پروفیسر ڈاکٹر معراج الحق برقؔ

پروفیسر ڈاکٹر معراج الحق برقؔ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ، ہند

پروفیسر ڈاکٹر معراج الحق برقؔ نے ۲؍ دسمبر ۲۰۲۲ء بروز جمعہ بوقت ۳؍ بجے سہ پہر بھاگل پور میں بڑے بیٹے امجد حیات برقؔ کی رہائش گاہ پر اپنی آنکھیں موند لیں، ایک وقت کی نماز نہیں چھوٹی، بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کیں تو ڈاکٹر نے بتایا کہ اس دنیا میں تو اب یہ آنکھ نہیں کھل سکے گی، نہ درد نہ بے چینی، نہ نزع کی تکلیف، نہ آہ وفغان، زندگی میں بھی پُر سکون رہتے تھے اور اسی سکون کی کیفیت کے ساتھ آخرت کے سفر پر روانہ ہو گئے، جنازہ ان کے مکان واقع زکریا کالونی سعد پورہ مظفر پور رات کے ڈیڑھ بجے پہنچا، لڑکے اور لڑکی کو دہلی اور پنجاب سے آنا تھا، اس لیے جنازہ میں تاخیر ہوئی اور سنیچر کے دن بعد نماز مغرب تجہیز و تکفین میں شرکت کے بعد احقر (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور مقامی قبرستان میں چہار دیواری سے اتر جانب متصل تدفین عمل میں آئی، اہلیہ ۲۷؍ جون ۲۰۱۲ء میں انتقال کر چکی تھیں، پس ماندگان میں تین لڑکے امجد حیات برقؔ، سر ور حیات برقؔ، انور حیات برقؔ اور ایک صاحب زادی کو چھوڑا، ایک لڑکا ارشد حیات چھے سال کی عمر میں استھانواں میں ہی فوت ہو گیا تھا۔
ڈاکٹر معراج الحق برقؔ بن حکیم محمد عبد اللہ (م ۲۷؍ رمضان المبارک ۱۴۱۵ء ۔ اپریل ۱۹۹۴ء ) بن ممتاز حسین بن سخاوت علی بن مراد علی بن من اللہ کی ولادت بیند بلاک کے قریبی موضع میرہ چک ضلع نالندہ میں یکم اپریل ۱۹۳۷ء کو ہوئی، تعلیم کا آغاز والد صاحب کے ذریعہ ہوا، کچھ دنوں بعد مقامی پاٹھ شالہ میں داخل ہوئے، لیکن کم و بیش چھے ماہ کے بعد بیند ہائی اسکول کے پہلے درجہ میں منتقل ہو گئے، یہ سال ۱۹۴۴ء کا تھا، ۱۹۴۶ء میں درجہ چہارم تک پہنچے ، ۱۹۴۶ء میں ہندو مسلم فساد کی وجہ سے برقؔ صاحب کے والد نقل مکانی کرکے استھانواں منتقل ہو گئے، کیوں کہ میرہ چک میں صرف پانچ خاندان بستے تھے. فساد کے بعد یہ تعداد گھٹ کر صرف دو رہ گئی تھی، بقیہ سارے غیر مسلم تھے، معاملہ بتیس دانت کے بیچ ایک زبان کا تھا، دانتوں سے زبان کا کٹنا نادر الوقوع ہے، لیکن غیر مسلموں کے ذریعہ اس زمانہ میں بھی اور آج بھی یہ شاد و نادر نہیں ہے، جس پر الشاذ کالمعدوم کہہ کر بات آگے بڑھادی جائے۔
۱۹۴۶ء کے خون ریز فساد کے بعد برقؔؔ صاحب کو بیند ہائی اسکول چھوڑ دینا پڑا، میرا چک سے استھانواں کی منتقلی برقؔ صاحب کی زندگی میں ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا، اور آپ کی تعلیم اسکول کے بجائے مدرسہ محمدیہ استھانواں ضلع نالندہ میں ہونے لگی، اس زمانہ میں مولانا عزیز احمد صاحب بھنڈاری مدرسہ محمدیہ کے ناظم تھے، یہاں برقؔ صاحب کا داخلہ تحتانیہ دوم میں ہوا، اور اسی مدرسہ سے آپ نے بہار اسٹیٹ مدرسہ اکزامنیشن بورڈ کے نصاب کے مطابق عالم تک تعلیم پائی، اس وقت یہ مدرسہ تعلیم و تربیت کے اعتبار سے مثالی سمجھاجاتا تھا، یہاں برقؔ صاحب نے جن اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور علم و ادب سیکھا، ان میں مولانا فصیح احمد، مولانا رضا کریم، مولانا وصی احمد، حافظ حفیظ الکریم رحمہم اللہ کے اسماے گرامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں، مولانا فصیح احمد اور مولانا رضا کریم جن کا شمار جید علما میں ہوتا تھا اور جو تقویٰ طہارت امانت و دیانت میں بھی ممتاز سمجھے جاتے تھے، ان سے برقؔ صاحب نے نحو و صرف، حدیث و تفسیر، فقہ و عقائد منطق و فلسفہ اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، حافظ عبد الکریم نے گلستاں، بوستاں، اخلاق محسنی، پند نامہ، عطار کے اسباق پڑھا کر فارسی زبان و ادب سے دل چسپی پیدا کی، انگریزی کی تعلیم ماسٹر انوار الحق استھانواں، ماسٹر عبد الودود اکیڈمی، ماسٹر عبد الصمد بہار شریف، ماسٹر علی کریم استھانوی اور مشتاق بھائی ملک ٹولہ سے پائی، ان حضرات کی محنت سے انگریزی زبان و ادب میں ایسی مہارت پیدا ہوئی کہ بعد کے دنوں میں فارسی کے استاذ ہونے کے باوجود لڑکے ان سے انگریزی کی ٹیوشن لیا کرتے تھے، ہندی اور حساب میں بھی گروسہائے پرشاد اکبر پوری نے خاصا درک پیدا کر دیا تھا۔
برقؔ صاحب نے ۱۹۵۹ء میں عالم کی ڈگری مدرسہ سے پانے کے بعد ۱۹۶۰ء میں میٹرک میں کامیابی حاصل کی، ۱۹۶۳ء میں دربھنگہ کے پُرکھوپٹی پرائمری اسکول میں ملازمت مل گئی، اس کے باوجود ۱۹۷۷ء تک تعلیم کے مراحل طے کرتے رہے، ڈبل ایم اے کرنے کے ساتھ ۱۹۶۶ء میں ٹیچر ٹریننگ کا دو سالہ کورس مکمل کیا، بی اے آنرس فارسی، ایم اے فارسی، ایم اے اردو میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے، ایم اے فارسی میں ٹوپر کے ساتھ یونی ورسٹی کے سابقہ ریکارڈ توڑنے میں بھی انھیں کامیابی ملی، ۱۹۷۸ء میں امتیازی نتائج امتحان کی وجہ سے بہار یونی ورسٹی مظفر پور کے آر ڈی ایس کالج میں آپ کی بحالی عمل میں آئی اور آپ نے قریب کے محلہ پوکھر یا پیر مظفر پور میں زاہدہ منزل کے کرایہ کے ایک کمرہ میں بود و باش اختیار کر لیا اور کالج کے اوقات کے علاوہ طلبہ کو انگریزی کا ٹیوشن کراتے تھے اور واقعہ یہ ہے کہ ان سے اردو و فارسی کے طلبہ کم اور انگریزی کے طلبہ زیادہ فائدہ اٹھا رہے تھے۔
میں جب دار العلوم دیوبند سے فارغ ہوکر مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں تدریسی خدمات پر مامور ہوا تو کئی سال رمضان المبارک میں پوکھریا پیر کی مسجد میں تراویح میں قرآن سنانے کا اتفاق ہوا، وہ ان دنوں میرے مقتدی ہوا کرتے تھے اور بقیہ وقت مسجد میں خالصتا لوجہ اللہ امامت بھی کیا کرتے تھے، میں نے اپنی زندگی میں کسی پروفیسر کو اس پابندی کے ساتھ امامت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ۲۰۰۰ء میں وہ اردو فارسی کے صدر شعبہ کی حیثیت سے آر ڈی ایس کالج سے ہی ریٹائر ہوئے، سبک دوشی سے پہلے ۱۹۹۲ء میں انھوں نے زکریا کالونی سعد پورہ مظفر پور میں ایک قطعۂ آراضی حاصل کر کے مکان تعمیر کرا لیا تھا، اور وہیں آخری عمر تک رہے، اہلیہ کی وفات کے بعد اپنے بڑے صاحب زادہ امجد حیات برقؔ کے ساتھ رہا کرتے تھے، جہاں جہاں ان کا تبادلہ ہوتا وہ ان کے ساتھ وہاں قیام پذیر ہوجاتے، چند مہینے قبل تک دربھنگہ تھے، پھر جب امجد حیات صاحب کا تبادلہ بھاگل پور ہوا تو وہ ان کے ساتھ چلے گئے، امجد حیات رجسٹرار کے عہدہ پر فائز ہیں، میری بھتیجی طلعت جہاں آرا عرف سوئیٹی بنت ماسٹر محمد رضاء الہدیٰ رحمانی ان کے دوسرے صاحب زادہ سرور حیات کے نکاح میں ہے، میری ایک چچازاد بہن اور چھوٹے بھائی ماسٹر محمد نداء الہدیٰ کی اہلیہ زینت آرا عرف نوروزی نے ان کی رہ نمائی میں عارف ماہر آروی پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، میرے ایک بھائی ماسٹر محمد فداء الہدیٰ فدا نے بھی ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن کروا رکھا تھا، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد۔
ڈاکٹر معراج الحق برقؔ فطری طور پر شاعر تھے، اسی لیے کم سنی سے ہی باوزن اور بے وزن اشعار کی پرکھ پیدا ہو گئی تھی، ۱۹۵۵ء میں یاد رفتگاں کے نام سے ایک نظم لکھی تھی، گاہے گاہے طلب پر سہرا یا موضوعاتی نظم لکھتے رہے، لیکن شاعری کبھی بھی ان کے لیے ذریعہ عزت نہیں رہی، پروفیسر ثوبان فاروقی کی بیٹی کی ولادت پر انھوں نے سولہ اشعار پر مشتمل تہنیت نامہ لکھا تھا، اس کے جواب میں پچاس اشعار پر مشتمل منظوم خط پروفیسر ثوبان فاروقی سابق صدر شعبہ اردو آر این کالج حاجی پور نے ان کو ارسال کیا تھا، برقؔ صاحب نے اس کے جواب میں چھہتر اشعار پر مشتمل دوسرا مکتوب ان کی خدمت میں ارسال کیا، ان تینوں کو ڈاکٹر امام اعظم نے تمثیل نو جنوری ۲۰۲۱ء تا جون ۲۰۲۲ء کے شمارہ میں شائع کر دیا ہے. اسی شمارہ میں ’’کھینی امان اللہ‘‘ کے عنوان سے بھی ایک نظم ہے، جن سے ان کی قادر الکلامی، برجستہ گوئی، رفعت تخیل اور ندرت افکار کا پتہ چلتا ہے۔
برقؔ صاحب کی نانی ہال میر غیاث چک تھی، ان کے والد حکیم عبد اللہ صاحب نے یکے بعد دیگرے تین شادی کی تھی، برقؔ صاحب محل اولیٰ سے تھے، ان کے ایک اور بھائی سراج الحق تھے، جو ان سے بڑے تھے، جن کا انتقال ۲۰۱۲ء میں ہوا، ان کے تین علاتی یعنی باپ شریک بھائی اور ہیں جن کے نام اعجاز الحق، اظہار الحق اور نثار الحق ہیں، برقؔ صاحب کی شادی باڑھ سب ڈویزن کے گاؤں کنہائی چک ضلع پٹنہ میں دسمبر ۱۹۶۹ء میں ہوئی تھی۔
برقؔ صاحب کا اصلاحی تعلق حضرت مولانا شمس الہدیٰ صاحب راجوی دربھنگوی دامت برکاتہم سے تھا، مظفر پور میں جب پروفیسر برقؔؔ صاحب کا قیام ہوتا مولانا کے ارادت مندوں کی مجلسِ مراقبہ اور ذکر پروفیسر برقؔ صاحب کے گھر پر ہی لگا کرتی تھی، گاہے گاہے وہ حضرت سے ملاقات کے لیے گنور وغیرہ کا سفر بھی کیا کرتے تھے، پرفیسر برقؔ تکبیر اولیٰ کے ساتھ مسجد میں با جماعت نماز کے انتہائی پابند تھے، زکریا کالونی کے امام مفتی آصف قاسمی جب کبھی رخصت پر ہوتے تو وہاں کی امامت انھی کے ذمہ ہوتی تھی اور تمام مقتدی ان کی امامت میں نماز کی ادائیگی سعادت سمجھتے تھے، جب گھٹنوں میں تکلیف رہنے لگی تو بھی مسجد کی حاضری نہیں چھوٹی، پہلی صف میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔
برقؔ صاحب نے پی ایچ. ڈی تصوف پر کیا تھا، اس لیے ان کے مزاج میں صوفیت کا غلبہ تھا، وہ کم سخن نہیں، کم گو تھے، زیادہ سنتے اور کم بولتے، غیبت وغیرہ کی مجلسوں سے دور رہتے، مولانا شمس الہدیٰ راجوی سے اصلاحی تعلق کے بعد اس کیفیت میں اضافہ ہو گیا تھا، تصوف کے رموز و نکات پر ان کی گہری نظر تھی، وہ اپنے مرشد کی طرف سے دیے گئے اوراد و وظائف کے پڑھنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے، انھوں نے اپنی مختصر آپ بیتی بہ عنوان ’’یاد ماضی عذاب ہے یا رب‘‘ مولانا طلحہ نعمت ندوی استھانواں کی فرمائش پر لکھا تھا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے آمین۔ یا رب العالمین.
***
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش :کتاب : موجودہ کشمکش کا حل اور متنوع شعری مجموعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے