کتاب : مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراے کرام کی نظر میں

کتاب : مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراے کرام کی نظر میں

تبصرہ: قمر اعظم صدیقی
رابطہ: 9167679924

زیر مطالعہ کتاب "مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں" کے مرتب نوجوان اسکالر اور قلم کار، میرے مخلص دوست عبدالرحیم برہولیاوی ہیں۔ وقتا فوقتاً آپ کے شخصی مضامین و تبصرے ہندستان کے مشہور و معروف اردو روزنامہ اور ویب سائٹ پر شائع ہوتے رہتے ہیں۔ صحافت میں بھی آپ دل چسپی رکھتے ہیں۔ آپ العزیز میڈیا سروس کے بانی و ایڈمن ہیں۔ العزیز میڈیا سروس فیس بک پر چلایا جانے والا ایک فعال اور معیاری اردو ویب پورٹل ہے[کذا]۔ جس میں مشاہیر اہل قلم کے ساتھ ساتھ نوجوان قلم کاروں کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ عبدالرحیم صاحب معہد العلوم اسلامیہ چک چمیلی میں استاد ہیں. ساتھ ہی سرائے بازار کی مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی سے آپ کی بے پناہ عقیدت و محبت کی یہ زندہ دلیل ہے کہ آپ نے بہت ہی محنت و مشقت کے ساتھ تمام وہ منظوم کلام جو شعراے کرام نے مفتی صاحب کی شان میں لکھا تھا کو یکجا کر کے کتابی شکل دے دی ہے۔ آپ کی یہ کاوش قابل قدر بھی ہے اور قابل ستائش بھی۔ ان کی اس عمدہ کاوش پر میں انھیں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ ادبی دنیا میں یہ کتاب قدر کی نگاہوں سے دیکھی جائے گی اور مقبولیت کی منزل تک پہنچے گی۔
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت اور ان کے کارنامے ہی کچھ ایسے ہیں کہ جس کا اعتراف قبل میں بھی کیا گیا ہے۔ موجودہ وقت میں بھی لوگ آپ کی علمیت اور صلاحیت کے قائل ہیں اور آنے والی نسلیں بھی آپ کے کارناموں پر فخر کریں گی اور فیضیاب ہوں گی۔ مفتی صاحب کی گراں قدر علمی خدمات کے اعتراف میں انھیں پانچ ستمبر 2001ء کو صدر جمہوریہ ہند کے آر نارائنن کے ہاتھوں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
آپ کو صدارتی اعزاز سے نوازے جانے کے بعد سرزمین ویشالی کی اس وقت کی فعال اور متحرک تنظیم انجمن ترقی اردو ویشالی نے آپ کی علمی و ادبی خدمات کے موضوع پر مورخہ 21 اکتوبر 2001ء کو وکالت خانہ حاجی پور کے ہال میں ایک شاندار سمینار کا انعقاد کیا، جس کی صدارت مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمش الہدی پٹنہ نے فرمائی تھی اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے بہار اردو اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر رضوان احمد (مرحوم)، معروف صحافی ڈاکٹر ریحان غنی پٹنہ، مولانا ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی، کہنہ مشق شاعر ذکی احمد دربھنگہ، اور جواں سال شاعر و محقق واحد نظیر پٹنہ، شریک ہوئے تھے۔ جس کی نظامت انجمن ترقی اردو ویشالی کے صدر ڈاکٹر ممتاز احمد خاں نے فرمائی تھی۔ اس موقع پر ڈاکٹر ممتاز احمد خاں، انوار الحسن وسطوی، نذر الاسلام نظمی، مصباح الدین احمد اور ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق (مرحوم) نے اپنے اپنے مقالے بھی پیش کیے۔ جناب ذکی احمد مرحوم اور جناب واحد نظیر نے مفتی صاحب کے تعلق سے اپنے منظوم تاثرات پیش کیے۔ ( بحوالہ : انجمن ترقی اردو ویشالی کی خدمات مرتبہ انوار الحسن وسطوی صفحہ: 96)
آپ کی شخصیت اور کارناموں سے متاثر ہو کر تقریباً بیس سال قبل ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق (مرحوم) نے ایک کتاب ترتیب دی تھی جس کا نام ہے "مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات" یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ اس کے دو اڈیشن شائع ہوئے۔ آپ کی خدمات کے اعتراف کا دائرہ یہیں تک نہیں رکا بلکہ آپ کی شخصیت پر ڈاکٹر راحت حسین نے متھلا یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی اور اس مقالے کو کتابی شکل دی جس کا نام ہے "مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی ادبی خدمات" جو شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہے۔
کتاب کے حوالے سے جناب عبدالرحیم "اپنی بات" میں لکھتے ہیں:
"مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی حیات و خدمات پر جس طرح نثر نگاروں نے خامہ فرسائی کی ہے اسی طرح شعراے کرام نے بھی مختلف موقع کی مناسبت سے اپنا اپنا کلام پیش کیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ان نظموں کو ترتیب دے کر ہر خاص و عام کے سامنے پیش کرنے کی سعادت میرے حصے میں آئی ہے. "
( صفحہ 5 )
پیش لفظ میں کامران غنی صبا مفتی ثناء الہدی قاسمی کے تعلق سے لکھتے ہیں:
” آج دنیا مفتی صاحب کو ایک ہر دل عزیز عالم دین، مبلغ، داعی، خطیب اور ملی رہ نما کےطور پر تو جانتی ہے لیکن کم لوگ ہی واقف ہیں کہ مفتی صاحب ایک صاحب طرز ادیب اور انشا پرداز بھی ہیں۔ ادبی موضوعات پر ان کے معروضی تاثرات دانشوران ادب کو حیرت میں ڈالتے ہیں۔ مفتی صاحب کے ادبی مضامین اور تبصرے ان کے ادبی شعور کا اعتراف کرواتے ہیں۔ (صفحہ: 9)
دو باتیں کے عنوان سے عطا عابدی اپنی تحریر میں لکھتے ہیں : شخصیت نگاری خصوصا منظوم شخصیت نگاری کے ذیل میں مدح و ستائش کا معاملہ مبالغہ آرائی کے بغیر بہت مشکل بلکہ ناممکن جیسا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ شعری تولیف کے باب میں مبالغہ آرائی کو فن کا درجہ حاصل ہے، تعریف و توصیف یعنی قصیدہ کے حوالے سے شاعری کی تاریخ میں حقیقت نگاری سے آگے تخیل آفرینی کو جگہ دی گئی ہے، یہاں پیش کردہ زیادہ تر نظموں میں تخیل اور حقیقت کے امتزاج سے کام لینے کی اچھی کوشش کی گئی ہے۔ (صفحہ 11)
مفتی صاحب کی تنظیمی ذمہ داریوں کے تعلق سے محمد انوار الحق داؤد قاسمی کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
کتنی تنظیم کے ہیں حسیں سربراہ
ان سے آباد ہیں کئی عدد درس گاہ
سب پہ یکساں نظر ہے گدا ہو کہ شاہ
دور بیں ان کی فطرت، عقابی نگاہ
رابطہ سب سے رکھتے ہیں وہ من و عن
ہیں” ثناء الہدی" خود میں اک انجمن
(صفحہ: 22)
پروفیسر عبدالمنان طرزی نے مفتی صاحب کی ادبی سرگرمیوں اور تصنیف و تالیف کے حوالے سے کہا ہے:
سلسلہ ان کی تصنیف و تالیف کا
گیسوئے یار سے رکھتا ہے رابطہ
عالم دیں کا ہو ادبی مشغلہ
شاذ و نادر ہی ایسا ہے دیکھا گیا
ہاں مگر ہیں جو مفتی ثناء الہدی
ان کا ہے ان سبھوں سے الگ راستہ
ان کو دل چسپی ہے اردو تحقیق سے
ان کے اس میں بھی ہیں کارنامے بڑے
(صفحہ: 30)
مفتی صاحب کی شخصیت کو کامران غنی صبا نے کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے:
ہیں علم شریعت کے وہ راز داں
خموشی میں جن کی نہاں داستاں
ہے جن کے تبسم میں سنجیدگی
عجب سی ہے لہجے میں پاکیزگی
وہ ہیں عالم باعمل بالیقیں
جنھیں کہیے اسلاف کا جانشیں
مفکر، مدبر کہ دانشوراں
سبھی ان کے حق میں ہیں رطب اللساں
( صفحہ: 39 )
امان ذخیروی نے مفتی صاحب کی صفات کا نقشہ کچھ اس انداز میں کھینچا ہے:
اک بحر بیکراں ہے ثناء الہدی کی ذات
ملت کی پاسباں ہے ثناء الہدی کی ذات
ملت کا درد ان کے ہے سینے میں جاگزیں
اس غم سے سرگراں ہے ثناء الہدی کی ذات
سینے میں ان کے علم کا دریا ہے موجزن
ساکت نہیں، رواں ہے ثناء الہدی کی ذات
تحریر لازوال ہے تقریر بےمثال
ماضی کی داستاں ہے ثناء الہدیٰ کی ذات
(صفحہ: 62)
اس طرح کے سینکڑوں اشعار مفتی صاحب کی خصوصیات کے تعلق سے کتاب میں بھرے پڑے ہیں۔ لیکن بہ خوف طوالت سبھی کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ البتہ ان تمام شعرا کے نام کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن کے کلام اس کتاب میں شامل ہیں. وہ ہیں محمد انوارالحق داؤد قاسمی، مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی، حسن نواب حسن، عبدالمنان طرزی، طارق ابن ثاقب، کامران غنی صبا، ڈاکٹر منصور خوشتر، احمد حسین محرم قاسمی، شمیم اکرم رحمانی، اشتیاق حیدر قاسمی، منصور قاسمی، ذکی احمد ذکی، محب الرحمن کوثر، مظہر وسطوی، زماں بردہوای، محمد ضیاء العظیم، محمد مکرم حسین ندوی، ڈاکٹر امام اعظم، عظیم الدین عظیم، کمال الدین کمال عظیم آبادی، وقیع منظر، فیض رسول فیض، ڈاکٹر عبدالودود قاسمی، امان ذخیروی، ولی اللہ ولی، آفتاب عالم آفتاب، یاسین ثاقب، مولانا سید مظاہر عالم قمر، محمد بدر عالم بدر، ثنا رقم مئووی، فیاض احمد مضطر عزیزی، عبدالصمد ویشالوی اور تحسین روزی.
قابل مبارکباد ہیں یہ تمام شعرائے کرام جنھوں نے مفتی صاحب کے لیے اپنے بہترین پیغام تہنیت پیش کیے ہیں۔
72 صفحات کی یہ کتاب بہت ہی دل کش اور معیاری ہے۔ عمدہ قسم کے کاغذ کا استعمال کیا گیا ہے۔ کمپوزنگ کا کام مفتی صاحب موصوف کے لائق فرزند مولانا محمد نظر الہدی قاسمی اور راشد العزیزی ندوی نے مل کر انجام دیا ہے۔ جب کہ اس کی طباعت عالم آفسیٹ پرنٹر اینڈ پبلیشرس، دریا پور پٹنہ سے ہوئی ہے، جس کی قیمت صرف 60 روپیہ ہے. جسے مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی، بکساما اور ادارہ سبیل الشرعیہ، آواپور، سیتا مڑھی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ آخری صفحہ پر مرتب کتاب عبدالرحیم برہولیاوی کا مختصر تعارف درج ہے جس کے مطالعہ کے بعد ان کے تعلق سے قاری واقف ہوتا ہے۔ بیک کور پر مفتی صاحب موصوف کی کتابوں یا ان پر لکھی گئی کتابوں کی تصویر درج ہے۔ کتاب کے سلسلے میں مزید معلومات کے لیے، مرتب کتاب سے رابطہ کیا جا سکتا ہے
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:جہان ادب کے سیاح ڈاکٹر امام اعظم: ایک جائزہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے