حضرت نازش سہسرامی: فن اور شخصیت

حضرت نازش سہسرامی: فن اور شخصیت

ڈاکٹر احسان تابش
رابطہ:9199735137

ہندستان کی تاریخ میں شیرشاہ کا نام ایک ایسے عظیم الشان شہنشاہ کی حیثیت سے مشہور و معروف رہا ہے جس نے بہت کم عرصہ حکومت کی لیکن جس کے کارنامے پوری مغلیہ حکومت کے مقابلے میں رکھے جاسکتے ہیں. اسی شیر دل بادشاہ کی نگری سہسرام جو بہار اور اترپردیش کی سرحد کے قریب بسا ہوا ایک چھوٹا سا شہر ہے. شیرشاہ کی طرح اپنے دامن میں تاریخ کی عظیم روایتوں کا ایک عظیم سلسلہ سمیٹے ہوئے ہے. اس شہر سے تہذیب و تمدن ، ادب و ثقافت اور علم و ہنر سے وابستہ روایتوں کا عظیم الشان سلسلہ ہے تو دوسری طرف مناظر فطرت کی رعنائیاں اس کے ساتھ مل کر اسے عروس البلاد بنائے دیتی ہے. اس شہر نے ایسے ایسے گوہر نایاب پیدا کیے ہیں جن کی رمق اور روشنی آج بھی نگاہیں خیرہ کیے دیتی ہیں. سیاست ہو یا ثقافت، مذہب ہو یا تصوف، شعر و ادب ہو یا علم و ہنر زندگی کے ہر گوشے میں روشنی پھیلا دینے والی شخصیتوں کا ایک طویل سلسلہ اس شہر کی تاریخ سے وابستہ ہے.
ایسی ہی شخصیتوں میں سے حضرت مولانا حافظ انوار الحق شہودیؒ بھی ہیں جنھوں نے ایک طرف جہاں مذہب و تصوف، عشق و معرفت اور رشد و ہدایت سے ایک زمانہ کو فیض یاب کیا ہے، وہیں شعر و ادب کی آبیاری بھی کی ہے.
حضرت نازش سہسرامی کا جدی وطن تو آمڈاری شریف (بلیا) ہے جو اترپردیش کا ایک مشہور قصبہ ہے لیکن آپ کے جد امجد حضرت شاہ قاضی علی حقؒ کی شادی سہسرام ہوئی تھی اور پھر زمانے کے نشیب و فراز نے انھیں آمڈاری چھوڑ کر اس شہر نگاراں کو اپنا مسکن بنانے کی طرف مائل کیا.
ہندستان کی تاریخ گواہ رہی ہے کہ صوفیۂ کرام نے ایک طرف جہاں روحانیت کے بلند مراحل طے کیے ہیں تو دوسری طرف عوام کے دلوں پر حکمرانی بھی کی ہے اور حکمران وقت کے ساتھ حق و باطل کے معرکے بھی سر کیے ہیں. شاہ قاضی علی حقؒ بھی ایسے ہی مجاہد حق تھے جنھوں نے انگریزوں کے خلاف نعرہ بغاوت بلند کیا اور راجا کنور سنگھ کا ساتھ دیا. جب عتابوں کا سلسلہ شروع ہوا تب وہ آمڈاری سے یہ روشن چراغ سہسرام کی ترائی میں بس جانے پر مجبور ہو گیا. آپ کے بعد ان کے صاحب زادے قاضی وحید الحق وحید آمڈاروی، وصی الحق شہودیؒ اور پھر حضرت مولانا حافظ انوارالحق شہودیؒ نازش سہسرامی سے ہوتے ہوئے عہد حاضر تک روشنی کی ایک لکیر سی نظر آتی ہے.
بہر حال اصدقیہ سلسلہ کے ان بزرگوں کی علمی و ادبی خدمات کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کی ایک اہم کڑی مولانا حافظ انوارالحق شہودی نازش سہسرامیؒ بھی ہیں. جن کی پیدائش اسی عروس البلاد سہسرام کی سر زمین پر ٢١ ربیع الثانی ١٩١٥ء میں ہوئی. ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم حضرت مولانا وصی الحق شہودیؒ مسکین سہسرامی سے حاصل کرنے کے بعد حضرت نے جستجوے علم کی خاطر مدرسہ خیریہ نظامیہ سہسرام، مدرسہ نعیمیہ مرادآباد، مدرسہ سبحانیہ الہ آباد ہوتے ہوئے مدرسہ فیض الغرباء آرہ تک ایک طول سفر طے کیا اور پھر مدرسہ خانقاہ کبیریہ سہسرام میں صدر مدرس فارسی کی حیثیت سے تشنہ علم حضرات کے دل و دماغ کو سیراب و منور کرتے رہے. ان کی پوری زندگی اللہ بس باقی ہوس کے سوا کچھ بھی نہ تھی. فقر و للہی سینے کا چراغ تھی اور اس کی روشنی سے چراغاں کرتے رہے. سلوک و معرفت کی منزلوں سے گذرتے ہوئے انھوں نے ترک دنیا کا راستہ کبھی نہیں اپنایا بلکہ اقبال کے اس مسلک کو اپنایا کہ:
ع جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
چنانچہ 1935 سے 1947 تک سیاسی مشغولیتیں بھی رہیں اور انھوں نے اپنے بزرگوں کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ہندستان کی جنگ آزادی کے سلسلے میں کئی اقدام بھہ کیے. ضلع میں سب سے پہلے آزادی کا ریزولیشن آپ ہی کے زیر صدارت پیش کیا گیا.
جہاں تک علمی اور ادبی کارناموں کا سوال ہے تو نازش سہسرامی نے بھی عشق و معرفت کی منزلوں سے گزرتے ہوئے شعر و نثر کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا. زمانہ طالب علمی ہی میں حضرت جگر مراد آبادی سے تلمذ حاصل کیا اور اپنا تخلص ”ثمر“ رکھا جسے بعد میں انھوں نے ترک کر کے ”نازش“ تخلص اپنایا. ان کے اوئل شاعری پر جگر مراد آبادی کے اثرات نمایاں ہیں. آہستہ آہستہ ان کا اپنا افرادی رنگ نمایاں ہوتا چلا گیا.
تغزل کی سحرکاری کے ساتھ فن کاری کے نت نئے گوشے، موضوع اور اسلوب کو انفرادیت بخشتے رہے لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ صوفیوں کا مسلک نمود و نمائش نہیں ہوتا، حضرت نازش سہسرامی نے بھی شاعری کو کبھی بھی سبب افتخار نہیں سمجھا اور نہ ہی اسے شہرت کا ذریعہ بنایا. یہی وجہ ہے کہ جس طرح دیگر صوفیۂ کرام، بزرگان دین کے ادبی کارنامے مخطوطات کی زینت بنے ہیں لیکن عوام تک نہیں پہنچ سکے، اسی طرح آپ کی تخلیقات سے بھی لوگوں کی واقفیت پوری نہ ہو سکی. ہمیں ان کے صاحب زادے ساہتیہ اکیڈمی انعام یافتہ اردو فکشن نگار پروفیسر ڈاکٹر حسین الحق مرحوم اور عہد حاضر کے معروف شاعر پروفیسر ڈاکٹر عین تابش کا مشکور ہونا چاہیے، جنھوں نے اپنی تمام تر مصروفیت کے باوجود آپ کے کلام کو اہل ذوق حضرات تک پہچانے کی کوشش کی. نازش سہسرامی مرحوم کا ایک جامع شعری مجموعہ ”حرف تمنا“ (ترتیب پروفیسر حسین الحق، پروفیسر عین تابش) 1983 میں بہار اردو اکاڈمی کے مالی اشتراک سے شائع ہو چکا ہے. نظموں اور قطعات کا مجموعہ ”حریم شوق“ ( ترتیب پروفیسر زین رامش)، ”تصوف اور رہبانیت“ (ترتیب پروفیسر حسین الحق )، ”وحدت الہ“ ( ترتیب پروفیسر حسین الحق )، ”مکتوبات مولانا انوارالحق شہودی“ ( ترتیب پروفیسر حسین الحق )، ”حرف تمنا اور نازش سہسرامی“ (پروفیسر عین تابش)، ”مقالات مولانا شہودی“ ( ترتیب فردالحسن) ، ”مولانا انوارالحق شہودیؒ حیات و خدمات“ ( پروفیسر مشیرالزماں) Nazish Sahsarami
A Sufi Scholar Poet-Booklet by prof Ain Tabish اور شرف آدم کا نقطہ عروج منظر عام پر آچکا ہے. اس کے علاوہ کئی مجموعہ کلام زیر طبع ہے.
شاعری کے علاوہ نثر میں بھی نازش سہسرامی نے مختلف علمی، ادبی اور مذہبی موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے. جو ”مدینہ“ ( بجنور)، ”سیرت“ ( بنارس)، ”المجیب“ ( پھلواری شریف پٹنہ) ، ”رفاقت“ ( پٹنہ ) وغیرہ کی فائلوں میں محفوظ ہیں، لیکن بے نیاز فطرت نے انھیں اشاعت کی طرف کبھی مائل نہ کیا. اس لیے ان کی زیادہ تر تخلیقات تشنۂ طباعت رہیں. ان کے چھوٹے صاحب زادے پروفیسر عین تابش (شعبۂ انگریزی مرزا غالب کالج، گیا، بہار) نے ہفتہ وار ”سہسرام ایکسپریس“ میں ” نمود حیات و کائنات“ کے عنوان سے آپ کی نثری تخلیقات کو مستقل کالم کی شکل میں شائع کرنا شروع کیا تھا. ان مضامین کے مطالعے سے جہاں ہمیں ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں اور عظمتوں کا احساس ہوتا ہے وہیں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کی ان کا اسلوب اپنی فن کاری اور سحر کاری میں مولانا ابولکلام آزاد کا ہم صفت ہے.
حضرت نازش سہسرامی کی علمی و ادبی حیثیت اور مرتبے کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے ادبی نصابی تلامذہ میں شریک حضرات کی ایک کثیر تعداد ہے جن میں آصف سہسرامی، مسرور اورنگ آبادی، خیر کریمی، ظفر رضوی کاکوی، کل بھوشن جین کوثر اور پروفیسر زین رامش وغیرہ چند قابل ذکر نام ہیں جنھوں نے علمی و ادبی دونوں حیثیتوں سے نازش سہسرامی کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا اور آج اس کی روشنی سے اپنا چراغ روشن کیے ہوئے ہیں. اس کے علاوہ ڈاکٹر حسن آرزو، ڈاکٹر مظاہر عالم، شمیم ہاشمی، عبدالرب نشتر، مقیم شاد، اشفاق احمد خاں، کوثر نیازی، سرتاج علی خاں (ایڈوکیٹ)، وغیرہ نے بھی آپ سے اکتساب فیض کیا.
اس طرح آپ کے شاگردوں اور مریدوں کا ایک دراز سلسلہ ہے جنھوں نے آپ سے علمی اور روحانی فیض حاصل کیا ہے، لیکن عمر تو دراز نہیں ہوتی. راہ حق کا یہ مسافر معرفت حق کی تلاش میں تکمیل کے مراحل سے گزرتا ہوا 30 دسمبر 1983 کو واصل حق ہوا، من و تو کا فرق ختم ہو گیا. تلاش مکمل ہوئی لیکن انھوں نے جو چراغ روشن کیا تھا اس کی روشنی آج بھی قائم ہے. حضرت نازش سہسرامی کا جنازہ وصیت کے مطابق سہسرام لے جایا گیا، جہاں قبرستان حضرت مخدوم محمد صالحؒ صاحب میں اپنے جد امجد قاضی علی حق صاحب کے قریب دفن ہوئے. نازش سہسرامی شعر و ادب کے گوہر گراں مایہ تھے. نازش سہسرامی بہ حیثیت بزرگ، بہ حیثیت انسان اور بہ حیثیت شاعر و ادیب فضل و کمال کے بلند درجے پر واقع تھے.
جہاں تک نازش سہسرامی کی شاعرانہ حیثیت اور ان کی شاعری کا سوال ہے تو ان کی شاعری بھی کائنات کے ہر اس پہلو کا احاطہ کرتی نظر آتی ہے جسے نازش سہسرامی نے چھوا یا جس نے نازش سہسرامی کو چھوا. سہسرام کے پس منظر پر نگاہ کی جائے تو معلوم ہوگا کہ حضرت نازش سہسرامی کا عہد سہسرام میں اردو شاعری اور بالخصوص اردو غزل کا سنہرا عہد تھا.
نازش سہسرامی کے یہاں فکر کا غلبہ تھا. انھوں نے اپنے استاد جگر مراد آبادی کے رنگ میں بھی جو شاعری کی ہے وہاں بھی اسلوب تو جگر مرادآبادی کا رہا مگر فکری طور پر وہ جگر کے انداز و فکر سے الگ ہٹ کر اپنی فکری انفرادیت ظایر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور حیات و کائنات کے مختلف مسائل پر اپنی مخصوص فکری اور فلسفیانہ انداز میں اظہار خیال کرتے ہیں. 
کبھی رقصاں نظر آتا ہے وحشی آسمانوں میں
کبھی بے بسی اسیر کاکلِ جانانہ ہوتا ہے

کیا صبح زندگی تھی کیا شام زندگی ہے
وہ بھی میری کہانی یہ بھی مرا فسانہ

تم بھی ذرا سنبھل کر محفل میں بیٹھ جاؤ
ہم بھی نظر سے اک اک پردہ اٹھا رہے ہیں
اس شعر کو اگر ان کے استاد جگر مرادآبادی کے اس شعر کے ساتھ پڑھا جائے تو شاید لطف دو بالا ہو کہ:
میری حیرت کی قسم آپ اٹھائیں تو نقاب
میرا ذمہ ہے جلوہ نہ پریشان ہوں گے
استاد حسن کے بے پردہ ہونے پر بھی سارے جلوے سمیٹنے کی بات کرتا ہے اور شاگرد اپنی ہی نظر سے حسن پر پڑے پردے اٹھا دینے کی بات کرتا ہے. کہا جا سکتا ہے کہ یہ جگرمرادآبادی کے شعر کی اگلی منزل ہے.
حضرت نازش سہسرامی چونکہ ابتدا سے ایک بیدار، باشعور اور ملی، قومی اور انسانی مسائل پر غور و فکر کرنے والے صاحب علم شاعر تھے، اس لیے وہ صرف رنگ جگر پر قناعت نہ کر سکے اور فکر جب اور زیادہ بالغ ہوئی اور حالات جب اور زیادہ روح فرسا ہوئے تو فکری اور ملی نظموں میں اپنی تڑپ کا اظہار کیا. ان کی نظم ”خواب گراں“ ، ” تھکے ہارے مسافر کے نام“ اور ”16 اگست 1947 کا خونی ڈرامہ “ بے مثال ہے.
ان کی نظموں کو پڑھنے کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نازش سہسرامی آہستہ آہستہ رنگ جگر کی رومانیت سے شعوری طور پر اپنے آپ کو الگ کر رہے تھے اور اس رومانویت سے اپنے آپ کو الگ کرنے کی شعوری کوشش انھیں اقبال کے کوچے میں لے گئی اور نظموں پر اقبال کا رنگ حاوی ہوا. رنگ جگر سے رنگ اقبال کی طرف رخصت کا ایک نمونہ قطعہ کی شکل میں پیش خدمت ہے جس کا عنوان ”امام“ ہے اور جو حضرت نازش کے رنگ جگر سے رنگ اقبال کی طرف رخصت اختیار کرنے کے دعوے پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے. قطعہ ملاحظہ ہو:
جس کا جلال بندگی چیر دے سینۂ زمیں
پھونک دے خرمن سکوں جس کی نوائے آتشیں
کرتی ہو جس کی اک نگاہ سینکڑوں بجلیوں کا کام
امت مسلمہ ترا ہے وہی آمر و امام
حضرت نازش سہسرامی کی شاعری کا یہ آخری ٹھہراؤ نہیں ہے. رنگ جگر سے رخصت اور رنگ اقبال سے قربت سے آگے چل کر دو اہم جہتیں حضرت نازش سہسرامی کی شاعری میں پیدا ہوئیں. پہلی جہت وہ ہے جسے ہم رنگ جگر سے رخصت کے بعد تغزل تک پہنچنے کا استعارہ کہہ سکتے ہیں. یعنی رنگ جگر نے بعد میں تغزل کے پردے میں اپنا اظہار کیا.
 تلاطم کیا بھنور کیا، ڈوبنا کیا
چلے چلیے فریب نا خدا کیا
 نظر کے چند گوشے بن گئے ہیں
و گرنہ مہربانی کیا جفا کیا
آنکھ پر چڑھ جائے تو مٹی کو سونا جانئے
آنکھ سے گر جائے تو لعل و گہر کچھ بھی نہیں
وہی بھگی بھیگی پلکیں وہی اترا اترا چہرہ
اسی حال میں ملا ہے جو ملا تری ڈگر میں
دوسری جہت رنگ اقبال کے ایک نیا رخ اختیار کرنے کی جہت ہے. یعنی اقبال کا وہ بلند آہنگ جس نے ان سے ملی اور فکری نظمیں کہلوائیں اور ایسے بلند آہنگ اشعار کو ان کی شعری کائنات کا حصہ بنایا:
 تیرے دم سے ہے زمانہ تو زمانی تو نہیں
اے مکیں تجھ سے مکاں ہے تو مکانی تو نہیں
بے حسی اہل نظر کہتے ہیں مرجانے کو
جاہئے پھر کوئی آتش ہمیں گرمانے کو
اقبال کے اسی بلند آہنگ نے آگے چل کر حضرت نازش سہسرامی کا وہ مخصوص بیباکی، دلیرانہ، قلندرانہ لہجہ وضع کیا:
 ہم ایک رات اور گزاریں گے راہ میں
کہیو بجھے چراغ سے بے وقت جل نہ جائے
وہ تو میرا شعور تھا جھیل گیا جو آفتیں
خانہ خراب زندگی تیرا کوئی گلہ نہیں
 ہم اپنی سر خروئی پر ہیں نازاں
یہ کچا خون ہے غازہ نہیں ہے
رنگ نازش کا انتہائی منفرد اور خالص منظر نامہ اس وقت تیار ہوتا ہے جب وہ ان دونوں جہتوں کو ایک دوسرے میں ضم کر دیتے ہیں.
 بے اعتبار شہر میں آوارگی کے بعد
آنے لگا ہے دل کو ترا اعتبار پھر
 آج آپ بے قرار ہیں کل ہم تھے دلفگار
تاریخ اپنے آپ کو دہرا گئی تو کیا
 لفظ و قلم پر کیا ہے زندہ دلی سلامت
یوں بھی پیام آنا یوں بھی پیام جانا
مندرجہ بالا اشعار سے اس بات کا پورا پورا اندازہ ہوتا ہے کہ جس تاثیر اور جس عنوان کی تاثیر جیسا سوز و گداز اور محویت ان اشعار میں ہے وہ اپنے اندر شعریت کی انتہا رکھتا ہے، جس کی تہیں ہمارے احساس جمال کے اوپر جاری و ساری رہتی ہیں.
نازش سہسرامی کی غزلوں کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں غزل کی ساری تہذیب ان کے یہاں ملتی ہے. نازش سہسرامی تغزل کی ہئیت و ماہیت اور اس کے مزاج اور انداز سے بہ خوبی واقف نظر آتے ہیں اور مزاجاً جگر سے قریب ہونے کے باعث ان کے انداز و بیان کے آمین. مگر فکری سطح پر غالب کا فلسفیانہ آہنگ بھی ان کی شاعری کا وصف بنتا ہے. الغرض نازش سہسرامی کے یہاں وہ سب کچھ ہے جو انھیں ممتاز غزل گو شعرا کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے.
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :حسین الحق کا علمی ستون بہت بلند تھا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے