزوم کی نسبت ہے اور یہ نسبت اور تعلق نسبی نہیں بلکہ ادبی اور اخلاقی ہے۔ چالیس سالوں کی رفاقت اور روز بہ روز ارتقا کی طرف گام زن ہے، اِسی لیے دونوں کی رفاقت کو مثالی قرار دیا جائے تو ہر گز مبالغہ نہ ہوگا۔ صفدر امام قادری کی بارگاہ و درس گاہ میں ظفر کمالی کا ذکرِ خیر نہ ہو اور ظفر کمالی کی خانقاہ میں صفدر امام قادری کا وِرد نہ ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے اِس قدر قریب ہیں کہ خونی و نسبی رشتہ رشک کی نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے۔ ظفر کمالی کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ براے ادبِ اطفال ۲۰۲۲ء تفویض ہونے کے فوراً بعد بزمِ صدف انٹر نیشنل کے زیرِ اہتمام صفدر امام قادری نے ایک کامیاب سے می نار منعقد کرکے ظفر شناسی میں اِضافہ کیا۔ اہالیانِ اردو سے می نار کے مقالات کے مجموعے کے منتظر تھے لیکن سے می نار کے تقریباً دو ماہ بعد ظفر کمالی نے ایک سو پچیس رباعیات کا مجموعہ ’سوغات‘ اردو دنیا میں پیش کرکے صفدر شناسی میں اِضافہ کر دیا۔
دونوں تحفے کسی عقیدت کا ثمرہ نہیں بلکہ انھیں ادبی رفاقت کی ایک صورت قرار دینا زیادہ بہتر ہوگا۔ کمالی اور قادری کی رفاقت کے مابین امتیاز وحید کا کردار بھی بہت خوب ہے۔ ’ظفر کمالی: ایک ادبی اعتراف‘ سے می نارکا کلیدی خطبہ پیش کرنے کاشرف اگر امتیاز وحید کو حاصل ہوا تو ’سوغات‘ جیسے شعری مجموعے کا مقدّمہ لکھنے کا امتیاز وحید کا مقدر کیوں نہ ہوگا؟ امتیاز وحید کا مقدّمہ صفحہ ۱۵؍ سے ۳۰؍ تک محیط ہے۔ مقدّمہ نگار نے ’ظفر کمالی کی صفدری رباعیاں‘ کا بہت عمدہ جائزہ لیا ہے۔ اس مقدمے میں شخصی رباعیات کے حوالے سے بھی بہت اہم اطّلاعات دی گئی ہیں۔ ظفر کمالی اور صفدر امام قادری کی شخصیات کا اعتراف کرتے ہوئے’سوغات‘ کا مقدّمہ لکھنے کا جواز بھی پیدا کر دیا ہے۔ موصوف ایک مقام پر لکھتے ہیں:
’’اردو میں شخصی رباعیوں کی روایت کوئی آج کی بات نہیں بلکہ طویل ہے۔ ذات کی خوبیاں شخصی رباعیوں کا اصل محرک بنتی ہیں جو بالعموم چار، چھے یا اس سے کچھ زائد رباعیوں پر سمٹ جاتی ہیں۔ علقمہ شبلی کا ایک مجموعۂ رباعیات ’چہرہ نامہ‘ محض شخصی رباعیوں پر مشتمل ہے تاہم کسی بھی شخصیت پر رباعیوں کی تعداد آٹھ سے آگے نہیں بڑھتی۔ شاہ حسین نہری نے گرچہ اپنے شخصی رباعیات کے مجموعے’گل بدن کی یاد میں‘ میں ایک قابلِ لحاظ تعداد میں رباعیاں کہی ہیں تاہم وہ رباعیاں بھی چوہتّر پر سمٹ گئی ہیں۔ اس عام روش کے علی الرغم صفدرصاحب کے سلسلے سے ظفرکمالی نے ایک سو پچیس رباعیاں کہی ہیں۔ اس طرح ایک طرف جہاں شخصی رباعیوں کے باب میں رباعی گو کے کمالات ہمارے سامنے آتے ہیں، وہیں اس شخصیت کا طلسم بھی وجہ کشش بنتا ہے، جنھیں سامنے رکھ کر اتنی بڑی تعداد میں رباعی کہنے کی گنجایش نکل آئی ہے۔‘‘ صفحہ۔۱۶
سولہ صفحات کے مقدّمے میں مقدّمہ نگار نے ظفر کمالی کی صفدری رباعیوں کا بہترین تجزیہ پیش کیا ہے۔ بیالیس صفحات پر پھیلی ایک سَو پچیس رباعیات کے تنقیدی جائزے کے دوران مقدّمہ نگار نے توازن کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا ہے۔ اِس لیے ’سوغات‘ کا مقدّمہ بھر پور اور قابلِ مطالعہ ہے جو ظفر شناسی اور صفدر شناسی میں اِضافہ کا درجہ رکھتا ہے۔
’سوغات‘ بَہتّر صفحات کی کتاب ہے۔ یہ کتاب بھی طباعت کے معیار کے مطابق ہے۔ ’سوغات‘ میں شامل پہلی رباعی ہی صفدر امام قادری کی ادبی و تنقیدی فتوحات کا پیش خیمہ ہے۔ تمہیدی رباعی میں ہی ظفر کمالی نے صفدر امام قادری کے خاندانی امتیازات کو داخل کر دیا ہے۔ مذکورہ رباعی ملاحظہ کریں:
سب جس کو محبت سے پُکاریں صفدر
ہیں اس میں شرافت کے ہزاروں جوہر
چھوڑے گا بھلا کیسے اشراف کی خو
اشرفؔ کا پسر ہے وہ اشرفؔ کا پسر
’سوغات‘ کے مطالعے سے پہلا تاثر ہی قائم ہوتا ہے کہ اِس کا ناقد ’من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو‘ سمجھنے کی غلطی نہ کرے، کیوں کہ ظفر کمالی نے پوری ایمان داری اور دیانت داری کے ساتھ صفدر نامہ تیّار کیا ہے۔ بڑا سے بڑا متعصب ناقد بھی مداحی تو دُور کی بات ’مدلل مداحی‘ کا الزام بھی عاید نہیں کر سکتا۔ اِس دعویٰ کے متعلق دو رباعیاں دیکھیں:
وہ خشک تو ہے ذرا مگر تَر بھی ہے
امّید بہت ہے اُس سے، کچھ ڈر بھی ہے
ہم کیسے کہیں اُسے سراپا ہے خیر
جب ہے وہ بشر تو اُس میں کچھ شر بھی ہے

جرأت ہے کسے جو کہہ دے، نادان ہے وہ
حکمت کی کرو بات تو لقمان ہے وہ
ہم اُس کو فرشتہ تو نہیں کہتے ہیں
کرتا ہے خطائیں بھی، انسان ہے وہ
’سوغات‘ کی رباعیوں کے مطالعے سے صفدر امام قادری کی ایسی شبیہ اُبھرتی ہے کہ قاری ظفر کمالی کو داد دیے بغیر رہ نہیں سکتا اور بہت جلد ہی شاعر کے ممدوح کی شخصیت کا معترف ہو جاتا ہے۔ راقم الحروف کے ساتھ ہی صفدر امام قاری کے سینکڑوں معتقدین کے دل کی بات کو شاعر نے اِیسی رباعی میں رقم کر دی ہے:
تازیست نہیں ہونا ہے اُس سے جدا
ہوتی ہے اگر دنیا ہوجائے خفا
تسلیم کہ سو عیب ہیں اس میں لیکن
مجبور ہوں دل سے جو اُسی پر ہے فدا
’سوغات‘ کی بیش تر رباعیاں صفدر امام قادری کی تنقیدی اور تدریسی خدمات کے حوالے سے ہیں ۔جس محبت سے ظفر کمالی نے صفدر صاحب کی تنقیدی اور تدریسی خدمات کی انفرادیت کو واضح کیا ہے، اُسے عقیدت پر محمول کرنا بڑی نا انصافی ہوگی، کیوں کہ صفدر امام قادری کی ادبی خدمات ہوں یا تدریسی خدمات کے حوالے سے ظفر کمالی نے وہی نظریہ پیش کیا جو نظریہ اکابرینِ ادب کا ہے اور جس کی شہادت مشاہیر اساتذہ کے اقوال سے ملتی ہے۔ اِس قبیل کی چند رباعیات پیشِ خدمت ہیں:
صفدرؔ کا مکاں ہے کہ ہے کاشانۂ علم
لوگ اُس کو سمجھتے ہیں مے خانۂ علم
ہر وقت وہاں رہتی ہے پیاسوں کی بھیڑ
دن رات چھلکتا ہے پیمانۂ علم

پہنا تو نہیں سر پہ کبھی تاج اُس نے
حکمت سے مگر خوب کیا راج اُس نے
شاگرد نہ کیوں اس کے گرویدہ ہوں
استاد کے معنیٰ کی رکھی لاج اُس نے

جانباز سپاہی ہیں اُس کے شاگرد
دشمن کی تباہی ہیں اُس کے شاگرد
جان اُس پہ فدا کرنے کو تیّار رہیں
انعامِ الٰہی ہیں اُس کے شاگرد

نقّاد بنادے وہ شاگردوں کو
فولاد بنادے وہ شاگردوں کو
پتھّر کو تراشے تو ہیرا کردے
استاد بنادے وہ شاگردوں کو
ظفر کمالی نے صفدر امام قادری کی ادبی و تنقیدی صلاحیتوں کے اعتراف کے ساتھ ساتھ اُن کی زندگی کے نشیب و فراز اور شخصی کیفیات کی عکّاسی بھی عمدہ انداز میں کر دی ہے۔ چالیس سالوں کے دوران اپنوں اور بے گانوں کی کرم فرمائیوں کے متعلق معلومات ’سوغات‘ کے مطالعے سے حاصل ہو جاتی ہیں۔ البتہ ظفر کمالی کا طنزیہ اور مزاحیہ اسلوب اور بیان کی لطافت بھی قابلِ دید ہے:
دیکھی ہیں ظفرؔ اُس نے غضب کی جنگیں
جھیلی ہیں حَسَب اور نَسَب کی جنگیں
اُن جنگوں سے اس نے یہ سلیقہ سیکھا
لڑتا ہے خموشی سے ادب کی جنگیں

دشنام کے پتھّر بھی چلے ہیں اُس پر
بہتان کے خنجر بھی چلے ہیں اُس پر
ایسے ہی نہیں اُسے سراَفرازی ملی
احساس کے نشتر بھی چلے ہیں اُس پر

دریا کی طرح اس نے بہنا سیکھا
حالات کی سختیوں کو سہنا سیکھا
کھا کھا کے بہت چوٹ، بڑی محنت سے
نرغے میں حاسدوں کے رہنا سیکھا

سب کی دل داری میں ماہر ہے بڑا
سحر اس کا چلتا ہے ساحر ہے بڑا
کافر تو اس کو مومن کہتے ہیں
مومن کہتے ہیں وہ کافر ہے بڑا
ظفر کمالی کی مشاقی ہی نہیں بلکہ قادر کلامی پر کون سوال کھڑا کر سکتا ہے؟ اُن کی شاعری کی بالخصوص رباعیات کے مجموعے اُن کی مشاقی پر روشن دلیل ہیں۔ لفظوں کا انتخاب ہو یا تراکیب کا حیرت انگیز استعمال، اُن سب کا جلوہ ’سوغات‘ میں پورے آب و تاب کے ساتھ بکھر رہا ہے۔ صفدر امام قادری کی عائلی زندگی کے موضوع پر دو رباعیوں نے راقم الحروم کو بہت متاثر کیا۔ اِن رباعیوں کو ملاحظہ کیا جائے:
احساسِ جمال نے بھی مارا ہے اُسے
خوباں کے خیال نے بھی مارا ہے اُسے
تیّار تھا کچھ دل بھی مرمٹنے کو
کچھ شہرِ غزال نے بھی مارا ہے اُسے

گھر اپنا اُجڑنے سے بچایا اُس نے
تقدیر میں دکھ تھا تو اُٹھایا اُس نے
جینا تھا بہر حال تو مر مر کے جیا
جو زیست کا قرض تھا چکایا اُس نے
ایک اچھے دوست کی علامت یہ ہے کہ اپنے دوست کی اصلاح کے لیے حق بات کا برملا اظہار کرے اور وقتِ ضرورت سختی کا برتاؤ کرے، جسے صوفیہ ’عتابِ محبت‘ کہتے ہیں۔ ’عتابِ محبت‘ کا اظہار بھی ’سوغات‘ میں ہوا ہے۔ یہاں ظفرکمالی کا زورِ بیان بھی قابلِ تعریف ہے:
خود اپنی خوشی سے دردِ سر بھی پالے
دریاے محبت میں مگر بھی پالے
نااہل بھی پہلو میں بیٹھیں اُس کے
اچھّوں کے ساتھ بد گہر بھی پالے

عاقل غافل سب اُس کے حلقے میں
فاضل جاہل سب اُس کے حلقے میں
اُس کا حلقہ بھی کیسا حلقہ ہے
عادل باطل سب اُس کے حلقے میں
ظفر کمالی کی شاعری کا زورِ بیان صفدر جیسے اسمِ با مسمیٰ شخصیت کے حوالے سے بہت خوب ہے۔ صفدر امام قادری حریف کے لیے اگر صفدر ہیں تو ضرورت مندوں کے لیے امام اور عقیدت مندوں کے لیے قادری کا لاحقہ باعث تسکین ہے۔ اِن ساری باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے چند رباعیات ملاحظہ کریں:
ٹھوکر میں رکھے اونچے دربار کے بُت
پوجے نہیں اس نے غلط افکار کے بُت
صفدر ہے تو باطل کی صفوں میں گھس کر
توڑے ہیں بہت اس نے پندار کے بُت

نصرت میں، موانَسَت میں بھی فرد ہے وہ
دکھ درد کے ماروں کا ہمدرد ہے وہ
دیتی ہے گواہی یہ جواں مردی بھی
ہاں مرد ہے وہ، مرد ہے وہ، مرد ہے وہ

لیتا ہے دور کا نشانا مجذوب
دنیاے ادب کا یہ پُرانا مجذوب
ایسے ہی غضنفرؔ تو نہیں کہتے ہیں
صفدر کو آج کا ’سیانا مجذوب‘
ظفر کمالی نے ’سوغات‘ میں صفدر امام قادری کی شخصیت کے نمایاں پہلوؤں پر رباعیاں پیش کی ہیں۔ اِن پہلوؤں میں مذہبی پہلو بھی خاص ہے۔ مذہبیات کے حوالے سے صفدر امام قادری کا بچپن اور نوجوانی معصومیت میں گزری جب کہ جوانی مذہبی بے راہ روی میں۔ البتہ یہ بے راہ روی اعمال تک ہی راقم نے دیکھی۔ البتہ اعتقادیات کے باب میں مستحکم۔ زیارت حرمین شریفین کے بعد نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ اِن باتوں کے تناظر میں ظفر کمالی کی یہ رباعی بہت خوب ہے:
کچھ اور نظر آتے تھے تب کے صفدر
دیکھا ہے اِدھر؟ کیسے ہیں اَب کے صفدر
آئے ہیں وہ کعبے کی زیارت کرکے
ہوجائیں نہ کیوں دل سے رَب کے صفدر
’سوغات‘ کے مطالعے کے دوران شاعر کے بعض نظریات سے اختلاف کی گنجایش پیدا ہوتی ہے۔ شاعر کا نظریہ شعری لحاظ سے ہر چند درست ہو سکتا ہے لیکن حقایق کچھ اور ہیں اور اس سے بڑھ کر۔ پہلے محض دو رباعیاں دیکھیں:
اب آن ہوا شان ہوا پَٹنے کی
سب خوش ہیں کہ وہ جان ہوا پَٹنے کی
یہ اس کی ریاضت کا صلہ ہے کہ وہی
اس عہد میں پہچان ہوا پَٹنے کی

پاتا ہے بہت تو کچھ وہ کھوتا بھی ہے
ہنستا ہے اگر تو چُھپ کے روتا بھی ہے
لوگوں کے قلب میں بڑی حکمت سے
کچھ نیکی کے بیج وہ بوتا بھی ہے
مذکورہ بالا پہلی رباعی میں صفدر امام قادری کو پٹنے کی شان قرار دینا ہر چند درست ہے لیکن اب تو موصوف کی شخصیت بہار کی شان بن چکی ہے۔ اِسی طرح صفدر امام قادری نیکی کے کچھ بیج نہیں بوتے ہیں بلکہ بہت کچھ بیج بو چکے ہیں جو تناور درخت کی شکل اختیار کر ملک بھر کی عصری جامعات میں لہلہا رہے ہیں۔
’سوغات‘ کی کوئی رباعی بھی کم درجے کی نہیں ہے۔ سبھی کسی نہ کسی نوعیت سے انتخاب کا درجہ رکھتی ہیں۔ اِس لیے تفصیل سے دعائیہ رباعیات اور شاعر کے نیک مشورے کو پیش کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے:
خادم کی طرح قوم کی خدمت میں رکھے
تا عمر اُسے سایۂ رحمت میں رکھے
جادو نہ چلے اُس پہ نگاہِ بد کا
اللہ اُسے اپنی حفاظت میں رکھے

آفت سے بلاؤں سے رکھّے محفوظ
کلفت کی گھٹاؤں سے رکھّے محفوظ
رب اُس کو رکھے اپنی نگہ بانی میں
دشمن کی ’دعاؤں‘ سے رکھّے محفوظ

خوابوں سے سجا خیال اُس کی ہستی
ہر طور سے باکمال اُس کی ہستی
اللہ ہمیں دن وہ دکھائے کہ بنے
دنیا کے لیے مثال اُس کی ہستی

کوئی بھی کہاں نرم ہے صفدر صاحب
اب شرم بھی بے شرم ہے صفدر صاحب
بہتر ہے رہیں ٹھنڈے دل اور دماغ
ماحول بہت گرم ہے صفدر صاحب
امید قوی ہے کہ ’سوغات‘ کا استقبال اردو دنیا میں ہوگا اور اُس کے ذریعہ صفدر امام قادری اور ظفر کمالی کی ادبی رفاقت کو مثالی قرار دیا جائے گا۔ ’سوغات‘ کے تئیں ہماری نیک خواہشات اور ظفر کمالی کو قلبی مبارک باد!!!
***
صاحب نگارش کی گذشتہ نگارش :صفدر امام قادری کا تنقیدی شعور

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے