تشنگان شعر و ادب کو سیراب کرتا "آبشار سخن"

تشنگان شعر و ادب کو سیراب کرتا "آبشار سخن"

محمد عشرت صغیر
محلہ باڑو زئی اول شاہجہاں پور 9648906342

شعر کی پاکیزگی کو بر قرار رکھنے کا ہنر ہر شاعر کے پاس نہیں ہوتا۔ روح کو تازگی بخشنے والے اشعار جب کسی شاعر کے ذہن سے مترشح ہو کر زمینِ قرطاس پر نمایاں ہوتے ہیں تو ان کی بقا کی ضمانت وہ ربط بنتا ہے جو قاری اور متن شعر کے درمیان قایم ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی اشعار پر مبنی مجموعہ ہائے کلام آبشار سخن سے عبارت ہیں۔
اس بار اس آبشار سخن کو اہل ذوق تک پہنچانے کا ذریعہ استاذ الشعرا مختار تلہری بنے ہیں۔ یہ پاکیزہ نام مختار تلہری کی غزلیات کے تازہ ترین آٹھویں مجموعے کا ہے۔ مختار تلہری کو اس آبشار سخن کے تقدس کا احساس یوں ہی نہیں، وہ سر ورق پر گویا ہیں:
حرف در حرف ہے وقار سخن
دل سے نکلا ہے آبشار سخن
مختار تلہری باقاعدہ مختار شعر و فن ہیں۔ ان کے یہاں جس طرح کا ستھرا شعری مذاق دیکھنے کو ملتا ہے اس کو روایت کی عظمت کہا جا سکتا ہے وہیں جدیدیت کی علم برداری بھی ان کے سرمایہ شعری کا جوہر خاص ہے۔
آبشار سخن سے قبل مختار تلہری کے سات شعری مجموعے جن میں ایک مجموعہ نعوت کا بھی ہے، منظر عام پر آ کر خراج تحسین حاصل کر چکے ہیں۔
شہباز قلم ان کا پہلا مجموعہ تھا جو سال ۱۹۹۷ کی طباعت ہے۔ اس کے بعد انھوں نے جو بھی فکر و فن کی گلکاریاں کیں، ان کو سال ۲۰۲۰ کے اخیر میں، تو یاد کر لینا مجھے، تو آنکھ بھر آئی، مجھے کچھ پتا نہیں اور حمد و نعت پر مشتمل صدائے حرم کو ایک ساتھ اہل ذوق کے حوالے کر دیا۔ مسلسل ریاضت سخن اور مساعی فکر شعر کا ثمرہ "آبشار سخن" کی شکل میں فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ کے جزوی مالی تعاون سے اشاعت پذیر ہونے کا شرف بھی مختار تلہری کو گذشتہ سال دسمبر ۲۰۲۲ میں حاصل ہوا۔ ایسا لگتا ہے موصوف کے لیے ماہِ دسمبر بڑا سازگار مہینہ ثابت ہوا ہے۔
مختار تلہری نے تقریباً ہر مروجہ و متداول زمانہ صنف سخن میں فن و فکر کے جوہر دکھائے ہیں، ان کے یہاں حمد و نعت اور منقبت کے بھی خوب صورت نمونے ملتے ہیں. وہیں پابند اور آزاد نظمیں بھی ان کے شعری اثاثے میں شامل ہیں. مگر جس سلسلے سے آپ کو نسبت ہے وہاں غزل کی شمعوں کو ایوان سخن میں زیادہ فروغ حاصل ہے۔ طبیعتاً وہ غزل کے شاعر ہیں۔ جہان مشاہدات و تجربات کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ آبشار سخن میں ان کی غزلیں قاری کو مطلع سے مقطع تک اپنے سحر میں لیے رہتی ہیں۔
ایک شاعر جس کے مطالعے میں متقدمین و متاخرین کا کلام رہا ہو اور جس نے اپنے مشاہدات و تجربات سے بہت کچھ کسب کیا ہو؛ ایسے شاعر کے یہاں مضامین کا تنوع ہونا لازمی ہے، اس میں کچھ مضامین روایتی انداز کے ہوتے ہیں تو کچھ میں شاعر اپنی ذہنی اختراع کا جوہر بھی دکھاتا ہے، اس آمیزش کو آبشار سخن کی غزلوں میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مختار تلہری اپنی غزلوں کے اشعار کی بنت کو بھی نہایت مشاقی سے دیدہ زیب بناتے ہیں۔انھوں نے غزل کو اپنے سینے سے لگا کر اس کو حوادث کی شکست و ریخت سے محفوظ رکھا ہے۔ اگرچہ وہ اس زمانے کے غزل گو ہیں جس میں جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کی رو نے عمارت غزل کو بہت حد تک متزلزل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن مختار تلہری نے غزل کے حسن اور اس کے مافی الضمیر کو بچانے کی حد درجہ کوشش و مساعی کی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اکیسویں صدی کے اس تیسرے دہے میں آبشار سخن کی غزلیں غزل کے سنجیدہ قاری کو مایوس نہیں ہونے دیتیں اور اس پر مختار تلہری کا کمال فن یہ ہے کہ ان میں فرسودگی کا احساس بھی نہیں ہونے پاتا۔ اپنے مطالعے کی دلیل میں آبشار سخن سے چند اشعار نذر قارئین کر رہا ہوں جن کو دعوے کی دلیل بھی تصور کیا جا سکتا ہے:
کبھی زخم زخم گننا کبھی سنگ سنگ چننا
یہی مشغلہ ہے میرا تری بزم سے نکل کر
اور غم بڑھ جائے گا اس کو کھلونے مت دکھا
جس کے گھر نورِ نظر لخت جگر کوئی نہیں
حالات کے میں جب سے شکنجے میں آ گیا
سارا غرور ڈھل کے پسینے میں آ گیا
دیکھو دیکھو کون آیا ہے
زینے سے کوئی اترا ہے
نوزائیدہ یہ چوزہ ہے
اڑنے کو پر تول رہا ہے
الغرض اس قبیل کے اشعار مختار تلہری کی غزلوں کا اساسی جزو ہیں۔ ان سے وہ چاہیں تو بھی گریز نہیں کر سکتے اور یہی ان کی مقبولیت و کامیابی کی دلیل ہے جس نے انھیں مختار سخن کا تاج امتیاز پہنا دیا ہے۔
مختار تلہری شعر نہیں کہتے بلکہ ریاضت کرنے والے شاعر ہیں۔ انھوں نے اپنی فکر کو عروج بخشنے میں جس قدر محنت اور لگن کا مظاہرہ کیا ہے وہ بلا شبہ انھیں آج استادی کے درجے پر فائز کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوا ہے۔ شعر اپنے آپ سے معرض وجود میں نہیں آتا اسے شعر بننے کے لیے ایک شاعر کے دست ہنر کا مرہون منت ہونا پڑتا ہے۔ شعر کو شعر کیسے بنایا جائے اس کا علم استاد فن کے پاس ہوتا ہے۔ مختار تلہری چونکہ خود استاذ الشعرا ہیں لہذا انھیں اس فن سے بہ خوبی واقفیت ہے۔ ایک سادہ سی بات کو بھی شعر کے پیکر میں ڈھال دینا جس کے بعد اس میں کسی طرح کی گنجائش باقی نہ رہے اور وہ صرف شعر کہلائے اسی کو سہل ممتنع کہتے ہیں اور مختار تلہری سہل ممتنع میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔ ایک سادہ ذہن قاری بھی شعر کی گرفت میں آ کر جھوم جھوم جاتا ہے۔ در حقیقت یہی استادی ہے۔
ہے جن سے مدتوں کا دوستانہ
وہ اب بھی چاہتے ہیں آزمانہ
مجھ کو روتا دیکھ کر وہ ہنس دیا
اور کچھ حالات بہتر ہو گئے
زندگی ایسے مسکرائی ہے
جیسے غم نے ہنسی اڑائی ہے
چھوڑو بھی تکرار کی باتیں
ان باتوں میں کیا رکھا ہے
جانور بھی تو محو حیرت ہیں
آدمی آدمی سے جلتا ہے
مری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیے تو
مجھے بھی ہے ضرورت روشنی کی
غزل کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ غزل لوچ دار صنف سخن ضرور ہے مگر کم زور صنف کسی حالت میں نہیں۔ اس کی نزاکت میں تلوار جیسی دھار پنہاں ہے۔ اس دھار کو سمجھنے والا ہی غزل کی استادی تک پہنچتا ہے۔ مختار تلہری اس دھار کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ اس کے نفیس استعمال کی مہارت بھی رکھتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ کوئی ایسا شعر کہتے ہی نہیں جو کند ہو تو غلط نہ ہوگا۔ ان اشعار کی آبشار سخن میں فراوانی ہے تا ہم جو راقم کے انتخاب میں آئے ہیں وہ پیش نظر کر رہا ہوں ملاحظہ کیجیے:
سونے چاندی کی دوکانیں دیکھ کر
مفلسی آنکھیں ہی ملتی رہ گئی
صرف مرہم سے نہیں ٹھیک یہ ہونے والا
زخم دل ہے اسے زہریلی ہوا دی جائے
خود رو لوگوں کو مار آتے ہو
اور نشانہ ہمیں بناتے ہو
بارہا ہم نے یہ اندازہ کیا
آپ کا دل آپ کے جیسا نہیں
یہ امیر شہر اپنا بیچ دیتے ہیں ضمیر
مفلسوں میں دیکھیے مل جائیں گے خوددار لوگ
فی زمانہ ملکیت پر غیر قابض ہو گئے
اور بے چارے ترستے رہ گئے حق دار لوگ
غزل کے مزاج سے ہم آہنگ ہو کر کہے گئے اشعار مختار تلہری کو اپنے ہم عصروں میں ممتاز و متمیز کرتے ہیں۔ استعارے کو شعر میں کیسے برتا جائے، تشبیہ کا بر محل استعمال کیسے ہو، مجاز و کنایہ سے کہاں استفادہ ہوگا اور پیکر تراشی کے حسن کی آمیزش کس مقام پر پھبے گی یہی کچھ رموز و نکات ہیں جن سے غزل کو غزل بنایا جاتا ہے۔ ان کے بنا کسی مجموعے میں شامل پانچ ہزار غزلیں بھی غزلوں کے زمرے میں نہیں آئیں گی۔ مختار تلہری ان اسرار و رموز کو بدرجہ اتم جانتے ہیں۔ اسی لیے انھیں غزل کی آبرو رکھنے کا ہنر آتا ہے۔
روشنی دے کر بھی سورج ہے قمر نا آشنا
جس طرح میں سیپ ہو کر ہوں گہر نا آشنا
طائر دل کے پر نوچ کر چھوڑ دے
یہ اک حادثہ ذہن پر چھوڑ دے
عجیب طرز کا نغمہ سنائی دیتا ہے
ہوائیں دیتی ہیں جب حاضری چٹانوں میں
احتیاطاً سائے بھی جسموں کے نیچے آ گئے
رفتہ رفتہ جب سروں پر آفتاب آ ہی گیا
ضبط کا پشتہ ابھی ٹوٹا نہیں
ابر غم چھایا تو ہے برسا نہیں
نکلے ہوئے زباں سے وہ الفاظ ہی تو تھے
جو گل بنے کہیں کہیں تلوار بن گئے
عرض کرتا چلوں کہ مقبولیت اور ممتازیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ شاعر اگر مقبول ہے تو یہ ضروری نہیں وہ ممتاز بھی ہو، اور جو ممتاز ہے اس کا دائرہ مقبولیت بہت وسیع ہو ایسا بھی نہیں۔ مختار تلہری یوں تو بہت سر گرم عمل شاعر ہیں اور ان کے چاہنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے، جس میں ان کے سینکڑوں کی تعداد میں شاگرد بھی شامل ہیں، مگر مختار تلہری کا نام ابھی اس جھوٹی چمک دمک سے مزین نہیں جسے عوام میں مقبولیت کا کہا جاتا ہے۔اس میں ان کی طبیعت کا دخل بھی ہے۔ نہایت سنجیدہ، شرع و ورع سے مملو اور محتاط طبیعت کے مالک ہیں۔ اس حقیقت کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ مختار تلہری نے اپنی شخصیت کے ہر پہلو کو بڑی مشاقی سے اپنی غزلیات میں چھپا کر پیش کر دیا ہے۔ ایک مقطع ان کی زندگی کی حقیقت کو بیان کرتا ہوا ملاحظہ فرمائی:
پردیس جا کے ہو گئے مختار کامیاب
جب تک نہ چھوڑا آپ نے گھر کچھ نہیں ہوا
ایک سچائی کے لیے مختار
شہر بھر سے مری لڑائی ہے
آسمانوں پہ اڑ رہا ہوں میں
اور زمیں پر بھی دیکھتا ہوں میں
اپنے بارے میں کیا کہوں مختار
بے خبر ہوں کہ آشنا ہوں میں
بہت ہشیار تھے یاران محفل
مگر مختار بھی نادان کب تھا
سن کے اشعار کہتے ہیں وہ
واہ مختار کیا بات ہے
شعر کا ربط قاری سے مضبوط کرنے کے لیے ایک شاعر کو بہت ہی چابک دستی سے اشعار کہنا پڑتے ہیں۔یعنی شعر کو ایک ایسا آئینہ بنا دینا ہوتا ہے جس میں دیکھنے والے کو اپنے خد و خال نظر آنے لگیں۔یہی آپ بیتی کو جگ بیتی یا جگ بیتی کو آپ بیتی بنا دینا کہلاتا ہے۔ مختار تلہری نے اپنی شاعری کو آئینہ کیا آئینہ رواں یعنی آبشار سخن بنا دیا، جو ہر طرح کے مکدرات سے پاک ہے۔ جس میں تشنگان ادب کو سیراب کر دینے کی اتھاہ قوت پنہاں ہے۔ شعر و ادب کے مطالعے کا ذوق بلیغ رکھنے والے ہر قاری کو اس آبشار سخن سے بہرہ ور ہونا باطن کو ایک الگ ہی طرح کی شستگی اور تازگی عطا کرے گا۔ آخر مختار تلہری کے اس شعر سے کون اتفاق نہیں کرے گا۔
اس کی باتوں کا گرویدہ یوں ہی نہیں ہوں اے مختار
اس کی ہر اک بات مجھے لگتی ہے اپنے دل کی بات
***

صاحب مضمون کا خود تعارف :
نام محمد عشرت صغیر
شاہ جہاں پور یو پی کا رہنے والا ہوں۔
شعبہ بنیادی تعلیم میں معاون مدرس کے طور پر تقرری ہے۔
اردو فارسی سے ڈبل ایم اے اور اردو سے نیٹ کوالیفائیڈ ہوں۔
شعر و ادب میں اپنی صلاحیت آزماتا رہتا ہوں۔
اردو اور فارسی زبان میں مشق سخن کرتا ہوں۔
اردو میں غزل اور رباعی پر تخصص کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔
آپ ان یہ نظم بھی پڑھ سکتے ہیں :لہرائے ترنگا شان سے۔۔.

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے