عامر سلیم خان

عامر سلیم خان

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ، ہند

بے باک صحافی، ہمارا سماج دہلی کے مدیر، ادیب، شاعر، ناول نگار، پریس کلب آف انڈیا کے رکن، ورکنگ جرنلسٹ کلب کے صدر مرنجا مرنج شخصیت کے مالک چودھری امیر اللہ عرف عامر سلیم خان کا 12 دسمبر 2022ء کو دن کے ایک بجے بے بی پنت اسپتال نئی دہلی میں انتقال ہو گیا، وہ قلب کے مرض میں مبتلا تھے اور 10 دسمبر کو دوسری بار انھیں ہارٹ اٹیک ہوا، تین روز قبل انھیں اسپتال میں بھرتی کرایا گیا تھا، مرض میں اتار چڑھاؤ آتا رہا، وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا، اور پھر سانس کی ڈور اس طرح اتری کہ وہ دوبارہ چڑھ نہ سکی، پس ماندگان میں تین لڑکے اور ایک اہلیہ ہیں، سب سے بڑا لڑکا تیرہ سال کا ہے، تینوں لڑکے اسکول میں پڑھتے ہیں، جنازہ دن گزار کر ساڑھے آٹھ بجے شب مہدیان قبرستان میں ہوا، مولانا محمد رحمانی ڈائریکٹر جامعہ سنابل نئی دہلی نے جنازہ کی امامت فرمائی اور تدفین قبرستان مہدیان میں والد محمد سلیم خان کے پہلو میں ہوئی، جنھوں نے صرف ایک ماہ دس دن قبل جان جان آفریں کے سپرد کیا تھا۔
عامر بن سلیم خان (م 2 نومبر 2022ء) اڑتالیس سال قبل 1974ءمیں موجودہ ضلع سدھارتھ نگر یوپی کے ”کوہڑا“ گاؤں میں پیدا ہوئے، ان کے والد نے ان کا نام چودھری امیر اللہ رکھا تھا، ابتدائی تعلیم کے بعد جب وہ دہلی آئے تو ان کے استاذ قاری فضل الرحمن انجم ہاپوڑی نے ان کا نام بدل کر عامر سلیم خان کر دیا اور وہ اسی نام سے مشہور ہو گئے، دہلی انھیں مولانا ابو الوفا صاحب لے کر آئے تھے جو ان کے گاؤں کے ہی رہنے والے ہیں، دہلی میں آگے کی تعلیم کے لیے ان کا داخلہ پہلے مدرسہ ریاض العلوم میں ہوا، پھر وہ مدرسہ رحمانیہ ابو الفضل انکلیو منتقل ہو گئے، وہاں سے جامعہ رحیمہ مہدیان آگئے اور یہیں سے فراغت پائی، صحافی بننے کے قبل تدریسی زندگی کا آغاز جامعہ رحیمیہ مہدیان سے کیا، رہائش بھی ان کی مہدیان میں تھی، اس لیے صحافی بننے کے بعد بھی تدریس کی ذمہ داری ادا کرتے رہے، ان کا حافظہ مضبوط تھا، اس لیے واقعات و حادثات حافظہ کی گرفت میں جلد آجاتے تھے، انھیں اردو کے علاوہ عربی، فارسی زبان سے بھی خاصی انسیت تھی، ان کے ذمہ بہت دنوں تک جامعہ رحیمیہ کے حساب و کتاب کی ذمہ داری بھی رہی۔
عامر سلیم خان نے صحافت کا آغاز نامہ نگار کی حیثیت سے کیا، انھوں نے راشٹریہ سہارا میں نامہ نگار کی حیثیت سے کام کیا، دو سال بعد وہ ہندوستان اکسپریس دہلی سے وابستہ ہو گئے، ہندوستان اکسپریس سے الگ ہو کر خالد انور صاحب نے جب ہمارا سماج نکالا تو وہ اس سے وابستہ ہو گئے، خالد انور کے ایم ایل سی بننے کے بعد وہ ہمارا سماج کے ایڈیٹر بن گئے اور آخر سانس تک ہمارا سماج کی خدمت کرتے رہے، ان کے لکھنے کا انداز، مخصوص لب و لہجہ اور لا جواب سر خیوں کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
صحافت کے ساتھ انھوں نے ایک ناول بھی لکھا تھا جسے انھوں نے با خبر ذرائع کے مطابق نظر ثانی اور پروف ریڈنگ کے لیے اے رحمن ایڈووکیٹ اور ارشد ندیم کو میل سے بھیج دیا تھا، جنھوں نے اس ناول کو دیکھا ہے ان کے بقول اس کی کہانی دو مدرسہ میں پڑھنے والے لڑکوں کی کہانی ہے جو گاؤں سے شہر آ کر یہاں کے ماحول میں الجھ کر رہ جاتا ہے، عامر سلیم نے اس کہانی کا پلاٹ اس طرح تیار کیا ہے کہ سیاسیات، سماجیات، ماحولیات، وغیرہ سب کو اس کا حصہ بنا دیا ہے اور صاف شستہ زبان کے ذریعہ نیم رومانی انداز میں پلاٹ کو آگے بڑھا کر اختتام تک پہنچا دیا ہے۔
عامر سلیم نے شاعرانہ ذوق بھی پایا تھا، کبھی کبھی اس میں بھی طبع آزمائی کرتے اور موقع ملتا تو مجلسوں میں بھی سنا دیا کرتے تھے، صحافت میں جس طرح بے باکی کے ساتھ وہ لکھا کرتے تھے، ان کی شاعری کے موضوعات بھی اسی طرح کے ہوتے تھے، جو ہر اس شخص کو چوٹ پہنچاتے تھے جس سے ان اشعار کا تعلق ہوتا، ایسے موقع سے سامعین کو ’’اَلحَقُّ مُرّ“ سچ کڑوا ہوتا ہے کی صحیح تصویر کا ادراک ہوتا۔
صحافت میں ہر موضوع پر لکھنا، صحافی کی مجبوری ہوتی ہے، چنانچہ ان کی تحریروں کے موضوعات بھی متنوع ہوتے تھے، انھوں نے بعض شخصیات پر بھی مضامین لکھے، ان کی تعداد اتنی تو ضرور ہے کہ وہ ایک کتاب کی شکل اختیار کر لیں، لیکن اسے مرتب کرے گا کون؟ ان مضامین کو جمع کرنا اور پھر اسے طباعت کے مراحل سے گذارنا بہت آسان کام نہیں ہے، احباب و رفقا بھی فاتحہ خوانی کے بعد مطمئن ہوجاتے ہیں، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ متعلقین اس کام کے لیے فکر مند ہوں، اللہ کرے عامر سلیم خان کے معاملہ میں ایسا نہ ہو۔
جس کم عمری میں عامر سلیم خان چل بسے، اس نے ان کے بچوں کی کفالت کا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے، یہ ایک اچھی بات ہے کہ ہمارا سماج کے چیف ایڈیٹر جناب خالد انور ایم ایل سی نے ان کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرلی ہے، یہ ایک اچھی روایت قائم ہوئی ہے، اللہ کرے اس پر عمل بھی ہوجائے، ورنہ کارکن صحافی کی موت کے بعد جو ان کے خاندان کا حشر ہوتا ہے، اس کے لیے کسی مثال اور دلیل کی ضرورت نہیں ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے ۔آمین
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :پروفیسر ڈاکٹر معراج الحق برقؔ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے