صفدر امام قادری کا تنقیدی شعور

صفدر امام قادری کا تنقیدی شعور

محمد ولی اللہ قادری
استاد، شعبۂ اردو، گورنمنٹ انٹر کالج، چھپرا

یادش بخیر ۲۰۲۱ء کے اواخر کی بات ہوگی۔ راقم الحروف کو، ایک عزیز کی شادی میں شرکت کی غرض سے مادر علمی بڑہریا، سیوان جانے کا اتفاق ہوا۔ اس کی اطلاع پاتے ہی معروف محقق اور شاعر ڈاکٹر ظفر کمالی نے اپنے دولت خانہ پرحاضر ہونے کا حکم صادر فرما دیا، سیوان ریلوے اسٹیشن سے سیدھے ڈاکٹر ظفر کمالی صاحب کے ہمراہ ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوا۔ خوردونوش کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔ دورانِ گفتگو پروفیسر صفدر امام قادری کا ذکر خیر آگیا۔ ظفر کمالی نے فرمایا کہ صفدر صاحب کو چاہیے کہ جلدی جلدی اپنی کتابیں منظر عام پر لائیں کہ نئی نسل سے توقع بے کار ہے۔ظفر کمالی کی رائے چوں کہ خاک سار کے جذبات کا آئینہ تھی اس لیے خاک سار نے فوراََ سے پیش تر ظفر کمالی کی بات پر آمنّا صدّقنا کہا۔ کیوں کہ راقم الحروف ایک عرصے سے صفدر امام قادری سے کتاب کی اشاعت کے بارے میں بار بار گذارش کرتا رہا۔ جیسا کہ صفدر امام قادری نے اپنی کتاب ’نئی پرانی کتابیں‘ اس تحریر کے ساتھ عنایت فرمائی:
’’کرم فرماے مصنف حضرت ولی اللہ قادری مدّظلہ کے لیے جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت کے لیے کئی برسوں تک تقاضا جاری رکھا‘‘
دستخط
(صفدرامام قادری)
۲۲۔۱۰۔۲۰۱۳ء
ایسا لگتاہے کہ ہماری گفتگو بابِ اجابت سے جا ملی اور صفدر امام قادری کی کتابیں بہ تدریج سامنے آنے لگیں۔’نئی پرانی کتابیں‘ ۲۰۱۳ء اور ’ذوق مطالعہ‘ ۲۰۱۴ ء کی اشاعت کے بعد اب تیسری کتاب ’محمد حسین آزاد کا تنقیدی شعور اور دیگر مضامین‘ ۲۰۱۵ء ارباب علم و ادب کی خدمت میں حاضر ہوچکی ہیں۔ عجب اتفاق کہ یہ کتاب ظفر کمالی کے نام ہی معنون کی گئی ہے۔
پیش نظر کتاب ’محمد حسین آزاد کا تنقیدی شعور اور دیگر مضامین‘ صفدر امام قادری کے متفرق تنقیدی، فکری، تعلیمی اور تبصراتی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کو محترمہ افشاں بانو نے بڑی عرق ریزی سے ترتیب دیاہے۔ مرتبہ نے کتاب کی ترتیب وپیش کش میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ یہ کتاب مصنف کے سترہ مضامین کا ایسا گلدستہ ہے کہ قاری مختلف اقسام کے علمی پھولوں کی خوشبووں سے معطر ہوجاتا ہے۔ کتاب کے آغاز میں جناب شفیع جاوید کا مقدمہ بہت خوب ہے۔ مقدمہ کے مطالعہ سے قبل راقم الحروف شفیع جاوید کی فکشن نگاری سے ہی واقف تھا۔ زیر نظر کتاب کے مطالعہ سے شفیع جاوید کی تنقیدی آگہی سے خاک سار محظوظ ہوا۔مقدمہ نگار نے مقدمہ نگاری کامکمل حق ادا کردیا ہے۔
مصنّف کی تحریر کے آغاز سے قبل ’اعتذار‘ کے عنوان سے مصنّف کا ہی پیش لفظ ہے۔ پیشِ لفظ میں مصنّف نے نام کتاب کی تجویز اور مضامین کے ورود پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ پیش لفظ کے عنوان کو دیکھنے کے بعد قاری کو ذرا مغالطہ ہورہا ہے کہ کہیں ایسا نہیں کہ مصنّف احساس کمتری کا شکار ہوگیا ہو کہ اس نے اپنی کتاب ’ذوق مطالعہ‘ کاپیش لفظ ’معذرت‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ البتہ مصنّف کے پیش لفظ کے مطالعے سے واضح ہوجاتا ہے کہ لفظ ’اعتذار‘ کی ضرورت کیوں پڑی اور اس کی معنویت کیا ہے؟مصنّف کی تحریر سے یہ بات بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ مصنّف اپنے تنقیدی نتائج سے مکمل مطمئن ہے۔نیز یہ بھی بتایا ہے کہ دیگر مصنّفین کو کس طرح اپنی تحریر کو اطمینان بخش بنانا چاہیے۔
زیر نظر کتاب کا پہلا مضمون ’محمد حسین آزاد کاتنقیدی شعور‘ ہے۔ یہ مضمون ’آب حیات‘ کے تیسرے دور کے تناظر میں مکمل ہوا ہے. ۳۷ /صفحات پر مشتمل یہ مضمون متعدد جہات سے بھرپور ہے۔ مضمون کے مطالعہ سے مصنّف کی پروازِ فکر و ناقدانہ ذہنیت کی داد دینی پڑتی ہے۔ مصنّف کی گذشتہ کتاب ’ذوق مطالعہ‘ میں بھی” آب حیات کے سلسلے میں مضمون شامل ہے مگر دونوں مضامین کی کائنات الگ ہے۔ کہیں بھی گفتگو دہرانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ مصنف نے مضمون کا سرنامہ ’محمد حسین آزاد کا تنقیدی شعور‘ منتخب فرما کر، محمد حسین آزاد کو کیا اردو تنقید کے بانی کی حیثیت سے پیش کیا ہے؟ اس سوال کا تشفی بخش جواب ارباب علم و دانش ہی دیں گے لیکن اس مضمون کے مطالعہ کے تناظر میں یہ بات ضرور کہی جائے گی کہ صفدر امام قادری نے محمد حسین آزاد کے تنقیدی شعور اور ’آب حیات‘ کے فیضان کو عام کرنے کی جو سعی فرمائی ہے وہ بہرحال مفید اور عصر حاضر میں قابل تقلید نمونہ ہے۔ ارباب علم و اصحاب نقدونظر کو صفدر امام قادری سے امید قوی ہے کہ بقیہ ادوار کا مطالعہ اسی شان و شوکت سے پیش کریں گے تاکہ اکیسویں صدی کے طلبہ محمد حسین آزاد کے علمی و تنقیدی فیضان سے مکمل مستفید ہوسکیں۔ قدیم کتابوں میں بعض کتابیں اپنی شرح سے پہچانی جانی ہیں۔ اس کی بہترین مثال ”باغ وبہار“ ہے۔”آب حیات“جیسی شاہ کار کتاب کی معرفت اس مضمون سے ہو یہ بہت بڑا دعویٰ ہوگا مگر مضمون کے جزئیات کے مطالعہ کے بعد اتنا ضرور کہاجاے کہ نئی نسل کا اردوداں حلقہ اورطلبہ کے لیے یہ مضمون رہ نما ضرور ثابت ہوگا۔ غالباََ اسی بات کے مدّ نظر مصنّف نے آب حیات کے تیسرے دورکی تشریح غیر معمولی و عالمانہ انداز میں کیا ہے۔ ہمیں امید قوی ہے کہ اردو ادب کے طلبہ اور باذوق قارئین کو”آب حیات“ اور محمد حسین آزاد تک کا سفر کرنے میں صفدر امام قادری کا یہ مضمون قابل ذکر وسیلہ ہوگا اور اس کے مطالعہ کے بغیر”آب حیات“سے صیحح معنوں میں استفادہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
کلاسک کے باب میں متذکرہ مضمون کے علاوہ ”نظیر اکبرآبادی کا شعری مزاج“ اور’غالب کا مرثیۂ عارف: ایک تنقیدی جائزہ ‘شامل ہے۔ دونوں مضامین بھرپور اور موضوع کا مکمل احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ کتاب میں کلاسیکی مضامین کو اولیت کا درجہ دے کر مصّنّف پیغام دینا چاہتا ہے کہ بزرگوں کے چراغوں سے روشنی حاصل کیے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھا جاسکتا ہے۔ نظیر اکبرآبادی کی تخلیقات و منظومات کی روح میں داخل ہوکر صفدر امام قادری نے نظیراکبرآبادی کی خصوصیت و انفرادیت کو واضح کیا ہے۔ مرثیہ عارف کے سلسلے میں مصنّف نے جو تنقیدی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے وہ بہرحال صفدرامام قادری کاحصّہ ہے۔ دس اشعار پر مشتمل مرثیہ عارف کی شرح و تجزیہ کے لیے مصنّف نے بارہ صفحات روشن کیا ہے۔ یہاں حیرت کے ساتھ یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ غالب کی ایک غزل کی تشریح کے لیے بارہ صفحات پر اپنی تنقیدی شان بکھیرنے والا مصنّف اگر ”دیوان غالب“ کی شرح لکھنے بیٹھے تو پھر اس شرح کا عالم کیا ہوگا۔ مصنّف نے غالب کی دس غزل کے اشعارکا موازنہ انگریزی زبان کے شعرا سے کرکے پنی انگریزی دانی کاثبوت بھی فراہم کردیا ہے۔ غالب اردو شاعری پر غالب کیسے ہیں، اس کی تفہیم کے لیے صفدرامام قادری کایہ مضمون ممدومعاون ہے۔”نشاۃ الثانیہ“ کے تحت دومضامین اس کتاب میں شامل ہیں۔ اس باب کا پہلا مضمون ”شبلی؛سرسید سے کتنے مختلف بالکل انوکھا اور تحقیقی و تاریخی نوعیت کا ہے۔ مصنّف نے دونوں شخصیات کے علمی وقار کے وزن کو ملحوظ رکھتے ہوئے دونوں کے علمی اختلافات پر غیر جانب دارانہ گفتگو کی ہے۔ مصنّف نے دونوں حضرات کی تصنیفات و قلمی باقیات کے تناظر میں اپنا مطالعہ مکمل کر کے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ بالکل حقیقت پر مبنی ہے۔ اس مضمون کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ شبلی اور سرسید احمد خاں کے علمی اختلاف کے تناظر میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہمارے لیے دونوں شخصیات قابل احترام ہیں اور ہم دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔
”نشاۃ الثانیہ“ میں شامل دوسرامضمون ”یادگارحالی؛حالی کی ایک مثالی سوانح کا نقطۂ آغاز“ بھی بہت خوب ہے۔ مصنّف نے اس مضمون میں یادگارحالی کی مصنّفہ صالحہ عابدحسین کی کاوشوں کی داد دیتے ہوئے اس کتاب کوحالی کی شخصیت کی تفہیم اور گمشدہ اوراق تک کی رسائی کے لیے ایک بنیادی ماخذ تسلیم کیا ہے۔ اپنی راے کو ”یادگارحالی“ کے اقتباسات سے مدلل کرتے ہوئے صفدرامام قادری نے دوٹوک فیصلہ سنایاہے۔
فکشن کے باب میں بھی دو مضامین شامل ہیں۔ ان میں سے ایک کا موضوع ”اردوانشاپردازی کی مذہبی جڑیں“ (فکشن کے خصوصی حوالے سے)“ ہے جب کہ دوسرا مضمون ”غفنفرکا افسانہ سانڈ؛ ایک تجزیہ“ ہے۔ پہلے مضمون میں مصنّف نے ملاّ وجہی کی سب رس سے لے کر قرۃ العین حیدر تک کی فکشن نگاری میں اتر کر اپنی گفتگو مکمل کی ہے اور نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ ادب کو مذہب سے الگ کرکے نہیں دیکھا جائے۔ یہ دیگر بات ہے کہ ادب کی قدروقیمت کے اصول اور اسالیب غیرمذہبی ہوں تو بہتر ہوگا۔ یہ مضمون مصنف کا مذہب سے وابستگی کا پتہ بھی بتا رہا ہے۔ مصنّف کی پرورش مذہبی ماحول میں ہوئی اس لیے ایسے موضوعات کی جانب لپکنا مصنّف کا ہی حصّہ ہوسکتا ہے۔ ادب کو مذہب سے الگ کرکے دیکھنے والوں کے لیے یہ مضمون ایک آئینہ کا کام کرتا ہے تاکہ وہ اپنے نظریات پر غوروفکر کرکے اپنی فکر سے رجوع کریں۔ مصنّف کا پیش کردہ نظریہ خود ساختہ نہیں بلکہ قرآن پاک کے پیغام سے ہم آہنگ ہے کیوں کہ قرآن پاک میں احکام دین اور اصول اسلام سے زیادہ قصص اور حقیقی واقعات موجود ہیں۔ ملاّ محمد جیون (استاد بادشاہ اورنگ زیب عالم گیرعلیہ الرحمہ) نے اپنی کتاب ”نورالانوار(جوعربی جماعت کی مشہور درسی کتاب ہے جس کا موضوع اصول فقہ ہے) میں لکھا ہے کہ قرآن پاک کی پانچ سو آیات کا ہی تعلق احکامات سے ہے اور ان ہی آیات سے شرعی احکام مستنبط ہیں باقی آیات کا تعلق قصص سے ہے۔ اسی طرح تین ہزار احادیث کا تعلق شرعی احکام سے ہے۔ اس مضمون کے مطالعے سے ان حضرات کی ذہنی کدورت ضرور دور ہوگی جو صفدرامام قادری کی مذہبی افکارکے تئیں منفی نظریات رکھتے ہیں۔ اس غلط فہمی میں صفدرامام قادری کے چند تلامذہ بھی مبتلا ہیں۔ پانچ سال قبل کی بات ہے کہ خاک سار نے چند احباب اورصفدرامام قادری کے شاگردوں کے درمیان ان مذہبی افکار پر گفتگوچل رہی تھی۔ اسی دوران بعض نے کہہ دیا کہ صفدرامام قادری کمیونسٹ ذہنیت کے حامل ہیں۔ اس وقت خاک سار نے یہی تاثر دینے کی کوشش کی کہ ادب اور سیاست کے تناظر میں یہ بات کہی جارہی ہو تو مجھے چنداں اختلاف نہیں۔ البتہ ان کی مذہبی فکر کے بارے میں آپ لوگوں کا یہ نظریہ ہے تو مجھے ضرور اختلاف ہے۔ اس مضمون کے مطالعے کے بعد راقم الحروف کی رائے کوتقویت ملی ہے۔
معاصر افسانہ نگار غضنفر کا افسانہ سانڈ،، کا تجزیہ کرتے ہوئے مصنّف نے سانڈ کو ایک سیاسی انسان بتاتے ہوئے بہت ہی عمدہ تجزیہ پیش کیاہے۔ مصنف نے اپنی عادت کے مطابق اس مضمون میں غضنفر کے دیگر ناولوں اور کہانیوں پر قدرے گفتگو کی ہے۔ نیز معاصر افسانہ نگار کے قابل ذکر افسانوں سے موازنہ کرنے کے علاوہ معاصر افسانہ نگاری کی سمت و رفتار پر بھی گفتگو سامنے لائی ہے۔ اس مضمون میں مصنّف نے تنقید کا مکمل حق ادا کردیا ہے۔ قدرشناسی جو تنقید کا بنیادی جوہر ہے یہاں مکمل دکھائی دیتاہے۔ تعلیم کے باب میں "سرسید کے تعلیمی تحفظات“ اور ”مولانا آزاد؛ جدید ہندستان میں اعلی تعلیم کے معمار اول“جیسا تاریخی اور علمی و تحقیقی مضمون شامل ہے۔ مصنّف نے سرسید کے تعلیمی تحفظات کو عورتوں کی تعلیم کے خصوصی حوالے سے، سامنے لایا ہے۔ اس مضمون میں ٹھوس دلائل کی بنیاد پر یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ سرسید عورتوں کی تعلیم کے حامی نہیں تھے۔ نیز سرسید مسلمانوں کے پس ماندہ طبقہ کی تعلیم کے تئیں منفی نظریہ رکھتے تھے۔ حالاں کہ سرسید کے دیگر رفقا ان کے نظریہ سے متفق ہی نہیں بلکہ شدید اختلاف کرتے رہے۔ مضمون کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مضمون کی تیاری میں مصنّف نے کس قدر تحقیق و تنقید کا فریضہ انجام دیا ہے؟ شاید اس موضوع پر پہلی کوشش صفدر امام قادری نے کی ہے اور سرسید شناسی کے باب میں اضافہ کیا ہے۔ مصنّف نے اپنے مضمون میں اس قدر تحقیقی و تاریخی مواد تیار کر لیا ہے کہ کوئی سخت گیر ناقد یہ کہنے میں حق بہ جانب ہوگا کہ سرسید کو عورتوں اور پس ماندہ طبقات کی تعلیم سے اختلاف نہیں بلکہ ان طبقات کی تعلیمی زبوں حالی دور کرنے کے سرسید مخالف تھے۔ مصنف نے اپنے مضمون میں جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ خصوصی مطالعہ کا غماز ہے تاکہ سرسید سے عقیدت کا جو بت قائم کیا گیا ہے وہ بت نست و نابود ہوجائے۔
ایسامحسوس ہوتاہے کہ سرسید جیسے بیدار مغز اور روشن خیال تعلیمی مفکر نے عورتوں کی آئندہ ترقیوں اور امکانات کی طرف سے آنکھیں بند کرلی تھیں۔ موجودہ حالات کے پیش نظر یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہندستان میں دوسری اقوام کی طرح مسلمان عورتوں نے بھی تعلیم اور ترقی کے شعبوں میں کچھ کم کامیابی حاصل نہیں کی۔ سرسید کے انتقال کے سوَا سو برس بعد اب کوئی دن کی بات ہے کہ ہندَتانی پارلیمنٹ میں ایک تہائی جگہیں عورتوں کے لیے مخصوص ہونے ہی والی ہیں۔ سرسید وقت کے تقاضوں کا شعور رکھتے تھے لیکن اپنی روایات اور معاشرتی تحفّظات کے ہاتھوں شاید وہ کسی قدر مجبور بھی تھے۔ ایجوکیشن کمیشن کو انھوں نے یہ صلاح بھی دی تھی کہ اسے مزدور پیشہ افراد کی تعلیم پر غور کرنے کی یکسرضرورت نہیں (حیات جاوید، ص؛ ٤١۔٢٤٠)۔ آج اُن کایہ قول بھی ہمیں نئے سرے سے اُن کے تصورات کے جائزے کی دعوت دیتاہے۔،،(ص؛۱۳۰) تعلیم کے باب کا دوسرا مضمون بھی بہت خوب اور عصر حاضر کے حالات کے مطابق ہے۔ مصنف نے مولانا آزاد کے وزارت تعلیم کے دور کا لیکھاجوکھا پیش کرکے یہ واضح کیا ہے کہ مولانا ابولکلام آزاد نے اپنی ذمہ داریاں پوری ایمان داری سے انجام دی۔ ہمارے ملک نے تعلیم کے باب میں بالخصوص اعلا تعلیم کے شعبہ میں جو بھی ترقیاں کیں ہیں وہ مولانا آزاد کی خدمات کا نتیجہ ہے۔ مولانا آزاد کے تعلیمی خطوط پر آئندہ حکومت اگرکام کرتی تو ہمارا ملک اعلا تعلیم کے شعبہ میں بہت آگے ہوتا۔ آج کل ہماری یونی ورسیٹز کی زبوں حالی کا سبب مولانا آزاد کے تعلیمی نظریات سے دوری ہے۔
تحقیق و تنقید کے ضمن میں بھی دومضامین شامل ہیں۔ ’بہار میں اردوصحافت‘ اور ’کلیم الدین احمد کی تنقیدات پر ڈاکٹر عبدالمغنی کی آرا‘ مصنّف کی تحقیقی و تنقیدی جستجو کی گواہی دے رہے ہیں۔ اس مضمون میں بہار کے تقریباََ دو سو سالوں کی صحافت کی تاریخ کا لیکھاجوکھا پیش کیا گیا ہے۔ یہ مضمون صحافت اور تاریخ کے طلبہ اور ماہرین کے لیے غیر معمولی مفید اور کار آمد ہے۔ مضمون نگار نے بہار سے شائع روزنامے، سہ ماہی اور ماہنامہ رسائل کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ یہ دیگر بات ہے کہ یہاں صرف ادبی رسائل ہی گفتگو کا محور بنے ہیں۔ بہار سے شائع دینی رسائل اور مذہبی صحافت کے سلسلے میں قدرے گفتگو سامنے آتی تو اس مضمون کی اہمیت و افادیت مزید بڑھ جاتی۔ یوں بھی اس مضمون کو ایک مبصر کا مقالہ لکھ کر اس کی اہمیت سے انکار کرنا سراسر علمی ناانصافی ہے. جیسا کہ ”آج کل“ نئی دہلی کا ایک قاری اس مضمون پر منفی تاثر دے چکا ہے۔ 
صفدر امام قادری کا مضمون پڑھنے کے بعد ذرّہ برابر سوجھ بوجھ رکھنے والا قاری مراسلہ نگار کی پرفریب تحریر سے متاثرنہیں ہوگا۔ متذکرہ مراسلہ کاحرف بہ حرف مراسلہ نگارکی جہالت کی گواہی دے رہاہے۔مظفر اقبال اوررضوان احمد جیسی شخصیات کی کتابوں سے روشنی حاصل کرکے لکھا گیا مضمون تشنہ ہوسکتا ہے تو سید احمد قادری اور عثمان انجم کی کتابوں سے ماخوذ مضمون کا کیا حال ہوگا اس کو بتانے کی قطعی ضرورت نہیں۔ مراسلہ نگار اور ان کے ہم نواؤں کی خدمت میں شیخ سعدی کایہ شعر پیش کرناچاہوں گا:
تا مردے سخن نگفتہ باشد * عیب وہنرش نہفتہ باشد
کلیم الدین احمد کی تنقیدات پر ڈاکٹر عبدالمغنی کی آرا، کتاب میں شامل سب سے پُرانا مضمون ہے۔ یہ مضمون ١٩٨٩ء میں لکھا گیا اور بہار اردو اکادمی کی جانب سے منعقدہ کلیم الدین احمد سے می نار کے مقالے نامی کتاب میں شائع ہوا۔ صفدرامام قادری کا یہ مضمون محض ٢٤ سال کی عمر میں وجود میں آیا اس لیے اس مضمون کا اسلوب ذرا جارحانہ لگ رہاہے۔ کہتے ہیں کہ لفافہ دیکھ کر خط کے مضمون کا اندازہ ہوجاتاہے، اس مقولہ کو صفدر امام قادری نے مضمون کے عنوان میں سچ ثابت کردیا ہے۔ صفدر امام قادری نے عنوان میں ہی یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ عبدالمغنی کی تنقید میں قدر شناسی (جوتنقید کا بنیادی جوہرہے) کا فقدان ہے اس لیے کلیم الدین احمد کے سلسلے میں عبدالمغنی کی تحریروں کو تنقید میں شامل نہیں کیاجائے بلکہ عبدالمغنی کی آرا تک محدود کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ صفدر امام قادری نے اپنے مضمون میں عبدالمغنی کی کتابوں سے اقتباسات درج کرکے ان کی تنقیدات کے تسامحات کو عالمانہ انداز میں بیان کیا ہے. ساتھ ہی ساتھ عبدالمغنی کی تنقیدی حیثیت متعین کردی ہے۔ صفدر امام قادری کے اس مضمون سے اختلاف ممکن ہے مگر انھوں نے عبدالمغنی کی کتابوں کے مطالعے سے جو نتیجہ اخذ فرمایا وہ ناقابل فراموش ہے۔
”اردوادب نے بہت ساری برساتیں دیکھی ہیں۔ زیادہ دنوں کی بات نہیں، جب ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کے دور میں ہزاروں لکھنے والے ادب کی برسات کے ریلے میں کب بہہ گئے اور وہ لوگ جو کبھی اپنے دور میں شعر و ادب کا آفتاب و ماہتاب تھے، ہم نے دیکھا کہ ان کا آج کہیں کوئی پتا نہیں اس لیے میں اپنی گفتگو ختم کرتے ہوئے یہ کہنے سے گریز نہیں کروں گا کہ ڈاکٹر عبدالمغنی کے اندازنقد نے اپنے تیور نہیں بدلے اور علم و فن کی صحیح قدرشناسی کی جانب توجہ نہ ہوئی تو وہ دن دور نہیں جب ادب کی برسات کے پہلے ریلے میں ڈاکٹر صاحب جیسی ہزاروں شخصیات بہہ جائیں گی اور ادب کی تاریخ میں ان کا تذکرہ تک نہیں ہوگا؛۔۔(ص؛ ١٦٨) پیش کردہ اقتباس میں صفدرامام قادری کا انداز تحریر ہرچند جارحانہ ہے مگر انھوں نے عبدالمغنی کی زندگی میں ان کی تنقید کے بارے میں جو کچھ کہا وہ جلد از جلد ثابت ہوگیا کہ عبدالمغنی کی موت کے بعد ان کی تنقید کا اعتراف کرنے والوں کی تعداد نہیں کے برابر ہے۔صفدر امام قادری کی تنقیدی انفرادیت یہی ہے کہ ان کے تنقیدی فیصلے بہت جلد قبول عام ہوئے۔ ڈاکٹر عبدالمغنی کے سلسلے میں دیاگیا فیصلہ توثابت ہواہی پروفیسر عبدالوہاب اشرفی مرحوم کی تنقیدی حیثیت صفدرامام قادری نے قائم کی تھی وہ بھی صحیح ثابت ہوئی۔پروفیسر وہاب اشرفی کی تنقید کے تحفظات و تسامحات کا اظہار جس وقت صفدر امام قادری نے کیا تو ایوان نقد میں عجب شور برپا ہوا اور صفدر امام قادری کے خلاف ایک محاذ اترآیا۔ یہ دیگر بات ہے کہ صفدر امام قادری کے سوال کا صحیح جواب کسی نے نہیں دیا اور اب تک انتظار بھی ہے۔ وہاب اشرفی کے انتقال کے بعد معاملہ اتنا بدل گیا کہ ان کی زندگی میں جو شخص ان کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کا وظیفہ ورد کرتا تھا وہی موت کے بعد ان کے خلاف ایک دوجملہ لکھنا سب سے بڑا تنقیدی فریضہ سمجھا۔ مثال کے لیے ڈاکٹر رابعہ مشتاق کی مرتبہ کتاب ”پروفیسروہاب اشرفی محقق وناقد“ کامطالعہ بے حد مفید ہوگا۔ بہرکیف عبدالمغنی اور وہاب اشرفی کے بارے میں صفدرامام قادری کا تنقیدی فیصلہ اپنے اور بے گانے سبھوں میں قبول عام ہوگیا ہے کیوں کہ صحیح معنوں میں آج تک کسی نے صفدرامام قادری کے فیصلے سے علمی اختلاف نہیں کیا ہے۔ ترجمہ کے باب میں ”ظ۔انصاری کے شعری ترجمے“ عنوان سے بہت کار آمد و معلوماتی مضمون ہے۔اردو زبان و ادب کے طلبہ کے لیے یہ مضمون خاص انداز میں مطالعے کی دعوت دے رہا ہے۔ اس مضمون کی اہمیت و افادیت یہ بھی ہے کہ پروفیسر وہاب اشرفی نے ظ۔انصاری کے سلسلے میں صفدر امام قادری کی خدمات کا اعتراف فرمایا ہے۔ یہاں مصنّف کی غالب کی فارسی شاعری اردو شعرا کے تراجم کے حوالے گفتگو مکمل ہوئی. مصنّف نے کچھ اس انداز سے اپنا مطالعہ پیش کیا ہے کہ قاری کو کہیں بھی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ تقسیم ملک کے باب میں دو مضامین شامل ہیں۔ پہلے مضمون کاعنوان “تقسیم ملک اوربہارفسادات میں گاندھیائی تجربہ“ ہے جب کہ دوسرے کی سرخی“ برّ صغیر ہند کا المیہ ہے. پہلا مضمون منوگاندھی کی ڈائری کے تناظر میں لکھا گیا ہے اور دوسرا مضمون، عظیم گاندھی وادی مفکر رضی احمد کتاب ”برصغیر ہند کا المیہ؛ اقتدار، فرقہ واریت اور تقسیم" کے حوالے سے مکمل ہوا ہے۔ دونوں مضامین تحقیقی نوعیت کے ہیں۔یہاں مصنّف کی شخصیت کی ہمہ گیریت کا اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے سیاست اور تاریخ کے حوالے سے ایسی گفتگو کی ہے کہ پڑھنے کے بعد قاری کو عجب لطف اور غیرمعمولی معلومات فراہم ہوجاتی ہیں۔ اپنی طرف سے مزید رائے دینے سے بہتر سمجھتا ہوں کہ ایک اقتباس درج کردوں تاکہ اہالیان علم و ادب کو مضامین کی اہمیت و افادیت کا اندازہ خود بہ خود ہوجائے۔
”اس ڈائری کے پہلے اندراج سے ہی یہ پتا چل جاتا ہے کہ گاندھی جی سے محبت کرنے والے جو چند لوگ بہار میں موجود تھے، ان میں پروفیسر عبدالباری بھی شامل تھے،…. ٢٨۔مارچ ١٩٤٧ء کو پروفیسر عبدالباری پولیس چوکی پر پولیس کی گولی سے مارے گئے۔ ٢٩۔مارچ ١٩٤٧ء کی پراتھنا میں گاندھی جی نے عبدالباری صاحب کے اوصاف بتاتے ہوئے انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔گاندھی جی ان کے گھر میں اظہار تعزیت کے لیے بھی گئے تھے لیکن گاندھی جی نے باری صاحب کے مزاج کی تندی کا ذکر کیا اوریہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی کہ اس میں کوئی سیاسی کھیل تماشہ نہیں ہواہے اور پولیس چوکی کے افراد سے تلخ و ترش گفتگو کے نتیجے میں ان کی جان گئی۔"(۹۔١٩٠)
’وہاب اشرفی؛ ایک شخصی حوالہ‘ کتاب میں شامل ایسا مضمون ہے جو صفدر امام قادری کی مومنانہ فراست کی گواہی دے رہاہے۔ اس مضمون کے مطالعہ کے بعد مصنّف کی علمی شخصیت پر یقین ہوجاتا ہے کہ وہ کسی بھی شخصیت کا بت کیسے قائم کرسکتے ہیں؟ ’نئی پرانی کتابیں‘ اور ’ذوق مطالعہ‘ کے قاری کو اس مضمون کے مطالعہ کے بعد حد درجہ حیرت ہوگی کہ دونوں کتابوں میں وہاب اشرفی کی تنقید کا سخت محاسبہ کرنے والا جب شخصی حوالہ پر مضمون لکھے تو اس قدر محدوم [؟] ہوجائے۔ اس مضمون میں مصنّف نے اپنا تنقیدی رویہ بھی واضح کردیا کہ وہ کسی مصنّف یا تخلیق کار کوخوش کرنے کے لیے مضمون نہیں لکھتے ہیں بلکہ فن کی قدرشناسی ہی مصنّف کے مد نظر رہتی ہے۔ مصنّف نے وہاب اشرفی کی موت کے بعد یہ مضمون لکھا ہے گویا یہ ایک تعزیت نامہ ہے۔ وہاب اشرفی کی موت کے بعد بہت سے مضامین اخبارات میں شائع ہوئے یہاں تک کہ ’زبان وادب‘ نے ایک بھرپور گوشہ شائع کیا، شائع مضامین کا اس مضمون سے موازنہ کیاجائے تو ایک غیرجانب دار شخص یہ کہنے پر مجبور ہو گا کہ صفدر امام قادری جیسا مضمون شاید کسی نے لکھا۔ حدیث پاک میں ہے کہ ایک مومن کا ایک مومن پرحق یہ ہے کہ مرنے کے بعد خیر سے یاد کیا جائے۔ مصنّف نے اسی حدیث پاک پر عمل کرتے ہوئے شاید اس قدر اہم مضمون سپرد قرطاس کیا ہے۔ راقم الحروف کا ایمان بولتا ہے کہ اس مضمون سے وہاب اشرفی کی روح کو جس قدر خوشی ملی ہوگی شاید کسی اور مضمون سے نہیں۔ اس مضمون کی سب سے بڑی خصوصیت ہے کہ مصنّف نے اپنے اور وہاب اشرفی کے سلسلے میں جو بھی گفتگو کی ہے، مرکز وہاب اشرفی کو بنایا ہے اور ان کی شخصیت اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے. حالاں کہ آج کل دوسری شخصیت پر لکھنے والے حضرات اپنا ہی قصیدہ لکھنے لگتے ہیں۔ اس مضمون کے ہر حرف سے وہاب اشرفی سے مصنّف کی عقیدت ٹپک رہی ہے۔
مصنّف کی تحریر کا آخری حصّہ تبصرہ ہے۔ اس میں دو کتابوں پر تبصرے شامل ہیں۔ پہلا تبصرہ قمر سیوانی کے شعری مجموعہ ’رباعیات قمر‘ پر ہے جب کہ دوسرا ناصرہ شرما کے ناول ’زندہ محاورے‘ پر ہے ’رباعیات قمر‘ کا جائزہ لیتے ہوئے مصنّف نے قمر سیوانی کی شاعری کی خصوصیت کااعتراف کرتے ہوئے ”رباعیات قمر“ کو قابل قدر کتاب تسلیم کیا ہے اور واضح رائے دی ہے۔
کتاب کاضمیمہ بھی بہت خوب ہے، جو صفحہ ٢٢٧ تا ٢٥٦ محیط ہے۔ ضمیمہ کا آغاز ’عرض مرتب‘ سے ہوا ہے. بعدہ مرتبہ افشاں بانو کا ’نئی پرانی کتابیں‘ پر لکھا گیا تبصرہ شامل ہے۔ دونوں چیزیں قابل مطالعہ ہیں۔ ضمیمہ میں ’ذوق مطالعہ‘ پر لکھا گیا راقم الحروف کا تبصرہ بھی شامل ہے. راقم الحروف اس کے لیے مرتبہ کا مشکور ہے کہ خاک سار کی تحریر کو اشاعت کے قابل سمجھا۔آخر میں ڈاکٹر واحد نظیر کا قطعہ تاریخ انطباع ہے، جو شاعر کی شخصیت کو اجاگر کر رہا ہے۔ واحد نظیر نے اپنے اس شعر سے تاریخ اخذ کیا ہے:
اعدادان سے نام مصنف کے حذف ہوں
جو بچ رہیں، وہ سال اشاعت کی ہے خبر
٭٭٭
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : صفدری قلم کی تصویریں: "جانے پہچانے لوگ"

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے