زندگی آئیڈیل ازم کا نام نہیں : محمد حسن الیاس

زندگی آئیڈیل ازم کا نام نہیں : محمد حسن الیاس

"غامدی سینٹر آف اسلامک لرننگ، امریکا‘‘ کے ڈائریکٹر محمد حسن الیاس سے علیزے نجف کی خصوصی ملاقات

سیکھنے کا عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے اس کو تحقیق و تجسس کے ذریعے پروان چڑھایا جاتا ہے، موجودہ دنیا کی یہ جدید ترقی یافتہ شکل اسی علمی تحقیق کا نتیجہ ہے، تحقیق و تفتیش کو ہم محض سائنسی شعبوں تک محدود نہیں کر سکتے. خدائی علم کے علاوہ ہر علم کو ہر دور میں تحقیق و تفتیش سے گزارنے کی ضرورت ہوتی ہے، بدقسمتی سے ہمارے یہاں مذہبی روایات پہ تحقیق کا رویہ ختم ہوتا جا رہا ہے. تقلیدی عناصر کے غلبے نے اکثر ذہنوں کو مسخ کردیا ہے، لیکن کہتے ہیں نا کہ ہر گھٹا ٹوپ تاریکی میں امید کی کوئی نہ کوئی کرن تلاشی جا سکتی ہے، بشرطیکہ عزم و ہمت کے ساتھ ظرف و ذہن بھی کشادہ ہوں، المورد ایک ایسا ہی ادارہ ہے جو سوچ کو ایک نیا زاویہ فراہم کر رہا ہے. بےشک بہتوں کو اس سے اختلاف ہو سکتا ہے، جو کہ فطری ہے، ہر انسان اپنے منفرد نظریے کی وکالت علمی و اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے کرنے کا اختیار رکھتا ہے. اختلاف کرنا کبھی غلط نہیں ہوتا، بشرطیکہ وہ تعمیری و تحقیقی نظریات کے تحت کیا جائے. مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب ہمارے اختلاف کی بنیاد دلیل نہیں بلکہ تنقیص ہوتی ہے۔
اس وقت میرے سامنے المورد سے وابستہ محمد حسن الیاس صاحب موجود ہیں، جو کہ جناب جاوید احمد غامدی کے تحقیقی معاون ہیں۔ اِس کے ساتھ وہ ’’غامدی سینٹر آف اسلامک لرننگ، امریکا‘‘ کے ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ کمیونیکیشن کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ میرے ہاتھوں میں سوالنامہ موجود ہے، جس میں ان کی ذات اور ان کے فکر و نظر پہ مبنی سوالات ہیں۔ محمد حسن الیاس صاحب ماہر تعلیم اور ریسرچر بھی ہیں. انھوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنے مشن کے لیے وقف کر دیا ہے. اس انٹرویو کے ذریعے ہم ان کی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں گے. 

علیزے نجف: اس انٹرویو کا آغاز میں آپ کے بنیادی تعارف سے کرنا چاہوں گی، آپ ہمیں خود سے اور اپنے خاندان سے متعارف کرائیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کا تعلق کس خطے سے ہے اور اس وقت آپ کہاں مقیم ہیں، غامدی صاحب سے کیا تعلق ہے؟
محمد حسن الیاس: میں ۱۹۸۸ء میں کراچی میں پیدا ہوا۔ میٹرک تک تعلیم کراچی ہی سے حاصل کی۔ کالج کی تعلیم اسلام آباد میں ہوئی۔ دین کا عالم بننے کا شوق تھا۔ چنانچہ اِس کے بعد مدرسے میں داخل ہوگیا۔ جامعہ الرشید کراچی میں چار سال اور پھر اسلام آباد میں جامعہ فریدیہ اور جامعہ محمدیہ میں مزید دو سال درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد استاذ مکرم جناب جاوید احمد غامدی کے پاس ملائشیا چلا گیا۔ جہاں جامعہ مدینۃ العالمیہ میں مزید چار سال عربی ادب میں آنرز کیا، کچھ عرصہ اِسی جامعہ میں پڑھایا بھی، اِس کے بعد ملائشیا کی جامعہ مارا سے ماسٹرز کا مقالہ لکھنے کا آغاز کیا ۔۹ سال ملائشیا میں قیام کے بعد استاذ مکرم ہی کے ہم راہ ۲۰۱۹ ء میں امریکا منتقل ہوگیا۔ استاذ مکرم جناب جاوید احمد غامدی صاحب سے پندرہ برس سے زائد علمی استفادے کا تعلق ہے۔ گذشتہ ۱۰ سال سے استاذ مکرم کے تحقیقی معاون اور خادم ہونے کے ساتھ ساتھ پہلے المورد عالمی اور اب غامدی سینٹر، امریکا میں شعبۂ علم و تحقیق کی ذمہ داری ہے، ساتھ ساتھ مختلف تحقیقی اور علمی پروجیکٹس میں مصروف عمل ہوں۔ رشتے میں غامدی صاحب سسر بھی ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں یہ تعلق قائم ہوا۔
خاندانی پس منظر یہ ہے کہ ہمارے والد کا تعلق پاکستان کے شمال مغربی صوبہ کے پہاڑی علاقے ہزارہ سے ہے۔ دادا جان مولانا اسحاق علوی نے ۱۹۴۰ء میں دارالعلوم دیوبند سے درس نظامی کی تکمیل کی، اُن کی فراغت کی سند پر اُن کے اساتذہ میں مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا محمد احمد مدنی، مولانا عبدالحق سرحدی اور مولانا اعزاز علی صاحب کےنام دیکھے۔ دادا جان کے والد مولانا اسمٰعیل بھی ہندستان جامعہ رحیمیہ کے فاضل اور آگرہ میں مقیم رہے، پھر سہارن پور میں تعلیم و تدریس میں مصروف ہوگئے۔دونوں بزرگوں کا تصوف اور عربی زبان سے گہرا تعلق رہا۔ دادا جان دیوبند سے پاکستان تشریف لے آئے اور پوری زندگی یہیں تعلیم و تعلم میں مصروف رہے۔ اُنھوں نے طویل عمر پائی۔ بچپن میں اُن کی صحبت میں کچھ وقت بھی گزرا۔ گاؤں میں جو ادارہ آپ کے والد گرامی نے قائم کیا تھا، اُس میں نہ صرف ہندستان، بلکہ مشرق وسطی، روس، ترکی اور دیگر ممالک کے طلبا بھی فنون کی تعلیم لینے آتے اور کئی برس اِس گاؤں میں گزارتے تھے۔
والدہ محترمہ مولانا یوسف بنوری علیہ الرحمہ کی نواسی اور مولانا محمد طاسین صاحب کی صاحب زادی ہیں۔ مولانا یوسف بنوری علامہ انور شاہ صاحب کشمیری کے شاگرد رشید تھے۔ دارالعلوم دیوبند اور جامعہ اسلامیہ ڈابھیل سے فارغ التحصیل ہوکر آپ پاکستان تشریف لے آئے، جہاں ۱۹۵۴ء میں دینی تعلیم کے اختصاص کا ایک ادارہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ (بنوری ٹاؤن) کے نام سے شروع کیا۔ آج دیوبندی نقطۂ نظر کا یہ پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ آپ تحریک ختم نبوت اور وفاق المدارس کے صدر بھی تھے، تصنیفی و تعلیمی خدمات میں ’’معارف السنن‘‘ آپ کے علمی مرتبے کا شاہ کار ہے. نانا جان مولانا محمد طاسین بھی جامعہ اسلامیہ ڈابھیل سے فارغ التحصیل اور مولانا بنوری کے اجل شاگرد ہونے کے ساتھ ساتھ دیوبند کی علمی روایت میں کھڑے اجتہادی بصیرت رکھنے والے ایک بلند پایہ محقق اور فاضل اسکالر تھے، آپ کا زیادہ تر کام اسلام اور معیشت پر ہے۔ اِس موضوع کی متعدد کتب آپ کی جانب سے سامنے آئیں۔ بچپن میں نانا جان کی صحبت میں بھی میرا وقت گزرا۔ لہٰذا دونوں جانب سے خاندان ایک دینی اور علمی پس منظر رکھتا ہے اور اِس خانوادے کے بیش تر لوگ آج بھی اِسی خدمت میں مصروف ہیں۔
علیزے نجف: آپ کا بنیادی تعلق پاکستان سے ہے، آپ کی ابتدائی عمر کا بیش تر حصہ وہیں  گزرا، پھر اس کے بعد آپ ملائشیا اور دیگر مغربی ممالک میں بھی رہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا مشرقی ممالک کے بچوں کو ملنے والا ماحول مغربی ممالک کے بچوں کو ملنے والے ماحول سے بہتر ہوتا ہے؟ اس ضمن میں مغربی ممالک کی وہ کون سی اعلا اقدار ہیں جو مشرقی ممالک میں نہیں پائی جاتیں؟
محمد حسن الیاس: مجھےجس حد تک اِن مختلف تہذیبوں کو دیکھنے کا موقع ملا ہے، اِس میں شبہ نہیں کہ اِس وقت پاکستان شدید اخلاقی انحطاط اور تہذیبی بحران میں مبتلا ہے۔ اِس خطے میں گذشتہ دو سو سال تخریب، تنازعات، ہیجان اور conflict کے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں ہمارا سماجی دھارا بکھر کر رہ گیا ہے۔ عظمت رفتہ کی بازیافت، استخلاص وطن کی تحریکیں، مذہبی ریاست کے بیانیے، سیاسی عدم استحکام، سول ملٹری کشمکش، معاشی تنگی، سیاسی انتشار اور خطے کی مجموعی صورت حال، اِن سب عناصر نے قوم کو نفسیاتی ابال، ہیجان اور برانگیختگی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اِس وجہ سے ہمارا علمی ورثہ، تہذیبی شناخت، زبان و ادب، آرٹ اور کلچر، زندگی، اُس کی حقیقتیں، اخلاقی اقدار و روایات اور تعلیم و تربیت، قومی دل چسپی کے موضوعات نہیں رہے۔ افراتفری کے ماحول میں سوچیں محدود، مقاصد مادی اور اہداف کمرشل ہو گئے ہیں۔ جن حلقوں نے قوم کی تعلیم اور تربیت کرنی تھی، وہی ایک حد تک اِن کے خاتمے کا سبب ہیں۔ یہی معاملہ ہمارے تعلیمی نظام کا ہے، جس کا نصب العین ایک باشعور انسان بنانا، جو اپنی بنیادوں سے واقف ہو، جس کا کوئی مقصد حیات ہو، جو قانون پسند ہو، جس کا کوئی world view ہو، یہ نہیں ہے، چنانچہ اِس ماحول میں اخلاقی اقدار کا نام لینے والا اِس معاشرے میں ناکامی کی علامت بن جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کے ہر ہر شعبے پر آپ کو اِس کے اثرات نظر آتے ہیں۔ دوا میں ملاوٹ سے لے کر غیبت کی قومی عادت تک، اِس میں شبہ نہیں کہ پاکستان ایک بیمار معاشرے کی علامت ہے۔ اِس کے برعکس ملائشیا میں بہت مختلف صورت حال ہے۔ پوری قوم ایک رخ پر محنت کرتی نظر آتی ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات اُن کے ہاں تہذیبی سطح پر اتنی گہری جڑیں رکھتی ہیں کہ اخلاقیات اب کلچر کا حصہ ہیں۔ شایستگی، تحمل، قانون کی پابندی، سلام میں پہل، قطار بنانا، صفائی، ادب و احترام اور دیگر اخلاقی اقدار وجودی حقیقت کے طور پر قومی رویے میں پیوست نظر آتی ہیں۔ اِس کی بنیادی وجہ اُن کے ہاں اِسی انتشار سے دوری، سیاسی استحکام اور اہل دانش اور لیڈر شپ کا تعلیم کو اہمیت دے کر قوم کا ایک رخ متعین کرنا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پوری قوم ایک ہی مذہبی تعبیر رکھتی ہے، اِسی طرح وہاں بادشاہت ہے، جس نے اِس قوم کی وحدت میں کردار ادا کیا ہے، لیکن سماج اگر پہلے سے اِن اخلاقی اقدار سے جڑا ہوا نہ ہو تو کوئی ایک پہلو اُسے اِس سطح تک بلند نہیں کر سکتا۔
تیسرا امریکا ہے۔ یہ معاشرہ انسانی تمدن کے ارتقا کا ایک معمل ہے۔ جمہوریت، بنیادی انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور حق خود ارادی۔ جان لاک کے روشن خیالی کے فلسفہ نے اِن اقدار کو ایک طرز حیات بنانے میں مدد کی۔ یہی آدرش اُن کے قومی میثاق پر اثر انداز ہوئے۔شخصی آزادی اور حریت فکر، یہ نظریات اِس سرزمین کی دستوری روایت کا جزو لا ینفک ہیں۔ کسی بھی سماج کو آگے بڑھانے میں یہی دو پہلو سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ امریکی معاشرہ اگرچہ اپنی بنت میں گہری مذہبیت رکھتا ہے، لیکن یہ واقعہ ہے کہ سماجی علوم کی تعلیم و ترویج نے معاشرے کے ہر ہر شعبے پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ معاشرہ آج بھی مسیحی اخلاقی اقدار میں گندھا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی جغرافیائی حدود سے باہر کی سماجی اخلاقیات سپر پاور کی نظر میں وہ نہیں ہوتیں جو اپنے گھر میں ہوتی ہیں، اِسی طرح سے حفظ فروج اور حفظ مراتب میں بے محابا آزادی بھی لبرل ازم اور پوسٹ ماڈرن ازم کے غیر اخلاقی کنٹری بیوشن ہیں، لیکن بنیادی اخلاقی اقدار، شخصی احترام، ناپ تول کی پابندی، قانون کی بالا دستی، سچائی کی قدر، دوسروں کے حقوق کا احترام اور تحفظ، حقیقت یہی ہے کہ ہم اِن سب میں اُن سے صدیوں پیچھے ہیں۔
علیزے نجف: آپ نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کہاں سے کیا اور کن کن اداروں سے آپ نے علم کا فیض حاصل کیا، آپ کا یہ تعلیمی سفر بہ طور دستاویز کہاں تک رہا اور اس سفر کو آپ نے کس طرح طے کیا؟
محمد حسن الیاس: تعلیم تو میں نے مروج اسکول، کالج، مدرسوں اور یونیورسٹیز میں حاصل کی. کراچی میں آغا خان اسکولنگ سسٹم کا ایک تعلیمی نیٹ ورک ہے۔ میٹرک تک وہاں پڑھا۔ اِس کے بعد کمپیوٹر سائنسز کی تعلیم حاصل کی اور اسلام آباد OPF کالج سے ICS کیا۔ یہ سب اگرچہ مدرسے میں جانے کی آرزو میں والد صاحب کی ایما پر ہوا۔ مدرسے میں تعلیم کا آغاز جامعہ الرشید سے کیا۔ دیوبندی روایت کا یہ بڑا ادارہ ہے۔ پھر اپنے خیالات کے ارتقا کے باعث چند اور اداروں میں پڑھتا رہا۔ اِسی طرح سے ملائشیا سے استاذ مکرم کی خواہش پر ایک جدید عالمی یونی ورسٹی جامعہ مدینۃ العالمیہ سے چار سال دوبارہ عربی ادب میں آنرز کی تعلیم حاصل کی۔ اِس وقت ماسٹرز کے مقالے کا آخری چیپٹر زیر تصنیف ہے۔ لیکن آپ کے اصل سوال کا جواب یہ ہے کہ حقیقی تعلیم میں نے اِن سب اداروں سے نکل کر اپنے استاذ کی خدمت میں آ کر حاصل کی۔
تعلیمی ادارے آپ کو بنیادی skills اور علم کی تاریخ کی ایک جھلک دکھاتے ہیں۔ حقیقی علم اُس وقت حاصل ہوتا ہے کہ جب آپ کسی موضوع پر assignment base مطالعہ کرتے ہیں ۔ اِس میں صحبت اصل ہے۔ جو کسی اہل علم کے زیر سایہ ہی ممکن ہے۔ وہ استدلال کی بنیادیں سمجھاتا ہے، معلومات کی تنقیح سکھاتا ہے، تجزیہ کے مراحل بتاتا ہے، اصولوں کے اطلاق میں تسلسل پیدا کرتاہے۔ یوں شب و روز آپ اُس کی تحقیقی روش کا مشاہدہ کرتے ہیں، تب جاکر کچھ بنیادی علم حاصل ہوتا ہے۔ میں خود کو اِس راہ کا بالکل ابتدائی مسافر ہی سمجھتا ہوں، تاہم جو دو لفظ سیکھے ہیں، وہ استاذ کی صحبت میں رہ کر عملی assignment حل کر کے ہی سیکھے ہیں۔
علیزے نجف: آپ ایک مذہبی اسکالر ہیں، آپ کی تعلیم کا موضوع مذہب رہا ہے، آپ نے پاکستان کے علاوہ ملائشیا میں بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہند و پاک کے دینی اداروں کے تعلیمی نصاب اور عرب ممالک کے تعلیمی نصاب میں آپ کیا واضح فرق محسوس کرتے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ ہند و پاک کے بیش تر تعلیمی ادارے عصری تقاضوں کے مدنظر نصاب پہ نظر ثانی کرنے سے گریزاں ہیں، اس کی وجہ سے ملت اسلامیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ مدارس کے طلبہ عصری شعبوں میں بنا اضافی جدو جہد کے آگے بڑھ نہیں سکتے، کیونکہ دونوں کا نصاب کافی حد تک متضاد ہے، اس عدم توازن کے بارے میں آپ کی راے کیا ہے؟
محمد حسن الیاس: اِس سوال کو میں تین پہلوؤں سے دیکھتا ہوں: ایک پہلو ہمہ گیر ہے۔ وہ عرب و عجم سب پر محیط ہے۔ وہ ہے تفقہ فی الدین کی روایت سے دور ہوجانا۔ مسلمانوں کی علمی تاریخ کی ابتدائی صدیاں بہت روشن اور زندہ نظر آتی ہیں۔ اُن میں مسلکی اور گروہی پابندیوں سے آزاد ہوکر غور و فکر کی رمق نظر آتی ہے۔ رفتہ رفتہ ہماری امت اِس منہاج سے دور ہوگئی۔ جس کا نتیجہ گروہوں کی عصبیت اور مسلکی شناخت کو ترجیح دینے کی صورت میں نمودار ہوا۔ مسالک کے بڑے لوگوں کے ساتھ ہیروشپ کا تصور لاحق ہوگیا، لہٰذا علم شخصیات کی تقلید میں محصور ہوا اور از سر نو تنقید و تحقیق، براہ راست غور و فکر اور قائم شدہ تصورات کی تنقیح کا علم کافی حد تک رک گیا، چنانچہ دین کی صوفیانہ تعبیر ہو، سلفی یا فقہی تعبیر ہو، اِن سب میں اللہ کی کتاب اصل کے مقام پر نہیں کھڑی۔ تصوف میں اصل ’’مشاہدہ‘‘، سلفی تعبیر میں اصل ’’روایت‘‘ اور فقہی تعبیر ’’اجماع‘‘ پر کھڑی ہوگئی۔ غور کیجیے تو یہ تینوں منہاج انسانی ہیں۔ خدا کے دین نے اگر قیامت تک relevant رہنا ہے تو خدا کے کلام کے علاوہ کسی چیز میں یہ صلاحیت نہیں، لیکن ہمارے علم نے اللہ کی کتاب کو یہ اہمیت نہیں دی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے علم کا سارا زور اپنی تعبیر منوانے پر ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اِن تعبیرات سے پیدا ہونے والی دینی فکر عصر حاضر سے اپنی مطابقت نہیں پیدا کر پاتی اور اُسے محض روایت کے زور پر منوانا چاہتی ہے۔
دوسرا پہلو اطلاقی ہے کہ علم کی تحصیل کیسے ہو؟برصغیر کے دینی مزاج میں تحفظ کی نفسیات ہے۔ یہ نفسیات بھی اگرچہ اپنا ایک فکری پس منظر رکھتی ہے کہ جب انگریزوں کے تسلط کے بعد یہاں کی مذہبی قیادت نے تعلیمی نظام کے مقابل میں اپنی میراث کو محفوظ کر کے آگے منتقل کرنے کی حکمت عملی اپنائی تو اِس کا ناگزیر تقاضا تھا کہ رجعت پسند ہوا جائے، علمی ماحول ماضی کے زیادہ قریب ہو اور اِس فکری ورثے کے تحفظ اور اُس میں ترمیم و اضافے اور رد و بدل سے دور رہا جائے، کیونکہ یہ راستہ ایک بار اگر کھل گیا تو رکنے والا نہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود اپنی روایت کے اندر جو وسعت اپنے تشکیلی دور میں نظر آتی ہے، اُس کو بھی گوارا نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب عالم عرب کی جامعات میں نصابات کی ازسر نو تدوین کے جو افادات سامنے آرہے تھے، اُن سے بھی نظریں چرائی گئیں۔خود بر صغیر کے بڑے علما اِس نقصان کا اندیشہ محسوس کر رہے تھے۔ آپ ابو الکلام آزاد کا لکھنؤ تعلیمی کمیٹی سے خطاب پڑھیں۔ اُنھوں نے درس نظامی کے نصاب کے حوالے سے علما کو یہی توجہ دلائی ہے۔ ایک خاص عہد کی بطلیموسی منطق کے زیر اثر لکھی جانے والی کتابیں نہ صرف یہ کہ فنون کا ذوق پیدا کرنے میں مزاحم ہیں، بلکہ موجودہ دور کے محاورہ اور اسالیب بیان سے بھی کوسوں دور ہیں۔ ابو الکلام کے الفاظ میں بادام کا چھلکا اتارنے میں طالب علم کو اتنا نڈھال کردیا جاتا کہ وہ اُس کا ذائقہ چکھنے کے ذوق ہی سے محروم ہوجاتا ہے۔ خود مولانا یوسف صاحب بنوری علیہ الرحمہ نے بڑی مشقت سے نحو کی ایک کتاب ’’شرح ابن عقیل‘‘ نصاب میں شامل کرائی۔ یہ بات درست ہے کہ ان مشکل کلاسیکی انداز کی کتابوں کو پڑھ کر دماغ direct method کے ذریعے سے عبارت اور تالیف جملہ کی نزاکتوں کو سمجھنے کی training پا لیتا ہے، لیکن یہ علوم کی تحصیل کا فطری ذوق پیدا نہیں کرتیں اور انسان انھی کو علم سمجھ لیتا ہے۔ اِسی طرح یہ بھی واقعہ ہے کہ درس نظامی کا نصاب ایک خاص عہد کی عدالتی اور قانونی ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے بنایا گیا ہے. اگر آپ آج کی جدید جامعات کے نصابات ہی سے اِس کا تقابل کرلیں تو یہ واقعہ ہے کہ خود علما یہ ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ اِس میں بڑی تبدیلیوں کی گنجایش ہے۔
تیسرا پہلو انسانی ہے، اِس دنیا کی تخلیقی اسکیم میں خدا تعالیٰ نے ہر انسان کو متنوع صلاحیتیں دے کر پیدا کیا ہے۔ دین کا عالم بننے کی صلاحیت بھی انسان لے کر پیدا ہوتا ہے۔ پھر دین کا علم ایک سائنس کا اختصاص ہے۔ اُسی طرح جیسے طب اور ہندسہ کا علم ہے۔ کس انسان میں دین کا عالم بننے کی صلاحیت ہے؟ یہ فیصلہ شعور کی سطح پر جا کر اُس وقت ہوتا ہے جب انسان کو اپنی شخصیت اور زمانے کی پہچان ہوجائے۔ یہ اطلاع بارہ سال کی بنیادی تعلیم کے بعد ہوتی ہے۔ جب آپ کو زبان کا بنیادی علم حاصل ہوتا ہے، اِسی کے ذریعے سے علوم کا تعارف پیدا ہوتا ہے، تب جا کر آپ کی ذات میں موجود صلاحیت اور فطری انسیت ایک شعوری انتخاب میں ڈھلتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اِسی کے بعد طب اور دیگر مہارتوں کا اختصاص کیا جاتا ہے، جب کہ مذہبی مدارس میں پانچ سال کے بچے کو آپ اپنی خواہش سے عالم بنانا چاہتے ہیں، یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ ایک طفل کے ہاتھ میں نشتر پکڑا کر اسے سرجن بنانے کا آغاز کردیں۔ ہمارے ہاں یہی ہوا ہے۔ لہٰذا اُس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ انسان جسے اللہ نے ہنرمند پیدا کیا تھا، وہ شاعر تھا، حکیم تھا، مہندس تھا، آپ نے اُسے دین کا عالم بنا دیا۔ اِس سے خود دین کے علم کا جو نقصان ہوا، علما اور معاشرے میں فاصلے پیدا ہوئے، اب اِس خلیج کو پاٹنے کے لیے آپ اُن مولوی صاحبان کو کمپیوٹر اور انگریزی سکھا کر عصری تقاضوں سے جوڑنا چاہتے ہیں، یہ ایسے ہی ہے کہ آدمی کے سر میں درد ہو اور اُس کی ٹانگ کاٹ دی جائے۔ دین کا عالم دینی علوم ہی میں اختصاص پیدا کرے گا، وہ عالم ہونے کے ساتھ ساتھ طب، سائنس اور دیگر علوم کا ماہر نہیں ہوگا۔ لیکن اگر وہ اپنے شعور سے دین کا عالم بنے گا تو زندگی کے ہر شعبے میں دین کی relevance کو تلاش کرنے کا عمل کر سکے گا۔ اِسی سے وہ سوسائٹی میں اجنبی نہیں ہوگا۔
علیزے نجف: میرے علم کے مطابق آپ کا شجرۂ نسب خواہ والد کی طرف سے ہو یا والدہ کی طرف سے، دونوں ہی کی طرف سے اعلا علمی شخصیات سے جا ملتا ہے، اس طرح سے بہت کچھ آپ کو ورثے میں ملا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس طرح کا علمی ورثہ کسی فرد کی زندگی میں کیا کردار ادا کرتا ہے۔ عام خاندان میں پیدا ہونے والا انسان ان سے کس طرح مختلف ہوتا ہے؟
محمد حسن الیاس: یقیناً، اثر ڈالتا ہے۔ ہمارے ہاں اگرچہ اِس اثر کو منفی انداز میں لیا جاتا ہے اور علمی موروثیت کو ایک گالی بنا دیا گیا ہے، لیکن یہ واقعہ ہے کہ آپ کے آبا و اجداد کی روایات اور اُن کی صحبت، معاشرے میں اُن کی شناخت، آپ کے تصور حیات، اخلاقی پرداخت، معاملات میں تدبر اور بڑے اہداف متعین کرنے سے لے کر شخصیت سازی کے ہر ہر پہلو پر اثرانداز ہوتی ہے۔ بڑے لوگ دراصل اپنے خیالات کو سب سے پہلے اپنی اولادوں ہی میں مجسم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اولاد نا اہل ہو تو پیغمبر بھی اُن پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ ہمارے ہاں سیاست سے لے کر وکالت تک اور طب سے لے کر تجارت تک ہر ہر شعبے میں آپ کو اِس میراث کے مثبت اثرات نظر آئیں گے۔ ایک عام انسان کی نسبت یہاں مراحل فطری طور پر جلدی طے ہوتے ہیں۔ قومی منظر نامہ پر آنے میں وہ مزاحمتیں نہیں ہوتیں، اِس طرح یہ نظریات کے استحکام کا باعث بنتی ہیں۔
ہمارے ہاں خرابی یہاں سے پیدا ہوتی ہے کہ جب نا اہلی کو موروثیت کے نقاب میں چھپا کر تقاضا کیا جاتا ہے کہ زمانہ اُسے قبول کرے، ورنہ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے استحکام کے لیے یہ ایک نعمت سے کم نہیں۔ مغرب نے، البتہ یہ کیا ہے کہ بڑے لوگوں کی بصیرت کو collective wisdom میں ڈھالا ہے، بڑے لوگوں کو اچھے ادارے replace کرتے ہیں۔ تعلیمی شعور نے اِس کام کو تیز کیا ہے۔ تاہم یہ فطری تقاضا آپ کو وہاں بھی نظر آتا ہے کہ چند بڑے خاندان ہی بہرکیف سیاست اور معیشت پر اثر انداز ہوتے ہیں. بس وہاں لوگوں کے سامنے آنے کے عمل میں سماجی حرکیات کی تائید، ہماری نسبت تیز ہے۔ نئے خانوادے جلدی پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن موروثیت ہی اِن نظریات کی legacy کو آگے بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔
علیزے نجف: آپ معروف و مایۂ ناز مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی صاحب سے از حد متاثر ہیں، آپ ان کے مشن میں ان کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہوئے ہیں۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک وقت تھا جب آپ غامدی صاحب کے نقطۂ نظر پر برملا تنقید کرتے تھے۔ کیا یہ صحیح ہے؟ پھر ایسا کیا ہوا کہ آپ نے صرف تنقید ہی نہیں چھوڑی، بلکہ ان کی شاگردی بھی اختیار کر لی اور آج آپ اپنے اس پچھلے تنقیدی رویے کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
محمد حسن الیاس: غامدی صاحب کی جن چیزوں نے ہمیں پرانی راہوں سے جدا کیا، وہ تین ہیں:
ایک علمی رویہ،
دوسرے اخلاقی بلندی،
تیسرے تلاش حق کی جستجو۔
علمی رویہ دراصل آپ کو یہ بتاتا ہے کہ جذبات اور قائم شدہ تصورات سے اوپر اٹھ کر استدلال کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ اُنھوں نے یہ کام ماضی کی پوری علمی روایت پر کر کے بتا دیا کہ روایت کی بناے استدلال کیا ہے اور اِس کے مقابل میں فراہی مکتب فکر کہاں کھڑا ہے، یہی اصل علم ہے کہ آپ کے پاس جو کچھ معلومات کے انبار ہیں، جو کچھ گہری اور پرانی روایات ہیں، جتنی بھی بڑی شخصیات زیر بحث ہیں، اُن کے نتائج فکر اور اثرات سے آنکھیں بند کر کے اُن کی اصل دریافت کی جائے اور اُس کا بے رحمانہ تجزیہ کیا جائے۔پھر علمی رویہ سکھاتا ہے کہ تحصیل علم کے مراحل کیا ہیں۔ اِس سے غور و فکر کے کچھ ایسے اصول جنم لیتے ہیں جن کی بنیاد علم و عقل کے مسلمات پر ہوتی ہے۔باقی عمارت پھر اِنھی پر کھڑی ہوتی ہے۔ جہاں ہر ہر اطلاق اصول کی اِسی جڑ سے پھوٹتا ہے۔ ایسے ایک منظم اور مربوط نظام فکر پیدا ہوتا ہے، چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ غامدی صاحب نے اس ضمن میں ایک نئی دنیا پیدا کی ہے اور وہ قائم شدہ تصورات کی تنقیح اور استدلال کے تجزیہ کی دنیا ہے۔ اِسی کو میں علمی رویہ کہتا ہوں۔
دوسری چیز اُن کی اخلاقی بلندی ہے۔ غامدی صاحب کے اِس پہلو کا اُن کے ناقدین اور مخالفین بھی اقرار کرتے ہیں۔ اُن کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔آدمی محض علم سے بڑا نہیں بنتا۔ اِس علم کو اُس کی شخصیت کا حصہ بننا ہوتا ہے۔ اختلاف راے کیسے کیا جاتا ہے، دنیا کو غامدی صاحب نے سکھایا۔ مجھ سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ نے اتنا وقت دین کے ایک بڑے عالم کے ساتھ گزارا کسی کرامت کا ظہور دیکھا؟ تو میں عرض کرتا ہوں کہ جی ہاں، بالکل دیکھا، اور وہ کرامت یہ ہے کہ ایک شخص جو گھر کے باہر ہے، وہی گھر کے اندر ہے۔ میں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے اُن کی خدمت پر مامور ہوں، مالی امور سے لے کر اُن کے شخصی معاملات تک، سفر و حضر کا امین رہا، خلوت و جلوت کا ساتھی ہوں، اندر و باہر سے واقف ہوں. کسی اور شخص کے بارے میں شاید یہ دعویٰ نہیں کرسکتا ہے، لیکن غامدی صاحب کے بارے میں پورے اعتماد، یقین اور اذعان سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اخلاق کے اعلا ترین مقام پر فائز ہیں۔ جب کبھی اُنھیں کسی مشتبہ معاملے میں اپنے رویہ کی تعیین کرنی ہو تو انھوں نے ہمیشہ اپنے لیے عزیمت کا راستہ ہی اختیار کیا ہے۔
تیسری چیز اُن کی تلاش حق کی جستجو ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جو اُنھیں زندہ رکھتا ہے۔ ہر ایک سے سیکھنے کی خواہش۔ ہمیشہ اپنی آرا پر نظر ثانی کا جذبہ۔ آپ رات دو بجے بھی دروازہ کھٹکھٹا کر اُنھیں نیند سے جگا کر کہہ دیں کہ میں آپ کی فلاں علمی راے کی غلطی واضح کرنے آیا ہوں تو آپ شاید اُن کی سرشاری کا اندازہ نہ لگا سکیں۔ آپ اُن کی مجلس میں کبھی خود کو چھوٹا محسوس نہیں کریں گے۔ ہر ہر لمحہ اُن کی زندگی کا اِسی میں بسر ہوتا ہے کہ اپنی علمی، فکری اصلاح جاری رہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آپ کو اُن کی آرا کی تبدیلی بھی نظر آتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو پیغام دیتا ہے کہ یہ شخص کسی نئے فرقے کا بانی نہیں، بلکہ سچائی کا ایک ’’طالب علم‘‘ ہے۔
علیزے نجف: کہتے ہیں اختلاف رحمت ہے، بشرطیکہ اس کے ساتھ احترام بھی پایا جاتا ہو۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کی جو حیثیت ہے، ظاہر ہے اس کی وجہ سے حکومتیں بہ آسانی ان پر دہشت گردی کا لیبل لگا دیتی ہیں، ۹/۱۱ کے حادثے نے اس پر مہر لگادی۔ میرا سوال یہ ہے کہ مسلمان قوم کو کس طرح اپنے آپسی اختلافات کو مینیج کر کے خالص قرآن کی تعلیمات کو دوسری اقوام تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ اسلام سے متعلق ان کی غلط فہمی دور کی جا سکے۔ کیا ’’المورد‘‘ کا ادارہ اس کے لیے کوئی لائحۂ عمل رکھتا ہے؟
محمد حسن الیاس: ’’المورد‘‘ کی تحریک کا لائحۂ عمل استاذ مکرم جناب جاوید احمد غامدی کے قلم سے ۱۹۸۳ء میں لکھا گیا تھا۔ یہی وہ مقاصد ہیں جو اُن کے رسالے ’’اشراق‘‘ میں ہر ماہ شائع ہوتے ہیں۔ اُن کے مطابق ادارے کی تاسیس کے بنیادی مقاصد میں یہ چیز شامل ہے کہ امت میں قرآن و سنت کی بنیاد پر تفقہ فی الدین کی روایت کی تجدید کی جائے، جیسے ہی آپ دین کو فقہ، کلام، تصوف، تاریخ اور فلسفے کی آمیزش سے الگ کر کے پیش کرتے ہیں تو وہ سارے دینی مسائل جو مذہبی فکر اور بعض دینی سیاسی تحریکوں نے پیدا کر دیے ہیں، آپ سے آپ ختم ہوجاتے ہیں۔ اِس مقصد کے لیے خود غامدی صاحب نے کم و بیش پچاس سال اور فکر فراہی اور دبستان شبلی کی روایت نے ایک صدی سے زیادہ عرصہ صرف کیا اور دین کی وہ تعبیر پیش کی ہے جس میں اصل اور منہاج کی حیثیت قرآن مجید کو حاصل ہے۔یہی دینی فکر دراصل ان تمام مسائل کا جواب بھی ہے جن کی جانب آپ نے اشارہ کیا۔ ہمیں حالات سے متاثر ہو کر کسی بیانیہ کو رد کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔صحیح دین کو لوگوں کے سامنے رکھ دیں، سارے مسائل اسی سے حل ہو جائیں گے۔ ادارے کی سطح پر ہماری کوشش ہے کہ غامدی صاحب کے اِس فکر کو جدید عہد کے تقاضوں کے مطابق نہ صرف یہ کہ دنیا تک پہنچائیں، بلکہ خود اِس فکر کی تنقیح کا کام جاری رہے تاکہ جس مقصد کے لیے یہ ادارہ بنا ہے، وہ خود سے اِس کا شکار نہ ہوجائے۔
علیزے نجف: ہر معاشرے کی اپنی تہذیب و ثقافت ہوتی ہے، اسی طرح مغرب و مشرق کی بھی ہے جو کہ ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں۔ ہمارے یہاں مغربی تہذیب کو برملا لعن طعن کیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے باوجود لوگ اس کو اپنا رہے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے ان دونوں معاشرتی تہذیبوں کو قریب سے دیکھا ہے، کیا واقعی مغربی تہذیب اخلاقیات سے عاری ہے اور لوگوں کی اس نفرت کے پیچھے کس طرح کی ذہنیت کارفرما ہے، آپ ان دونوں میں کیا کچھ مماثلت پاتے ہیں؟
محمد حسن الیاس: ہمارے ہاں مغرب سے نفرت کی اصل وجہ مغربی تہذیب کا براہ راست مطالعہ نہیں، بلکہ یہ مغربی طاقتوں کے سیاسی اقدامات کا ردعمل ہے۔ آپ جانتی ہیں کہ مغرب ہی کی یہ طاقتیں دوسری جنگ عظیم کی فاتح ہیں۔ اقوام متحدہ میں اِن فاتحین کو ایک قاعدہ میں لا کر کچھ پابند تو کیا گیا ہے، لیکن اب بھی دنیا کا نظم دراصل انھی کے ہاتھ میں ہے۔ سرمایہ بھی، ٹیکنالوجی بھی اور سیاسی برتری بھی۔ دنیا کی وہ امامت جو صدیوں مسلمانوں کے پاس رہی ہے، اب ان کے پاس ہے۔ اب یہ فاتح عالم ہیں، اِن طاقتوں نے ہمیں نیم خود مختاری یا کسی حد تک آزادی دی ہوئی ہے۔ اصلاً دنیا اِنھی کی باج گزار ہے۔ یہ اپنی طاقت سے ہم پر ہر ہر پہلو سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ کوئی سیاسی لیڈر یا جماعت اِن کی اِس حیثیت کوچیلنج کرتی ہے تو یہ اُسے سبق بھی سکھاتے ہیں۔ چنانچہ اِن کا ایک عالمی چہرہ ہے جس سے مسلمان بالعموم نفرت کرتے ہیں۔ لیکن مغرب کو یہ امامت ایسے ہی ایک دن میں حاصل نہیں ہوئی۔اُنھیں یہ ترقی صدیوں کی محنت سے ملی ہے۔ اُن کی ترقی کی دو بنیادیں ہیں: پہلی سماجی علوم میں ترقی، دوسری سائنس اور ٹیکنالوجی میں برتری۔ ریاست اور مذہب کا تعلق، جمہوریت کی قدر، قانون کی حکمرانی، حق خود ارادی اور بنیادی انسانی حقوق، اِس تہذہب کا ہر گوشہ اِن اقدار میں پروان چڑھا ہے۔ اِسی طرح سے انڈسٹریل ریوولوشن نے اِنھیں وہ راہیں دکھائیں جس سے یہ واقعہ ہے کہ انسان کہتا ہے، محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔ ہمیں اُن سے اِن دونوں پہلوؤں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام کے حقیقی اثر سے جو تہذیب پیدا ہوتی ہے اُس کا مغربی تہذیب سے موازنہ کیا جائے تو ہماری تہذیب حفظ فروج، حفظ مراتب اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے جو تصورات پیش کرتی ہے، مغربی فکر جوہری لحاظ سے اُنھیں تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ وہاں آزادی اصل قدر ہے، جب کہ ہماری دینی تہذیب کی بنیاد ’’خدا کے سامنے جھکنے‘‘ پر ہے۔
علیزے نجف: آپ Theology Researcher ہیں، آپ نے مذہب کو ہر زاویے سے پڑھا اور سمجھا ہے، ہمارے یہاں ایک طبقہ ایسا ہے جو قرآن کے ذریعے سے سائنس کی تشریح کرتا ہے اور ایک طبقہ وہ ہے جو سائنس کی شدید مخالفت کرتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ان دونوں طبقوں کے بارے میں آپ کی راے کیا ہے؟ کیا قرآن اور سائنس دو الگ الگ علم ہیں یا ان دونوں میں واقعی کوئی ربط ہے؟
محمد حسن الیاس: کسی بھی علم کا دوسرے علم سے تقابل دو پہلوؤں سے اُس وقت کیا جاتا ہے، پہلا، جب دونوں کی بناے ثبوت یکساں ہو۔ دوسرے، دونوں کا موضوع مشترک ہو، یعنی دونوں ایک ہی سوال کا جواب دے رہے ہوں۔
علم کی بنیاد کیا ہے؟ ثبوت کے اعتبار سے دیکھیں تو دنیا میں علم کے متعین ذرائع ہیں۔ میرے حواس کے ظاہری اور باطنی حاصلات اور عقلی استنباط کے نتائج۔ اِنھی سے تجربہ و مشاہدہ ہوتا ہے۔ انھی سے استنباط و استقرا کا عمل جنم لیتا ہے۔ سائنس کی بنیاد اِن ذرائع پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مذہب بھی میرے تجربے، مشاہدے یا عقلی استنباط کے نتائج سے وجود پذیر ہوتا ہے تو سائنس کے ساتھ اُس کا تقابل بنتا ہے۔ لیکن مذہب کا ثبوت تو اِن سب ذرائع علم سے ماورا پیغمبر کو آنے والی وحی پر ہے، تو یہ ایک علاحدہ ذریعۂ علم ہے۔ میں مسلمان ہوتا ہوں تو پیغمبر کی گواہی پر کتاب، فرشتوں، خدا اور آخرت پر ایمان لاتا ہوں۔ پیغمبر کا یہ دعویٰ اگرچہ میری فطرت کی آواز ہے، میرے عقلی سوالوں کا جواب ہے، لیکن اِس کا ذریعہ ’’وحی‘‘ ہے۔ لہٰذا سائنس اور مذہب، دونوں کی بناے ثبوت ہی الگ ہے تو تقابل کیسا؟
اب آئیے موضوع پر. سائنس کا موضوع ہے زندگی، اُس میں سہولت، جب کہ مذہب کا موضوع ہے موت، اُس کی تیاری۔ دونوں جوابات ہی الگ الگ سوالوں کے دے رہے ہیں۔ لہٰذا جو لوگ سائنس کو مذہب کے مقابلے میں کھڑا کرتے ہیں اور جو اِس سے مذہب کی تائید کرتے ہیں، دونوں ہی غیر علمی رویہ اپنا تے ہیں۔
علیزے نجف: آپ جاوید احمد غامدی صاحب کے قائم کردہ ادارہ ’’المورد‘‘ سے وابستہ ہیں، مجھے یہ بتائیں المورد کی شاخیں دنیا میں کہاں کہاں قائم ہو چکی ہیں۔ المورد کی خدمات کی نوعیت کیا ہے، انڈیا میں المورد کی شاخ کا قیام کب عمل میں آیا اور یہاں سے ملنے والا رسپانس کیسا رہا، اس حوالے سے ہمارے قارئین کو تھوڑی آگہی دیں؟
محمد حسن الیاس: ’’المورد‘‘ کی تاسیس کا مقصد دین میں قرآن و سنت کی بنیاد پر غور و فکر اور اُس کی صحیح تعبیر پیش کرنا ہے۔ اِس پیغام کا آغاز اردو زبان میں پاکستان سے کم و بیش چالیس سال پہلے ہوا تھا۔صدیوں سے قائم تصورات کے مقابل میں ایک علاحدہ دینی فکر پیش کرنا کوئی آسان کام نہیں، جب کہ خود اِس کی اپنی دینی فکر کی تنقیح کا عمل ابھی جاری ہو۔ یہ ادارہ اپنے محدود وسائل میں اِس دعوت کو دنیا تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جدید مواصلاتی رابطوں کے باعث بیرون ملک مقیم اردو پڑھنے اور جاننے والے احباب نے بھی اِس تحریک سے تعلق کا اظہار کرنا شروع کیا ہے۔ چنانچہ اُنھی کی کوششوں سے پاکستان کے بعد برطانیہ، آسٹریلیا، جرمنی، امریکا، کینیڈا اور ہندستان میں باقاعدہ ادارہ قائم ہے۔ ادارے نے بے شمار کتابیں شائع کیں، غامدی صاحب کی فکر کو سمجھنے والے علما پیدا کیے. یہ سب ادارے اِنھی عام لوگوں کی محبت اور محنت کا ثمر ہیں اور اپنے نہایت محدود وسائل میں علم و تحقیق اور نشر و اشاعت میں سرگرم ہیں۔
جہاں تک بات ہے اداروں کی ترقی کی، تو اِس ضمن میں دو باتیں عرض ہیں: یہ بات یاد رکھیں کہ ادارے عمارتوں اور سرمائے سے نہیں بنتے، بلکہ افراد سے بنتے ہیں۔ جو تحریک اِن افراد کی متنوع شخصیات اور صلاحیتوں کو لے کر چلنے کا مزاج پیدا کر لے، وہ استحکام پا لیتی ہے، اور جو تحریک لوگوں کی شخصی آزادی اور ذوق اور مزاج کو تبدیل کر کے اُنھیں فکری روبوٹس بنانے کا عزم کر لے، دنیا کی ساری طاقت اور سب سرمایہ بھی اُسے استحکام نہیں بخش سکتا ہے۔ مغرب میں جا کر دیکھیں جہاں ہر علم و فن کے بڑے ادارے موجود ہیں، وہاں یہ فضا ہے۔ تخلیقی ذہن اپنی صلاحتیوں کے ظہور کے لیے صرف اور صرف آزادی چاہتا ہے۔ اداروں کی ترقی کا دوسرا پہلو روح عصر کو پہچاننے میں ہے۔ جو ادارے اپنے زمانے کی حرکیات اور trends سے لاتعلق ہو کر کام کرنا چاہیں گے، اُن کی تمام محنت دھول کی طرح بیٹھ جائے گی۔ لیکن اگر آپ نے اپنے زمانے کی طاقت اور tools کو پہچان لیا اور اُس کے مطابق منصوبہ بندی کی تو نئی دنیا کی روشن راہیں آپ کی منتطر ہوں گی۔ اِن معاملات میں ہماری تحریک کو ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
تاہم اِس سب کے باوجود زمانہ بڑا صراف ہے، وہ کھوٹے کو تو قبول کرتا نہیں، کھرے کو بھی بڑی مشکل سے کرتا ہے۔ چنانچہ اِس ادارے کا ابتدا سے تقابل کیا جائے تو یہ کہنے میں حرج نہیں کہ اس وقت ہر دینی فکر اِس کے پیغام کا جواب دینے میں مشغول ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ فکر اُن کے منہاج پر کچھ بنیادی ضرب لگاتی ہے۔ باقی اِس کے اثرات اُس درجے کے ہوں جو بقیہ روایات کے ہیں، اِس میں ابھی بہت وقت لگے گا۔
علیزے نجف: آپ ایک ایجوکیشنسٹ بھی ہیں، اس حوالے سے آپ نے اب تک کئی تجدیدی کام کیے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ اس سلسلے میں آپ اپنی اب تک کی گئی تجدیدی عمل کی کوششوں کے بارے میں بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ اس حوالے سے مستقبل میں کیا ہدف رکھتے ہیں؟
محمد حسن الیاس: اللہ تعالیٰ کا مجھ پر اِس پہلو سے خاص کرم ہے کہ اپنی طالب علمی کی اِس مختصر سی ابتدائی زندگی میں بڑے لوگوں کی صحبت میسر ہے۔ اِن بڑے لوگوں کو دیکھ کر دو باتیں پہلے دن پلے باندھ لی تھیں: پہلی یہ کہ اپنے آپ کو پہچانو، اپنی صلاحیت کا جائزہ لو۔ دوسری، روح عصر کو سمجھو۔ اِنھی دو چیزوں کو سامنے رکھ کر میری گذشتہ چند سالوں میں یہ کوشش رہی ہے کہ فکر فراہی کی ہر ہر پہلو سے توضیح خود اِس فکر کے بڑے علما کے ذریعے سے ہو۔ اِس ضمن میں استاذ مکرم جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے ساتھ سیکڑوں گھنٹوں پر محیط تحقیقی اور علمی مکالموں کے سلسلے کا آغاز کیا اور اُن کے علم کو محفوظ بنانے، اُن پر ہونے والے اعتراضات کے پس منظر میں اُن کے ذہنی سفر کی تحلیل، اِسی طرح بڑے سماجی اور معاشرتی مسائل، عالمی تنازعات، انسانی شخصیت، تہذیبوں کے عروج و زوال، غرض یہ کہ ہر ہر پہلو سے استاذ مکرم کے علم کا ایک ایسا ذخیرہ مرتب کیا جس سے ان شاء اللہ لوگ صدیوں استفادہ کریں گے۔ یہی معاملہ اُن کی نگرانی میں حدیث پر تحقیق کا ہے۔ اِسی طرح سے زمانے کے بدلتے حالات کی روشنی میں فکر کو جدید اسٹائل، مثلاً اینی میشنز، ڈاکیو منٹری میں پہنچانے کی کوششوں کا بھی آغاز کیا ہے، جہاں خالص فنی مسائل کو بھی تفریحی اسلوب میں عام آدمی کی تفہیم کی صورت دینا پیش نظر ہے۔
علیزے نجف: تعلیم کے حوالے سے ایک سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں تعلیم یافتہ طلبا کی تعداد تو روز بروز بڑھ رہی ہے، لیکن تربیت کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ اب تعلیم ایک اچھا انسان بننے کے لیے نہیں، بلکہ ایک اچھی جاب پانے کے لیے حاصل کی جاتی ہے، آپ اس پورے منظرنامے کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے، اس غالب رجحان کے پیچھے کن علتوں کو آپ پاتے ہیں اور تعلیمی ادارے اس کے لیے کہاں تک ذمہ دار ہیں؟
محمد حسن الیاس: یہ بات بالکل درست ہے۔ علم اصل میں حقائق کی معرفت کا نام ہے۔ یہ ایک consistent عمل ہے۔ اِس کا آغاز انسان اپنی فطرت کے مطالعے سے کرتا ہے۔ وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ اُس کے خاتمے کے بعد کیا ہوگا؟ اُس کی شخصیت کیا ہے؟ اِس میں موجود اخلاقی شعور کیا اقدار پیدا کرتی ہیں؟ اِن سب سے اُس کا ایک تصور حیات بنتا ہے۔ علم کا یہی سفر کائنات کے مشاہدے تک پہنچتا ہے تو مختلف مادی علوم کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ لہٰذا یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان علم کا حصول چاہے اور وہ صرف دنیوی فنون تک محدود ہوجائے۔ یہ تضاد ہے اور انسان ہر چیز میں جی سکتا ہے، تضاد میں نہیں جی سکتا۔ لہٰذا آج کل ہمارے تعلیمی اداروں میں لوگوں کو جو تعلیم دی جاتی ہے، اُس کا مقصد محض ہنر مند حیوانات پیدا کرنا ہے۔ انسان کی اخلاقی تربیت اُن کی دل چسپی کا موضوع نہیں۔ یہ صورت حال ایک دن میں پیدا نہیں ہوتی۔ قوموں کی زندگی میں یہ اخلاقی انحطاط صدیوں میں آتا ہے۔ مسلمانوں کو پہلے اخلاقی میدان میں شکست ہوئی ہے، پھر مادی میں۔
علیزے نجف: ہر دور میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہی ہیں، ہر دور کی اپنی تہذیب و ثقافت رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب ادب اور اخلاقی ثقافت کو غلبہ حاصل تھا، آج ہر شعبے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کیا عملی سطح پر مذہب کی اہمیت و معنویت میں کمی واقع ہوئی ہے یا لوگوں کا مذہب کی طرف رجحان پہلے کے جیسا ہی ہے، آپ کا اس حوالے سے کیا مشاہدہ و تجربہ رہا ہے؟
محمد حسن الیاس: مذہب انسان کے جس مسئلہ کا جواب دیتا ہے، وہ ہر دور کے انسانوں کا اولین مسئلہ رہا ہے، یعنی کائنات کی حقیقت کیا ہے اور موت کے بعد کیا ہوگا؟
لوگ عام طور پر اس دور کی چکا چوند اور سائنسی ایجادات کے غوغے میں پریشان ہوجاتے ہیں کہ یہ سب کچھ اسے اصل سوالات سے بے نیاز کر رہا ہے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ موجودہ دور کی ہر ترقی دراصل انسان کو اور زیادہ شدت سے ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی مہمیز فراہم کررہی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس سوال کا علمی جواب صرف اور صرف مذہب نے دیا۔ آج بعض لوگ سائنسی انکشافات کی بنیاد پر کچھ اسطورے قائم کر کے ان بڑے سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مذہب کی درست تعبیر کو صرف اُن کے مقابلے میں رکھ دیں تو اِن کی لغویت واضح ہوجائے گی۔ آج کے دور میں آپ کو لوگوں میں جو مذہب بے زاری نظر آتی ہے وہ اصلاً اِس دین کو پیش کرنے والے مذہبی طبقے کے شکنجے سے آزادی کی خواہش ہے۔ مذہب اور مذہبی فکر یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔موجودہ دور عصر حریت اور عصر استدلال ہے۔ اِس میں ہماری قدیم مذہبیت کے خلاف آپ کو ایک بغاوت نظر آتی ہے۔ یہ بے دینی کی علامت نہیں، بلکہ صحیح دین پیش نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔
علیزے نجف: اس دنیا میں اللہ کی ایک بڑی نعمت زندگی ہے، ہر انسان اس کی تعریف عموماً اس میں پیش آنے والے حالات و واقعات سے ہی کرتا ہے، یوں ہر کسی کے نزدیک زندگی کا الگ الگ مفہوم ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ کے نزدیک زندگی کی تعریف کیا ہے اور آپ کی زندگی کا اب تک تجربہ کیسا رہا؟ اس زندگی میں آپ نے جو کچھ سیکھا، اس کو اگر چند لفظوں میں بیان کرنا پڑے تو وہ الفاظ کیا ہوں گے؟
محمد حسن الیاس: میں اگرچہ اپنی عملی زندگی کے ابتدائی مراحل میں ہوں، تاہم میں نے یہ سیکھا ہے کہ زندگی آئیڈیل ازم کا نام نہیں، بلکہ عملی حقائق میں جینے کی راہیں تلاش کرنے کا نام ہے۔ یہ جہد مسلسل کا نام ہے۔ یہ مثبت طرز فکر اپنا کر اپنا حصہ ڈالنے کا نام ہے۔ جو لوگ اِس دنیا کو جنت بنانے کے خواب دیکھتے، زندگی کو پھولوں کی سیج بنا کر جینے کا دم بھرتے اور گلے شکوے، نالہ و فریاد میں وقت گزار دیتے ہیں، زندگی ایک آفت کی طرح اُن پر مسلط ہوجاتی ہے۔ انسان ہمت اور حوصلے کے ساتھ علم و عقل کی روشنی میں، جذبات اور تعصبات سے خالی ہوکر زندگی کو جینے کا آغاز کردے، خود احتسابی کو اپنا معمول بنا لے، اخلاقی اقدار کی پاس داری کرے، جسے حق سمجھے بلا خوف بیان کرے، تو میرا ایمان ہے کہ عالم کا پروردگار اُس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے، زندگی کی بند شاہ راہیں کھل جاتی ہیں، غیب سے رزق آتا ہے اور دل پر سکینت نازل ہونے لگتی ہے۔
علیزے نجف: انسان ایک معاشرتی حیوان ہے، وہ معاشرے کے ساتھ سروائیو کرتا ہے، اس زندگی کو اجتماعی زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ ایک ذاتی زندگی بھی ہوتی ہے۔ اجتماعی سطح پر تو ہم آپ سے کافی واقفیت رکھتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ذاتی زندگی میں آپ کا مزاج کیسا ہے؟ مطلب کم گو ہیں، خلوت پسند ہیں یا جلوت پسند، فرصت کے اوقات میں آپ کے مشاغل کیا ہوتے ہیں؟ اتنی مصروف زندگی میں خود کے لیے کیسے وقت نکالتے ہیں؟
محمد حسن الیاس: کسی بڑے آدمی کے ساتھ ایک مشن میں منسلک ہوکر جینا واقعی ایک مشکل کام ہے، لیکن زندگی میں توازن ہی دراصل آپ کی پرفارمنس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ کام کے ساتھ کچھ نہ کچھ وقت نکالا جائے۔ زندگی کی اصل راحت آپ کا گھر اور رشتے ہیں۔ خدا نے مجھے اولاد دی ہے۔ کوشش ہوتی ہے اُن کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزرے۔ کسی خاص حلقے میں محصور رہنے کا مزاج نہیں بلکہ ہر طرح کے لوگوں میں گھلنے ملنے کا مزاج ہے۔ ذاتی زندگی میں آپ مجھے بہت بے تکلف اور ہنس مکھ پائیں گے۔ تاریخی اور سماجی موضوعات پر بنی فلمیں اور ڈاکیومینٹریز میں بہت شوق سے دیکھتا ہوں۔ اِسی طرح موسیقی سے خاص لگاؤ ہے۔ اچھے کھانے کھانا اور سیر و سیاحت کا بھی شوق ہے۔ خود پکاتا بھی ہوں۔
علیزے نجف: یہ سوال میرا عام موضوع سے ذرا ہٹ کے ہے۔ آپ کا غامدی صاحب کے خاندان سے ایک گہرا اور قریبی رشتہ ہے، ان کی صاحب زادی آپ کے نکاح میں ہیں، یوں آپ دونوں ہی غامدی صاحب کے زیر تربیت رہے اور ان کے زیر سایہ زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھا۔ میرا سوال یہ ہے کہ مریم صاحبہ کی کن دو خوبیوں سے آپ سب سے زیادہ متاثر رہے؟ اس پہلو سے یہ بھی پوچھنا چاہتی ہوں کہ اگر رفیق حیات میں سے کوئی ایک دوسرے سے ذہنی طور پر مطابقت نہیں پیدا کر پا رہا ہو، دونوں الگ الگ پہلوؤں سے سوچنے کے عادی ہوں اور اس کی وجہ سے بچوں کی تربیت پر بھی اثر پڑ رہا ہو تو ایسے میں تعلق کو بہتر بنانے کے لیے کن بنیادی اصولوں پر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے؟
محمد حسن الیاس: پہلی خوبی یہ کہ وہ میرے ساتھ زندگی کے ہر نشیب و فراز، ہر تنگی و خوش حالی، ہر خوشی و غم میں شکرگزار اور راضی رہیں۔ کبھی شکوہ کناں نہیں ہوئیں۔ مطالبات نہیں رکھے۔ اِس سے جو ذہنی فرحت حاصل ہوتی ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔ اُنھوں نے میرے مشن اور کام اور اِس کی اہمیت کو پہچانا۔ اور اِسے آگے بڑھانے میں کافی کمپرومائزز کیے، لیکن اُن کمپرومائزز کو بھی کبھی گلے کا موضوع نہیں بنایا ہے، بلکہ خوش دلی سے اسے اپنائے ہوئے ہیں۔
دوسری خوبی یہ کہ وہ زندگی کو ایک سلیقے اور نظریہ کے تحت گزارنا چاہتی ہیں۔ سب سے پہلے اپنی اولاد اور پھر معاشرے کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں اور ایک با مقصد زندگی گزار رہی ہیں۔ جیسے بچوں کو بنانا چاہتی ہیں، ویسے خود بننے کی کوشش کرتی ہیں۔
جہاں تک تعلق ہے آپ کے اِس سوال کا کہ کامیاب ازدواجی زندگی کا گر کیا ہے؟ تو اِس پر عرض ہے کہ ’’پیچھے ہٹنا سیکھیں‘‘۔ آپ کے ساتھ ایک انسان ہے، اُس کی ایک شخصیت ہے، سوچنے سمجھنے کا ایک خاص رخ اور زاویہ ہے، شادی کرنے سے پہلے آپ کو اِن سب حقیقتوں کو قبول کرنا ہے۔ اب اختلاف ہوگا۔ اُس اختلاف میں جینے کا قرینہ پیدا کرنا اصل کامیابی ہے۔اور اِس کامیابی کا سررشتہ compromise اور manage کرنا ہے۔ بڑے بڑے مسائل اِسی تدبیر سے حل کیے جا سکتے ہیں۔
علیزے نجف: انٹرویو دیتے ہوئے آپ کے احساسات کیا تھے، سوالات سے کس حد تک مطمئن تھے، اس انٹرویو کے ذریعے سے کیا آپ کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
محمد حسن الیاس: میں اپنے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوتا۔ اپنے استاذ جناب غامدی صاحب کے افکار کا خوشہ چیں اور رجز خواں ہوں۔ اِن کے شاگردوں کی صفوں میں بیٹھنے والا بالکل ابتدائی سا طالب علم ہوں۔ آپ نے طالب علم سے اِس کے موجودہ خیالات جاننا چاہے، اِس امکان کے ساتھ پیش کردیے ہیں کہ اب تک یہی میرا علم ہے۔ اِس پہلو سے آپ کے سوالات بہت اچھے تھے۔ اصل میں لوگ جواب دینا تو جانتے ہیں، لیکن اچھے سوال کرنے کی ہمارے ہاں کوئی مشق نہیں کی جاتی۔ اچھا سوال ہی دراصل علم کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔ اگر مجھ سے ایک جملے میں پوچھیں کہ ہمیں غامدی صاحب سے کیا سیکھنا چاہیے تو میرا جواب ہوگا کہ اُن سے ’’سوال‘‘ کرنا سیکھیں، یہ اُن کے سوالات ہی تھے جن کے جواب میں نئی دنیائیں پیدا ہوگئیں، یہی میرا پیغام ہے۔
***
علیزے نجف کی گذشتہ گفتگو یہاں پڑھیں: ضرورت کے وقت مدد حاصل کرنے سے ہرگز گریز نہ کریں : سنیعہ ڈار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے