کتاب : یادوں کے چراغ (جلد سوم)

کتاب : یادوں کے چراغ (جلد سوم)

✍️مولانا رضوان احمد ندوی

مولانا مفتی محمد ثناءالہدیٰ صاحب قاسمی، امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم، ہفتہ وار نقیب کے مدیر مسؤل، اردو کے مشہور صاحب قلم اور شگفتہ زبان مقرر و خطیب ہیں، ان کے قلم سے چار درجن سے زائد کتابیں شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں، پیش نظر کتاب ”یادوں کے چراغ“ کی تیسری جلد منصہ شہود پر آئی ہے، جس میں انھوں نے ان معاصر شخصیات پر اپنے احساسات و تاثرات کو قلم بند کیا ہے، جو سب زیر خاک جا چکے ہیں، ان میں کچھ بزرگ بھی ہیں، کچھ خورد بھی، عالی جناب اور عالی مقام شخصیتیں بھی ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کو یاد رکھنے والے مفتی صاحب جیسے چند با وضع و باوفا اس دنیا میں رہ گئے ہیں۔
اس طرح اس مجموعے میں ہر رنگ اور ہر میدان کے لوگ ہیں، اس لیے مفتی صاحب نے ان اصحاب کے وہی پہلو بیان کیے ہیں جو پسندیدہ اور قبول عام کے مستحق ہیں. اس لحاظ سے کتاب کی ایک تاریخی حیثیت بھی ہو گئی ہے، ان میں متعدد نام ایسے ہیں جن کی یاد اس مجموعے کے ذریعہ باقی رہے گی، کتاب کے آغاز میں مصنف نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کیا کہ ”یہ کتاب جو ابھی آپ کے ہاتھ میں ہے، ان میں بہت سارے نامور حضرات کی کتاب زندگی کو مختصر خاکوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے، بعض گم نام لوگوں کے بھی اوراق حیات کو پلٹا گیا ہے، تاکہ عام لوگوں کی زندگی میں جو روز مرہ کے معاملات و مشاہدات ہیں، ان سے بھی سبق حاصل کیا جا سکے“۔ (صفحہ ۸)
اس مجموعے میں جناب ڈاکٹر قاسم خورشید ماہر تعلیم و سابق ہیڈلینگویجز ایس سی ای آرٹی بہار کا فاضلانہ پر مغز مقدمہ ”مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی – آدھی ملاقات اور یادوں کے چراغ کی روشنی میں“ کے عنوان سے بڑا ہی گراں قدر ہے، جس میں انھوں نے لکھا کہ ”مفتی صاحب متعدد شخصیتوں کے حصار میں رہے، ان کے اثرات بھی قبول کیے اور بڑی بات یہ بھی ہے کہ جس شخص سے رشتہ قائم کیا، پوری شدت کے ساتھ نبھاتے بھی رہے اور مستقل یادوں کے چراغ بھی روشن کرتے رہے، ہنوز یہ سلسلہ قائم ہے۔ (صفحہ ۱۱)
اس لیے جب بھی کسی ممتاز شخصیت کے سانحہ ارتحال کی خبر گردش کرتی ہے، مفتی صاحب کا قلم حرکت میں آجاتا ہے، اور کبھی کبھی تو ایسا شبہ ہونے لگتا ہے کہ گویا مضمون پہلے سے تیار تھا، یہ ان کے کمال درجہ کی فنی مہارت کی علامت ہے۔
بہر حال زیر تبصرہ مجموعے کے بیش تر سوانحی خاکے ہفتہ وار نقیب پٹنہ کے علاوہ دوسرے جرائد و رسائل کی زینت بن چکے ہیں، جنھیں اب کتابی صورت میں طبع کر دیا گیا ہے، مصنف نے کتاب کو چار ابواب و فصول میں تقسیم کیا ہے، باب اول میں علما و مشائخ کے احوال وآثار کا تذکرہ ہے، ان میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی، حضرت مولانا ابو سلمہ شفیع، علامہ محمد حسن باندوی، قاضی جسیم الدین رحمانی، شیخ ثانی حضرت مولانا عبد الحق اعظمی، مولانا محمد یونس جون پوری سمیت 32 اصحاب فضل و کمال کا ذکر ہے، باب دوم میں شعرا، ادبا، سیاست داں اور ماہرین تعلیم جیسے پروفیسر لطف الرحمن، جناب محمد عبد الرحیم قریشی، ڈاکٹر سید حسن، الحاج محمد شفیع قریشی، بیکل اتساہی، ڈاکٹر ثوبان فاروقی، انور جلال پوری کی ادبی، فکری اور عملی کارناموں کو بیان کیا گیا ہے، باب سوم میں 4 بھولے بسرے لوگوں جناب محمد ہاشم انصاری، حاجی محمد اسلم آرزو، حاجی محمد اسلم (اڈیشہ) اور ایک خدا ترس خاتون (والدہ مولوی ممتاز احمد امارت شرعیہ) کو شریک اشاعت کیا گیا ہے، اور آخری باب میں داغہائے سینہ کے عنوان سے مفتی صاحب نے اپنے والد ماجد حاجی محمد نور الہدیٰ رحمانی اور برادر اکبر ماسٹر محمد ضیاءالہدیٰ رحمانی کی سیرت، کردار و عمل پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، اس طرح یہ مجموعہ ہر لحاظ سے قابل دید اور سیرت و سوانح سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
کتاب کا دوسرا رخ، خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے کہ اس مجموعہ کی طباعت دسمبر ٢٠٢٢ء میں ہوئی اور ان میں جن مرحومین کے تذکرہ کے ذیل میں کسی زندہ شخصیت کا ذکر آیا ان میں بعض ایسے لوگ ہیں جو داغ مفارقت دے چکے ہیں، ان کے نام کے آگے زندوں کے القاب و آداب تحریر ہیں، جس سے قارئین کو شبہ ہو سکتا ہے کہ کیا ابھی بھی وہ بہ قید حیات ہیں، اس لیے کتاب کی ترتیب و تدوین اور تسوید کے وقت اس پہلو پر نظر رہنی چاہئے تھی جس کی طرف بے توجہی برتی گئی، گرچہ اردو میں چھپنے والی کتابوں میں اس طرح کی غلطی کوئی نئی چیز نہیں ہے، جس کا شکوہ کیا جائے، مگر سونے کے تاروں سے بنی چادروں پر معمولی داغ بھی نگاہوں میں کھٹکنے لگتا ہے۔
بہر حال کتاب اپنے موضوع پر عمدہ اور قابل قدر کاوش ہے اوراس کے لیے ناشر کتاب حضرت مولانا مفتی مبین احمد قاسمی بانی مدرسہ طیبہ قاسم العلوم بردی پور، سمری، دربھنگہ (بہار) بھی بجا طور پر شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے کتاب کو اپنے ادارہ کی طرف سے طبع کراکر مفتی صاحب کے ذہنی الجھن کو ہلکا کر دیا، ویسے بھی مفتی صاحب کو اس فن میں کمال درجہ کی مہارت حاصل ہے کہ کون سی کتاب کہاں سے اور کیسے شائع کروانی ہے، ہم جیسوں کے لیے یہ درس عبرت ہے، بہر کیف ہم ان دونوں بزرگوں کی صحت و عافیت کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ہو، طابع کو مزید وسعت عطا فرمائے۔ آمین۔
232 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا گیٹ اپ و سیٹ اپ جاذب نظر، کاغذ معیاری اور گرد پوش پرکشش ہے، جس کی قیمت 400 روپے طبع ہے، ضرورت مند و خواہش مند اصحاب ذوق مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ یا براہ راست مصنف کتاب کے موبائل نمبر 9304919720 پر رابطہ کرکے طلب کر سکتے ہیں۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :کتاب : مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراے کرام کی نظر میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے