کتاب: تفہیم و تنقید

کتاب: تفہیم و تنقید

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ، ہند

محمد فرحت حسین (ولادت 5 جنوری 1958ء) بن سید علی مرحوم اپنے اصلی نام سے کم اور قلمی نام ڈاکٹر فرحت حسین خوش دل کے نام سے زیادہ متعارف ہیں، ڈبل ایم اے بی ایڈ کیا ہے، جائے پیدائش برہ بھاگل پور ہے، لیکن بہ سلسلہ ملازمت ضلع اسکول ہزاری باغ سے منسلک ہوئے تو یہیں کے ہو کر رہ گئے اور اب سبک دوشی کے بعد پورا وقت ادب و تنقید اور شاعری کو دے رہے ہیں، محبت و تعلق میری غائبانہ ہی تھی، لیکن اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر 13 اکتوبر 2022ء مطابق 16 ربیع الاول 1444ھ بروز جمعرات امارت شرعیہ تشریف لائے اور مولانا سید محمد عثمان غنی پر اپنا کلام پڑھا تو لوگ متاثر ہوئے، غالبا دو شب قیام رہا اور اس قیام کے دوران قسطوں میں میری کئی ملاقاتیں ہوئیں اور وہ امارت شرعیہ کے کاموں سے متاثر ہو کر واپس ہوئے، جاتے وقت میں نے اپنی کچھ تصنیفات حوالہ کی تھی اور آتے وقت وہ اپنی تصنیفات مقالات خوش دل، تنقیدات خوش دل، نقوش خوش دل اور تفہیم وتنقید میرے لیے لیتے آئے تھے، اب تک ان کی دس کتابیں ایوان نعت (مختلف نعت گو شعرا پر مضامین ) الحمد للہ ( مجموعۂ حمد و مناجات، سمعنا واطعنا (مجموعۂ نعت پاک)، وجدان کے پھول (مجموعۂ غزل) تنقیدات خوش دل (تنقیدی مضامین) پشپانجلی (بزبان ہندی)، انتخاب کلام بی ایس چیت جوہر اور نقوش خوش دل طباعت کے مرحلہ سے گذر کر مقبول ہو چکی ہیں، 2009ء میں پہلی کتاب آئی تھی، اور 2022ء میں ان کی آخری کتاب نے قارئین کے دلوں پر دستک دینے کا کام کیا ہے، وہ جو تخلیق انسانی کا دورانیہ شریعت نے چھ ماہ سے دو سال تک مقرر کر رکھا ہے، ان کی کتابوں کے مجموعے بھی اسی انداز میں آئے ہیں، بعضے اس دورانیے سے کم میں وجود پذیر ہو گئے، مثلا 2019ء میں تین کتابیں منظر عام پر آئیں، یہ تو مقررہ میعاد سے کم میں آگئیں، ہو سکتا ہے الگ الگ نہ آکر جڑواں آگئی ہوں، تو کسی کو اعتراض کا کیا حق ہو سکتا ہے، 2010ء میں دو کتابیں آئیں، چھے چھے ماہ کا دورانیہ چلے گا، اس کے بعد 2014ء، 2016، 2017 اور 2022ء میں جو کتابیں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئیں، ان کا وقفہ مناسب ہے۔ اب 2022ء ختم ہوا اور قارئین کو انتظار ابھی سے ”ایک لٹھ مار ناقد علامہ ناوک حمزہ پوری“ اور تفہیمات خوش دل کا انتظار ہے، دیکھیے یہ کتابیں ہماری آنکھوں کو کب روشن اور دل کو شاد کرتی ہیں، خوش دل شاعری میں ناوک حمزہ پوری کے شاگرد ہیں اور 1975ء سے اب تک جو کچھ ان کا شعری سرمایہ ہے، ان میں استاذ کی اصلاح اور توجہ کا بہت ہاتھ رہا ہے، اس لیے کتاب کا نام ”لٹھ مارنا قد“ تو مجھے بالکل پسند نہیں آیا، یہ استاذ کے حوالہ سے سوئے ادب بھی ہے اور لٹھ کی ٹھ تنافر حروف میں سے ہے، اس لیے سماعتوں پر گراں بار بھی معلوم ہوتا ہے۔
مختلف اداروں کی طرف سے وہ بہتر استاذ اور تاج دار سخن کا اعزاز پا چکے ہیں، حمد و نعت اکیڈمی نئی دہلی کی مجلس منتظمہ اور ہزاری باغ کی حمد و نعت اکیڈمی کے جنرل سکریٹری ہیں، اس حوالہ سے ان کی خدمات ابھی جاری ہیں، ناوک حمزہ پوری نے اردو شعر و ادب کا برق رفتار فن کار ڈاکٹر فرحت حسین خوش دل نامی کتاب بھی ان پر تصنیف فرمائی ہے، یہ استاذ کا اپنے شاگرد کے تئیں بے پناہ محبت کا صدقہ ہے، ورنہ ان دنوں اساتذہ اپنے شاگردوں پر لکھنا کسر شان سمجھتے ہیں، حالاں کہ شاگرد جس قدر بھی بڑا ہوجائے اس کی بڑائی بڑی حد تک استاذ کے کاندھوں کی ہی رہین منت ہوتی ہے، اس کے علاوہ ماہ نامہ قرطاس ناگپور نے خوش دل نمبر نکال کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔
تفہیم و تنقید خوش دل صاحب کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، اس مجموعہ میں کل بیس (20) مضامین ومقالات ہیں، ایک مضمون اردو مرثیہ گوئی کو ایک تنقیدی نظر فن مرثیہ گوئی کی تاریخ، تحقیق اور تنقید پر مشتمل ہے، اس مضمون میں مصنف نے بعض ایسے نکات بھی اٹھائے ہیں، جن کی طرف نقادوں کی توجہ گئی نہیں ہے، یا گئی ہے تو اس کا احاطہ نہیں کیا جا سکا ہے، اس مقالہ کو پڑھ کر خوش دل کے مطالعہ کی گہرائی، گیرائی اور تنقیدی کاوش کا پتہ چلتا ہے، اس کے علاوہ جو مقالات ہیں، وہ مختلف شعرا ادبا حضرات کی شخصیت، ان کی شاعری اور ان کی خدمات پر تنقیدی نظر ہے، اس درجہ بندی سے چاہیں تو ایک اور مقالہ علامہ شبلی نعمانی کے کارنامے کو الگ کر سکتے ہیں، جن شعرا پر گفتگو کی گئی ہے ان میں رفیق شاکر، ابو البیان حماد عمری، سید احمد ایثار ناطق گلاوٹھی، ناوک حمزہ پوری، طرفہ قریشی، سید احمد شمیم، اوج اکبر پوری، رند ساگری، اسد ثنائی، محمد ارشد، معین زبیری، اسحاق ساجد، ایس ایچ ایم حسینی، طہور منصوری، ناز قادری، شرافت حسین، منیر رشیدی، گلشن خطاتی کشمیری کے فکر وفن، ترجمے، تنقیدی شعور وغیرہ کا بھر پور جائزہ لیا گیا ہے۔ اس فہرست کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فرحت حسین خوش دل نے نئے اور پرانے قلم کاروں اور ان کی کتابوں کو موضوع تفہیم و تنقید بنایا ہے، ایک درجہ بندی معروف اور غیر معروف کے حوالے سے بھی کی جا سکتی ہے، چند ایک کو چھوڑ کر بیش تر غیر معروف ہیں، نئے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی خوش دل کے دل کو راس آتی ہے، اور وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بعد جو نسل شعر و ادب کی مشاطگی کے لیے آ رہی ہے، ان کے حوصلے بلند کیے جائیں اور ان میں خود اعتمادی پیدا کی جائے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خوش دل نے بے جا تعریف و توصیف اور مدح وستائش سے کام لیا ہے، ایسا وہ عموما نہیں کرتے، بلکہ یک گونہ اسے وہ نا پسند کرتے ہیں، خوش دل نے جو کچھ لکھا ہے، پڑھ کر لکھا ہے، ممکن ہے ان کے مقالات کے بعض جزو سے آپ اختلاف کریں اور بعض کی تعریف و توصیف پسند نہ آئے، لیکن ان کے خلوص پر شبہ کی گنجائش نہیں، تشکیلات سے متاثر ہو کر انھوں نے نعت کی جمع نعوت استعمال کی ہے، یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ نعت کی جمع مکسر مستعمل نہیں ہے، جمع سالم ہی استعمال ہوتا رہا ہے۔
ایک سو نوے صفحات کی قیمت پانچ سو روپے اردو کے قارئین کے لیے گراں بار ہے، خوش دل جیسے لوگ تو خرید سکتے ہیں، لیکن جن کی تنخواہ بھی ان کی پنشن سے کم ہے وہ اس کتاب کو اٹھا کر للچا کر چھوڑ دیں گے، کیوں کہ ان کی قوت خرید ان کا ساتھ نہیں دے پائے گی۔ کتاب ملنے کے چار پتے درج ہیں، ہزاری باغ میں ہیں تو فرحت حسین خوش دل سے بلا واسطہ لے لیجئے، پٹنہ میں رہتے ہوں تو بک امپوریم سبزی باغ جائیے، بھاگل پور میں نیو کتاب منزل تاتار پور جا کر آپ کی مراد پوری ہو سکتی ہے۔ طباعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کی ہے، معیاری ہے، کور تجریدی آرٹ کا نمونہ ہے، لیکن ایسا معمہ نہیں کہ رنگوں کی پُتائی کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہ آئے، مرغی کا پر جو قلم کے طور پر دوات میں ڈالا ہوا ہے، اور کتاب کا ورق کھلا ہوا بھی دکھنے میں آجاتا ہے۔ آپ بھی پڑھ کر لطف اٹھائیے، اور ان شاعروں اور ادیبوں کی شخصیت اور فکر و فن سے قلب و دماغ کو مجلیّٰ کیجئے۔
***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش :احمد علی برقی اعظمی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے