جب تک ایک ناقد تازہ ادب نہیں پڑھے گا وہ آدھ پون صدی قبل ہی میں جیتا رہے گا: نجم الدین احمد

جب تک ایک ناقد تازہ ادب نہیں پڑھے گا وہ آدھ پون صدی قبل ہی میں جیتا رہے گا: نجم الدین احمد

صاحب معیار ادیب و مترجم نجم الدین احمد سے علیزے نجف کی ایک ملاقات

قدرت ہمیشہ ان پہ ہی مہربان ہوتی ہے جو جدوجہد کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے، استقامت وہ صفت ہے جو چٹانوں کو بھی ریزہ ریزہ کر دیتی ہے، ضروری نہیں کہ ہم اسی وقت کامیاب ہوں جب ہمارا تعلق ایسے خاندان سے ہو جو کہ ماضی میں کامیابی کی تاریخ رقم کرتا رہا ہو، کامیاب ہونے کے لیے ایک عظیم خاندان سے زیادہ مقصد کا واضح ہونا ضروری ہوتا ہے اور منزل تک پہنچنے والے راستوں کی تعیین کرنے کی صلاحیت ہی بہترین راہ بر ہوتی ہے، اس دنیا میں ایسے بےشمار لوگ گذرے ہیں جنھوں نے خود کامیابی کی تاریخ کو ازسر نو ترتیب دیا ہے، انھوں نے وسائل سے زیادہ عزم کو اپنا معاون پایا، اس وقت میرے سامنے ایک ایسی ہی شخصیت موجود ہیں جنھوں نے متوسط پس منظر کے ساتھ اپنے خوابوں کا سفر شروع کیا. موجود وسائل کے ساتھ انھوں نے مزید سہولتوں کے حصول کے لیے خود راہ ہم وار کی، انھوں نے جو کچھ اپنے خاندان سے لیا اس سے کئی گنا اضافے کے ساتھ افتخار کی صورت اسے لوٹایا. دنیائے ادب میں انھیں نجم الدین احمد کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ ایک ادیب، شاعر اور مترجم ہیں، تنقید و تحقیق کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں. اگر چہ انھوں نے اس صنف میں زیادہ کام نہیں کیا، ان کی شخصیت کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے دوسروں کی نظروں سے دیکھنے کے بجائے ہمیشہ دنیا کو اپنی نظر سے دیکھا اور اپنی رائے قائم کی. یہی وجہ ہے کہ ہند و پاک میں تخلیق کیے جانے والے اردو ادب پہ ان کی گہری نظر ہے. انھوں نے اس حوالے سے کئی طرح کے اعتراضات کا اظہار کیا ہے جو کہ واقعی ادبی بساط پہ قابل توجہ ہے جس کا ذکر آگے آئے گا. 
بہ حیثیت مترجم انھوں نے کئی شہرۂ آفاق نوبیل انعام یافتہ افسانوں کا ترجمہ کیا ہے. ترجمہ نگاری کے ضمن میں ان کی سات کتابیں منصۂ شہود پہ آ چکی ہیں، جو ان کی کثیر اللسانیت کی دلیل ہے. اس کے علاوہ ان کی طبع زاد کتابیں مدفن، کھوج اور سہیم اور دو افسانوی مجموعے آؤ بھائی کھیلیں اور فرار اور دوسرے افسانے—- شامل ہیں۔ دو ناول—- مَینا جیت اور پرچھائیاں—- اور ایک افسانوی مجموعہ، جس میں دو ناولٹ اور پانچ افسانے شامل ہَوں گے، یہ کتابیں ابھی زیر طبع ہیں۔
نجم الدین صاحب کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جو بےبنیاد جھوٹی شہرت کی خواہش کرنے کے بجائے اپنی تخلیقات کا معیار اس حد تک بلند کرنے پہ یقین رکھتے ہیں کہ قاری خود بہ خود ان کے سحر کا اسیر ہو جائے، جو زمانے کی تلخ حقیقتوں سے نظریں چرانے کے بجائے اس کا سامنا کرنے پہ یقین رکھتے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ ادب کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کی ہے، ان کی کاوشیں اردو ادب کے لیے ایک سرمایہ ہیں، اس وقت وہ میرے سامنے ہیں اور میں ہمیشہ کی طرح سوالات کی فہرست لیے ان سے بہت کچھ جاننے کی تگ و دو میں ہوں. آئیے آپ بھی اس علمی سفر میں شامل ہو جائیں۔

علیزے نجف: سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ سے متعارف کروائیں اور یہ بتائیں کہ نجم الدین احمد کی زندگی میں کس چیز کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور کیوں؟
نجم الدین: اگر ادبی حیثیت میں تعارف کروانا ہے تو مَیں کچھ نہیں ہوں۔ دو چار ناول، تیس چالیس افسانوں پر مشتمل افسانوں کے دو تین مجموعے منصۂ شہود پر لے آنا، دیگر زبانوں کے ادب کے تراجم، کچھ کتابوں سے اردو زبان کو مزید ثروت مند بنانے کی مساعی سے فی زمانہ تو کوئی ادبی حیثیت نہیں بنتی۔ زمانے کے تقاضے بدل گئے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں قلیل ترین عرصے میں یک لخت ترقی نے بہت کچھ پیچھے چھوڑ دیا ہے، جس میں لوگوں کی کتاب سے، علم و ادب سے دُوری—- غالباً بلکہ یقیناً—- سرفہرست ہے۔ اب وہ عہد تو رہا نہیں کہ عبداللّٰہ حسین اپنے پہلے ہی ناول ’’اُداس نسلیں‘‘ سے اُردو کے صفِ اوّل کے ناول نویسوں میں شمار ہونے لگے تھے۔ پس، مَیں کچھ نہیں۔ البتّہ مرکزی حیثیت، ادب کو حاصل نہیں۔ ہندستان کا مجھے نہیں پتا لیکن پاکستان میں شاعر ادیب کا بہت زیادہ استحصال ہے۔ اگر کوئی فاقوں مرنے کا آرزو مند ہے تو وہ محض اِسی ایک میدان کا شہسوار بن کر رہ جائے۔ جب میرا تعارف عالمی ادب کی دُنیا کے ادیبوں سے ہوا تو یہ امر میرے لیے دانتوں میں انگلیاں داب لینے جتنا اچنبھے کا باعث تھا کہ اُن کا کام یا پیشہ صرف اور صرف تخلیق ِادب و شاعری تھا، جس سے وہ نہ صرف اپنے گھر کے تمام اخراجات پورے کر رہے تھے بلکہ مقابلتاً ایک شاہانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ انگریزی جرائد میں بہت کم ایسے ہیں جو محض ایک کہانی یا شاعری کی چار یا پانچ چیزیں شائع کرنے کے عوض معقول اعزازیہ—- پاکستانی روپوں میں ہزارہا سے شروع ہو کر لاکھوں روپے تک—- ادا کر رہے ہیں۔ مفت کتابیں شائع کر کے رائلٹی دینے والے ناشرین کی ایک لمبی فہرست ہے۔ شاید، یہی وجہ ہے کہ وہاں معاشیات سے بے فکر ہو کر بےفکری کے ساتھ، ذہنی سکون اور یکسوئی کے ساتھ زیادہ بہتر تخلیق کیا جاتا ہے۔ اِس لیے ادیب کی صلاحیتیں تبھی نکھر کر سامنے آسکتی ہیں، جب اُس کا شوق بارآور ہو کر پیشہ بنے، اُسے معاشی و مالی فکر سے آزاد کرے۔ جس سے وہ باقی معاملات یعنی انسانی و سماجی تعلقات بھی بہ خوبی نبھا لے گا۔ لیکن یہاں صورتِ حال عین برعکس ہے۔ اِس لیے مرکزی حیثیت ادب ہر گز نہیں کیوں کہ میرا یقین ہے کہ یہاں کا ادب تھکے ذہن کی پیداوار ہے۔ پہلے گھر کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے سارا دِن کھپ کر، تھک ہار کر محض اپنے ذوق و شوق کی تسکین کی خاطر تھکے جسموں اور تھکے ذہنوں سے افسانہ، ناول یا شاعری تخلیق ہوتی ہے۔ تو کیا پہلی ترجیح یا آپ کے الفاظ میں مرکزی حیثیت ’’پیٹ‘‘ کی ہے۔ جی ہے، لیکن اِس کی حیثیت بھی ’’صرف‘‘ کی نہیں۔ درحقیقت، کسی بھی انسان کی زندگی میں کوئی ایک چیز ، کوئی ایک میدان مرکزی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس معاشرے میں رہتے ہوئے اپنے خاندان کے لوگ، عزیز و اقارب، یار دوست، تعلق واسطے دار، اور … اور، اگر ادیب یا شاعر ہے تو، ادب یا شاعری بھی، سب اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے حصے کی ترجیح یا مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کم از کم میرے لیے تو ناممکن ہے کہ گھر میں بُھوک ہو، کوئی بیمار ہو، انسانی و سماجی تعلقات برقرار رکھنے کے لیے کسی کی خوشی غمی میں شرکت ضروری ہو وغیرہم اور آپ اپنے تئیں ’’بڑے ادیب شاعر ‘‘ بنے سب سے کنارہ کش ہو جائیں اور ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، کیوں کہ ادیب شاعر ہی معاشرے کے سب سے زیادہ حساس افراد ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے وہی متأثر ہوتے ہیں۔ پس، میرے ہاں بھی ادب کو ’’اپنی‘‘ اتنی ہی مرکزی حیثیت حاصل ہے جتنی ہونا چاہیے۔
علیزے نجف: آپ کا تعلق کس جگہ سے ہے؟ آپ کی پرورش و پرداخت کس طرح کے ماحول میں ہوئی اور اس ماحول کی ایسی کیا خصوصیت تھی جو آپ کو پسند تھی اور کس پہلو سے آپ کو ہمیشہ اختلاف رہا اور کیوں؟
نجم الدین: میرا تعلق ضلع بہاول نگر، پنجاب، پاکستان سے ہے۔ میری پرورش و پرداخت ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جو اگرچہ مالی و معاشی لحاظ سے کچھ زیادہ خُوش حال نہیں تھا تو بہت زیادہ بدحال بھی نہیں تھا کہ روٹی کے لالے پڑے ہوتے۔ بچّوں کو مقدور بھر تعلیم کے زیور سے آراستہ بھی کیا جاتا تھا۔ اِس لحاظ سے علمی و ادبی گھرانا کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ کوئی شاعر اور ادیب تو نہیں تھا لیکن مطالعے کا شوق رکھنے والے اہلِ خانہ کی تعداد نسبتاً زیادہ تھی، جس کی وجہ سے گھر میں کئی جرائد و رسائل وافر دستیاب تھے۔ جہاں تک پسند کا تعلق ہے تو آج مَیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مطالعے کے لیے کتب کا دستیاب ہونا سب سے زیادہ پسندیدہ پہلو ہو سکتا ہے۔ اختلاف شاید کسی پہلو سے نہیں تھا کہ ہم سب—- یا کم از کم مَیں تو لازماً—- اپنی حدود و قیود سے بہ خوبی آگاہ تھے۔
علیزے نجف: آپ نے تعلیم کہاں تک حاصل کی اور اس تعلیمی سفر کو آپ نے کس طرح طے کیا۔ کیا حصول تعلیم کے دوران ہی آپ کو احساس ہوگیا تھا کہ آپ کو کیا بننا ہے یا بعد میں آپ کا رجحان اپنے پروفیشن کی طرف ہوا ؟
نجم الدین: ایم اے (انگریزی )۔ میری ساری تعلیم بہاول نگر، پنجاب، پاکستان ہی میں مکمل ہوئی—- پہلی جماعت کے قاعدے سے لے کر انگریزی ادب میں ایم اے تک۔ مجھے باہر نہیں جانا پڑا۔ یا یُوں کہہ لیجیے کچھ مجبوریاں تھیں۔ چوں کہ تعلق متوسط طبقے سے بھی کچھ درجہ کم—- جسے ہم لوئر مڈل کلاس کہتے ہیں—- جس کی بِنا پر کالج میں انٹر تک تعلیم تو باقاعدہ طالب علم کی حیثیت سے حاصل کی لیکن بعد میں بی اے اور ایم اے بہ طور پرائیویٹ طالب علم کیے۔ اچھا، یہ امر بھی نہایت اہم پہلو کی حیثیت رکھتا ہے کہ بی اے کے بعد سرکاری ملازمت کی تلاش ضروری تھی، جس کی وجہ ظاہر ہے، لوئر مڈل کلاس کا فرد ہونا ہی تھا کہ پیٹ سب سے پہلا مسئلہ ہوتا ہے اور بے روزگاری اور روزگار کے حصول کی صورتِ حال مَیں اپنے لڑکپن کے زمانے ہی سے یکساں دیکھتا چلا آرہا ہوں—- بے روزگاری ہمیشہ سے اپنے عروج پر اور روزگار کے حصول کے لیے پاپڑ بیلنا۔ لیکن مَیں اس لحاظ سے خوش قسمت رہا کہ مجھے سرکاری ملازمت جلد مل گئی، جس کا مَیں ایک ہی—- اور یقینی طور پر صرف ایک ہی سبب—- سمجھتا ہوں کہ اُس وقت پاکستان کے سدا کے بدعنوان سیاست دان اقتدار کے ایوانوں میں نہیں تھے، بلکہ ایک عبوری حکومت تھی جس نے میرٹ پر بھرتیاں کرنے کا سخت فیصلہ کیا اور حیرت انگیز طور پر اپنے فیصلے کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ ملازمت کے دوران ہی بہ طور پرائیویٹ طالب علم ایم اے کیا۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ مجھے اِس کا احساس حصول تعلیم کے دوران ہی ہو گیا تھا کہ ملازمت کے ساتھ ساتھ میرا میدان ادب بھی ہو گا۔ دراصل، اِس میں گھر کے ماحول کا بہت زیادہ اثر تھا۔ خاندان کے افراد کی اکثریت اپنے زمانے کی اعلا تعلیم یافتہ پر مشتمل تھی۔ گھر میں ہمہ نوع جرائد و رسائل آتے تھے۔ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے، مَیں نے جب کسی ڈائجسٹ میں سے پہلی کہانی پڑھی تھی تو مَیں چوتھی جماعت کا متعلّم تھا۔ مطالعہ کا شوق جنون بن گیا۔ جب بھی مَیں کسی کہانی میں تضاد دیکھتا—- لکھاری نے پہلے کچھ لکھا ہوتا اور کئی صفحات کے بعد اُسی کے متضاد بات لکھ کر اپنی پہلی بات کی تردید کر رہا ہوتا—- تو یہ چیز مجھے بہت کھلتی۔ گویا، یہ ایک طرح سے میری تربیت ہو رہی تھی—- میرے لیے متعین منزل کی طرف جانے کی۔ پھر اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کے ادب کے بہ کثرت مطالعے نے بھی—- جو ظاہر ہے مجھ تک انگریزی زبان میں تراجم کے واسطے سے پہنچے—- اپنا اہم کردار ادا کیا۔ اِس طرح، مَیں بہت بعد میں لکھنے لکھانے کی طرف راغب ہوا۔
علیزے نجف: آپ کا تعلق قلم سے ہے، ایک قلم کار کا مشاہدہ و مطالعہ اور حساسیت عام انسانوں سے سوا ہوتی ہے. میرا سوال یہ ہے کہ آپ موجودہ وقت کے نظام تعلیم سے کس حد تک مطمئن ہیں اور کیا اب تعلیمی جدوجہد میں تربیتی عناصر مفقود نہیں ہوتے جا رہے. آپ کے نزدیک اس کی کیا خاص وجہ ہے اور اس کے سد باب کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
نجم الدین: پاکستان کے نظامِ تعلیم سے تو مَیں کبھی مطمئن نہیں رہا۔ تعلیمی جدوجہد میں تربیتی عناصر پہلے کون سا تھے جو اَب مفقود ہوتے جا رہے ہیں؟ اِس نظامِ تعلیم میں ایک بچّے پر دس دس مضامین ٹھونس دیے جاتے ہیں جن میں سے اکثر اُسے ناپسند ہی نہیں بلکہ اُن سے نفرت ہوتی ہے۔ اکثر مشاہدہ ہوا ہے کہ ایک بچّہ کسی ایک مضمون میں—- فرض کیجیے فزکس—- صد فی صد بہترین کارکردگی دکھاتا ہے، چند ایک میں معمولی اور ایک دو میں صفر۔ گویا فزکس اُس کا میدان ہے جس میں وہ بہت آگے تک جا کر ملک و قوم کی خدمت کر سکتا ہے، چند ایک اُس کے ناپسندیدہ مضامین ہیں اور جن میں اُس کی صفر کارکردگی ہے اُن سے اُسے نفرت ہے یا یوں کہہ لیجیے وہ اُس کے پلے ہی نہیں پڑتے اِسی لیے اُسے اُن سے نفرت ہوتی ہے۔ تو یہ کیوں نہیں کیا جاتا کہ اُسے صرف اُس کے رحجان والے مضمون میں آگے لے جایا جائے، لیکن ایسا کرنے کے بجائے اُسے فیل کر دیا جاتا ہے، جس سے وہ ہمیشہ کے لیے غیرتعلیم یافتہ رہنے پر مجبور ہوتا ہے. جب کہ اوّل الذکر صورت میں ملک کو فزکس کا ایک ماہر مل سکتا ہے اور ملک میں تعلیم کی شرح گرنے کے بجائے بڑھنے کے ساتھ ہر میدان میں ماہرین کی ایک بڑی کھیپ میسر آ کر ملکی ترقی کے لیے ہر میدان میں اپنا بہترین کردار ادا کر سکتی ہے۔ بچّے کا یہ رحجان زیادہ سے زیادہ میٹرک تک جانچ لیا جانا چاہیے اور اِس جانچ کی ذمہ داری اُس کے اساتذہ کے سر پر ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کا رزلٹ بھی معاون و مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
علیزے نجف: نصاب تعلیم ایک طالب علم کی زندگی میں خاصا اہمیت کا حامل ہے. علم جس کی کوئی حد نہیں، لیکن طلبہ کی capacity کا لحاظ رکھتے ہوئے اسے محدود رکھنا پڑتا ہے. ایسے میں اس کی کمی انفارمل تعلیم کے ذریعے ہی پوری کی جا سکتی ہے. میرا سوال یہ ہے کہ موجودہ وقت میں انفارمل تعلیم کی طرف لوگوں کا رجحان کم ہونے کی وجہ کیا ہے اور آپ انفارمل تعلیم کو کس طرح نفع بخش خیال کرتے ہیں، آپ کا اس زاویے سے کیسا تجربہ رہا ہے؟
نجم الدین: میرا خیال ہے کہ آپ کے اِس سوال کا جواب بھی پچھلے سوال کے جواب میں دے چکا ہوں۔ تاہم نصاب اب بھی محدود یا مختصر بالکل نہیں۔ مَیں تو آج کے بچّے کو گدھے کی طرح بھاری بھرکم بستہ لادے دیکھتا ہوں۔ نصاب تعلیم لاگو کرنے والے اربابِ اختیار اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اِس طرح وہ کوئی علمی صلاحیتیوں کی حامل قوم پیدا کر رہے ہیں تو میرا خیال ہے کہ وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ آج کا بچّہ پاکستان میں آج کے ناقص ترین نظامِ تعلیم میں ۹۵ سے ۹۹ فی صد تک نمبر امتحانات میں حاصل کر رہا ہے۔ کیسے؟ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اِس احمقانہ تعلیمی پالیسی پر سے اعتبار تب اَور اُٹھ جاتا ہے جب اتنے مارکس حاصل کرنے والے بچّے کو کسی موضوع پر محض دس فقرے لکھنے کے لیے کہہ دیا جائے تو وہ بغلیں جھانکنے لگتا ہے۔ اُس کا ہونق چہرہ دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ ایسے میں انفارمل تعلیم اُس کا کیا سنوار دے گی یا اگر استہزا میں کہوں تو، جو یہاں زیادہ بہتر طریقہ اظہار ہے، اُس کا کیا بگاڑ لے گی؟
علیزے نجف: زندگی میں ایک انسان جو کچھ بھی سیکھتا ہے وہ اس دنیا میں آکے ہی سیکھتا ہے. ہاں قدرت نے اس میں پوٹینشیل ضرور رکھا ہے. ایسے میں سوال یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو یا خود کو کس طرح لرننگ کی طرف مائل کر سکتے ہیں. کس طرح کی موٹیویشن کے ساتھ اس سیکھنے کے عمل کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے؟
نجم الدین: ہمارا نصابِ تعلیم محض نوکریوں کے حصول کی حد تک لگا بندھا ہے۔ بچّوں میں تخلیقی و تنقیدی صلاحیتیں جانچنے کی سعی کی جاتی ہے نہ بیدار یا پیدا کرنے کا کوئی جتن کِیا جاتا ہے۔ ایک مختصر واقعہ میری بات کی صراحت کر دے گا۔ جن دنوں مَیں نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی کہانیاں ترجمہ کر رہا تھا تو مجھے انٹرنیٹ پر اوکلوہاما یونی ورسٹی کی ویب سائٹ پر چینی نوبیل انعام یافتہ ادیب کی ایک کہانی’’The Soaring ‘‘(جس کا مَیں نے ’’پرواز‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کِیا تھا) ملی، جس پر اُنھوں نے اپنے ادب کے طلبہ کو اِس افسانے کی فنی محاسن پر تنقیدی مضمون لکھنے کو دیا تھا اور بہترین مضمون نگار طالب علم کو نقد انعامی رقم کا اعلان بھی کِیا تھا۔ ایسے عمل ہمارے ہاں کیوں نہیں کیے جاتے؟ اِس سے طلبہ کی، جنھوں نے آگے جا کر عملی زندگی میں شریک ہونا ہے، مخفی صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں اور وہ معاشرے کے مفید رکن بن سکتے ہیں۔ یہ عمل صرف ادب کے لیے نہیں، سائنس وغیرہ کے مضامین میں بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ اُنھیں جدید تحقیقات سے متعارف کروا کے سیکھنے کے عمل کو تیزتر اور اُن کو حقیقی باعلم شخصیت میں ڈھال سکتے ہیں۔
علیزے نجف: آپ کچھ اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بتائیں، کیا آپ کو جو کچھ بھی ملا ہے مثلاً صلاحیت، قدر و منزلت موروثی ہیں یا آپ اپنے خاندان کے واحد فرد ہیں جنھوں نے اپنی محنت اور جدوجہد سے اس مقام کو حاصل کیا ہے، اس مقام تک پہنچنے میں کس اصول نے سب سے زیادہ آپ کی مدد کی؟
نجم الدین: اِس مقام تک پہنچنے میں میرا خیال ہے کہ مینڈل (Mendel) کے قوانینِ وراثت مجھ پر لاگو ہوتے ہیں۔ مینڈل اپنے تیسرے قانونِ وراثت میں یہی بیان کرتا ہے کہ کسی جان دار میں اُس کے کسی جد امجد کی کرداری خوبیاں یا خامیاں نسلوں بعد بھی نمایاں ہو سکتی ہیں۔ میرے علم کے مطابق ماضی قریب کی پچھلی نسلوں میں تو ادبی منظر نامے میں مجھے اپنے شجرہ نسب میں ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی جس نے ادب تخلیق کِیا ہو؛ ماضی بعیدکا—- جو تاریکی میں ہے—- مجھے علم نہیں۔ اِس لیے زمانۂِ حال میں تو فردِ واحد ہی سمجھ لیجیے۔ البتّہ، کراچی میں میرے بھتیجے صابر علی ہاشمی کا ادب سے لگاؤ ہے اور وہ وہاں سے ایک ماہ نامہ ادبی جریدہ ’’رابطہ‘‘ کے نام سے نکال رہے ہیں، لیکن ادبی منظر نامے میں اُن کا نام مقام—- مجھے لگتا ہے—- دھندلایا ہُوا ہے. حالاں کہ وہ ایک طویل عرصے سے ادب سے منسلک ہیں اور مختلف ڈائجسٹوں میں اُن کی کہانیاں شائع بھی ہوتی رہتی ہیں۔ خاندانی پس منظر کے بارے میں جیسا کہ مَیں پہلے بھی بتا چکا ہُوں کہ خاندان کے افراد کی اکثریت اپنے زمانے کی اعلا تعلیم یافتہ پر مشتمل تھی۔ گھر میں ہمہ نوع جرائد و رسائل آتے تھے۔ اِس لحاظ سے علمی و ادبی گھرانا کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ کوئی شاعر اور ادیب تو نہیں تھا لیکن مطالعے کا شوق رکھنے والے اہلِ خانہ کی تعداد نسبتاً زیادہ تھی اور یہی وجہ تھی کہ گھر میں جرائد و رسائل کی وافر دستیابی تھی۔ اِس مقام تک پہنچنے میں کس اصول نے سب سے زیادہ میری مدد—- یقین کی حد تک میرا خیال ہے کہ کثرتِ مطالعہ، ہمہ نوع اصناف کا مطالعہ، ملکی و غیر ملکی ادب کا بے تحاشا مطالعہ اور پھر لکھنے کی تحریک پر عمل درآمد لیکن اپنے ایک جداگانہ اُسلوب کے ساتھ—- کسی کے اُسلوب سے متأثر ہو کر نقالی کیے بغیر، اپنے لکھے پر بہت محنت اور بار بار نظر ثانی لیکن ساتھ ہی لکھنے کے لیے ہمیشہ کوشش یہی رہی کہ کسی انوکھے، اچھوتے خیال یا موضوع پر—- چاہے افسانہ ہو یا ناول—- لکھوں اور گیبرئیل گارشیا مارکیز کے مانند ابتدائی چند فقروں میں ہی قاری کو جکڑ لوں۔ زیادہ تفصیلات سے بات طویل ہو جائے گی۔ اگر آپ میرے آخری ناول ’’سہیم‘‘ ہی کو لے لیں، آپ کو ابتدائی سطریں ہی بتا دیں گی کہ آپ کیا پڑھنے جا رہے ہیں—- ایک نرالے اور اَمس موضوع پر تخلیق:
’’کیا یہ ممکن ہے کہ ایک عورت کے بہ یک وقت چار شوہر ہَوں؟
وہ چاروں کی اولاد جنے؟
وہ ہر ایک کی ایک ایک چوتھائی بیوی ہو؟
اُن کے چار بیٹے ہَوں جو اُن چاروں کے ایک ایک چوتھائی بیٹے ہَوں اور وہ اُن کے ایک ایک چوتھائی باپ؟
یہ سوچ ہی کتنی سوہانِ رُوح ہے کہ مَیں اپنی بیوی کے محض ایک چوتھائی حِصّے کا شوہر ہُوں، محض ایک چوتھائی کا…! باقی تین حِصّوں کے تین اَور حِصّے دار ہیں، میرے تین اَور شریک۔‘‘
علیزے نجف: آپ کی قلمی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے پہلا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ آپ نے لکھنا کب سے شروع کیا؟ آپ کو کسی نے لکھنے کی طرف متوجہ کیا یا آپ نے اپنی صلاحیتوں کو خود ہی پہچان کر اس کو صحیح رخ دیا؟ کس عمر میں آپ کی پہلی تحریر کسی جریدے یا اخبار کی زینت بنی اور اس کو دیکھ کر آپ کے احساسات کیسے رہے؟
نجم الدین: بیسویں صدی کی آخری دہائی کے آغاز میں چھوٹی چھوٹی چیزیں، مثلاً نظمیں یا کہانیاں یا مضامین، لکھنے سے آغاز ہُوا جن کا قاری بھی عام طور پر خود ہی ہوتا اور پھر خود ہی رد کر کے ردّی کی ٹوکری کی نذر کر دیتا تھا۔ لیکن باقاعدہ طور پراِسی  کی دہائی کے آخری دو تین سالوں میں لکھنے اور مختلف ادبی جرائد میں شائع کروانے کا آغاز ہُوا۔ شروع میں نظموں کی طرف رحجان رہا لیکن پھر افسانوی ادب کی سمت متوجہ ہُوا، شاید اِس کی وجہ یہ بھی ہو کہ زیادہ مطالعہ ہی ادب کی اِس صنف کا تھا اور اِس میں آمد زیادہ ہوتی تھی۔ پہلی نظم تو اب یاد نہیں کہ کس ادبی جریدے میں شائع ہُوئی تھی، تاہم پہلا افسانہ ’’خبر‘‘ کے عنوان سے تھا جو ’’ادبِ لطیف‘‘ میں اشاعت پذیر ہُوا تھا۔ احساسات ظاہر ہے کہ حد سے زیادہ سرشاری کے تھے جیسے کہ ایک مبتدی کے ہوتے ہیں۔ لکھنے کی طرف رحجان تو میرا اَپنا ہی تھا تاہم حوصلہ افزائی اور رہ نمائی میں دو شخصیات کا تذکرہ ناگزیر ہے: بہاول نگر کے اردو، پنجابی اور سرائیکی زبانوں کے نامور شاعر اور ناول نگار جناب سلیم شہزاد اور ’’سویرا‘‘ کے ایڈیٹر جناب محمد سلیم الرحمٰن، جو آج بھی میرے مربی و مشفق ہیں۔
علیزے نجف: آپ ایک بہترین افسانہ نگار ہیں. آپ نے اب تک بے شمار افسانے لکھے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ آپ کو افسانوں کی کس ہیئت سے سب سے زیادہ لگاؤ ہے اور اس صنف کو آپ کس طرح معاشرے میں ایک تعمیری کردار ادا کرنے میں معاون خیال کرتے ہیں؟
نجم الدین: ہیئت…؟ اِس سے ایک ادیب کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ کون سی تخلیق کس ہیئت میں ہے؟ اِس کا تعین کرنا نقاد کا کام ہوتا ہے۔ افسانہ نویس پر افسانہ اپنی مکمل شکل میں نزول کرتا ہے۔ پس، وہ نہیں دیکھتا کہ کس ہیئت میں ہے اور کس میں ہونا چاہیے۔ افسانہ ہو یا ناول سب کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے: معاشرے کی ناانصافیوں، ناہمواریوں، غلط روّیوں، استحصال وغیرہ کی نشان دہی اور اُن میں اصلاح کا حل دینے کے ساتھ ساتھ رُوحانی حظ۔
علیزے نجف: ایک افسانہ نگار بہترین تخیل نگار بھی ہوتا ہے، قرطاس پر کردار کو اتارنے سے پہلے وہ ذہن پہ اتارے جاتے ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ آپ کسی بھی افسانے کو اول تا آخر تصور کرتے ہیں، پھر لکھتے ہیں یا لکھتے لکھتے کردار کا عکس وجود کی صورت ڈھلتا چلا جاتا ہے؟ کیا بغیر معیاری تخیل کے اچھے افسانے لکھے جا سکتے ہیں؟
نجم الدین: مَیں نے عرض کِیا نا کہ افسانہ نویس پر افسانہ اپنی مکمل شکل میں نزول کرتا ہے یا کم از کم میرے ساتھ یہی ہوتا ہے: اپنی مکمل جزئیات کے ساتھ، اوّل تا آخر۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو مَیں افسانے کے مکمل نازل ہونے کا انتظار کرتے ہُوئے اُس پر متواتر سوچ بچار کرتا رہتا ہُوں۔ ہر پہلو سے غور و خوض اور لکھ چکنے کے بعد کڑی تنقیدی نگاہ سے نظر ثانی کے بغیر محض تخیل کے سہارے تو معیاری افسانے کی تخلیق میرے نزدیک محض دیوانے کا خواب ہے۔ کسی معروف ادیب نے—- اب مجھے نام یاد نہیں آرہا، کہا تھا—- کہ اصل خیال محض دس فی صد ہوتا ہے. نوّے فی صد بڑھئی کا کام کرنا پڑتا ہے۔ تو جب مجھے لگتا ہے کہ اب واضح اور صریح شکل ہے تو لکھتا ہُوں۔ عام طور پر، افسانے کو ایک یا زیادہ سے زیادہ دو تین نشستوں میں ہی ختم کرتا ہُوں۔ چند دِن کے لیے رکھ چھوڑتا ہُوں تاکہ اُس کے سحر سے نکلوں۔ پھر آزاد ہو کر اُسے کسی اَور کا افسانہ سمجھ کر سخت تنقیدی نگاہ سے نظر ثانی، اکثر اوقات کئی بار، کرتا ہُوں۔ یہ امر بھی بعید از قیاس نہیں اور میرے ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ افسانہ لکھنے کے دوران خود ہی ڈھلتا جاتا ہے اور اپنے نزول سے ایک الگ صُورت اختیار کر جاتا ہے، مجھے اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ کئی افسانوں میں ایسا ہُوا۔ آغاز، وسط اور انجام تک تبدیل ہو گئے البتّہ مرکزی موضوع سے آج تک تو انحراف کی صُورتِ حال سامنے نہیں آئی۔ مستقبل کا حال عالم الغیب کو پتا ہے۔
علیزے نجف: آپ کی پہچان ایک ترجمہ نگار کی حیثیت سے بھی ہے. آپ نے اب تک کتنی کتابوں یا ناولوں کے ترجمے کیے اور آپ کی پہلی کتاب اس حوالے سے کون سی تھی اور اس کا مرکزی خیال کیا تھا ؟
نجم الدین: میری اب تک تراجم کی سات کتب منصۂ شہود پر آ چکی ہیں۔ جن میں صرف اکیسویں صدی کے نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کے افسانوں کے تراجم کے دو مجموعے، بہترین امریکی افسانوں کے تراجم کا ایک مجموعہ، دنیا کے مختلف ممالک کی مختلف زبانوں کے ادیبوں کے افسانوں کے تراجم کا ایک مجموعہ، جاپانی ادیب ہاروکی مورا کامی کے ناول ’’Kafka on the Shore‘‘ کا ترجمہ ’’کافکا بر لبِ ساحل‘‘ کے عنوان سے، ترکیہ اور آذر بائیجان کی ساتویں صدی عیسوی کی قدیم رزمیہ داستان ’’کتاب دَدَہ قور قُود‘‘ کا ترجمہ اور جناب سلیم شہزاد کے سرائیکی ناول ’’پلوتا‘‘ کا ترجمہ شامل ہیں۔ جب کہ چینی ادیب مویان کے منتخب افسانوں، ایلف شفق کی کرونا پر ایک نیم افسانوی کتاب اور پولستان کی نوبیل انعام یافتہ مصنفہ کے منتخب افسانوں کے مجموعوں کے تراجم مکمل ہو کر اس وقت ناشرین کے پاس ہیں جو جلد ہی شائع ہونے کی توقع ہے۔
علیزے نجف: ترجمہ نگاری ایک اچھی صنف ہے، جس میں دنیا کی دوسری زبانوں کے اعلا ادب کو دوسری زبانوں کے قارئین تک پہنچایا جاتا ہے. میرا سوال یہ ہے کہ دنیا کی کس زبان کے ادب کا معیار سب سے اچھا گردانا جاتا ہے اور کیوں۔ اور ایک ترجمہ نگار ہونے کی حیثیت سے آپ اردو ادب کے معیار کو کیسا خیال کرتے ہیں؟
نجم الدین: ادب جس زبان کا بھی ہو اچھا ہے۔ ہر زبان میں معیاری اور غیر معیاری دونوں طرح کا ادب تخلیق ہوتا ہے۔ آپ کو کسی بُکر پرائز یا نوبیل انعام پانے والے ادیب کا بھی تمام ادب مکمل معیاری نہیں ملے گا۔ اردو ادب اچھا اور معیاری تخلیق ہو رہا ہے لیکن اِس کے ساتھ قضیہ یہ ہے کہ اردو ادب انگریزی میں ترجمہ ہو کر دنیا کے سامنے نہیں پہنچا۔ اگر چند ایک تراجم ہُوئے بھی ہیں تو وہ آٹے میں نمک کے برابر۔ چوں کہ انگریزی عالمی زبان کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے جب تک کسی بھی زبان کی تخلیقات کا انگریزی میں ترجمہ نہ ہو تو وہ دنیا کی دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ مَیں نے دنیا کی کئی زبانوں کا اردو میں ترجمہ انگریزی ترجمے کی وساطت سے کِیا ہے۔ جب بھی مَین بُکر پرائز یا نوبیل انعام کا اعلان ہوتا ہے تو محض چند دنوں کے لیے سوشل میڈیا پر ایک شور مچتا ہے کہ اردو ادب اِن انعامات میں شامل کیوں نہیں ہوتا؟ اور پھر معاملہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ اِس معاملے میں میرا سوال یہی ہوتا ہے کہ اردو ادب کو انگریزی میں ترجمہ کر کے دنیا کے سامنے رکھا ہی کب گیا ہے کہ وہ ان انعامات میں شامل ہو سکے۔ اب مَیں اپنی ذاتی حیثیت میں اردو کے ایسے افسانوں—- اگر ممکن ہوا تو شاید کچھ ناول بھی—- کو ترجمہ کر رہا ہُوں جو میرے معیار پر پُورے اُتریں گے۔ حال ہی میں مَیں نے کچھ عالمی انگریزی ادبی جرائد کو چند ایک تراجم بھجوائے اور اُن کے ساتھ بذریعہ ای میل بات چیت ہُوئی تو اُنھوں نے تسلیم کِیا کہ کہ اُن کے جرائد میں واقعی اردو ادب کا کوئی ترجمہ کبھی شائع نہیں ہُوا… جس کی واحد وجہ محض اردو ادب کا بہ شمول انگریزی دیگر زبانوں میں ترجمہ نہ ہونا ہے۔ جس کا واحد قصوروار مَیں حکومتی و سرکاری ادبی اداروں کو سمجھتا ہُوں، کیوں کہ یہ کام افراد کا نہیں اداروں کا ہوتا ہے۔
علیزے نجف: کیا ترجمہ نگاری ایک فن ہے جسے باقاعدہ سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے یا یہ محض زبان کی واقفیت کے ساتھ بھی کی جا سکتی ہے؟ اس میں مفہوم کے ساتھ ادبی اسلوب کا خیال کرنا سہل ہوتا ہے یا مشکل اور منظوم ترجمہ نگاری کرتے وقت کس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے؟
نجم الدین: ترجمہ نگاری فن تو ہے اور ایک پیچیدہ فن۔ ہر کس و ناکس کے لیے ترجمہ کرنا سہل نہیں ہوتا، لیکن اِس کے سکھانے کے لیے ہمارے ہاں کوئی ادارہ یا ادارے یا کالجز اور یونی ورسٹیز میں کوئی جماعت نہیں ہوتی۔ محض زبان سے آشنائی آپ کو کبھی ایک مترجم نہیں بناتی۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ دونوں زبانوں پر بڑی حد تک عبور ہونا چاہیے، اِتنا عبور کہ اُن زبانوں کے مروج slangs تک سے آشنائی ضروری ہوتی ہے۔ اردو میں ترجمہ نگاروں نے، میرا خیال ہے کہ میری ہی طرح، ترجمے کر کر کے طویل ریاضت سے یعنی پریکٹس سے بڑی حد تک اِس فن کو سیکھا ہے۔ منظومات کا ترجمہ کرنے کا مجھے کبھی اتفاق نہیں ہُوا۔ جرمن شاعر گنٹر گراس کی ایک نظم ترجمہ کی تھی جو کسی ادبی جریدے میں شائع ہُوئی تھی اور پھر قدیم داستانوں کے مانند ترکیہ اور آذر بائیجان کی ساتوی صدی عیسوی کی قدیم رزمیہ داستان ’’کتاب دَدَہ قور قُود‘‘ میں اشعار تھے لیکن وہ نثری نظم کی صُورت میں ایک آزاد شعری آہنگ میں تھے، جنھیں ویسے ہی آزاد و نثری شعری آہنگ میں ترجمہ کرنے میں مجھے دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اِس لیے اِس پر مَیں تبصرہ کرنے کا اہل نہیں ہُوں۔
علیزے نجف: آپ ایک ناقد بھی ہیں. ایک ناقد کے لیے تحقیق کرنا کس قدر ضروری ہوتا ہے اور اس تحقیق کا معیار کیسا ہونا چاہئے؟ کیا ناقد کے تنقیدی نکات پہ بھی تنقید کی جا سکتی ہے؟
نجم الدین: بالکل کی جا سکتی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تنقید ہو ہی کہاں رہی ہے؟ کون کر رہا ہے؟ سب اپنی اپنی تعلق داریاں نبھا رہے ہیں۔ تعلق داریوں اور مروتوں میں لکھے گئے دیباچوں اور مضامین نے بھی بیڑہ غرق میں اپنا کردار اپنے حِصّے سے زیادہ کِیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آپ کو میری کتابوں میں—- صرف پہلی دو کتابوں، ناول ’’مدفن‘‘ اور افسانوی مجموعے ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘ کے علاوہ—- دیباچے یا مضامین نام کی کوئی چیز نہیں ملے گی۔ اگر کسی ادیب شاعر کی تخلیقات میں ’’کچھ‘‘ ہے تو وقت اُسے منوا دے گا، مَیں اِس نظریے کا قائل ہُوں۔ اردو کے نقاد کا ایک اَور مسئلہ ہے کہ اُسے تازہ ادب سے کوئی آشنائی نہیں۔ اگر وہ کسی تازہ کتاب پر بھی تنقیدی مضمون لکھتا ہے تو اپنے مضمون کے آدھ پیرے کے بعد ہی فوراً کسی نہ کسی طرح گھسیٹ کر چالیس پچاس سال قبل کے ادیبوں کو لا کر اور بدیسی اصطلاحات مثلاً جدیدیت، مابعد جدیدیت، طلسمی حقیقت نگاری وغیرہ سے اپنا مضمون طویل کرتا ہے اور پھر ایک آخری پیرا پھر اُس کتاب پر لکھ دیتا ہے۔ ایسے مضامین سے یہ یقینی تأثر ملتا ہے کہ موصوف نے اصل کتاب کا، جس پر وہ مضمون یا تبصرہ خوانی کر رہا ہے، مطالعہ تو درکنار اُس کے ورق تک الٹ پلٹ کر نہیں دیکھے۔ جب تک ایک ناقد تازہ ادب نہیں پڑھے گا وہ آدھ پون صدی قبل ہی میں جیتا رہے گا۔
علیزے نجف: جب آپ کسی بھی نظریے، ادب اور ادبی زاویے پر تنقید کرتے ہیں تو اس میں کن پہلوؤں پر خاص نظر رکھتے ہیں اور کن اصولوں کے تحت تنقید کرتے ہیں؟
نجم الدین: میرا خیال ہے کہ یہاں یہ وضاحت نہایت ضروری ہو گئی ہے کہ مَیں نقاد ہرگز نہیں ہُوں۔ بس چند ایک مضامین لکھے ہیں، جن سے مجھ پر یہ چھاپ لگ گئی ہے. مثلاً مستنصر حسین تارڑ پر ’’مستنصر حسین تارڑ کی خُود نگاری اور قربتِ مرگ میں محبت‘‘، نگہت سلیم کے افسانوی مجموعے پر ’’جہانِ گم گشتہ‘‘ اور ’’نثری نظم‘‘ پر۔ یا پھر دو چار انگریزی کے تنقیدی مضامین کے تراجم کیے ہیں، جن میں سے ایک غالباً کوہلو پائیلو کی ناول نویسی پر تھا۔ میرا اصل کام ادبی تخلیقات اور اُن کے تراجم ہیں۔ اُردو میں تراجم کا مقصد اُردو کو دِیگر زبانوں کے ادب سے مزید زرخیز کرنا اور اب اُردو سے انگریزی میں تراجم کا مقصد دنیا کو معاصر اُردو ادب سے صحیح معنوں میں متعارف کروانا ہے۔
علیزے نجف: انسان کا لفظوں سے رشتہ اٹوٹ ہوتا ہے اور ایک قاری و قلم کار کی پوری زندگی انھیں لفظوں کے پیچ و خم میں اور احساسات کے زیر اثر گذرتی ہے، میرا سوال یہ ہے کہ جب آپ کسی کتاب کا انتخاب پڑھنے کے لیے کرتے ہیں تو اسے پہلے کسی معیار پر پرکھتے ہیں اور اس کے ماحصل کو کس طرح ذہن میں محفوظ کرتے ہیں؟
نجم الدین: کسی کتاب کا مطالعہ کیے بغیر آپ اُس کے معیاری یا غیر معیاری ہونے کا کیسے اندازہ لگا سکتے ہیں؟ بعض کتابیں شروع میں بوریت کا شکار کرتی ہیں لیکن پھر اچانک سب کچھ بدل جاتا ہے اور وہ انتہائی دل چسپ ہو جاتی ہیں۔ بعض شروع سے آخر تک اپنی دل چسپی قائم رکھتی ہیں۔ بعض آغاز میں دل چسپ لیکن انجام کار ٹائیں ٹائیں فش۔ جو کتاب منفرد و مؤثر ہو تی ہے وہ اپنا ماحصل خود ذہن پر نقش کر دیتی ہے، اِس کے لیے کسی کدّوکاوش کی ضرورت نہیں پڑتی۔
علیزے نجف: آپ نے ابتدا میں نظم نگاری بھی کی ہے. کیا آپ نے غزلوں کی صنف میں بھی طبع آزمائی کی اور نظم نگاری کو کس طرح اپنے احساسات کا ترجمان بنایا مثلا اس میں اپنے ذاتی احساسات کی کس حد تک ترجمانی کی اور کہاں تک دوسروں کے احساسات کو اس میں پرونے کی کوشش کی ہے؟
نجم الدین: اب تو ایک طویل عرصہ ہو گیا۔ بس اُس وقت جو احساسات تھے اُنھیں اُن میں سمونے کی ناکام سعی کرتا رہا تھا۔ اب شاعری کا—- دیسی اور بدیسی دونوں کا—- صرف مطالعہ کرتا ہُوں۔
علیزے نجف: آپ ایک لمبے عرصے سے لکھنے سے وابستہ ہیں اور اب تک آپ کی کئی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں. میں چاہتی ہوں اس کی تفصیل آپ قارئین کو بتائیں اور کون سی کتاب ایسی ہے جس کو سب سے زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی؟
نجم الدین: میری اب تک کل تیرہ کتب منصہ شہود پر آ چکی ہیں، جن میں سے آٹھ تراجم کی ہیں جن کا مَیں پہلے ہی تفصیلی ذکر کر چکا ہُوں۔ اِس کے علاوہ طبع زاد میں تین ناول—- علی الترتیب مدفن، کھوج اور سہیم—- اور دو افسانوی مجموعے—- علی الترتیب آؤ بھائی کھیلیں اور فرار اور دوسرے افسانے—- شامل ہیں۔ دو ناول—- مَینا جیت اور پرچھائیاں—- اور ایک افسانوی مجموعہ، جس میں دو ناولٹ اور پانچ سات افسانے شامل ہَوں گے، زیر طبع ہیں۔ میرا خیال ہے کہ میری ایسی کوئی بھی کتاب نہیں جسے مناسب پذیرائی نہ ملی ہو۔ میری ہر کتاب پر مجھے بے شمار قارئین کے پیغامات بھی موصول ہُوئے، جن میں ملک بھر سے چھوٹے چھوٹے دیہی علاقوں کے قارئین بھی شامل تھے۔
علیزے نجف: آپ کی ادبی خدمات پر آپ کو کئی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے. ان اعزازات کے بارے میں بتائیں کہ یہ آپ کو کس خدمت کے صلے میں اور کب ملا اور اس وقت آپ کے جذبات کیسے تھے؟
نجم الدین: افسانوں کے مجموعے ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘ کو رائٹرز گلڈ ایوارڈ، نوبیل انعام یافتگان کے افسانوں کے تراجم کے دونوں مجموعوں کو، ایک کو قومی ادبی ایوارڈ اور دوسرے کو یو بی ایل ایکسی لینس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ناول ’’کھوج‘‘ بھی یو بی ایل ایکسی لینس ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ ہُوا۔ وہی جو ہونا چاہئیں تھے یعنی محنت کا صلہ ملنے پر اور سب سے بڑھ کر میرے کام کو تسلیم کیے جانے کی بے پناہ خُوشی، مسرت، شادمانی، بَہجت۔
علیزے نجف: یہ انٹرویو دیتے ہوئے آپ کے احساسات کیسے رہے؟ مستقبل کے تئیں آپ کے کیا اہداف ہیں اور اب تک آپ نے کن خوابوں کو شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھا ہے ؟
نجم الدین: انتہائی معذرت کے ساتھ۔ انٹرویو دینا مجھے کبھی ضروری نہیں لگا۔ یہ خُود نمائی کو پسند کرنے والے لوگ چاہتے ہیں. مجھے اپنے کام کے ذریعے اپنا جائز مقام پانے کی تمنّا ہے۔ بہرحال، آپ ایک نفیس انٹرویو کنندہ ہیں. اِس لیے آپ سے بات کر کے واقعی دِلی خُوشی ہوئی اور اِس پر آپ کا بہت شکریہ اور ساتھ ہی بے حد معذرت بھی کہ آپ کو اِس انٹرویو کے لیے بہت انتظار کرنا پڑا، جس کی بڑی وجہ بھی یقیناً وہی ہے جو مَیں نے اوپر بیان کی ہے۔ اپنے خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے شرط صرف خواب دیکھنا نہیں بلکہ اُن خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے محنت اور جہدِ مسلسل ضروری ہوتا ہے، جو مَیں کیے جا رہا ہُوں۔ اب تک تو کوئی ایسا خواب نہیں جس کے پُورا نہ ہونے کی کسک دِل میں ہو۔ بہت سے ادبی اہداف کا تو پہلے بھی تذکرہ کر چکا ہُوں، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ اُردو ادب سے صحیح معنوں میں دنیا سے متعارف کروانا۔ اِس ہدف کے حصول کے لیے معاصر اُردو فکشن کے انگریزی میں تراجم کا سلسلہ چل رہا ہے۔ دیکھتے ہیں کتنی کامیابی ملتی ہے۔
***
 علیزے نجف کی یہ گفتگو بھی پڑھیں:زندگی کا سب سے بڑا انعام خود شناسی ہے: طارق غازی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے