خاک چھنوا کے ہاتھ آئی تھی

خاک چھنوا کے ہاتھ آئی تھی

امان ذخیروی
ذخیرہ، جموئی، بہار، ہند
رابطہ: 8002260577

میں نے جب ہوش سنبھالا تو ابا کو سائیکل چلاتے ہوئے دیکھا۔ اسکول جانے کے لیے وہ جس سواری کا استعمال کرتے تھے وہ ایک پرانی سی سائیکل تھی۔ وہ سائیکل کس طرح اور کب خریدی گئی مجھے اس کا ہوش نہیں۔ لیکن اتنا تو ضرور تھا کہ وہ نئی نہیں تھی۔ ممکن ہے وہ میری پیدائش سے پہلے ہی میرے گھر میں آئی ہوگی۔ بہر حال وہ ہمارے گھر کی واحد سواری تھی جس کا استعمال گھر سے باہر بازار جانے میں ہمارے گھر کے لوگ کیا کرتے تھے۔ جب کبھی ہم بھائیوں کو بہ غرض علاج یا کپڑوں کی خریداری کے لیے بازار جانا ہوتا تو ابا کے ساتھ اسی سائیکل پر سوار ہو کر جایا کرتے تھے۔ مگر ابا کے ساتھ اس پر سب سے زیادہ سواری میں نے ہی کی۔ اس لیے اب تک اس سائیکل‌ کی یاد میرے ذہن و دل میں تازہ ہے۔ اس سائیکل کے ہینڈل پر انگریزی میں ROVER لکھا ہوا تھا۔ تب مجھے اتنی سمجھ نہیں تھی کہ وہ اس سائیکل کی کمپنی کا نام تھا۔ وہ سائیکل دیکھنے میں تو پرانی ضرور تھی لیکن تھی بہت مضبوط۔ کیونکہ ہر روز بیس پچیس کیلومیٹر ابا کو لے کر چلتی تھی۔ اس کے علاوہ بھی کبھی کبھی چھوٹے ابا اور دیگر لوگ بھی اس پر سواری کرتے تھے۔‌ اس زمانے میں ہم بچوں میں سائیکل چلانا سیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ جب میں نے کچھ ہوش سنبھالا تو مجھے بھی اس کا شوق چڑھ آیا۔ لیکن ابا سے یہ کہنا تو مشکل تھا کہ مجھے سیکھنے کے لیے آپ کی سائیکل چاہیے۔ اس کی دو وجہ تھی۔ ایک تو یہ کہ میرے گر پڑ کر ہاتھ پاؤں تڑا لینے کا اندیشہ تھا، دوسرے سائیکل کے بھی ٹوٹنے کا اندیشہ تھا، کیونکہ انھیں روز اسی سائیکل سے اسکول جانا پڑتا تھا۔ مگر میری فکر تو صرف ایک تھی جو ان کے دونوں اندیشوں پر حاوی تھی کہ کسی طرح سائیکل چلانا سیکھ جاؤں۔ اسی ادھیڑ بن میں کئی روز گزر گئے۔ بالآخر میرا شوق تمام امکانات پر غالب آ گیا اور ایک روز ابا جب اسکول سے گھر آئے تو میں نے چپکے سے ان کی سائیکل نکال لی اور ہاف پیڈل چلانے کی تھوڑی سی مشق کر کے پھر اسے اس کے سابقہ مقام پر رکھ دیا۔ اب تو تقریباً روز کا معمول ہو گیا کہ موقع ملا میں سائیکل لے اڑا۔ کچھ دنوں میں، میں نے ہاف پیڈل چلانا سیکھ لیا۔ اس کامیابی کی ایسی خوشی محسوس ہوئی کہ اب ہوائی جہاز چلا کر بھی ویسی مسرت حاصل نہ ہو۔ مگر سو دن کا چور تو ایک دن پکڑا ہی جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی میرے ساتھ ہوا۔ اس درمیان ابا کو کچھ نہ‌ کچھ تو بھنک لگ ہی گئی تھی کہ میں ان کی سائیکل نکال کر چلانے جاتا ہوں۔ لیکن انھوں نے اپنی نظروں سے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس لیے مجھ سے کوئی باز پرس بھی نہیں ہوئی تھی۔ گویا میں اپنی اس ہنر مندی پر نازاں تھا کہ میرے اس کارنامے کی کسی کو خبر نہیں ہے۔ خیر ایک دن وہی ہوا جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
یہ بات ان دنوں کی ہے جب ہم لوگ اپنی نانیہال پریم ڈیہا واقع اپنے مکان میں رہا کرتے تھے۔ ابا چونکہ وہیں دو کیلو میٹر کے فاصلے پر دھیرا مڈل اسکول میں پوسٹڈ تھے اور میں بھی وہیں زیر تعلیم تھا۔ وہاں رہتے ہوئے ابا سائیکل کا کم ہی استعمال کرتے تھے۔ اسکول اکثر ٹہلتے ہوئے چلے جاتے تھے۔ زیادہ تر میں بھی ان کے ساتھ ہی اسکول جاتا تھا۔ لیکن سائیکل چلانے کا شوق مجھ پر اس قدر حاوی تھا کہ کسی نہ کسی بہانے سے اسکول ناغہ کر دیتا تھا اور اس روز دن بھر سائیکل چلانے میں مشغول رہتا تھا۔ میرے بہانوں میں سب سے خوب صورت اور قابل قبول بہانہ سر درد کا تھا۔ ابا چونکہ خود اکثر سر درد کے عارضے‌میں مبتلا رہتے تھے، اس لیے فوراً میری مکاری پر یقین کر لیتے تھے۔ پریم ڈیہا میں چونکہ پکی سڑک بنی ہوئی تھی اس لیے اس پر سائیکل چلانے میں خوب مزہ آتا تھا، مگر ساتھ ہی خطرہ بھی بہت تھا کہ ہمہ وقت گاڑیاں چلتی رہتی تھیں۔ ایک دو بار ایسا بھی ہوا کہ میں کسی گاڑی سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ حالانکہ اس وقت تک مجھے سیٹ پر بیٹھ کر سائیکل چلانا نہیں آیا تھا، تاہم ہاف پیڈل میں، مہارت حاصل ہو گئی تھی۔ ایک دن اسی طرح حسب معمول میں سائیکل چلانے میں مشغول تھا کہ پیچھے سے مجھے کوئی آہٹ سنائی دی، جو رفتہ رفتہ میرے قریب آتی جا رہی تھی۔ اب میرے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ پیچھے مڑ کر ‌دیکھوں۔ سو بڑی مشکل سے میں نے اپنی گردن گھما کر پیچھے دیکھا تو میرے ہوش و حواس جاتے رہے۔ وہ کوئی دوسرا نہیں میرے ابا ہی تھے جو بڑے غصے میں میرے پیچھے لپکتے ہوئے آ رہے تھے۔ اب مشکل سے دو قدم کی دوری رہ گئی تھی کہ میں ان کی گرفت میں آ جاتا۔ سو میں نے لمحوں میں فیصلہ کر لیا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ پکڑے جانے پر پٹائی کے خوف سے میں چلتی سائیکل سے کود پڑا۔ سائیکل الگ گری میں الگ گرا، لیکن پھر اٹھ کر سرپٹ بھاگا کہ ان کی پکڑ میں نہ آ سکوں۔ تب تک ابا سائیکل کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ان کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔ یہ واقعہ جہاں پیش آیا وہاں ایک پل تھا جو کافی گہرا تھا۔ میں تو ان کی گرفت میں نہ آ سکا لیکن سائیکل وہیں پڑی تھی۔ انھوں نے اپنا پورا غصہ اسی بے زبان پر نکال دیا۔ میں دور کھڑا دیکھ رہا تھا۔ ابا نے سڑک پر پڑی ہوئی سائیکل اٹھائی اور اسے پل میں لڑھکا دیا۔ وہ منظر دیکھ کر میرا دل دھڑک اٹھا۔ اس وقت میں سوچ رہا تھا کہ اگر میں ان کی گرفت میں آ گیا ہوتا تو شاید پل میں مجھے ہی لڑھکایا جاتا۔ لڑکھڑاتے، لڑھکتے ہوئے بےچاری سائیکل ندی کے نچلے سطح میں جا پڑی۔ اس وقت گرمی کا موسم تھا، اس لیے ندی میں پانی نہیں تھا۔ اس کارروائی کے بعد ابا وہاں رکے نہیں، واپس گھر لوٹ گئے۔ اب میرے لیے نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والی حالت تھی۔ سائیکل وہیں ندی میں پڑی چھوڑ دینا بھی گوارہ نہ تھا اور لے کر گھر جانا بھی مشکل تھا۔ سائیکل اتنی گہرائی میں تھی کہ اکیلے میرے لئے نکال پانا بھی مشکل تھا۔ خیر کچھ ساتھیوں کی مدد سے میں نے اسے ندی سے اوپر نکالا اور ڈرتے ڈرتے لڑھکاتے ہوئے گھر کی جانب چلا۔ راستے میں لڑکوں کی ایسی بھیڑ تھی گویا وہ سائیکل نہ ہو، کوئی جنازہ ہو جسے آخری سفر پر روانہ کیا جا رہا ہو۔ خیر اسی طرح ہجوم میں گھرا اپنے کاندھوں پر بار ندامت اٹھائے گھر کے قریب پہنچ گیا۔ میں نے بنگلے پر سائیکل کھڑی کر دی اور نانی کے گھر چلا گیا، جو میرے گھر سے کچھ فاصلے پر تھا۔ دل کو یہی بات کچوکے لگا رہی تھی کہ ابا کا سامنا کیسے کروں گا۔ میں شام تک اپنی نانی کے گھر ہی رکا رہا۔ بھلا ہو میرے نانا کا کہ انھوں نے میری پشت پناہی کی، خود مجھے ساتھ لے کر میرے گھر آئے، ابا سے میری معافی اس شرط پر کروا دی کہ آئندہ میں ان کی یا کسی کی بھی سائیکل کو ہاتھ نہ لگاؤں گا، جب تک کہ کچھ اور بڑا نہ ہو جاؤں۔ میں نے وہ شرط مان تو لی، اور بہت دنوں تک اس پر قائم بھی رہا لیکن سیٹ پر بیٹھ کر سائیکل چلانے کی حسرت ہر وقت مجھے بےچین رکھتی تھی۔ جب اپنی عمر‌ کے دوسرے لڑکوں کو سائیکل چلاتے دیکھتا تو دل مچل جاتا اور خود پر ضبط رکھنا مشکل ہو جاتا۔ میرا مشن ابھی ادھورا تھا۔ اس کے پس پردہ وہ خواہش بھی پوشیدہ تھی کہ اچھی طرح سائیکل چلانا سیکھ جاؤں تو پھر اماں کو، نئی سائیکل دلوا دینے کے لیے آمادہ کروں۔ ہر چند کہ دلی ابھی دور تھی، لیکن خواب دیکھنے میں کیا مضائقہ تھا۔ امید کا دامن میں نے نہیں چھوڑا تھا۔ بہ قول علامہ جمیل مظہری:
اگر نہ ہو یہ فریب پیہم ، تو دم نکل جائے آدمی کا
سو میں بھی اسی فریب پیہم کے سہارے جی رہا تھا۔
آخر ایک ایسا موقع آیا جس نے فل پیڈل سائیکل چلانے کی میری حسرت پوری کر دی۔ وہ میری خالہ کی شادی کا موقع تھا۔ شادی میں شرکت کے لیے گاؤں ذخیرہ سے میرے چھوٹے ابا سائیکل سے پریم ڈیہا تشریف لائے۔ نانی کے گھر میں شادی کی گہما گہمی تھی. میرے گھر کے لوگ بھی اسی میں مصروف تھے، جب کہ سائیکل میرے ہی گھر میں لگی ہوئی تھی۔ یہ بھی اتفاق تھا کہ اس میں تالا نہیں تھا۔ وہ ایک کھٹارا قسم کی سائیکل تھی۔ مگر مجھے اس کے حسن و قبح سے کیا مطلب تھا، مجھے تو اپنے ادھورے مشن کو پورا کرنا تھا۔ عہد شکنی کے خوف پر میرا شوق غالب آیا اور میں نے سائیکل نکال لی۔ کچھ دوستوں کی مدد سے میں نے دو تین گھنٹے مشق کیا اور فل پیڈل سائیکل چلانا سیکھ لیا۔ اس دن مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ پھر اگلے دن خالہ کے رخصت ہو جانے کے بعد رات بھر کے جاگے ہوئے لوگ بے خبر سو گئے۔ اب ایک اور موقع میرے ہاتھ میں تھا، سو میں نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا اور جو رہی سہی کسر تھی وہ پوری ہو گئی۔ اب میرے اندر اتنی خود اعتمادی آ گئی تھی کہ میں فراٹے کے ساتھ کہیں بھی سائیکل چلا سکتا تھا۔ خیر اسی روز شام کو چھوٹے ابا سائیکل پر سوار ہو کر گاؤں کے لیے رخصت ہو گئے اور اس نئی کامیابی کی خوشی کو سمیٹے میں اپنے معمولات میں مشغول ہو گیا۔ مگر یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ ابھی مجھے اپنے لیے نئی سائیکل حاصل کرنا تھا۔ اور اس کی جد و جہد جاری رکھنی تھی۔ اس واقعے کے بعد میں نے ابا کی سائیکل ‌کو پھر کبھی ہاتھ نہیں لگایا، لیکن اس شوق کی تکمیل کسی طرح کرتا رہا۔ اس طرح دو تین سال اور گزر گئے۔ اب میں ساتویں درجے میں پہنچ چکا تھا۔ لمبائی اچھی خاصی ہو گئی تھی۔ تب تک ابا کا تبادلہ لچھواڑ ہائی اسکول میں ہو گیا تھا اور میں ساتویں درجے کا سالانہ امتحان دینے تک دھیرا مڈل اسکول میں ہی رہا۔ ابا چونکہ سکندرہ جو ہمارا بلاک شہر تھا، ہو کر لچھواڑ جایا کرتے تھے۔ وہاں ان کے ایک جونئیر ساتھی ماسٹر نصیر الدین انگریزی اور میتھ کا ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے۔ انگریزی تو میں ابا سے ہی پڑھ لیا کرتا تھا، لیکن میتھ کے لیے انھوں نے ماسٹر نصیر الدین کے یہاں میرا ٹیوشن لگوا دیا۔ میں علی الصباح بس سے سکندرہ چلا جاتا تھا۔ ابا دیر سے جاتے اور میرے لیے کھانا بھی لے کر جاتے تھے۔ دن بھر میں وہیں مڈل اسکول سکندرہ میں پڑھتا تھا اور شام کو اسی پرانی سائیکل پر ابا کے ساتھ گھر آ جاتا تھا۔ حالانکہ وہاں میرا داخلہ نہیں ہوا تھا لیکن وہاں کے ہیڈ ماسٹر ابا کے جاننے والے تھے یا شاید ان‌کے استاد ہی تھے کیونکہ ابا بھی اسی مڈل اسکول کے طالب علم رہے تھے۔ اس لیے ہیڈ ماسٹر صاحب کا مجھ پر خاص خیال رہتا تھا۔ اب میں پوری طرح بندھ کر رہ گیا تھا۔ صبح سے شام تک پڑھنا اور صرف پڑھنا۔ صبح میں ٹیوشن، دن بھر اسکول میں اور رات میں ابا کے سامنے کتابیں کھولے بیٹھا رہتا تھا۔‌ ایک بار تو میرے جی میں آیا تھا کہ پڑھائی چھوڑ دوں۔ اس خیال کا اظہار ایک دن میں نے اپنے خلیرے بھائی آفتاب بھائی ‌سے کیا تھا، جو مجھ سے ایک کلاس سینئر تھے۔ لیکن اس اللہ کے بندے نے میری یہ بات ابا تک پہنچا دی کہ میں اب پڑھنا نہیں چاہتا۔ پھر کیا تھا مجھے وہ ڈانٹ لگی کہ میں نے اس خیال سے تو نہیں مگر اس کے اظہار سے توبہ کر لی۔ مگر سچی بات تو یہی ہے کہ میں دل سے کبھی پڑھنا نہیں چاہتا تھا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ میں پڑھائی میں کمزور تھا۔ مگر وہ پابندیاں میرے لیے سوہان روح تھیں۔ بہر حال میں کچھ پیچھے چلا گیا تھا، جو مجھے میرے موضوع سے بھٹکا رہا ہے۔ ہاں تو میں ان دنوں کی بات کر رہا ہوں جب میں سکندرہ مڈل اسکول میں پوری پابندیوں سے گھرا پڑھ رہا تھا۔ اب نہ مجھے سائیکل دستیاب تھی اور نہ ہی فرصت۔ مکر وہ جو کہتے ہیں نہ۔۔۔
جہاں چاہ وہاں راہ۔ سو ایک دن ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا۔ اس سائیکل کی ‌چاہ نے میرے لیے بھی راہ نکال دی۔ ان دنوں میرے گاؤں کے مہتاب بھائی سکندرہ ہائی اسکول میں نویں یا دسویں جماعت میں زیر تعلیم تھے۔ مڈل اسکول سے ہائی اسکول کی دوری مشکل سے ہاف کیلو میٹر تھی۔ ایک دن کسی طرح بچتے بچاتے میں ان سے ملنے ان کے اسکول چلا گیا۔ ان ہی دنوں انھوں نے نئی سائیکل خریدی تھی۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میرے وہاں جانے کی وجہ کیا تھی۔ خیر جب میں ان کے پاس پہنچا تو وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی بات کرنے کے بعد میں اپنے مقصد پر آ گیا۔ میرے مانگنے پر انھوں نے بلا چون و چرا اپنی نئی سائیکل مجھے دے دی۔ میں دل ہی دل بہت خوش ہو رہا تھا۔ بہت دنوں سے کوئی سائیکل میرے ہاتھ نہیں آئی تھی۔ اب جو بالکل نئی نکوری سائیکل میرے ہاتھ آئی تو مجھے پر لگ گئے۔ میں ان کی سائیکل لے کر بہت دیر تک بازار میں پھرتا رہا۔ پھر خیال آیا کہ کیوں نہ گاؤں کا چکر لگا آؤں۔ ذرا دوستوں میں اپنی دھاک بھی جمے گی اور سب سے مل جل بھی لوں گا۔ اس خیال کے آتے ہی میری باچھیں کھل گئیں۔ میں فوراً اپنے گاؤں ذخیرہ کے لیے روانہ ہو گیا، گر چہ ان دنوں ہم لوگ پریم ڈیہا میں ہی اقامت پزیر تھے، لیکن میرے دل میں ہر پل اپنا گاؤں ذخیرہ ہی آباد رہتا تھا۔ اس زمانے میں گاؤں جانے کے لیے پکی سڑک نہیں بنی تھی۔ نہر کی کچی مینڈ پر لوگ سائیکل پر سفر کرتے تھے۔ گرمیوں میں اس پر خوب دھول اڑتی اور بارش کے موسم میں تو پیدل چلنا بھی دشوار ہوتا تھا۔ پاؤں میں کچی گیلی مٹی لپٹ جاتی اور ایک ایک قدم منوں بھاری محسوس ہوتا۔ مگر پھر بھی نہ جانے کیوں وہ راستہ اتنا مانوس اور اپنا اپنا سا لگتا کہ پر چلتے ہوئے کبھی تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا جب میں تنہا سائیکل پر سوار ہو کر محو سفر تھا۔ سائیکل بھی نئی تھی اور میرا حوصلہ بھی جوان تھا۔ میں پورے جوش و خروش سے سائیکل چلا رہا تھا، سائیکل ہوا سے باتیں کر رہی تھی اور رفتہ رفتہ میں اپنے گاؤں کے قریب ہوتا جا رہا تھا۔ اب مشکل سے ایک کیلو میٹر کا فاصلہ رہا ہوگا کہ اچانک میرا دل کئی واہموں میں گھر گیا۔ پہلی بات تو یہ کہ مہتاب بھائی جن کی سائیکل لے کر میں گاؤں جا رہا تھا، ان کا گھر میرے گھر کے قریب تھا۔ (وہ میرے پڑوسی تب بھی تھے اب بھی ہیں) مجھے یہ خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں ان کی اماں نے مجھے ان کی سائیکل پر سوار دیکھ لیا تو میری تو کم لیکن ان کی شامت ضرور آ جائے گی۔ دوسرا جو خوف تھا اس سے میری شامت آنے کا زیادہ امکان تھا۔ کہیں چھوٹے ابا نے دیکھ لیا تو میری ایک خیریت باقی نہیں رہے گی، کیونکہ ‌اس وقت تک مجھے گھر سے سائیکل چلانے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ ان دنوں ابا سے زیادہ چھوٹے ابا ہی ہماری حرکتوں پر نظر رکھتے تھے۔ اب جو یہ دونوں خیالات یکجا ہوئے تو میں نے وہیں سے لوٹ جانے میں ہی عافیت محسوس کی۔ اس لئے اپنے گاؤں سے پہلے والے گاؤں اکونی سے ہی میں پھر سکندرہ کی طرف لوٹ گیا۔ اب میں جلد از جلد سائیکل مہتاب بھائی کے حوالے کر دینا چاہتا تھا۔ مین روڈ سے ایک پتلی سی سڑک ہائی اسکول کو جاتی تھی۔ میں اس پر تیزی سے سائیکل چلا رہا تھا کہ اچانک ایک موڑ آ گیا۔ رفتار تیز تھی میں نے جوں ہی ہینڈل موڑا کہ سائیکل ناچ گئی اور میں دھڑام سے ریتیلی سڑک پر گرا اور دور تک گھٹنوں کے بل گھسٹاتا چلا گیا۔ میرے دونوں گھٹنے لہو لہان ہو گئے۔ خیر یہ تھی کہ سائیکل کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ خیر کسی طرح بھٹکتے ہوئے ہائی اسکول پہنچا اور سائیکل مہتاب بھائی کے حوالے کر دی اور خود بس پر سوار ہو کر سیدھا پریم ڈیہا پہنچ گیا۔ زخم ایسا نہ تھا جسے چھپایا جا سکتا، سو میں نے اماں سے یہ کہہ دیا کہ ٹھوکر لگنے سے گر گیا اور میرے گھٹنے پھوٹ گئے۔ قارئین! یقین جانیں کہ آج پہلی بار آپ سے اس کا خلاصہ کر رہا ہوں ورنہ اب یہ راز اور آگے آنے والے کئی راز میرے سینے میں دفن تھے۔ بہر حال اس حادثے میں، میں ایسا زخمی ہوا کہ کئی دنوں تک پڑھنے نہیں جا سکا۔ اسی طرح چند مہینے اور گزر گئے۔ اس دوران ساتویں درجے کا سالانہ امتحان بھی ہو گیا۔ نتیجہ نکلا اور ابا نے میرا داخلہ سکندرہ ہائی اسکول میں آٹھویں جماعت میں کروا دیا۔ مگر سائیکل کی تمنا اب بھی ادھوری تھی۔ ان ہی دنوں ہم لوگ اپنے گاؤں ذخیرہ لوٹ گئے تھے۔ وہاں میرے پھوپھی زاد بھائی رضوان میرے ہم جماعت تھے۔ انھوں نے بھی اسی اسکول میں داخلہ لیا تھا۔ سائیکل نہ میرے پاس تھی نہ ان کے پاس۔ ہم دونوں پیدل ہی آٹھ کیلومیٹر کا سفر طے کر کے روزانہ اسکول جاتے اور سر شام گھر لوٹتے۔ ہم دونوں کی مشترکہ جد و جہد یہی تھی کہ کسی طرح ہمیں نئی سائیکل فراہم ہو جائے۔ گھر میں ہر روز ہم اپنا مدعا رکھتے لیکن اب تک ہماری مانگ پوری نہیں ہوئی تھی۔ اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ ہمارے والدین ہماری جانب سے لا پروا تھے۔ بس ان کے دلوں میں ایک خوف تھا کہ کہیں ہمارے بچے کو سائیکل سے نقصان نہ پہنچ جائے۔ اس وقت ان کی یہ احتیاط ہمیں زیادتی محسوس ہوتی تھی، لیکن اب جب کہ ہم خود اس مقام پر آئے ہیں تو اپنے بچوں کے لیے ویسا ہی سوچتے ہیں۔
ایک دن رضوان نے اپنے بھیا کی سائیکل کسی طرح حاصل کر لی اور ہم دونوں اسی سائیکل پر سوار ہوکر اسکول کے لیے روانہ ہوئے۔ باری باری سائیکل چلاتے ہوئے ہم آسانی کے ساتھ اسکول پہنچ گئے۔ لوٹتے میں، میں سائیکل چلاتے ہوئے بازار سے گزر رہا تھا۔ رضوان پیچھے بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک بوڑھی عورت اپنے سر پر کچھ رکھے ہوئے سامنے آ گئی اور ہماری سائیکل اس سے ٹکرا گئی۔ وہ بیچاری دھڑام سے زمین پر گری اور اس کے سر پر رکھا ہوا تیل کا ڈبا گرا۔ ڈبے کا ڈھکن کھل گیا اور سارا تیل سڑک پر بہہ گیا۔ اپ تو ہمیں لگا کہ ہماری خیر نہیں ہے۔ مگر خدا بھلا کرے اس خاتون کا کہ اس نے ہم سے کچھ نہیں کہا اور شرماتے ہوئے اپنا خالی ڈبا اٹھایا اور اپنی راہ چل پڑی۔ ہم نے بھی موقع غنیمت جانا اور سرپٹ سائیکل پھگاتے ہوئے لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ اس طرح پہلا دن تو خیر خوبی سے گزر گیا۔ مگر ہمیں کیا خبر تھی کہ دوسرا دن ہمارے لیے اس سے بڑی آزمائش لے کر آنے والا ہے۔ اگر ذرا بھی اندازہ ہوتا تو اس روز ہم قطعی سائیکل سے اسکول نہیں جاتے۔ اگلے دن پھر ہم لوگ اسی سائیکل سے اسکول کے لیے روانہ ہوئے اور اسکول کے گیٹ تک پہنچ گئے کہ اچانک ایک جوان لڑکا اپنی سائیکل دوڑاتے ہوئے ہمارے آگے آ گیا۔ سائیکل پھر میں ہی چلا رہا تھا۔ لاکھ کوشش کے باوجود ہماری سائیکل اس کی سائیکل سے اس زور سے ٹکرائی کہ اس کی سائیکل کا اگلا چکا بینڈ ہو گیا۔ اس کے کئی اسپوکس بھی ٹوٹ گئے۔ وہ دسویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ اس کا گھر بھی سکندرہ ہی تھا اور وہ ہم لوگوں سے زیادہ طاقتور بھی تھا۔ اس کا نام موہن تھا۔ ان دنوں اسی شہر میں اس نے برتن کی دوکان کر رکھی ہے۔ اب بھی کبھی اس سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ اس نے ہماری سائیکل ضبط کر لی اور کہا، یا تو میری سائیکل بنواؤ یا اپنی سائیکل ہمیں دو۔ اس وقت ہمارے لیے وہ دونوں کام مشکل تھا۔ نہ ہم اپنی سائیکل چھوڑ سکتے تھے اور نہ ہی اس کی سائیکل مرمت کروانے کے لیے ہمارے پاس پیسے تھے۔ رضوان تو خوف سے رونے لگے کہ اگر اس نے سائیکل نہیں دی تو گھر میں کیا جواب دیں گے۔ خیر سجاد نام کا ایک لڑکا جو ہم لوگوں سے سینئر اور موہن کا ہم جماعت تھا۔ اس نے ہماری یہ مدد کی کہ اپنے رسوخ پر موہن کی سائیکل اس شرط پر بنوا دی کہ اگلے دن ہم لوگ دوکان دار کو پیسہ دے دیں گے۔ ہم نے وہ شرط مان لی ( کہ اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا) مگر یہی سوچ کر دل گھبرا رہا تھا کہ پیسہ کہاں سے دیں گے۔ حالانکہ پیسہ بہت زیادہ نہیں تھا پانچ یا چھ روپے۔ مگر مشکل یہ تھی کہ گھر میں کسی کو خبر بھی نہیں ہو اور پیسہ بھی ہاتھ آ جائے۔ سارا پیسہ مجھے ہی دینا تھا کیوں کہ ٹکر میں نے ماری تھی۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم دونوں نصف نصف اس بار گراں کو اٹھا لیتے۔ خیر اب تو یہ معرکہ مجھے اکیلے ہی سر کرنا تھا۔ دوسرے دن ہر حال میں بقایا ادا کرنا تھا۔ ان دنوں اماں کسی کام سے پریم ڈیہا والے گھر میں مقیم تھیں۔ باقی ہم سب بھائی بہن ذخیرہ میں تھے۔ میرا بھی آنا جانا ذخیرہ سے ہی ہو رہا تھا۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ آج اماں کے پاس ہی چلا جائے۔ وہیں پیسے کا انتظام ممکن تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ اماں پیسے کہاں رکھتی ہیں۔ لیکن خدا گواہ ہے کہ اس سے پہلے میں نے ان کے پیسے کبھی چوری نہیں کیے۔ مگر اب تو جان پر بن آئی تھی۔ سو میں نے رضوان کو تیار کیا اور اس روز ذخیرہ جانے کی بجائے ہم پریم ڈیہا روانہ ہو گئے۔ گھر پہنچتے پہنچتے شام ہو گئی تھی۔ در اصل میں چاہ بھی یہی رہا تھا۔ اماں پیسوں کے معاملے میں بہت لاپروا تھیں اور اب بھی ہیں۔ وہ اکثر کہیں پیسے رکھ کر بھول جاتی تھیں۔ جیسے اناجوں کے برتن میں، دال کے مٹکے میں، مگر ہم بھائی بہن میں کسی کو چوری کی عادت نہیں تھی، اس لیے ان کے پیسے ان کے فراموش کیے جانے کے باوجود بھی محفوظ رہتے تھے۔ شام جب رات میں تبدیل ہوئی تو میں نے چپکے سے ان ہی ممکنہ جگہوں پر پیسوں کی تلاش ‌کرنی شروع کر دی۔ خوف سے میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ اس سے پہلے تک میرے پاس چوری کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ مگر حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے پہلی اور آخری بار وہ قدم اٹھایا تھا۔ خیر تھوڑی سی تلاش کے بعد مسور کی دال کے مٹکے سے مجھے مطلوبہ رقم حاصل ہو گئی۔ اس میں پیسے تو زیادہ تھے لیکن میں نے صرف اور صرف چھ روپے ہی نکالے۔ میرے سر پر ایک بڑا بوجھ تھا جو رقم کی دستیابی کے بعد ٹل گیا۔ اس سے مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ اماں نے کبھی ان پیسوں کی تلاش نہیں کی۔ کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ وہ اپنے پیسوں کا کوئی حساب نہیں رکھتی تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ آج تک میں نے ان سے یہ بات نہیں بتائی۔ سوچتا ہوں کسی دن ان سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگ لوں گا۔ ہر چند کہ مجھے بے حد ندامت بھی ہوئی، لیکن اس رات بڑی گہری نیند آئی۔ دوسرے دن ہم لوگ اسکول کے لیے روانہ ہوئے اور سب سے پہلے ہم نے بقایا ادا کرنے کا ہی کام کیا۔ بچپن میں مجھ سے دانستہ اور نادانستہ ایسی ایسی غلطیاں سر زد ہوتی رہتی تھیں کہ لوگ مجھے بے وقوف سمجھنے لگے تھے۔ کبھی کبھی میں بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا تھا کہ کیا میں بے وقوف ہوں؟ مگر اب سوچتا ہوں کہ وہ بھی خدا کی مصلحت تھی۔ اب جب اپنی کتاب ماضی کی ورق گردانی کرتا ہوں تو ایسے سیکڑوں واقعات میرے ذہن کے پردے پر جھلملاتے لگتے ہیں کہ لکھتا رہوں تو سلسلہ ختم نہ ہو۔ بہر حال اس دن‌کے بعد میں نے یہ تہیہ کر لیا اب کسی کی سائیکل نہیں چلاؤں گا، جب تک ابا نئی سائیکل خرید کر نہ دیں گے۔ اب ہم خاموشی کے ساتھ پاپیادہ اسکول جانے لگے۔ مگر نئی سائیکل کی حصولیابی کے لی ایک آخری کوشش ضرور کی۔ دسمبر، جنوری میں دن یوں بھی چھوٹے ہوتے ہیں۔ ویسے بھی گھر پہنچتے پہنچتے شام ہو ہی جاتی تھی۔ ہم جب گاؤں کی سرحد میں داخل ہو جاتے تو کچھ دیر کے لیے کہیں رک جاتے اور جب شام ڈھل کر رات سے ہم دوش ہونے لگتی تب ہم وہاں سے اٹھتے اور سست چال سے چلتے ہوئے جب گھر پہنچتے تو ابا اماں کو اپنا منتظر پاتے۔ وضاحت پر ہم یہی کہتے کہ سفر لمبا اور دن چھوٹا ہے اس میں ہمارا کیا قصور۔ بہر حال ہماری یہ چال کامیاب ہو گئی۔ ایک صبح جب میں سو کر اٹھا اور اسکول چلنے کی تیاری کرنے لگا تو ابا نے کہا کہ میرے ساتھ چلو آج تمھاری سائیکل خرید دیتے ہیں۔ مجھے اپنی سماعت کا دھوکا محسوس ہوا تو میں نے ان سے پھر پوچھا تو انھوں نے وہی جملہ دہرایا کہ چلو آج تمھاری سائیکل خرید دیتے ہیں۔ سچ بتاتا ہوں اس خوشی سے میرے پاؤں زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔ ایک طویل جد و جہد کے بعد میری گوہر مراد پوری ہونے والی تھی۔ خیر میں ابا کے ساتھ سکندرہ پہنچا۔ انھوں نے ایک نئی Avon سائیکل میرے لیے خرید دی۔ بڑے ارمانوں کے بعد ایک نئی سائیکل میرے ہاتھ میں آئی، جس پر میرا مکمل اختیار تھا۔ اگر اس وقت میں حکیم مومن خان مومن اور ان کے اشعار سے واقف ہوتا تو اپنی سائیکل پر پہلی بار سوار ہوتے ہوئے ان کا یہ شعر ضرور دہراتا:
خاک چھنوا کے ہاتھ آتے ہو
نسخۂ کیمیا ہوتے ہو تم
***
(امان ذخیروی کی خودنوشت کا ایک حصہ)
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :آؤ فارسی سیکھیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے