قریۂ تلاش کے سفر میں الیاس احمد گدّی کا ”زخم“

قریۂ تلاش کے سفر میں الیاس احمد گدّی کا ”زخم“

زین رامش
شعبۂ اردو، ونوبا بھاوے یونی ورسٹی، ہزاری باغ، ہند

الیاس احمد گدی کا تعلق نو تشکیل شدہ ریاست جھار کھنڈ سے رہا ہے۔ یہ سبھی جانتے ہیں اور حلقۂ اردو ادب اس بات سے بھی واقف ہے کہ اردو فکشن کی ایک بہت ہی توانا اور با وقار شخصیت غیاث احمد گدی، الیاس احمد گدی کے بڑے بھائی بھی تھے اور ان کے رول ماڈل بھی، ان کے محسن بھی تھے اور ان کے ادبی ذوق کے محرک بھی۔ غیاث احمد گدی کی شخصیت اپنے فنی اختصاص و انفراد کی بنیاد پر عبقری شخصیت تھی جسے اپنے داخل میں موجود آتش فشاں کو متشکل کرنے اور درد و غم و داغ و جستجو و آرزو کے اظہار کا بہت موقع نہیں ملا۔ بدھم شرنم گچھامی کی سروں پر جاگنے والی صبحوں اور ڈوبنے والی شاموں کی سر زمین گیا میں بیماریِ دل نے غیاث احمد گدی کا کام تمام کیا تو گویا شہرت و مقبولیت کا ایک نیا منظر نامہ الیاس احمد گدی کے حصے میں مختص ہو گیا۔ ایسا نہیں تھا کہ غیاث صاحب کی زندگی میں الیاس صاحب کی کوئی حیثیت نہیں تھی یا وہ اپنی شناخت قائم نہیں کر پائے تھے۔ ایک اہم افسانہ نگار کی حیثیت انھیں بہر حال حاصل تھی۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ”آدمی“ شب خون کتاب گھر، الہ آباد کے زیر اہتمام 1983ء میں شائع ہو کرمنظر عام پر آ چکا تھا اور ایک مخصوص حلقے میں ہی سہی لیکن شرف قبولیت حاصل کر چکا تھا۔ یہ افسانوی مجموعہ ان کی تقریباََ 38 سالہ ادبی مشقت و ریاضت پر محیط تھا۔ ان افسانوں کے مطالعے اور الیاس احمد گدی کے ذریعہ منتخب مو ضوعات کا جائزہ اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ جدید ادبی رجحانات ان کی فکر کا لا زمی حصہ تھے اور انھوں نے موضوعاتی سطح پر اپنے افسانوں کو اسی سیاق و سباق میں نذرِ قارئین کرنے کی کوشش کی تھی۔ میری اس بات کو تقویت اس لیے بھی حاصل ہوتی ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کا یہ پہلا افسانوی مجموعہ ”شب خون کتاب گھر“ سے شائع نہ ہوا ہوتا۔
الیاس احمد گدی کا دوسرا افسانوی مجموعہ ”تھکا ہوا دن“ غیاث احمد گدی کے انتقال کے بعد 1987ء میں شائع ہوا۔ ان کے اس مجموعے میں کل 15 افسانے شامل تھے۔ اس افسانوی مجموعے کی اشاعت نے الیاس احمد گدی کو ایک بالکل نئے انداز میں متعارف کرایا۔ شہرت و مقبولیت کا ایک مستحکم منظر نامہ سامنے آیا اور اب الیاس احمد گدی صرف ایک اہم افسانہ نگار نہیں تھے بلکہ ان کی حیثیت متبحر اور منفرد افسانہ نگار کی بھی تھی۔ ”تھکا ہوا دن“ کے افسانوں کا موضوعاتی مطالعہ اپنے قاری سے اس بات کا متقاضی تھا کہ ”آدمی“ اور ”تھکا ہوا دن“ کے مابین موضوعاتی فرق کو محسوس کیا جائے۔ یہ فرق یقینی طور پر اسی نوعیت کا فرق تھا جو غیاث احمد گدی کے افسانوی مجموعوں ”بابا لوگ“ اور ”پرندہ پکڑنے والی گاڑی“ کے مابین محسوس کیا گیا تھا۔ وہاں اس فرق کو ابتداََ غیاث احمد گدی کے ترقی پسندی سے انسلاک اور پھر جدیدیت کی طرف مراجعت سے منسوب کیا گیا تھا، لیکن یقینی طور پر الیاس احمد گدی کے یہاں اس بات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ افسانوی مجموعہ ”آدمی“ کی ایک کہانی ”عجائب سنگھ“ نے مقبولیت حاصل کی لیکن ”تھکاہوا دن“ کی بیشتر کہانیوں کو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔”تھکا ہوا دن“، ”گونج“، ”دن کا زوال“، ”ٹکڑے ٹکڑے لوگ“، ”سب سے بڑا سچ“ اور ”مکڑا“ وغیرہ اس مجموعے کی وہ کہانیاں ہیں جنھوں نے موضوعاتی اور اسلوبیاتی دونوں سطحوں پر قاری کے ساتھ ایک مستحکم انسلاک پیدا کیا۔ اس افسانوی مجموعے کے بعد الیاس احمد گدی کی جو تخلیق شائع ہوئی وہ ان کا ناول ”فائر ایریا“ ہے جو 1994ء میں شائع ہوا اور حسن اتفاق سے 1996ء کا سب سے بڑا سرکاری ادبی اعزاز ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اس ناول کے حصے میں آ گیا اور یہی وہ حسن اتفاق تھا جس نے الیاس احمد گدی کو ایک اہم اور معتبر و منفرد افسانہ نگار کی جگہ ایک بڑا ناول نگار بنا کر کھڑا کر دیا۔ باوجود اس کے کہ 1980ء کے بعد اردو ناول نگاری کا احیا ہو چکا تھا اور”فائر ایریا“ کی تخلیق سے قبل پانچ سالوں کے درمیان اہم ناول مثلاََ پیغام آفاقی کا ”مکان“، غضنفر کا ”پانی“، حسین الحق کا ”فرات“، شموئل احمد کا ”ندی“، علی امام نقوی کا ”تین بتی کے راما“، عشرت ظفر کا ”آخری درویش“ اور جوگیندر پال کا ”نادید“ وغیرہ شائع ہو چکے تھے۔ یقینی طور پر یہ ایک بڑی ادبی حصولیابی تھی جس نے الیاس احمد گدی کو نہ صرف ایک ادبی توانائی، عافیت، حوصلہ مندی اور استحکام بخش دیا بلکہ شخصی طور پر بھی ان کے اندر ایک نمایاں سر گرمی اور جرأت مندی کا احساس ہونے لگا۔ لیکن برا ہو اس کیفیت قلب کا کہ یہ کم بخت بنتی کم ہے اور بگڑتی زیادہ ہے۔ لہٰذا اس نے غیاث احمد گدی کی طرح الیاس احمد گدی کو بھی دردو داغ و جستجو و آرزو کے جذباتی، حوصلہ مندانہ اور بے باکانہ اظہار کا بہت زیادہ موقع نہ دیا۔
ساہتیہ اکیڈمی کے زیر اہتمام ”ہندوستانی ادب کے معمار“ سیریز کے تحت الیاس احمد گدی پر تحریر کردہ مونو گراف کے مصنف ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے اس کتاب کے لیے عنوانات کی جو فہرست مرتب کی ہے اس میں پانچ ابواب ہیں. جس کا تیسرا باب ”الیاس احمد گدی بحیثیت ناول نگار“ ہے جو کل تیس صفحات پر مشتمل ہے لیکن یہ پورا باب صرف اور صرف الیاس احمد گدی کے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈیافتہ ناول ”فائر ایریا“ کے ذکر خیر پر مبنی ہے۔”فائر ایریا“ کے حوالے سے ہی گفتگو کرتے ہوئے بحیثیت ناول نگار الیاس احمد گدی کے مقام کے تعین کا کارِ مستحسن انجام دیا گیا ہے۔ اس باب کی ابتدائی سطور میں صرف یہ اطلاع فراہم کرائی گئی ہے کہ:
”الیاس احمد گدی کے دو ناول 1954ء میں ”زخم“ اور ”مرہم“ کے نام سے ہند پاکٹ بکس دہلی کے زیر اہتمام شائع ہوئے لیکن ادبی حلقے میں ان کی کوئی خاص پذیرائی نہیں ہوئی۔“
صرف یہی نہیں الیاس احمد گدی اور ان کی ناول نگاری کے تعلق سے جتنی بھی تحریریں میری نظر سے گزریں ان تمام تحریروں میں تقریباََ یہی صورت نظر آتی ہے۔ اور یہ شاید اس لیے ہوا کہ اوّل تو ان کے یہ دونوں ناول اس وقت شائع ہوئے جب بہ حیثیت افسانہ نگار یا ناول نگار الیاس احمد گدی کی کوئی شناخت قائم نہیں ہو سکی تھی، دوئم یہ کہ فنی نقطۂ نظر سے ان ناولوں کی حیثیت تفریحی ادب سے زیادہ کی نہ تھی اور یہ دونوں ناول بھی اسی طور پر شائع ہوئے تھے جس طرح رانو اور دت بھارتی وغیرہ کے ناول سفر اور خصوصاََ ٹرینوں کے سفر کے دوران وقت گذارنے کے لیے چھاپے جاتے تھے اور سوئم یہ کہ ان ناولوں کو لکھتے وقت یا شائع ہونے کے بعد بھی خود الیاس صاحب نے اس پر توجہ نہیں دی ہوگی کیوں کہ اس وقت ان کے پیش نظر یقینی طور پر کسی ادبی معیار کے تعین یا حلقۂ قارئین کے درمیان اس کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کا کوئی معاملہ نہیں رہا ہوگا بلکہ معاملہ صرف اور صرف کچھ مالی عافیت تک محدود رہا ہوگا۔ کیوں کہ وہ وقت الیاس احمد گدی کے عین عا لم جوانی کا تھا. ان کی سندی عمر اس وقت تقریباََ ۲۲ ِ سال تھی اور کمند زلف کی اسیری کی ابتدا بس ہونے ہی والی تھی۔
سطور بالا میں جن احوال واقعی کی طرف اشارہ کیا گیا، یہی دراصل میری اس تحریر کا جواز ہے۔ میرے عزیز شاگرد محمد انوار الہدیٰ جو فی الوقت پی۔کے۔ رائے کالج، دھنباد کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، ایم۔اے۔ گولڈ میڈلسٹ رہے ہیں اور جن کا تحقیقی مقالہ بہ موضوع ”بہار اور جھارکھنڈ میں اردو ناول 1980 کے بعد“ میری ہی نگرانی میں تکمیل کے مرحلے میں ہے، نے جب بہت ہی کدّ و کاوش اور محنت و مشقت کے بعد الیاس احمد گدی کے نایاب ناول ”زخم“ کا ایک نسخہ حاصل کر لیا تو راقم السطور نے شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ اس ناول کا ایک مختصر تعارف تو تحریر ہونا ہی چاہئے۔
”زخم“ یقینی طور پر الیاس احمد گدی کا پہلا ناول ہے۔جس کا سنہ اشاعت تو ناول پر درج نہیں ہے لیکن مختلف ذرائع کے مطابق اس ناول کی اشاعت 1953ء میں ہوئی جب کہ ان کا دوسرا ناول ”مرہم“ 1954ء میں شائع ہوا۔ اس بات کی تصدیق ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے بھی الیاس احمد گدی پر لکھے گئے اپنے مونو گراف کے صفحہ 13 (سوانحی و ادبی کوائف) میں کی ہے۔ اس ناول کو مشورہ بک ڈپو، رام نگر، گاندھی نگر پوسٹ باکس 1639 دہلی نے دلی پرنٹنگ ورکس دہلی میں چھپوا کر شائع کیا۔ 144 / صفحات پر مشتمل اس ناول کو ۱۱؍حصوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ اس ناول کے پہلے صفحے پر پبلشر کی جانب سے مختصر سی تحریر ناول کے حوالے سے درج ہے، جس میں ناول کی اہمیت و خصوصیت کو پیشہ ورانہ طور پر پیش کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔
محبت برے آدمی کو بھی راہ راست پر لے آتی ہے
لیکن جب محبت جدائی بن جائے تو
دل زخمی ہو جاتا ہے۔
اور زخموں کا مداوا کرنے کے لیے چارہ گر کی
تلاش ہوتی ہے
مگر چارہ گر نہیں ملتا۔
ٹیس بڑھ جاتی ہے۔
بیتی باتیں یاد آنے لگتی ہیں
دل تڑپ اٹھتا ہے
زبان سے ایک کراہ نکلتی ہے
”آہ -یہ زخم“
”زخم“ الیاس احمد گدی کا ایک عمدہ ناول ہے۔“
(پہلا صفحہ)
رام اوتار اس کہانی کا مرکزی کردار ہے جس کے گرد، از اوّل تا آخر یہ کہانی گھومتی ہے۔ ناول کا دوسرا اہم کردار روپا ہے جو اس کہانی کی ہیروئین ہے۔ دیگر ضمنی کرداروں میں گنگا رام، بنواری لال، پھول منی (جسم فروش عورت) دیدی، کبڑا، پاربتی (کبڑا کی بیٹی) اور کسم و غیرہ کے کردار کسی نہ کسی طور پر اہمیت کے حامل ہیں اور تشکیل و تعمیر قصہ میں بہر حال اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ناول یقیناََ مختصر ہے مگر اس کا پلاٹ بڑا ہے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ الیاس احمد گدی کہانی کے پلاٹ کے مطابق اچھا اور قابل ذکر ناول لکھ سکتے تھے مگر یہ ضرور ہے کہ اس پلاٹ میں ایک اچھا ناول تحریر کرنے کی گنجائش موجود تھی۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ یہ ناول بھی تفریحی ادب کا حصہ ہے لہٰذا اسے معیاری نہیں کہا جا سکتا لیکن تفریحی ادب کا حصہ ہونے کے با وجود اس ناول میں الیاس احمد گدی کے مخصوص ویژن کی کار فرمائی موجود ضرور نظر آتی ہے۔ ناول کے جن ابتدائی جملوں سے ہمارا رابطہ قائم ہوتا ہے وہ یہ ہیں:
”دو گھنٹے سے چیخ رہا ہوں میری بات سمجھ میں نہیں آتی تمہاری؟ ایک چاقو میں ساری آنت زمین سے آ لگے گی۔“
یہ جملہ رام اوتار اور گنگا رام جو رام اوتار کا چیلا بھی ہے اور دوست بھی کے مابین ہونے والی گفتگو کا حصہ ہے اور یہیں سے ناول کی شروعات ہوتی ہے۔ یہ محض دو جملے ہی ناول کے موضوع کا اشاریہ بھی ہیں اور ناول کے مرکزی کردار رام اوتار کی شخصیت کے تعارف کا ذریعہ بھی۔ رام اوتار ہمیشہ کی طرح ہمارے سماجی اور معاشرتی نظام کی آئینہ داری کرنے والا شخص ہے جو سماجی ظلم و استبداد اور معاشرتی بد نظمیوں کے نتیجے میں بد معاش بنتا ہے لیکن اس کے اندر انتہائی ہمدردانہ جذبوں سے لبریز ایک دل بھی موجود ہے۔ اس کی شرافتِ نفس جب اجاگر ہوتی ہے اور داخلی کیفیات اپنا رنگ دکھاتی ہیں تو رام اوتار ہمدردانہ جذبات کا مرقع بن کر سامنے آتا ہے۔ رام اوتار مجرمانہ سر گرمیوں میں ملوث ہے اور اس طرح کے افراد کی زندگی کا خاصہ جو عمل ہوتے ہیں، وہی سارا کچھ رام اوتار کی شخصیت میں بھی موجود ہے۔ گنگا رام حقیقتاََ اس کا چیلا ہے لیکن گہرے روابط اور بے تکلفانہ مراسم کی بنیاد پر اس کی حیثیت گویا دوست جیسی ہو جاتی ہے۔پھول منی ایک کوٹھے والی جسم فروش عورت ہے جس کے رام اوتار کے ساتھ بہت ہی گہرے مراسم ہی نہیں بلکہ پھول منی جذباتی لگاؤ کی بنیاد پر رام اوتار کو دل سے چاہتی ہے اور کسی بھی قیمت پر رام اوتار کی اداسی یا ناراضگی برداشت نہیں کر سکتی۔ کبڑا کی شخصیت ایک شاطر، زمانہ شناس اور مردم شناس کے طور پر سامنے آتی ہے۔ جو ”جادو گھر“ کے نام سے ایک ”جواخانہ“ اور ”شراب خانہ“ چلاتا ہے. یہ جادو گھر عام نوعیت کا جُوا خانہ اور شراب خانہ نہیں ہے، اس کی بہت ساری خصوصیات ہیں اور شاید اسی بنیاد پر اس کا نام ”جادو گھر“ ہے۔ الیاس احمد گدی اس کا تعارف کراتے ہوئے کہتے ہیں:
”اس کا نام جادو گھر اس لیے رکھا گیا تھا کہ اس میں کچھ جادو جیسی باتیں بھی ہوتی تھیں۔ مثلاََ اگر پولس کا کوئی بیرونی دستہ اسپیشل چیکنگ کے لیے آ جاتا تو جوئے خانے کے کبڑے مالک کو اس کی خبر پہلے ہی مل
جاتی اور وہ اچانک اس جادو گھر میں کچھ ایسی تبدیلیاں کر دیتا کہ وہ جوا خانہ اور شراب خانہ کسی شریف خاندان کے رہائشی مکان کی شکل اختیار کر جاتا۔“
یہ اور اس طرح کی کئی دوسری خصوصیات بھی تھیں جو اس ”جادو گھر“ کی شہرت اور ایک مخصوص حلقے میں اس کی مقبولیت کا سبب تھیں، مثلاََ اس چھوٹے سے کھپر پوش مکان میں جو بہ ظاہر کسی متوسط طبقے کی رہائش گاہ نظر آتا، باہر کی طرف ایک ٹین کا دروازہ تھا اور ایک بغیر کواڑ اور سلاخ والی کھڑکی تھی جس پر ہمیشہ ایک پردہ پڑا رہتا تھا، کھڑکی شراب خانے کا خصوصی سگنل تھی، جس کے دوسری طرف ایک چراغ جلا دیا جاتا اور ساتھ ہی ایک انگوٹھی دھاگے کے ذریعہ چراغ کے سامنے لٹکا دی جاتی، انگوٹھی کا سایہ پردے پر نمایاں ہوتا اور باہر سے اس سائے کو دیکھنے والے فوراََ سمجھ جاتے کہ جادو گھر کھلا ہوا ہے۔ رام اوتار اور یہ جادو گھر گویا لازم و ملزوم تھے۔ اچھے اور برے دونوں حالات میں جادو گھر اور کبڑا رام اوتار کی زندگی کا لازمی حصہ تھے۔ رام اوتار کے لیے ”جادو گھر“ کی ایک اور کشش جادو گھر کے مالک کبڑا کی بیٹی پاربتی تھی۔ پاربتی رام اوتار کی قربت کی خواہش مند تھی لیکن رامو کے مزاج کی سختی کے سبب وہ اس کا اظہار نہیں کر پاتی تھی۔ بنواری لالہ کی موجودگی ناول میں بہت مختصر سی ہے لیکن اس کی اہمیت یہ ہے کہ جوا کھیلنے کے لیے وہ رام اوتار کے مد مقابل آتا ہے اور کسی نہ کسی طور رام اوتار پر اپنے بھاری پڑنے کا احساس دلاتا ہے۔ روپا سے بس اچانک اور غیر متوقع طور پر رام اوتار کی ملاقات ہو جاتی ہے۔ روپا کا تعلق لکھنؤ سے ہے، وہ ایک امیر باپ کی بیٹی ہے جو ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک ہیں۔ روپا کسی کام سے کلکتہ آئی ہوئی تھی۔ اپنے پندرہ سولہ سال کے چھوٹے بھائی کندن کے ساتھ لکھنؤ کی ٹرین پکڑنے کے لیے ریلوے اسٹیشن جا رہی تھی کہ راستے میں کچھ غنڈوں نے انھیں گھیر لیا اور لڑکے پر الزام عاید کیا کہ لڑکی کو بھگا کر لے جا رہا ہے۔ رام اوتار نے اپنے اثرات کا استعمال کیا اور دونوں کو ان کے چنگل سے چھڑا دیا اور ان لوگوں کو اپنی نگرانی میں لکھنؤ کے لیے روانہ کر دیا لیکن چند لمحوں کی اس اتفاقیہ ملاقات نے دونوں کو جذباتی طور پر ایک دوسرے کے بہت قریب ہی نہیں کر دیا بلکہ دونوں کے اندرون میں کہیں کوئی چنگاری بھی چھوڑ دی۔ لڑکی نے جاتے جاتے رام اوتار کو اپنا پتہ بھی دیا اور لکھنؤ آنے کی دعوت بھی۔ اس واقعے کو تین سال گذر گئے کہ اچانک ایک حادثہ پیش آیا اور رام اوتار مصیبت میں مبتلا ہو گیا۔ پھول منی کے کوٹھے پر بازار حسن میں تازہ بہ تازہ وارد ہونے والی ایک لڑکی کسم کے ساتھ رات گذارنے میں اور اس کی قربت کو تادیر برقرار رکھنے کے سبب رام اوتار کے ہاتھوں ایک رئیس زادے کا قتل ہو گیا۔ معاملہ ظاہر ہے سنگین تھا اور مقتول اثر و رسوخ والا ہی نہیں آنریری مجسٹریٹ ایس ایس بھٹناگر کا اکلوتا بیٹا بھی تھا۔ لہٰذا نوبت یہاں تک پہنچی کہ رام اوتار کو پولس کی گرفت سے بچنے کے لیے کلکتہ چھوڑنا لازم ہو گیا۔ اس کے دوست یار اور تعلقات والے سب اصرار کر رہے تھے کہ کلکتہ سے دور نکل جاؤ لیکن اسے دوردور تک کہیں کوئی ٹھکانا نظر نہیں آ رہا تھا کہ اچانک گنگا رام نے اسے لکھنؤ یاد دلایا اور گویا رام اوتار کا بڑا مسئلہ حل ہو گیا۔ وہ لکھنؤ کے لیے روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے روپا کا مکان بھی تلاش کر لیا اور وہاں اس کا زبر دست استقبال بھی ہوا۔ گھر کے تمام افراد اس کے زبر دست احسان مند نظر آئے۔ روپا اور اس کی دیدی (بڑی بہن جو ناول میں دیدی کے طور پر سامنے آتی ہے) کی سفارش پر روپا کے والد رتن لال نے اپنی ذاتی کار کے لیے ڈرائیور رکھ لیا اور پھر اسے بالکل ایک فیملی ممبر کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ زندگی کا رخ ہی بدل گیا. وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ نئے ماحول کا اس کی زندگی پر زبردست اثر پڑا۔ الیاس احمد گدی کے مطابق ”چھوٹے چھوٹے بچوں کی معصومیت، دیدی کا بے لوث پیار، روپا کی نرم نرم نگاہیں، ماتا کی شفقت، جب وہ کبھی ان لوگوں کے بارے میں سوچتا تو اس کا دل ہمدردی اورنرمی سے بھر جاتا اور اسے ایک عجیب طرح کی انجانی سی روحانی خوشی محسوس ہوتی، اس کا جی چاہتا کہ وہ ان لوگو ں کی خدمت کرے کہ وہ ان سب کی مجموعی مہربا نیوں کا بدلہ ہو جائے۔“ روپا غیر ارادی طور پر اس کے قریب سے قریب آتی جا رہی تھی۔ بلا ناغہ شام ڈھلے رام اوتار کے کمرے میں آتی، ہنسی مذاق کرتی اور کبھی کبھی دیدی کی طرح بہت سارے سوالات بھی۔ کبھی اس کا سوال فیملی ممبروں سے متعلق ہوتا اور کبھی گاؤں گھر سے متعلق، اور پھر اس کے جواب میں پوری طرح کھو جاتی۔ اسے ایسا لگتا کہ جیسے روپا کوئی غیر نہیں بلکہ اس کی بالکل اپنی تھی۔ پھر وہ لمحہ بھی دونوں کے درمیان سے گزر گیا کہ دونوں نے بہت ہی جذباتی انداز میں اور بہت کھلے طور پر ایک دوسرے سے اظہارِ محبت بھی کیا اور ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کی قسمیں بھی کھائیں۔ لیکن اچانک منظرنامہ بدل جاتا ہے۔
ناول کے آٹھویں حصے کے اختتام پر الیاس احمد گدی کے یہ چند جملے بدلے ہوئے منظر نامے کا احساس اس طرح دلاتے ہیں:
”لیکن اچانک ایک روز چلتے چلتے ان کا راستہ ایک گہری کھائی کے دہانے پر ختم ہو گیا اور رام اوتار ٹھٹھک کر کھڑا رہ گیا۔ کیوں کہ آگے راستہ بند تھا۔ اور روپا ایک دوسرے ہاتھ کا سہارا لے کر کھائی کی دوسری طرف جا چکی تھی۔“
ایک روز بس اچانک گوپال نام کا ایک جوان اس گھر میں وارد ہوتا ہے اور رام اوتار کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ روپا کا منگیتر ہے۔ روپا کا رویہ پوری طرح بدل جاتا ہے، عہدِ رفتہ کے سارے طلسمات ایک کریہہ منظر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ روپا سخت لہجے میں رام اوتار سے مخاطب ہوتی ہے:
”میں نے تم سے محبت ضرور کی تھی مگر جذبات کی رو میں بہہ کر۔۔۔۔ اور تم جانتے ہی ہو کہ جذبات کی زندگی کتنی مختصر ہوتی ہے۔“
روپا کا یہ جملہ رام اوتار کے کلیجے تک کو چھلنی کر گیا کہ ”میں نے کسی کی زندگی کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے“ اور پھر یہ بھی کہ ”اب آپ کمرے سے باہر جا سکتے ہیں“ رام اوتار کو لگا جیسے کسی نے سر بازار اس کے منہ پر ایک زوردار اور زبردست طمانچہ رسید کر دیا ہو۔ ذلّت اور ہتک کے احساس سے وہ پانی پانی ہو گیا۔ اور پھر اس کا وہ خوف ناک غصہ بیدار ہو گیا جو ڈیڑھ سال قبل سو گیا تھا۔ اس کی آنکھوں سے انگارے برسنے لگے، بھویں تن گئیں اور پھر ناقابلِ برداشت درد نے اسے بالکل مردہ بنا دیا۔ بالآخر ایک دن روپا نے مختلف قسم کے الزام عاید کرتے ہوئے اسے یہاں سے واپس لوٹنے کے لیے کہہ دیا۔ رام اوتار اپنے آپ کو لٹاکر واپس ہو گیا۔
ڈیڑھ سال کی مدت گزر جانے کے بعد رات کے تقریباََ 11 ِ بجے وہ ایک بار پھر ”جادو گھر“ کے دروازے پر کھڑا تھا۔یہی وہ دروازہ تھا جس کے اندر پاربتی تھی، جب وہ دروازے میں داخل ہوا تو اس کی حالت دیکھ کر پاربتی کے اندر ہمدردانہ جذبات کا طوفان موجزن ہوا اور اس نے وجہ جانے بغیر اسے سنبھالا دینے کی کوشش کی لیکن شاید بہت دیر ہو چکی تھی۔ رام اوتار کو شدت سے اپنے رفیق دیرینہ گنگا رام کا انتظار تھا۔ گنگا رام جب بہت انتظار کے بعد بھی نہیں پہنچ سکا تو وہ خود ہی اس سے ملنے اس کے گھر پہنچ گیا۔ لیکن گنگا رام نے اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔ رام اوتار نے محبت بھرے لہجے میں گنگا رام کو مخاطب کیا:
”پندرہ روز سے آیا ہوں تجھے اتنی توفیق نہ ہوئی کہ مجھ سے مل لیتا۔
سالے بڑا نواب ہو گیا ہے۔۔؟
گنگا رام کا جواب تھا
”دیکھو رام اوتار جی! ذرا زبان کو لگام دو ورنہ اچھا نہ ہوگا۔“
اور پھر یہ ہوا کہ:
”اچانک رام اوتار کا وہ غصہ جس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ چیتے کا غصہ ہے۔ آج قریب دو برس کے بعدبڑی بھیانک شکل میں جاگ اٹھا۔ رام اوتار کے تن کا تار تار تن گیا، اس نے نفرت سے زمین پر تھوک دیا۔
حرامی کے بچے۔ اتنی ہمت ہو گئی تیری کہ تو مجھے آنکھ دکھائے گا؟ میں تمھاری بوٹی بوٹی ادھیڑ دوں گا۔“
رام اوتار نے جیسے ہی غصے میں جیب سے چاقو نکالا، گنگا رام نے اس پر حملہ کر دیا۔ دو روز بعد جب وہ ہوش میں آیا تو اس نے اپنے آپ کو سرکاری اسپتال کے بستر پر پایا۔ دیوار پر موجود ایک بڑا سا کیلنڈر اور ایک نرس اسے زندگی کا احساس دلا رہے تھے۔ اس کا سارا جسم چھلنی تھا، بچنے کی کوئی امید نہیں تھی، شمعِ زندگی کی لو شاید پھڑ پھڑاہٹ کے آخری مرحلے میں تھی۔ دیدی نے اسے بتایا تھا کہ آئندہ ماہ کی 24 ِ تاریخ کو روپا کا بیاہ ہوگا اور آج وہی چوبیس تاریخ تھی۔ بس اچانک رام اوتار کی حالت بگڑ گئی۔ نرس ڈاکٹر کو آواز دیتی ہوئی بھاگی۔ الیاس احمد گدی اپنے ناول ”زخم“ کے آخری پیرا گراف کا منظر پیش کرتے ہیں:
”صرف ایک منٹ بعد جب نرس ڈاکٹر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی تو رام اوتار مر چکا تھا۔ اس کے زخموں کے ٹانکے ٹوٹ گئے تھے اور تازہ لہو سے سارا بستر گلنار ہو رہا تھا۔ وہ بڑے سکون سے اس دیوار کی طرف منہ کیے لیٹا تھا جس پر بڑا سا کیلنڈر لگا ہوا تھا اور چوبیس کا ہندسہ جیسے ایک المناک افسانے کا آخری ٹچ بن گیا تھا۔ اس کا ایک ہاتھ نیچے جھول رہا تھا اور فرش پر مرجھائے پھولوں کی سوکھی پنکھڑیاں بکھری پڑی تھیں۔“
ناول کا المناک اختتام یقینی طور پر تاثر قائم کرتا ہے اور قاری اپنے اندرون میں کہیں دور تک ایک کسک ایک ٹیس ضرور محسوس کرتا ہے۔
ابتدائی سطور میں ہی میں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ناول مختصر ہے مگر اس کا پلاٹ بڑا ہے۔ شاید یہی وجہ رہی کہ الیاس احمد گدی کو بڑی تعداد میں کردار وضع کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور جو بھی کردار وضع ہوئے وہ اپنے اندر ہمت اور حوصلہ رکھنے والے دکھائی دیتے ہیں. یہاں تک کہ لکھنؤ کا رکشے والا بھی۔ کسی فن کار خصوصاََ فکشن نگار کے ذریعہ پیش کیے جانے والے کرداروں کے فکر و عمل کی بنیاد پر ہی ہم ان کرداروں کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہیں. لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ الیاس احمد گدی کو اُس وقت بھی فنِ کردار نگاری کا ہنر آتا تھا۔ منظر نگاری کے اعتبار سے بھی اس ناول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، خاص کر ناول کے حصہ آٹھ میں خوب صورت منظر نگاری کا ثبوت پیش کیا گیا ہے۔
شعر و نثر کی دیگر اصناف کے ساتھ ہی ساتھ ناول میں بھی زبان کی پیش کش کو بڑی اہمیت حاصل ہے. ”زخم“ کی زبان بہ ظاہر تو متاثر کن اور خوب صورت ہے لیکن کرداروں کے ساتھ اس کی مطابقت قائم نہیں ہو پاتی مثلاََ ایک جگہ رام اوتار روپا کے ساتھ محوِ گفتگو ہے اور کہتا ہے:
”شاید وہ برف کی ڈلی میرے دل میں بھی سما گئی ہے، کیوں کہ میں نے ایک لڑ کی پسند کر لی ہے اور اب میری روح بے حساب لطافت سے دو چار ہے۔“
یہ اور اس طرح کی بے شمار مثالیں پورے ناول میں بھری پڑی ہیں. یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ رام اوتار جیسا کردار اس طرح کی زبان استعمال کرے۔ کچھ یہی صورت حال روپا کے ساتھ بھی ہے۔ روپا بھی مختلف موقعوں پر با محاورہ، بلیغ اور معیاری زبان استعمال کرتی ہے لیکن یہ چیز اس لیے قابل قبول ہو سکتی ہے کہ روپا مرکز علم و تہذیب لکھنؤ اور تعلیم یافتہ فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ لکھنؤ جو خصوصاََ لسانی تہذیب کی بنیاد پر عالم میں انتخاب کی حیثیت رکھتا ہے۔
الیاس احمد گدی کا یہ ناول اگر موضوعاتی، اسلوبیاتی اور فنی نقطۂ نظر سے بہت اہمیت کا حامل نہیں بھی ہے تو ہم اسے یکسر نظر انداز بھی نہیں کر سکتے۔ اس ناول کے مطالعے کے مرحلے سے گذرتے ہوئے ان باتوں کو بھی ملحوظ نظر رکھنا ہوگا کہ اس ناول کی تخلیق کے وقت ان کی عمر زیادہ سے زیادہ ۲۲ ِ سال کی تھی۔ ان کا قیام کسی مرکز علم و ادب میں نہیں بلکہ موجودہ جھارکھنڈ کے کولیئری علاقے میں تھا اور خاندانی پس منظر بھی ایسا نہ تھا کہ جس سے کچھ توقع رکھی جا سکے۔ لہٰذا ان کے اس ناول کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھا جانا چاہئے۔
٭٭٭٭٭
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :الیاس احمد گدی بحیثیت سفرنامہ نگار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے