جے یار فرید قبول کرے

جے یار فرید قبول کرے

مظہر اقبال مظہر
Twitter@MIMazhar

پروفیسر ڈاکٹر عصمت اللہ شاہ گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور میں سرائیکی کے استاد ہیں۔ ان سے کچھ عرصہ قبل سماجی رابطے کی ایک مقبول ویب سائیٹ کے ذریعہ جُڑنے کا موقع ملا تو ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں سے آگاہی ملنے لگی۔ بہاولپور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عصمت اللہ شاہ نے حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ انھیں ماہر ِفریدیات بھی مانا جاتا ہے۔ حال ہی میں انھوں نے دیوانِ فرید سے منتخب کلام کو نہایت خوب صورتی سے اردو ترجمہ کے ساتھ ”رنگ ِفریدؒ" میں جمع کیا ہے۔ یہ کتاب اسلامیہ یونی ورسٹی بہاولپور نے شائع کی ہے۔ جب یہ کتاب منظرِ عام پر آئی تو میں نے اسے پڑھنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ازراہِ محبت اس کتاب کا برقی نسخہ بھیجا تو مُراد پوری ہوگئی اور پہلی ہی فُرصت میں پڑھ لی۔
رنگِ فرید کلامِ فریدؒ کا موضوعاتی انتخاب ہے۔ اسے بارہ مختلف موضوعات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ چونکہ سرائیکی ایک میٹھی زبان ہے، اس لیے اس کی مٹھاس اور گہرے پن کو ترجمہ کرتے ہوئے ملحوظِ خاطر رکھنا اشد ضروری ہے۔ مزید یہ کہ کلامِ فرید میں امیجری کا بہت زیادہ استعمال ہے. اس لیے اس کا صحیح ترجمہ سرائیکی زبان کی ثقافتی و لسانی روح سے شناسائی رکھنے والے کسی اہلِ زبان قلم کار کے قلم سے ہی ممکن ہے۔ ڈاکٹر عصمت اللہ نے کلامِ فرید ؒ کی سرائیکی زبان کو اردو ترجمہ میں ڈھالتے ہوئے شعوری کوشش سے اسے سادہ اور عام فہم رکھا ہے۔ ترجمہ کرتے ہوئے انھوں نے فکرِ فرید
کی عظمت اور کلام کی فصاحت و بلاغت کے معیار و وقار کو پیشِ نظر رکھا ہے۔
یہ محض شاعری ہی نہیں بلکہ ایک عظیم روحانی بزرگ کے روحانی سفر کی بازگشت ہے۔ اس میں بلندی ہی بلندی ہے۔ ولی عہد دربار حضرت خواجہ غلام فریدؒ خواجہ راول معین کوریجہ اسلامیہ یونی ورسٹی بہاولپور میں خواجہ غلام فریدؒ چیئر کے اعزازی سربراہ بھی ہیں۔ انھوں نے ”رنگِ فریدؒ" کے لیے لکھے گئے مختصر تعارف میں بیان کیا ہے کہ خواجہ غلام فرید نے زندگی اور عشقِ حقیقی کا وہ پیغامِ سرمدی دیا جو افراد کے ساتھ ساتھ اقوام کو منقلب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
خواجہ فریدؒ کا کلام کسی بھی زبان کے قاری کو دوسری دنیا میں لے جانے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ اس کے لغوی یا لسانی آہنگ کا کمال ہے کہ اس میں اوج و عظمتیں فن اور فطرت کا امتزاج معلوم ہوتی ہیں۔ یہ محض شاعری نہیں ہے۔ اس کلام میں بہت کچھ ہے۔ ایک مصفّا روح کی شرافت، نگاہِ بلیغ میں پوشیدہ رموزِحیات، اوجِ فصاحت و بلاغت، کمال منظر نگاری اور شوق و سرمستی کی آفاقی عکاسی۔ سوچ کی پاکیزگی اور انسانی جذبوں کا مدبرانہ استعمال۔
آسمانِ ادب پر خواجہ غلام فریدؒ کی صوفیانہ شاعری ایک روشن ستارے کی مانند ہے۔ ان کی شاعری کا اسلوب نفاست و متانت کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے۔ سرائیکی زبان میں لکھی گئی ان کی کافیاں تصوف، عشقِ حقیقی، کیف و مستی اور ذاتِ حق کے رنگ و آہنگ سے سجائی گئی ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد روشنی کا ایک ایسا ہالہ کھینچ لیتے ہیں جو مسحور کن ہی نہیں حیرت انگیز بھی ہے۔
کافی سرائیکی شاعری کی ایک مقبول صنف ہے جس میں ہئیت اور موضوع کے حوالے سے گہرا تنوع ملتا ہے۔ اسی اعتبار سے خواجہ فریدؒ کی کافیوں میں بھی کئی رنگ ملتے ہیں۔ اسے اولیاء اللہ کے ہاں ایک پسندیدہ ذریعہ اظہار کی وجہ سے بھی ایک منفرد مقام حاصل ہے،جنھوں نے اسے زیادہ تر صوفیانہ اور عشقیہ مضامین کے اظہار کے لیے استعمال کیا ہے۔سرائیکی میں صوفیانہ شاعری کے ذریعہ اظہار کے حوالے سے حضرت سچل سرمستؒ کے ہاں معرفت و عشق الٰہی جیسے معتبر موضوعات کے بعد حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی کافیوں میں تصوف کے علاوہ روایتی سرائیکی ثقافتی رنگ بھی ملتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سلسلہ طریقت و ربوبیت میں بے شمار ہستیاں اپنی مخصوص تربیت، سوچ، طرز فکر، نفسیاتی اور روحانی اٹھان، انداز حکمت اور ذہنی و قلبی میلان کی وجہ سے منفرد مقام رکھتے ہیں۔ یہ عوامل ان کی زبان دانی اور طرز تکلم پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے کہ کسی مصنف یا شاعر کا لکھنے کا ایک منفرد انداز ہوتا ہے اور مصنفین اور شاعروں کی شناخت ان کی لسانی پہچان کے نشانات کی بنیاد پر بھی کی جا سکتی ہے۔ مثلاً غالب، اقبال، ساغر، میر درد، میر تقی میر نے اظہار کے مختلف انداز اپنائے مگر ساتھ ساتھ برصغیر پاک و ہند کی ثقافت و سماج کو بھی اپنی شاعری میں سمو دیا۔
بلاشبہ تصوف کا مقصد اخلاقی تربیت کے ذریعے انسانی شخصیت کی تبدیلی ہے۔ خواجہ فریدؒ کے کلام میں قلب کی تبدیلی ایک دل چسپ پیرائے میں متشکل ہوتی ہے۔ وہ روح کی بالیدگی کے اظہار میں عمومی طور پر معنوی تانیثیت کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کی روح اپنے ابدی محبوب کی چاہت اور عشق میں بناؤ سنگھار کرتی ہے، جُھولے جھولتی ہے، زیور پہنتی ہے اور بن سنور کر رہتی ہے، مگر یہ سب استعارتاً ہوتا ہے۔ دراصل یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ خواجہ فریدؒ کا مقام بہ حیثیت صوفی شاعر زیادہ اونچا ہے یا بہ حیثیت ایک صاحبِ طریقت۔ وہ روحانی سفر میں نہ تو عاشقی اور محبوبیت کے مقبول عام کرداروں ہیر رانجھا میں ڈھلنا اپنا طریقِ عاشقی مانتے ہیں اور نہ ہی شاہ حسین کی مجذوبیت کے قریب سے گزرتے ہیں۔ بلکہ وہ ذات حق کی براہ راست پہچان و عرفان پر یقین رکھتے ہیں اور وہ عشق حقیقی کو ہی اپنا مرکز و محور سمجھتے ہیں۔۔ ان کے فنا فی اللہ ہونے کا ثبوت ان کی کئی کافیوں میں ملتا ہے۔
ڈاکٹر عصمت اللہ شاہ نے کلام ِفرید کو ابتدا میں جن موضوعات میں تقسیم کیا ہے وہ خالصتاً تصوف اور روحانیت کے اسرار و رموز کا احوال بیان کرتے ہیں۔ مثلاً پہلے تین موضوعات عشق الٰہی، عشق رسولؐ، اور عشق مرشد پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ذات حقیقی کی شناسائی اور پہچان میں لکھی گئی کلام فرید کی کافیاں ایک سراپا عشق تڑپتی مچلتی روح کا قصہ ہیں۔ خواجہ فرید ؒ کے سفر حجاز اور اس سے حاصل ہونے والی روحانی تسکین و مسرت جیسے موضوعات ایک خاص آہنگ لیے ہوئے ہیں۔ انھیں ارض مقدس میں پانی کا ہر قطرہ آب کوثر اور گرد و غبار مشک و عنبر لگتے ہیں۔
وہ اپنے مرشد حضرت فخرالدین کے لیے بھی رطب اللسان ہیں۔ رعنائی عشق کے میدان میں وہ خود کو بہت ادنا درجے پر سمجھتے ہیں۔ ان کے سامنے غوث، قطب اور راہ سلوک کے عظیم سالکوں کی مثالیں ہیں، اس لیے اپنے باطنی راز افشا کرنے کے بجائے رضائے الٰہی کو ہی اپنا نصب العین سمجھتے ہیں۔ ان کی مشہور ترین کافی میڈا عشق وی توں بھی اسی حصے میں ملتی ہے۔
میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی توں /میڈا دین وی توں، ایمان وی توں
میڈا جسم وی توں، میڈی روح وی توں / میڈا قلب وی توں، جِند جان وی تُوں
میڈا کعبہ، قبلہ، مسجد، منبر / مصحف تے قرآن وی تُوں
میڈے فرض، فریضے، حج زکاتاں /صوم، صلات، اذان وی توں
جے یار فرید قبول کرے / سرکار وی توں سلطان وی توں
نتاں کہتر، کمتر، احقر، ادنیٰ / لاشے لاامکان وی توں
رنگ فریدؒ کے دیگر منتخب موضوعات میں وحدت الوجود، عظمت انسان اور امید و رجائیت جیسے عنوانات شامل ہیں۔ ان موضوعات کے تحت روہی رنگ رنگیلی کے بے شمار رنگ ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک جانب جھوک، ریت، ٹوبھے، ٹیلے، پھوگ، ہریالی، سبزہ، دریا اور ندیاں، جیسے موضوعات سرائیکی وسیب کی خوب صورتی کے اظہار کے طور پر استعمال ہوئے ہیں اور دوسری جانب روایتی محبوب کی بے رُخی، ناز نخرے، عشوہ و غمزہ، کاجل، دنداسہ، سُرخی، مہندی، سُرمہ اور بالوں کی مانگ تک کو شاعرانہ انداز میں بڑے رچاؤ سے برتا ہے۔ ہجر و فراق، روہی کے موسم، وسیب سے جُڑی روایات، پُنل اور رانجھے کے قصے ایک عاشق کا تار تار دامن اور دکھوں سے چھلنی روح یہ سبھی جتن صرف اس لیے ہیں کہ سالکانِ راہ خدا کے سفرباطن کی منظر کشی ہو سکے۔ وہ محبوب حقیقی کی جدائی میں دنیوی زندگی کو ہجر و فراق کا کوہجا قصہ اور زندگی کو بوجھ سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر عصمت اللہ کی یہ کاوش کلامِ فرید کے آفاقی پیغام کو سمجھنے میں یوں مدد دیتی ہے کہ یہ اسے سرائیکی وسیب کے روایتی ریتیلے میدانوں اور سخت زمینوں سے باہر نکال کر اس کی سچائی، عالمگیر یت اور انسانیت کی بھلائی کے ارفع مقاصد کو ہر نسل و رنگ کے انسانوں تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔
چارے طرفوں زور پون دے
سارے جوڑ وساونڑ دے
***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:خالی چیک پر دستخط

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے