شاہ عمران حسن کی وحید شناسی

شاہ عمران حسن کی وحید شناسی

علیزے نجف

شاہ عمران حسن علمی دنیا کے ایک معروف اسکالر اور قلم کار ہیں، ان کا قلم تجسس اور تحقیق کی روشنائی سے اب تک بےشمار سفید صفحات کو سیاہ کر چکا ہے، انھوں نے عام ڈگر پہ چل کر گھسی پٹی علمی روایتوں اور نظریات کو اپنانے کے بجائے اس راستے کا انتخاب کیا جو نہ صرف ان کے ذہنی رجحان و دلی میلان کے مطابق ہے بلکہ یوں لگ رہا ہے گویا اس راستے کو شاہ عمران حسن ہی کی تلاش تھی، ان کے قلم سے لکھے جانے والے مضامین متنوع موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں جس میں انھوں نے اپنے مشاہدے و مطالعے کو ادبی اسلوب میں اس سادگی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اس کی اثریت قاری کی توجہ کو اپنی طرف مرکوز کیے بغیر نہیں رہتی۔ ایک قلم کار کے لیے اس کی تحریروں کا سب سے بڑا وصف اس کا مؤثر ہونا ہوتا ہے، جو احساسات پہ اپنی گرفت مضبوط کر سکے۔
شاہ عمران حسن صاحب کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی ان کی سادگی ہے اور یہ سادگی ان کے قلم سے لکھی جانے والی تحریروں کے ساتھ ساتھ ان کی عام گفتگو میں بھی محسوس کی جا سکتی ہے، فن کار وہی ہوتا ہے جو لفظوں کے پیچ و خم میں الجھانے کے بجائے اپنے خیالات و نظریات کو سلجھے ہوئے انداز میں پیش کرنے کا ہنر رکھتا ہو، جس کے اندر اپنے مشن کے تئیں متزلزل آرزوؤں کے بجائے استقلال پسند جذبہ ہو، جو لفظوں کے سحر میں ڈوبنے کے بجائے احساسات کی آبیاری کرنے کا ہنر رکھتا ہو. شاہ عمران حسن صاحب ایسے ہی محکم جذبے کے ساتھ اس جستجو کے سفر میں مسلسل سرگرداں ہیں۔
شاہ عمران حسن صاحب کی شخصیت کو علمی بساط پہ ممتاز مقام دلانے میں اردو سوانحی ادب نے مرکزی کردار ادا کیا ہے، سوانح نگاری ایک ایسی صنف ہے جو قاری کی شخصیت سازی اور ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، اس کے ذریعے معاشرے کی رول ماڈل شخصیات کے کردار کو ادبی پیرہن میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ ہر خاص و عام تک اس کی رسائی کو ممکن بنایا جا سکے اور تاریخ میں انھیں ہمیشہ زندہ رکھا جا سکے، سوانح نگاری ایک مفید و مؤثر صنف ہونے کے باوجود اب تک وہ توجہ و مقام نہیں حاصل کر سکی جس کی وہ مستحق تھی. اس کی اسی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے شاہ عمران حسن صاحب نے سوانح نگاری کی صنف میں طبع آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا. اس سے ذہنی مناسبت رکھنے کی وجہ سے وہ پوری دل جمعی اور ایمان داری کے ساتھ سوانحی ادب کو لکھتے گئے، حیات رحمانی، حیات ولی، اوراق حیات، حیات غامدی ان کی فعالیت کی روشن مثال ہے، یہ کتابیں جلیل القدر عالی المرتبت شخصیتوں کی زندگی کو اس تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہیں کہ قاری اس کے ذریعے ان کی زندگی کے تمام روشن پہلوؤں سے واقف ہو سکتا ہے، شاہ عمران حسن صاحب نے جن کی سوانح عمری کو اپنے زرخیز قلم سے لفظوں کو قرطاس پہ بکھیرا ہے یہ وہ شخصیات ہیں جنھوں نے لوگوں کے اذہان و افکار کو متاثر کیے ہیں. جن کا علمی کام امت مسلمہ کے لیے ایک بیش قیمت سرمایہ ہے. ان شخصیات کا شمار اپنے وقت کے مجددین و مفکرین میں ہوتا ہے۔ شاہ عمران حسن صاحب نے ان کی سوانح حیات لکھ کر نہ صرف اپنی صلاحیت و قابلیت کو شناخت دی ہے بلکہ ان شخصیات کی زندگی کے گوشے گوشے کو زیر قلم لا کر ہم سب پہ بڑا احسان بھی کیا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے علمی و فکری راہیں ہموار کرنے کی ایک کامیاب کوشش بھی کی ہے۔
اس وقت میرے سامنے ان کی مرتب کردہ کتاب ‘مولانا وحیدالدین خاں، اہل قلم کی تحریروں کے آئینے میں` رکھی ہوئی ہے جس کے سرورق پہ مولانا وحیدالدین خاں صاحب کی روشن تصویر منقش ہے، مولانا وحیدالدین خاں کی شخصیت آج کی تاریخ میں کسی کے لیے بھی محتاج تعارف نہیں. یہ ایک نابغہء روزگار ہستی، جید عالم دین، ممتاز مذہبی اسکالر اور مصلح تھے۔ ان کا شمار ان علما میں ہوتا ہے جو ساری زندگی اپنی قوم میں اعلا کردار اور محققانہ ذہن پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے، اس سعی مسلسل میں انھیں جہاں ایک طرف عزت و مقبولیت حاصل ہوئی وہیں دوسری طرف نظریات کے اختلاف کی وجہ سے مذہبی رہ نماؤں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا، بےسروسامانی کے عالم میں بھی انھوں نے اپنے خواب اور مقصد حیات کے ساتھ کوئی مفاہمت نہیں کی، آج ان کا علمی کام صرف ملکی سطح پہ ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پہ بھی مقبولیت حاصل کر چکا ہے. یہ ان کی غیر معمولی استقامت اور بےپناہ صلاحیتوں کا نتیجہ ہے جو انھیں اللہ عزوجل کی طرف سے عطا ہوئی تھی. انھوں نے اپنی قوم کی رہ نمائی کے لیے دو سو سے زائد کتابیں لکھیں، اس میں انھوں نے اپنی زندگی بھر کے تجربے، مشاہدے و مطالعے کے حاصل کو سمو دیا ہے، یہ کتابیں مذہبی کتابوں کی روایت میں گراں قدر اثاثے کی حیثیت رکھتی ہیں. بےشک کسی کو اس سے اختلاف ہونا ممکن ہے، کیوں کہ انسان خطاؤں سے مبرا نہیں ہو سکتا. ان کی لکھی جانے والی کتاب الاسلام یتحدی جامعہ الازہر یونی ورسٹی سمیت کئی یونی ورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے. تقریبا دنیا کے گوشے گوشے میں ان کے قاری موجود ہیں۔ ان کے کارہائے نمایاں کی تفصیل میں صفحات کے صفحات لکھے جا سکتے ہیں، جو کہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔
شاہ عمران حسن صاحب نے یہ کتاب مرتب کر کے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے. اس کے ذریعے انھوں نے ان تمام مضامین کو یکجا کر دیا ہے جو کہ مولانا وحید الدین خان کی شخصیت اور ان کے افکار و خیالات سے متاثر ہو کر لکھے گئے ہیں، ایسے میں کوئی بھی قاری بہ آسانی اسے پڑھ سکتا ہے۔
شاہ عمران حسن صاحب جو کہ مولانا وحید الدین خاں صاحب کی زندگی میں ان کی سوانح حیات مرتب کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں چوں کہ مولانا وحید الدین خان کی خواہش تھی کہ ان کی سوانح عمری ان کے ہی لفظوں میں لکھی جائے اس لئے ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے شاہ عمران صاحب نے مولانا صاحب کی رہنمائی میں ان کی تمام کتابوں کے ساتھ ہزاروں غیر شائع شدہ صفحات کا مطالعہ کر کے وہ سارے مواد اکٹھا کیے جس سے کہ ان کی زندگی کے تمام نشیب و فراز کو مفصل انداز میں بیان کیا جا سکے، انھوں نے اوراق حیات کو اس عرق ریزی کے ساتھ مرتب کیا ہے کہ قاری مولانا صاحب کی زندگی سے واقفیت حاصل کرتے ہوئے شاہ عمران صاحب کی سوانح نگاری کی مہارت کو بہ خوبی محسوس کر سکتا ہے۔ یہ ایک ضخیم جامع کتاب ہے، اوراق حیات کو مرتب کرتے ہوئے وہ مولانا کی زندگی سے جڑے ہر واقعے اور ان کے نظریات و خیالات سے واقف ہو چکے تھے، جس نے انھیں مولانا صاحب کا عقیدت مند بنا دیا تھا، جب مولانا صاحب اس دار فانی سے کوچ کر گئے اس وقت پوری دنیا سے جو تعزیتی تاثرات مضمون کی صورت موصول ہوئے انھوں نے ہر مضمون کا بہ غور مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات بڑی شدت کے ساتھ محسوس کی کہ مولانا سے جڑے ان احساسات و تاثرات کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے. مولانا صاحب کی لکھی گئی کتابوں کی طرح ان کے عقیدت مندوں کے احساسات بھی قیمتی ہیں. کیوں کہ چراغوں سے چراغ جلائے جاتے ہیں، رہی بات مولانا صاحب کے نظریات سے اتفاق و اختلاف کی تو یہ بےشک ہر ذی شعور انسان کا حق ہے کہ وہ شرح صدر کے لیے سوال کرے اور اپنے اعترضات ظاہر کرے. اسی طرح مولانا وحید الدین خاں صاحب کے نظریات پہ بھی اعتراض کیا جا سکتا ہے. جیسا کہ بےشمار لوگوں نے کیا بھی ہے. لیکن ہماری قوم کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے یہاں تنقید برائے تنقیص کا مزاج پایا جاتا ہے. اس میں دلیل نہیں تضحیک ہوتی ہے. اس ذہنیت کے پیچھے پائی جانے والی نفسیات میں تقلید اور جذباتیت کا عنصر غالب ہوتا ہے. ہمارے یہاں بیش تر علما کسی کو مذہبی روایت پہ سوال کرنے کا حق نہیں دیتے. اگر کوئی غلطی سے اس کی جرأت کر بیٹھے تو اسے زندیق اور کافر قرار دینے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتے. اسی نفسیات نے مسلم امت میں تحقیقی و تفتیشی مزاج کا بیڑہ غرق کر دیا ہے، تحقیق اور تفتیش کے میدان میں مستعد رہنے والی قوم ہی قوموں کی امامت کرتی ہے۔
اس کتاب کے مرتب شاہ عمران حسن صاحب ایک وقت میں مولانا پہ برملا تنقیدیں بھی کرتے رہے ہیں. مولانا صاحب نے بہت ہی خندہ پیشانی کے ساتھ ان کے جوابات دیے. شاہ عمران حسن صاحب کی تنقید علمی تنقید تھی. اس لیے جیسے جیسے وہ مولانا کے نظریاتی پس منظر سے واقف ہوتے گئے ویسے ویسے وہ ایک طالب علم کی طرح ان سے استفادہ کرتے گئے. ایسا بالکل بھی نہیں کہ وہ ہر معاملے میں مولانا صاحب کی رائے سے صد فی صد اتفاق کرتے ہیں. انھوں نے خود مولانا صاحب سے اختلاف کے باوجود اتحاد کو قائم رکھنا سیکھا. وہ اپنی اس مرتب کردہ کتاب میں بھی لکھتے ہیں ‘ضروری نہیں کہ جو مضامین یہاں جمع کیے گئے ہیں، ان سے میں صد فی صد اتفاق رکھتا ہوں بلکہ نفس مضمون سے اختلاف کے باوجود میں نے یہاں سارے مضامین شامل کیے ہیں تاکہ کسی کو یہ شکایت نہ ہو کہ مولانا کا مطالعہ جانب دارانہ انداز میں کیا گیا ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ مولانا وحیدالدین خاں سے مجھے کلی اتفاق ہے، کلی اتفاق تو صرف انبیا علیہم السلام سے مطلوب ہوتا ہے، کسی انسان سے مطلوب ہوتا ہے اور نہ ممکن ہے.`
شاہ عمران حسن صاحب نے اس کتاب کو جس طرح غیر جانب دارانہ انداز میں مرتب کیا ہے، اسی طرح قاری کا بھی یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی اپنے تعصب و تنگ نظری کو پرے رکھ کے مولانا صاحب کی لکھی ہوئی کتابوں اور ان کی شخصیت پہ لکھی گئی اہل قلم کی تحریروں کا مطالعہ کرے اور اپنے آپ کو بھی انسان سمجھے، جس سے غلطیوں کا صدور ممکن ہے. اگر غلطی مولانا صاحب کر سکتے ہیں تو غلطی آپ بھی تو کر سکتے ہیں نا، یا پھر اس کتاب کو پڑھتے ہوئے آپ اپنے اختلاف کے لیے کوئی علمی دلیل پا جائیں یا پھر ان کی لکھی جانے والی دلیلوں سے آپ قائل ہو جائیں، دلیل کے ساتھ اختلاف و اتفاق کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ علم کا ارتقا ہو، انسانی ذہن کو اس کا مقصد مل جائے، وہ دنیاوی لہو و لعب اور شیطانی ہتھکنڈوں کا شکار نہ ہو کر صحیح جگہ پہ اپنی توانائی صرف کر سکے۔
اس کتاب میں دنیائے اسلام کی معتبر علمی شخصیات کے مضامین شامل ہیں. انھوں نے مولانا کی رحلت کو ایک ایسا سانحہ قرار دیا ہے جس کی تلافی مشکل سے ہی ہو سکتی ہے، بےشک دنیا کبھی قحط الرجال کا شکار نہیں ہوتی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایسی شخصیات روز روز نہیں پیدا ہوتیں، سالہا سال گذر جاتے ہیں تب کہیں خاک کے پردے سے ایسا انسان پیدا ہوتا ہے۔ اس کتاب کے آغاز میں سفر حیات کے عنوان سے مولانا وحید الدین خاں صاحب کا ایک مضمون بھی شامل ہے، جس میں مولانا صاحب کی زندگی کا معروضی خاکہ پیش کیا گیا ہے، جس کو کہ انھوں نے خود اپنی زندگی میں لکھا تھا. شاہ عمران حسن صاحب نے اس تحریر کو شامل کر کے ان قارئین کے لیے آسانی پیدا کر دی ہے جو اس کتاب کے پڑھنے سے پہلے مولانا صاحب کی شخصیت، نظریات و خیالات سے واقف نہیں تھے۔ اس کتاب میں ان کے اہل خانہ کے تاثراتی مضامین بھی شامل ہیں. جیسے ان کے صاحب زادے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان، ڈاکٹر ثانی اثنین خان، ان کی صاحب زادی ڈاکٹر فریدہ خانم، ڈاکٹر مسلمہ خانم. ان مضامین کو پڑھتے ہوئے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا صاحب صرف ایک ملی قائد ہی نہیں تھے بلکہ وہ بہ طور والد ایک بااصول مربی بھی تھے، انھوں نے عام باپ کی طرح اپنی اولاد کے لیے جاگیریں نہیں چھوڑیں بلکہ انھوں نے بہترین مربی باپ کی طرح اپنی اولاد کو اعلا اخلاق و کردار کا نمونہ بنایا اور ان کے لیے علم کی میراث چھوڑی جو نبیوں کا بھی ورثہ رہا ہے، انھوں نے ان کی تربیت میں ہمیشہ مسلمہ اصولوں کو ترجیح دی اور اس پہ قائم بھی رہے. اپنی عملی زندگی سے انھیں یہ پیغام دیا کہ زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے آسائشوں کی نہیں بلکہ نظریات و خیالات کی ضرورت ہوتی ہے، انھوں نے ایک باپ کی طرح اپنی اولاد سے محبت کا اظہار کیا اور ایک مربی کی طرح انھیں زندگی کے نشیب و فراز بھی سمجھائے، وہ ساری عمر سادہ زندگی اور اونچی سوچ کے اس طرح مصداق بنے رہے کہ ان کی اولادیں بھی ان کے نقش قدم پہ چل پڑیں. انھوں نے ان مضامین میں اپنے والد کی رحلت پہ رنج و تاسف کا اظہار کرتے ہوئے ان سے جڑی ہوئی یادوں کو تازہ کیا ہے بےشک یادیں کبھی شکستہ نہیں ہوتیں اور نہ ہی وہ مرتی ہیں وہ بہترین زاد راہ کی طرح ہوتی ہیں ایک اولاد کے لئے اس والدین سے جڑی ہوئی یادیں ایک بہترین جذباتی سہارا بھی ہوتی ہیں، ان مضامین کو پڑھتے ہوئے کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔
اس کتاب میں شاہ عمران حسن صاحب نے معتبر علمی ہستی پروفیسر اختر الواسع، مولانا محمد ذکوان ندوی، ابو یحییٰ، پروفیسر ظہیر الدین خواجہ، سید سعادت اللہ حسینی، معروف مذہبی محقق و اسکالر جاوید احمد غامدی، مولانا سلطان احمد اصلاحی، پروفیسر محسن عثمانی ندوی جیسی کئی ساری جلیل القدر شخصیات کے مضامین شامل کیے ہیں. ہر نفس مضمون پہ تبصرہ کرنا تو ممکن نہیں ہے. ان کا اگر معروضی جائزہ پیش کروں تو کچھ یوں ہوگا کہ ان تمام شخصیات نے مولانا صاحب کے طرز فکر اور کردار کا مطالعہ کیا، ان کی علمی عظمت کا کھلے لفظوں میں اعتراف کیا ہے، انھوں نے اس حقیقت کو بہ سر و چشم قبول کیا ہے کہ زمانے کی تنگ نظری و تعصب نے مولانا کے علمی و تحقیقی کاموں کو عوام کے درمیان قبولیت ہائے عام کا مقام دینے میں بےشمار اڑچنیں پیدا کیں، لیکن سچ کی آواز کو زیادہ دیر تک دبایا نہیں جا سکتا. یہ دور جبر و تشدد کا دور نہیں اکیسویں صدی میں امکانات کی ایک ایسی دنیا دریافت ہو چکی ہے کہ لمحوں میں کون سا انقلاب برپا ہو جائے کسی کو کچھ خبر نہیں، ٹکنالوجی سے آراستہ اس دنیا نے مولانا صاحب کے افکار و نظریات کو چہار دانگ عالم میں پھیلا دیا، جہاں مخالفین کے علاوہ متفقین کی ایک بڑی تعداد ظہور پزیر ہوئی، اس وقت مولانا صاحب کے افکار و خیال کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد پوری دنیا میں پائی جاتی ہے۔
یہاں میں ایک بات خصوصی طور پہ کہنا چاہتی ہوں کہ مولانا کی شخصیت اور ان کے نظریات و خیالات اور امت مسلمہ کے لیے ان کی کی جانے والی خدمات کے اعتراف کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کے ہر نظریے سے صد فی صد اتفاق کرتے ہیں اور ہم ان سے تقلیدی نوعیت کی عقیدت رکھتے ہیں، بےشک مولانا کا تحقیقی کام گراں قدر اہمیت کا حامل ہے لیکن اس سے اختلاف کرنے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے، بشرطیکہ اس اختلاف کو دلیل کے ساتھ ادب و تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا جائے، تاکہ علمی اختلاف کی سنجیدہ روایت کو پھر سے زندہ کیا جا سکے اور علم و تحقیق کی راہیں ہموار ہوں، مولانا نے خود اپنے اسلاف سے اختلاف کیا ہے، وہ بھلا ہم سے کیسے تقلیدی نوعیت کی عقیدت کا مطالبہ کر سکتے ہیں. ان کے افکار و نظریات کی طرح ان کی سیرت بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
بدقسمتی سے ہم نے مذہبی روایات کو جذباتیت کے ایسے غلاف میں لپیٹ دیا ہے جس پہ غلطی سے تحقیقی نظر ڈالنا بھی کسی جرم کبیرہ سے کم نہیں. اسی ذہنیت نے امت مسلمہ کی پستی میں اضافہ کیا ہے، یہ دور سائنسی علوم کے غلبے کا دور ہے. سائنسی علوم کی پوری تاریخ تحقیق کی بنیاد پہ کھڑی ہے. ایسے میں ہم آج کی محققانہ ذہنیت کو تقلیدی فکر اور جذباتیت سے کیسے متاثر کر سکتے ہیں، آج کی تاریخ میں یہ ضروری ہو چکا ہے کہ تحقیقی روایت کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے. اس میں جتنی تاخیر ہو گی ہماری حالت اتنی ہی غیر مستحکم ہوتی جائے گی، خود مولانا صاحب نے ساری زندگی تحقیق کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا، اس لیے میں بس یہی کہنا چاہوں گی کہ بہ صد شوق مولانا سے اختلاف کیجئے لیکن ان کی کتابیں پڑھ کر دلیل کے ساتھ سوال کر کے اختلاف کا حق ادا کیجئے. کسی سے اختلاف رکھنا آپ کو یہ حق نہیں دیتا کہ آپ اس کی نیت اور شخصیت کی تضحیک کریں اور ان کے ایمان کا درجہ متعین کریں. یہ اللہ کا حق ہے. اسے اپنے ہاتھ میں لینا اللہ کے بالمقابل سرکشی اختیار کرنا ہے۔
اس کتاب میں مرتب شاہ عمران حسن صاحب کے نو مضامین شامل ہیں. اس میں سے ایک مضمون ‘ایک عہد ساز شخصیت` کے عنوان سے ہے. اس میں انھوں نے مولانا صاحب کی شخصیت سے جڑے نمایاں پہلوؤں کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح مولانا نے عہد جدید کے بدلتے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے روایتی طرز سے ہٹ کر نہ صرف انگریزی زبان سیکھی بلکہ سائنس کے اسرار و رموز کو سمجھنے کی بلاتکان کوشش کی. یہی وجہ ہے کہ مولانا موصوف کا خاص موضوع اسلام اور دور جدید رہا ہے، ان پہلوؤں کی وضاحت کے لیے حوالہ کے طور پہ انھوں نے مولانا کی تحریروں کو بھی نقل کیا ہے، جس سے اس مضمون کی اثریت میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن اگر وہ انھیں اپنے لفظوں میں لکھتے تو شاید یہ ان کی وحید شناسی میں مزید اضافہ کرتی اور قاری کے لیے مؤثر بھی ہوتی۔ ایسا بالکل نہیں کہ یہ حوالے مضمون کو بوجھل کر رہے ہیں، انھوں نے اس مضمون میں مولانا کے کردار و اوصاف کو بیان کرتے ہوئے ان کے ملنے والے اعزازات کا بھی ذکر کیا ہے جس کی تفصیل آپ اس مضمون کا مطالعہ کر کے بہ خوبی حاصل کر سکتے ہیں۔
اس کتاب میں انھوں نے ‘کتابِ سبز کی بات` کے مضمون کے تحت مولانا صاحب کی زندگی کے اس رخ کا ذکر کیا ہے، جس میں انھیں اپنے معاندین و مخالفین کی طرف سے بےبنیاد الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا، دراصل کتابِ سبز کرنل معمر قذافی کی کتاب ‘الکتاب الاخضر` کا اردو ترجمہ ہے جس کے پہلے حصے کے مترجم ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں ہیں، اس وجہ سے لوگوں نے مولانا صاحب کا تعلق معمر قذافی سے جوڑنے کی کوشش کی جس کی مولانا صاحب نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ افسوس انھیں وحید الدین خاں کی زبان اور کسی دوسرے کی زبان و بیان میں فرق کرنے کی تمیز نہیں، اندھی مخالفت ان کی سرشت میں داخل ہو چکی ہے، اس پورے معاملے کو شاہ عمران حسن صاحب نے اپنے اس مضمون میں سمیٹا ہے. اس کی روشنی میں یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مولانا کے مخالفین کی نفسیات کیسی تھی اور انھوں نے کس سطح پہ رہتے ہوئے ان سے اختلاف کیا تھا۔
اس کتاب میں شاہ عمران حسن صاحب کے اس کتاب میں شامل سبھی مضمون پہ تبصرہ کرنا مقصود نہیں اور نہ ہی ممکن ہے بلکہ اس کا مقصد محض ایک جزوی جائزہ پیش کرنا ہے تاکہ قاری کو اس ضخیم اور بیش قیمت کتاب سے مختصراً متعارف کروایا جا سکے اور اس کے تجسس کی آبیاری بھی کی جا سکے. وہ اسے خود پڑھے اور رائے قائم کرے۔
اس کتاب کے آخر میں شاہ عمران حسن صاحب نے تعزیت و تاثرات کے ضمن میں مولانا کی رحلت پہ عالمی سطح پہ موصول ہونے والے تعزیتی تاثرات کو یک جا کیا ہے، جس میں علما، سیاست داں، صحافی و دانش ور اور قارئین رسالہ شامل ہیں. ان تمام شخصیات نے مولانا کے سانحۂ ارتحال پہ گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے، اس مضمون میں انھوں نے مولانا کے انتقال کے بعد ملنے والے والے اعزاز پدم وبھوشن کا بھی ذکر کیا ہے جو ان کے چھوٹے صاحب زادے ڈاکٹر ثانی اثنین خان نے 9 نومبر 2021 کو قومی دارالحکومت نئی دہلی میں واقع راشٹرپتی بھون کی ایک پروقار تقریب کے دوران صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند کے ہاتھوں سے  وصول کیا تھا، بےشک ایک بہت ہی خوشی کا موقع تھا، افسوس کہ اس وقت مولانا صاحب باحیات نہیں رہے تھے۔
اس کتاب کے آخر میں شاعروں کے منظوم تاثرات بھی شامل ہیں. انھوں نے مولانا سے وابستہ اپنے خیالات کو جس ردھم کے ساتھ پیش کیا ہے اسے قاری بہ آسانی محسوس کر سکتا ہے. اس میں فی البدیہہ برجستہ شاعری کے لیے مشہور شاعر احمد علی برقی اعظمی کی نظم بھی شامل ہے جو خود اب دار فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔
شاہ عمران صاحب نے جس طرح اس کتاب کو مرتب کیا ہے، انھوں نے واقعی مولانا صاحب کی شاگردی کا حق ادا کر دیا ہے. وہ ان کے لیے روحانی باپ کی طرح تھے. روح کا تعلق بےشک لفظوں سے ماورا ہوتا ہے. ہاں اس کا عکس اس کتاب کے لفظوں میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ شاہ عمران حسن صاحب کی یہ کتاب یہ حق رکھتی ہے کہ اسے اہل علم کے ہاتھوں میں پہنچایا جائے اور ان شاء اللہ آنے والے وقتوں میں یہ معتبر کتابوں میں شامل نظر آئے گی، شاہ عمران حسن صاحب اللہ آپ کے قلم کو تاحیات متحرک رکھے آمین۔
***
 علیزےنجف کی یہ نگارش بھی پڑھ سکتے ہیں : زندگی کا سب سے بڑا انعام خود شناسی ہے: طارق غازی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے