اردو کی مشکوک شہریت

اردو کی مشکوک شہریت

حقانی القاسمی
(پہلی قسط)

اردوایک Pluricentric اور وحدت اضداد Unity of Opposites کی زبان ہے جس میں تمام تہذیبی، ثقافتی، مذہبی تصورات و تخیلات اور دوسری زبانوں کی لفظیات، صرفیات، نحویات کے لیے بہت گنجائش ہے۔ اس زبان نے تمام تفریقی تشخصات اور تقطیبی شناختوں کو مسترد کیا ہے، اس لیے اسے کسی ایک مذہب یا قوم سے مختص نہیں کیا جاسکتا۔ اس زبان میں جہاں مسلمانوں کی مذہبی کتابوں کے ترجمے موجودہیں وہیں سناتن دھرم اور دیگر مذاہب کی کتابوں کے بھی بے شمار تراجم ہیں۔ اس زبان میں ہندستانیت کے عناصر کی کثرت ہے. ہندستانی فکر، فلسفہ، اساطیر، استعارات، علامات اور تمثیلات کو اردو نے اپنے اندر مکمل طور پر جذب کیا ہے۔ شاعروں اور ادیبوں نے ہندو مائتھالوجی اور اساطیر کو اپنی تخلیق اور تنقید کا حصہ بنایا ہے۔ اردو شعر و ادب میں رام، سیتا، گنپتی، سرسوتی، بھیرو، بھوانی، رادھیکا اور بہت سے دیوی دیوتاؤں کا ذکر ملتا ہے۔ فخر الدین نظامی کی مثنوی ’کدم راؤ پدم راؤ‘ میں دیوتاؤں اور شیش ناتھ کا ذکر ہے تو سلطان قلی قطب شاہ کی عشقیہ شاعری میں ہندو تلمیحات کی کثرت ہے۔ خاص طور پر مدن دیوتا اور پری پدمنی کا ذکر ہے۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی جگت گرو کی تصنیف نورس میں دیوتاؤں کا ذکر ملتا ہے۔ عبداللہ قطب شاہ کے دیوان میں ہندو اساطیر ہیں۔ تو شاہ تراب چشتی کے ’من سمجھاون‘ میں ہندی دیومالا کی کثرت ہے۔ ڈاکٹر یحییٰ نشیط نے اپنی کتاب ’اسطوری فکر و فلسفہ اردو شاعری میں‘، میں اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس کے علاوہ اردو رباعیات، مثنویوں اور دیگر اصناف میں بھی بکثرت ہندو فلسفہ اور اساطیر موجود ہیں۔ ہندو تہواروں کے حوالے سے بھی شاعری کا ایک وافر حصہ ہے۔مگر بنیادی لفظیات، کہاوتوں، تلمیحات میں اشتراکات اور تمام تر ہندستانی عناصر کے باوجود اردو کی شہریت اور ہندستانیت مشکوک اور مشتبہ ہے۔
احیائی اور افتراقی ذہنیت نے اردو کی شہریت پر ہی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ اردو پر ماضی تا حال جو اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں، پنڈت دتا تریہ کیفی نے وہ اعتراضات درج کیے ہیں جن کی ترتیب کچھ یوں بنتی ہے۔
اردو کی عمر صرف ڈیڑھ سو سال ہے۔ یہ مسلمان بادشاہوں کے دربار میں پلی بڑھی۔
اردو زبان میں فارسی، عربی الفاظ ضرورت سے زیادہ ہیں۔
اردو مسلمانوں کی زبان ہے کیوں کہ وہ قرآن کے رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔
اردو ادب میں زیادہ تر تشبیہات اور تلمیحات باہر کی ہیں۔
اردو شاعری پر مسلم کلچر کا رنگ غالب ہے۔
اس نوع کے اور بھی اعتراضات ہیں جو دراصل فرقہ وارانہ تحفظات اور لسانی تعصبات پر مبنی ہیں۔ ان اعتراضات کا بنیادی حقائق سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہ لسانی استعماریت اور نازیت کی ایک بدترین مثال ہے۔ پنڈت برج موہن دتا تریا کیفی نے اپنی کتاب ’ناگزیر قیل و قال‘ میں ان میں سے بیشتر اعتراضات کے دندان شکن اور مسکت جوابات دیے ہیں. ان کے مطابق یہ تمام اعتراضات اردو کی ادبی، لسانی تاریخ سے مکمل ناواقفیت کی بنیاد پر کیے گئے ہیں۔
(1)
الہ آباد یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر نے اردو کی عمر کے بارے میں جس خیال کا اظہار کیا ہے وہ بنیادی طور پر یوں غلط ہے کہ اردو کی عمر ڈیڑھ سو سال نہیں ہے بلکہ چھے سو برس سے بھی زیادہ ہے۔ اردو کا سب سے پرانا مجموعہ ’قلی قطب شاہ کا دیوان‘ ہے۔ اور قلی قطب شاہ کی تخت نشینی کی تاریخ 1518 ہے۔ اسی طرح اردو نثر کی سب سے پرانی کتاب ’حضرت خواجہ گیسو دراز کی ’معراج العاشقین‘ کو قرار دیا جاتا ہے جس کی عمر تقریباً سوا چھے سو برس ہے۔ جہاں تک یہ بات کہی جاتی ہے کہ اردو مسلمان بادشاہوں کے دربار میں پلی بڑھی تو یہ بھی تاریخی طور پر غلط ہے کہ مغل بادشاہوں کی درباری زبان فارسی تھی اور فارسی کو دفتری زبان کی حیثیت سے رائج کرنے میں شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نہیں بلکہ ان کے وزیر راجا ٹوڈر مل کا کردار تھا۔ اسی نے فارسی کو دفتری زبان بنایا تھا۔ اور اس وقت کے زیادہ تر ہندو فارسی زبان و ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ اس زمانے میں مختلف اصناف میں فارسی زبان میں جو غیر مسلموں کی تصنیفات ہیں اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں فارسی زبان و ادب سے نفرت نہیں بلکہ بے انتہا محبت تھی. چندربھان برہمن، منشی مادھو رام، منشی ٹیک چند بہار، جشونت رائے منشی، لالہ خوشحال چندر، بندرا بن راس خوشگو، سرب سنگھ دیوانہ یہ سب فارسی کے شعرا تھے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ نے ’ادبیات فارسی‘ میں ہندوؤں کا حصہ کے عنوان سے اپنے تحقیقی مقالہ میں اس کی پوری تفصیل بیان کی ہے۔
(2)
دوسرا اعتراض جو اردو میں فارسی، عربی الفاظ کی کثرت کا ہے تو وہ بھی یوں غلط قرار پاتا ہے کہ بھارت ورش کی کوئی بھی بھاشا عربی، فارسی لفظوں سے خالی نہیں ہے، حتیٰ کہ چندر بردائی کی ’کبتا کومد‘ میں بھی عربی فارسی الفاظ کی کثرت ہے۔ لوک مانیہ تلک راج کی کتاب ’گیتا رہسیہ‘ میں بھی عربی فارسی الفاظ بہت زیادہ ہیں۔ پرتھوی راج کے درباری شاعر پرتھوی راج رسا میں بھی عربی اور فارسی کے الفاظ بکثرت ملتے ہیں اور ویسے دیکھا جائے تو تلسی داس، بہاری لال اور ودیا پتی کے یہاں بھی عربی اور فارسی الفاظ کی کثرت ہے۔ ودیا پتی کی کرتی لتا میں تو عربی فارسی کے اتنے الفاظ ہیں کہ شاید ان کا صحیح طور پر شمار کرنا بھی مشکل ہوگا۔ جگ نائک کی مثنوی ’آلھا کھنڈ‘ رپت لال کی ’دیوراسو‘ اور سورداس کی شاعری میں عربی و فارسی الفاظ کی کثرت ہے۔ حتیٰ کہ گرونانک کی آدی گرنتھ میں بھی فارسی آمیز الفاظ موجود ہیں۔ ترپاٹھی جی جو ہندی کے ایک معتبر محقق ہیں۔ ان کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ ودیشی شبدوں کے سوائے انیہ پرانتی بھاشاؤں کے کچھ شبد ہندی میں بھی آملے ہیں۔ امبیکا پرشاد واجپئی نے Persian Influnce on Hindi کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ اس سے بھی شاید یہ اندازہ لگانا آسان ہو کہ ہندی پر بھی فارسی کے گہرے اثرات ہیں۔ تو کیا یہ تمام مذکورہ بالا کتابیں جن میں عربی و فارسی الفاظ ہیں انھیں غیر ہندستانی قرار دے دیا جائے؟ فارسی ’مرأۃ الاخبار‘ والے راجا رام موہن رائے کو کس خانہ میں رکھا جائے گا؟ کیا غیر ملکی زبان کے فروغ کا مجرم قرار دیا جائے گا؟ اس کے علاوہ وہ سینکڑوں فارسی داں ہندو شعرا ادبا کس خانہ میں رکھے جائیں گے؟ فارسی آمیز اردو اخبارات کے 70 فی صدی ہندو مالکان کو غیرملکی زبان کے فروغ کے لیے کون سی سزا دی جائے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ اُردو ایک ایسی زبان ہے جس کی پرورش اور پرداخت میں ہندستان کے تمام طبقات کا لہو شامل ہے۔
پنڈت امرناتھ جھا نے اردو کو ایک نان انڈین زبان اس دلیل کے ساتھ قرار دیا ہے کہ فرہنگ آصفیہ کے چون 54 ہزار الفاظ میں سے پینتیس 35 سو الفاظ عربی و فارسی کے ہیں۔ جب کہ فرہنگ آصفیہ میں الفاظ کا گوشوارہ دیکھا جائے تو اردو کے 75 پچھتر فی صد الفاظ دیسی ہیں. صرف 23 فی صد ایسے الفاظ ہیں جو عربی اور فارسی سے مستعار لیے گئے ہیں۔ یہ23 فی صد الفاظ ایسے ہیں جن کے استعمال کے بغیر اردو کی مکمل کتاب لکھی جاسکتی ہے۔
بقول گوپی چند نارنگ:
”سید احمد دہلوی مؤلف فرہنگ آصفیہ کے اندازے کے مطابق اردو کے 55 ہزار الفاظ کے سرمایے میں تقریباً 40 ہزار الفاظ ایسے ہیں جو سنسکرت اور پراکرت کے مآخذ سے آئے ہیں۔“
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مراٹھی، سندھی، بنگالی، گجراتی، پنجابی، میں عربی و فارسی الفاظ کثیر تعداد میں ہیں۔ شانتی رنجن بھٹا چاریہ نے اپنے مضمون ”اردو اور بنگلہ کا باہمی رشتہ" میں یہ لکھا ہے کہ جس طرح اردو میں سیکڑوں عربی فارسی اور ترکی کے الفاظ آج تک زندہ ہیں اُسی طرح بنگلہ میں بھی سیکڑوں عربی فارسی اور ترکی کے الفاظ آج تک زندہ ہیں اور بنگلہ اور اردو میں بکثرت محاورے اور کہاوتیں مشترکہ ہیں۔ گوپی چند نارنگ نے یہ بات بھی لکھی ہے کہ ’واقعہ یہ ہے کہ ہندی اور اردو دونوں میں سیکڑوں ایک ہی طرح کی کہاوتیں استعمال ہوتی ہیں۔‘ اسی طرح مراٹھی اور پنجابی وغیرہ میں بھی عربی فارسی کے الفاظ موجود ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب ’مراٹھی زبان پر فارسی کا اثر‘ کے عنوان سے اپنی کتاب میں تفصیل سے لکھا ہے۔ انھوں نے مرہٹی زبان میں فارسی زبان کے آثار و نفوذ کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا ہے: ”ساڑھے تین [سو] سال کی یکجائی سے سینکڑوں فارسی الفاظ کا مرہٹی زبان میں آجانا کوئی تعجب کی بات نہیں لیکن تعجب اس امر کا ہے کہ مرہٹی پر فارسی کا ایسا گہرا رنگ چڑھا کہ یہ اثر الفاظ ہی تک محدود نہ رہا بلکہ فارسی ترکیبیں تک اس میں داخل ہوگئیں۔ اس کے علاوہ ہم اس زبان میں جا بجا دیکھتے ہیں کہ جملے کی ساخت تک فارسی ہے اور کثرت سے مہاوروں کا ترجمہ بھی مرہٹی میں آگیا ہے۔“
***
(دوسری قسط)
مولوی عبدالحق نے تفصیل سے یہ بات بھی لکھی ہے کہ شیوا جی نے مرہٹی سے عربی، فارسی الفاظ ہٹانے کا حکم دیا تھا اور تحریک بھی چلائی تھی۔ مگر یہ تحریک کامیاب نہ ہو سکی۔ بقول مولوی عبدالحق:
’’مسٹر تلک کے مشہور اخبار ’کیسری‘ نے اس قسم کی کارروائی کی مخالفت کی اور اپنی تائید میں اس امر پر زور دیا کہ اگر فارسی عربی الفاظ خالص کر دیے گئے تو مرہٹی زبان کی قوت میں ضعف پیدا ہو جائے گا اور زبان بے مزہ ہو جائے گی۔‘‘
انھوں نے یہ بھی تحریر کیا ہے:
’’خود شیوا جی جو اس تحریک کے بانیِ اوّل تھے اپنے خطوط میں بلاتکلف فارسی الفاظ [و] محاورے استعمال کرتے تھے اور ان کے گرو رام داس نے ان کے استعمال سے کبھی احتراز نہیں کیا اور شاید میرا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ رام داس نے بہ نسبت دوسرے مرہٹی شعرا کے اپنی پُر زور شاعری میں فارسی الفاظ کا استعمال زیادہ تر کیا ہے۔ اسی طرح پنجابی پر بھی فارسی اور عربی کے اثرات ہیں۔ ڈاکٹر کے ایس بیدی نے اپنی کتاب تین ہندوستانی زبانیں اردو ہندی اور پنجابی میں اس کی وضاحت کی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ گرنتھوں میں فارسی کے کافی الفاظ ہیں اور خود پنجاب نام بھی مسلمانوں کا ہی دیا ہوا ہے۔ ملیالم ایک دراوڑی زبان ہے جس پر تمل سنسکرت کے گہرے اثرات ہیں۔ مگر اس پر بھی عربی اور اردو کا اثر ہے۔ شعبۂ عربی کالی کٹ یونی ورسٹی کے مرتب کردہ کتابچہ ’اردو لون ورڈس اِن ملیالم‘ سے اس کی تفصیل معلوم کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں عربی فارسی اردو کے الفاظ تلاش کیے جا سکتے ہیں۔تو کیا اس بنیاد پر ان زبانوں کو بھی غیر ملکی بدیسی قرار دیا جائے گا۔ یہاں سمجھنے کی بات خاص طور پر یہ ہے کہ اردو واحد ایسی زبان ہے جس نے صرف عربی فارسی، ترکی ہی نہیں بلکہ دنیا کی بیشتر زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر جذب کیا ہے حتیٰ کہ اسی زبان میں یونانی، لاطینی اور یورپی زبانوں کی کثرت ہے۔ محمد بن عمر نے اپنی ایک کتاب ’’اردو میں یونانی اور لاطینی الفاظ‘ اور ’اردو میں فرانسیسی الفاظ‘ میں اس کی وضاحت کی ہے۔ اور ان الفاظ کی فہرست بھی دی ہے جو لاطینی، یونانی اور یوروپ کی دوسری زبانوں سے براہ راست یا انگریزی کے واسطے سے اردو میں شامل ہوئے ہیں. ان میں اٹلس، فوٹو، گراموفون، ٹانک، فارمولہ، کلینڈر، فورم، ڈائری، آپریشن، الیکشن، ایڈوکیٹ، پکچر، پائپ، آکسیجن، ٹیلی گراف، ویکسین، ویٹامن، اسٹوڈینٹ، ایجوکیشن، انسائیکلوپیڈیا، ہیلی کوپٹر، ٹریکٹر، کنڈکٹر، انسپکٹر، آپریٹر، آڈیٹر، تھرما میٹر، تھرمس، ٹیلی فون، میگافون، اسٹریٹ، ایجینٹ، اسٹوڈیو، پوسٹ، جنکشن، ووٹ، بیرسٹر، اور ڈھیر سارے الفاظ شامل ہیں جو صرف اردو نہیں بلکہ ہندی اور ہندستانی عوام کی روزمرہ بول چال میں بھی مروج ہیں۔ اسی طرح فرانسیسی کے بہت سے الفاظ مثلاً بارک، رپورٹ، سلاد، گاڈ، وردی، کمان، پٹرول، شوفر، فرنیچر، ہیلو، انجینئر، فیکلٹی، فیشن، کلاس، کاپی، کونسل، کارپوریشن، لکچر، مشین، پارلیمنٹ، پولیس، لیمپ، کارٹون، کار، وغیرہ فرانسیسی سے ماخوذ الفاظ ہیں جو ہندستان میں عام طورپر استعمال کیے جاتے ہیں۔ محمد بن عمر نے ’اردو میں دخیل یورپی الفاظ‘ کتاب میں پرتگالی الفاظ کی بھی ایک فہرست دی ہے جو اردو اور ہندی دونوں میں مستعمل ہیں۔ مثلاً الپن، الماری، الفانسو، انناس، پاؤ، تولیہ، پادری، چابی، صوفہ، صابن، کمرہ، کاجو، گرجا، گودام، ورانڈہ، اسی طرح جرمن کے بھی تھوڑے بہت الفاظ مثلاً ٹب، ٹیویل، اسپرے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر دوسری زبانوں کے الفاظ کی اردو میں شمولیت سے اردو غیر ملکی زبان قرار پاتی ہے تو پھر یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ہندستان کے ہر شعبۂ حیات میں غیر ملکی الفاظ/ دخیل الفاظ کا ہی تسلط ہے۔ ان غیر ملکی الفاظ کو اگر ہندستان سے خارج کر دیا جائے تو پھر ہندستان میں مافی الضمیر کے اظہار کے لیے کون سے متبادل الفاظ وضع کیے جائیں گے۔ لفظیات کے معاملہ میں اگر یہی شدت پسندی رہی تو پھر ہمارا پورا ملک ہی گونگا ہوجائے گا۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ پر ہی ہماری تجارت اور ثقافتی تعلقات کا انحصار ہے۔ اس کے علاوہ اس زبان کے ذخیرہ میں بھی غیر معمولی اضافہ کرتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ آکسفورڈ ڈکشنری میں ہر سال دوسری زبانوں کے الفاظ کا بطور ضمیمہ اضافہ کیا جاتا ہے۔ مولوی عبدالحق نے بڑی اہم بات کہی ہے کہ ’’زبانیں الفاظ کے خارج یا متروک کرنے یا انھیں پاک اور پوتر رکھنے سے نہیں بنتیں۔ یہاں محمد بن عمر کا یہ حوالہ بھی ضروری ہے جنھوں نے اپنی کتاب ’اردو زبان پر انگریزی کے اثرات‘ میں یہ لکھا ہے کہ:
’’جب انگریزی الفاظ کثرت سے اردو میں داخل ہونے لگیں تو بعض لوگوں نے اس درآمد کی مخالفت محض اس لیے کی کہ اس سے زبان غیر خالص ہو جائے گی۔ انھوں نے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر یہ غیر خالص جزو زبان میں زیادہ ہو جائے تو زبان تباہ ہو جائے گی۔ اُن کی ناراضگی لسانی اصولوں سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک اٹل لسانی حقیقت ہے کہ کوئی زبان خالص ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ ہر زبان میں دوسری زبان یا زبانوں کے کچھ نہ کچھ الفاظ ملیں گے۔ جس طرح کسی قوم یا نسل کے عوام اپنے جسم میں صرف ایک ہی قوم یا نسل کے خون کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح کوئی زبان بھی خالص ہونے کا دعویدار نہیں ہوسکتی۔ کسی قوم یا زبان کے خالص ہونے کا ا دعا سیاسی ہے، لسانی نہیں۔ جو زبان صرف اپنی لفظیات پر بھروسہ کرتی ہے اور دوسری زبانوں کے الفاظ سے پرہیز کرتی ہے بالآخر اچھوت بن کر رہ جاتی ہے۔ ‘‘
(3)
اردو مسلمانوں کی زبان ہے اور وہ قرآن کے رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ یہ اعتراض بھی منطقی اور معروضی طور پر غلط ہے کیونکہ عربی خط نسخ میں لکھی جاتی ہے اور اردو کا رسم الخط نستعلیق ہے اور اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ فارسی رسم الخط کسی مسلمان نے نہیں بلکہ پنڈت تلک کاشمیری نے ایجاد کیا تھا۔ اور عربی صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے بلکہ مشرکین عرب کی بھی یہی زبان رہی ہے۔ طلوعِ اسلام سے قبل دور جاہلیت میں جو ادب عربی زبان میں تحریر کیا جاتا تھا ان میں سے کسی کا بھی تعلق اسلام سے نہیں تھا۔ عربی کے سات قصائد کا مجموعہ ’سبع معلقات‘ اسی دور کی یادگار ہے۔ عربی اسلام سے بھی قدیم زبان ہے اور اس کے بولنے والے یہودی اور عیسائی بھی ہیں۔ اور یوں بھی زبان کا مذہب سے کوئی تعلق ہوتا یا مذہب کی کوئی زبان ہوتی تو قادرِ موفور پوری دنیا میں ایک ہی الوہی زبان اتارتا۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔ زبان کے ساتھ مذہب کا کوئی جڑاؤ نہیں ہے۔ ڈاکٹر تارا چند نے بہت صحیح بات لکھی ہے:
’’یورپ اور امریکہ میں کروڑوں عیسائی ہیں۔ ان میں سے سوائے اِنے گِنے لوگوں کے کسی عیسائی دھرم کی اصلی بھاشا کا گیان نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ مسیح عبرانی بولتے تھے۔ اس میں انجیل کی پرانی نئی کتابیں ہیں مگر انگلستان، فرانس اور جرمنی اتیاد دیشوں کے عیسائیوں کو کبھی یہ گھبراہٹ نہیں ہوئی کہ بائبل کے عبرانی میں نہ ہونے کے کارن ان کے دھرم میں کوئی دُربلتا آئی ہو۔ چین میں کروڑوں بودھ اور مسلمان ہیں۔ نہ بودھ پالی جانتے ہیں جو اُن کے دھرم کی پستکوں کی بھاشا ہے۔ نہ مسلمان عربی، لیکن دونوں اپنے اپنے مذہب میں پکّے ہیں۔" اردورسم الخط سامی الاصل ضرور ہے مگر بقول نارنگ ’’یہ کلیتاً عربی فارسی رسم الخط کی نقل نہیں ہے۔ اردو کا اپنا آزاد رسم الخط ہے اور جیسا کہ نارنگ صاحب فرماتے ہیں کہ علامہ کیفی کی اصطلاح میں صدیوں کے استعمال سے اس کی تاریک اور تہنید ہوچکی ہے۔ نارنگ صاحب نے مثالوں کے ذریعہ اس کی وضاحت کی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ اردو رسم الخط میں بہت سی علامتوں اور آوازوں کا اضافہ ہوا ہے۔ جسے عربی فارسی والے من وعن قبول نہیں کرسکتے۔‘‘ گوپی چند نارنگ مزید لکھتے ہیں کہ ’اردو رسم الخط میں ایک تہائی سے بھی زیادہ حروف کا اضافہ اردو کی ہند آریائی ضرورتوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ اردو بولتے لکھتے ہوئے ان آوازوں سے ہم بچ نہیں سکتے……… اس میں ایسی ایسی آوازوں اور علامتوں کا اضافہ بھی ہوچکا ہے جو نہ عربی میں ہیں اور نہ فارسی میں۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو کا ایک صفحہ تو کیا ایک پیراگراف بھی ان آوازوں کے بغیر بھی نہیں لکھا جاسکتا۔ مثال کے طور پر اسی اردو اخبار یا کتاب کا ایک صفحہ بھی اگر کسی ایرانی یا عرب کے سامنے رکھا جائے تو اسے صحیح نہیں پڑھ سکے گا۔‘‘
رسم الخط کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے. خود ہندستان میں بہت سی زبانوں کا خاندان ایک ہے مگر رسم الخط مختلف ہے۔ اوریا، بنگالی اور آسامی تینوں کا ماگدھی اور پراکرت سے تعلق ہے مگر تینوں کا رسم الخط مختلف ہے۔ ہند آریائی زبانوں سے تعلق رکھنے والی زبانیں الگ الگ رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں. جو لوگ اردو بھاشا کی لیپی بدلنے کی بات کرتے ہیں انھیں صرف اردو پر نہیں بلکہ ہندستان کی تمام زبانوں کی ایک لیپی ہونے کی بات کرنی چاہیے تاکہ رسم الخط کی سطح پر ہندستان میں وحدت اور یکسانیت پیدا کی جاسکے۔
(4)
اردو پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا رہا ہے کہ اس زبان میں زیادہ تر تشبیہات اور تلمیحات باہر کی ہیں، یہ بھی غلط ہے. بہت سی تنقیدی تحقیقی کتابوں میں دلائل کے ذریعہ اس اعتراض کو مسترد کیا جا چکا ہے۔ اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ اردو کی بیشتر تشبیہات اور تلمیحات کا تعلق ہندستان سے ہے۔ خاص طور پر ہندو اساطیر کا ایک بڑا ذخیرہ اردو شعر و ادب کا حصہ بن چکا ہے۔ اردو میں رام لکشمن، سیتا، کنہیا، رادھا، لکشمی، سرسوتی، درگا، کرشنا، گنگا، جمنا، متھرا، اور دیگر تشبیہات کا استعمال عام ہے۔ شری رام چندر جی کی شخصیت کو اردو میں کس عقیدت اور محبت سے دیکھا جاتاہے اس کا اندازہ لگانا ہو تو شاہ تراب کی مثنوی ’من سمجھاون‘ کے یہ بند دیکھیے :
سدا رام کے نام سوں کام ہے گا
ہمن دھیان اس کا صبح و شام ہے گا
وہی گل، وہی مل، وہی جام ہے گا
وہی ساقیٔ بزم گل فام ہے گا
علامہ اقبال نے مریادا پرشوتم رام جی کو کتنا خوب صورت خراج عقیدت پیش کیا ہے:
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند
اعجاز اس چراغِ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند
تلوار کا دھنی تھا، شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں، جوشِ محبت میں فرد تھا
مولانا ظفر علی خان بھی رام جی کو اپنا خراج یوں پیش کرتے ہیں:
نہ تو ناقوس سے ہے اور نہ اصنام سے ہے
ہند کی گرمیٔ ہنگامہ ترے نام سے ہے
ہو وہ چھوٹوں کی اطاعت کہ بڑوں کی شفقت
زندہ دونوں کی حقیقت ترے پیغام سے ہے
نقشِ تہذیب ہنود اب بھی نمایاں ہے اگر
تو وہ سیتا سے ہے، لکشمن سے ہے اور رام سے ہے
ساغر نظامی نے بھی رام کو اپنی نظم میں یوں خراج محبت پیش کیا ہے:
بھارت پیارا راج دُلارا
کوشلیا کی آنکھ کا تارا
دل کا تیاگی روپ کا رسیا
خود راجہ اور خود ہی پرجا
دھیان کی گنگا اس سے پھوٹی
گیان کی جمنا اس سے پھوٹی
سب سے الفت کرنے والا
قول کا سچا بات کا پکا
شیو کے بان کو جیتا جس نے
جیتی سندر سیتا جس نے
عدل کا پیکر رہن کی دنیا
شکتی اور بھکتی کا ستارا
کرشن مہاراج کو مولانا حسرت موہانی جیسی شخصیت نے کتنا محبت بھرا خراج پیش کیا ہے:
متھرا کہ نگر ہے عاشقی کا
دم بھرتی ہے آرزو اسی کا
ہر ذرہ سر زمین گوکل
درا ہے جمال دلبری کا
برسانا و نند گاؤں میں بھی
دیکھ آئے ہیں جلوہ ہم کسی کا
پیغام حیات جاوداں تھا
ہر نغمۂ کرشن بانسری کا
وہ نور سیاہ یا کہ حسرت
سر چشمہ فروغ آگہی کا
کرشن کنہیا کے حوالے سے حفیظ جالندھری، چند اور دیگر لوگوں نے بہت سے شعر کہے ہیں۔ بنارس جو اسطوری شہر ہے اور ہندوؤں کی مقدس زیارت گاہ، اسے مرزا اسد اﷲ خاں غالب نے ’مثنوی چراغ دیر‘ کے عنوان سے خراج عقیدت پیش کیا ہے اور بنارس کو بہشت خرم و فردوس معمور قرار دیا۔ اختر شیرانی نے اس مقدس شہر سے اپنی عقیدت کا اظہار یوں کیا ہے:
ہر ایک بھاتی ہے دل سے فضا بنارس کی
وہ گھاٹ اور وہ ٹھنڈی ہوا بنارس کی
وہ مندروں میں پجاریوں کا ہجوم
وہ گھنٹیوں کی صدا وہ فضا بنارس کی
تمام ہند میں مشہور ہے یہاں کی سحر
کچھ اس قدر ہے سر خوش نما بنارس کی
پجاریوں کا نہانا وہ گھاٹ پر آکر
وہ صبح دم کی فضا دل کشا بنارس کی
وہ کشتیوں کا سماں اور وہ سیر گنگا کی
وہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا جاں فضا بنارس کی
تو حفیظ جالندھری نے مقدس گنگا کے حوالے سے دیکھیے عقیدت و محبت سے بھرپور کتنے اچھے شعر کہے ہیں:
جل ہے ترا پوتر مٹی بھی تری پیاری
پاکیزگی کی دیوی پاکیزہ ہے تو ساری
تجھ کو ترے پجاری کرتے ہیں پیار گنگا
اے شاندار گنگا
اے پُر بہار گنگا
مشہور ہوگئی تُو ہندوستاں کی ماتا
تجھ میں ہر ایک ہندو اشنان کو ہے آتا
ہندوستانیوں کے ہمدم ہے تو پرانی
دنیا میں کوئی دریا تیرا نہیں ہے ثانی
ہے تیرا صاف پانی امرت کی دھار گنگا
اے شاندار گنگا
اے پُر بہار گنگا
ثاقب کانپوری نے یہ شعر کہا:
اے بہار گنگ اے سرمایہ پاکیزگی
تری ہستی تشنہ کاموں کے لیے میخانہ ہے
نذیر بنارسی نے کتنی عقیدت میں ڈوب کر یہ شعر کہے ہیں:
یہ چاندنی رات اور یہ گنگا کا کنارا
تاحد نظر نور کا بہتا ہوا دھارا
پانی میں لرزتا ہوا معصوم شرارا
ہر موج کا رہ رہ کے یہ بے چین اشارہ
اٹھلائی ہے لہرائی ہے بل کھائی سیڑھی
اس گھاٹ پہ کس ناز کے ساتھ آئی ہے سیڑھی
دیکھیے رادھا شیام کی تلمیح کو جعفر علی خاں اثر نے کس خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے:
شیام کے رنگ و روپ میں رادھا براجنے لگیں
شیام کو آگئی ہنسی پھول تھے زعفران کے
کرشن جی کی بانسری بھی ایک ہندستانی تلمیح ہے. دیکھیے سیماب اکبر آبادی نے اس نشاط انگیز بانسری کی کتنی عقیدت مندانہ تصویر کھینچی ہے:
کیا زمانے کو معمور پنے نغموں سے
سکھائے عشق کے دستور اپنے نغموں سے
صداقت اور محبت کی اس نے دی تعلیم
اندھیریوں میں بھرا نور اپنے نغموں سے
لطافتوں سے کیا ارض ہند کو لبریز
کثافتوں کو کیا دور اپنے نغموں سے
فلک کو یاد ہیں اس عہد پاک کی باتیں
وہ بانسری وہ محبت کی سانولی راتیں
اسی طرح اردو کے اہم شاعر سرور جہاں آبادی نے لکشمی، سرسوتی، دُرگا جیسی تلمیح کو اپنی نظم میں اس طرح پیش کیا ہے:
لکشمی تو ہے زمانے میں اجالا ہے ترا
ہر کنول کا پھول پانی میں شوالہ ہے ترا
سرسوتی کا روپ ہے درگا کا ہے اوتار تو
نطق و دانش کی ہے دیوی مادرِ غمخوار تو
اردو افسانوں میں بھی ہندو دیو مالاؤں اور اساطیر سے متعلق بہت سے افسانے ملتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اردو زبان و ادب میں ہندو تلمیحات و تشبیہات کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ انگریزی میں یونانی دیومالا کی کثرت ہے، اس کے باوجود کبھی انگریزوں نے اس زبان کو غیرملکی قرار نہیں دیا اور نہ ہی دیو مالاؤں پر اعتراض کیا۔ اگر اردو میں باہر کی تشبیہات ہیں بھی تو اس کی وجہ سے اسے غیرملکی زبان نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیونکہ اردو ایک ایسی زبان ہے جس نے تمام زبانوں اور قوموں کے تہذیبی، مذہبی علامات و استعارات اور لفظیات کو کھلے دل سے قبول کیا ہے۔ اس میں کسی مخصوص تہذیب یا مذہب کا رنگ نہیں ہے کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ زبانیں مخلوط سماج کے تعامل سے جنم لیتی ہیں اور تصادم نہیں بلکہ تفاہم اور ترابط سے پروان چڑھتی ہیں۔
(5)
اردو پر ایک اور اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اس پر مسلم کلچر کا رنگ حاوی ہے۔ یہ بھی اردو شعر و ادب کی تاریخ سے مکمل ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ اردو ہندلمانی [کذا] کلچر کی نمائندہ زبان ہے. اس زبان نے سب سے زیادہ مقامی رنگ کو قبول کیا ہے۔ دکن کی بہت ساری مثنویوں اور نثری داستانوں میں مقامی رنگ ہی ہے۔ اردو زبان و ادب میں ہندوستانی ماحول اور معاشرت کی بہت سی تصویریں ملتی ہیں۔ کلاسیکی اردو شاعری ہو یا عصری فکشن ہر ایک میں ہندوستانی روح نظر آتی ہے۔ مظفر حنفی نے اپنے ایک مضمون ’’اردو شاعری اور ہندوستانیت‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’میر کی مثنویاں ہو یا شکار نامے ہر جگہ مقامی رنگ اور ہندوستانی فضا نظر آتی ہے۔‘ شاید ہی کوئی ہندو تہوار ہو جس پر اردو کے شاعروں نے نہ لکھا ہو۔ راکھی ہو، دیوالی ہو، ہولی ہو یا بسنت ہو یا دیگر رسومات؛ ہر ایک میں مقامی معاشرت کا خیال رکھا گیا ہے۔ مقامی رنگ کے تعلق سے جو اعتراض ہے اس کے لیے صرف نظیر اکبر آبادی کا نام ہی کافی ہے کہ ان کی پوری شاعری پر مقامی رنگ حاوی ہے۔ انھوں نے کرشن کنہیا کو جس طرح نذرانۂ عقیدت و محبت پیش کیا ہے اس کی مثال تو ہندو عقیدت مندوں کے یہاں بھی نہیں ملتی ہے. اس کے علاوہ انھوں نے ہولی، دیوالی، بسنت، بلدیوجی کا میلہ وغیرہ پر جو شعر کہے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہندوستانی تہواروں سے ان کی دل چسپی رہی ہے۔ ان کے علاوہ ہندوؤں کے تہواروں اور رسوم و رواج سے متعلق بہت سے شعر ملتے ہیں۔
بسنت ہندوؤں کا ایک اہم تہوار ہے، محمد قلی قطب شاہ لکھتے ہیں :
بسنت کھیلیں عشق کی آ پیارا
تمھیں تو چاند میں ہوں جوں ستارا
اسی طرح ہولی، دیوالی ہندوؤں کے مقدس تہوار ہیں۔ دیوالی کے تعلق سے بہت سے اشعار اردو میں کہے گئے ہیں. میر تقی میر کی ’’مثنوی شادی‘‘ کا ایک مشہور شعرہے:
مٹھائیوں کی لگا کے دکانیں حلوائی
پکارتے ہیں کہ لالہ دیوالی ہے آئی
تو حاتم کی مثنوی ’بہاریہ‘ میں دیوالی سے متعلق یہ اشعار ملتے ہیں:
قطار ایسے چراغوں کی بنائی
کتابوں پر جوں جدول طلائی
در و دیوار بام و صحن و گلشن
چراغوں سے ہوا ہے روز روشن
نظیر اکبر آبادی دیوالی کے تعلق سے کہتے ہیں:
ہر اک مکاں میں جلا پھر دیا دیوالی کا
ہر اک طرف کو اُجالا ہوا دیوالی کا
سبھی کے جی کو سماں بھا گیا دیوالی کا
کسی کے دل کو مزا خوش لگا دیوالی کا
عجب بہار کا ہے دن بنا دیوالی کا
تو شاد عارفی اپنی ایک نظم ’دیوالی‘ میں یوں گویا ہوتے ہیں:
ہورہے ہیں رات کے دیوں کے ہر سو اہتمام
صبح سے جلوہ نما ہے آج دیوالی کی شام
مختلف آنچل ہوا کے رخ پہ بل کھانے لگے
روشنی میں ساریوں کے رنگ لہرانے لگے
یہ دیوالی کے مناظر یہ نگاہیں کامیاب
یا الہی تا قیامت بر نہ آئے آفتاب
اسی طرح ہولی کے تعلق سے بہت سی نظمیں لکھی گئی ہیں۔ میر تقی میرؔ کے کلام میں بھی ہولی کا بطور خاص ذکر ملتاہے۔ یہ اشعار دیکھیے:
آؤ ساقی بہار پھر آئی
ہولی میں کتنی شادیاں لائی
جس طرف دیکھو معرکہ سا ہے
شہرہ ہے یا کوئی تماشا ہے
آئیں بستہ ہوا ہے سارا شہر
کاغذیں گل سے گلستاں ہے دہر
پھر لبالب ہیں آب گیرِ رنگ
اور اڑے ہیں گلال کس کس ڈھنگ
قمقمے بھر گلال جو مارے
مہوشاں لالہ رخ ہوئے سارے
خوان بھر بھر عبیر لاتے ہیں
گل کی پتی ملا اڑاتے ہیں
جشن نور روز ہند ہولی ہے
راگ رنگ اور بولی ٹھولی ہے
شاہ حاتم اپنی مثنوی ’بزم عشرت‘ میں کہتے ہیں:
چمن میں دھوم و غُل چاروں طرف ہے
ادھر ڈھولک اُدھر آوازِ دف ہے
گلال ابرک سے سب بھر بھر کے جھولی
پکارے یک بیک ہولی ہے ہولی
لگی پچکاریوں کی مار ہونے
ہر اک سو رنگ کی بوچھاڑ ہونے
تو نظیر کہتے ہیں:
نظیر ہولی کا موسم جو جگ میں آتا ہے
وہ ایسا کون ہے جو ہولی نہیں مناتا ہے
کوئی تو رنگ چھڑکتا ہے تو کوئی گاتاہے
جو خالی رہتاہے وہ دیکھنے کو جاتا ہے
جو چاہو عیش سو ملتا ہے یار ہولی میں
حسرت موہانی نے بھی ہولی پر بہت خوب صورت شعر کہے ہیں:
موپہ رنگ نہ ڈار مراری
منتی کرت ہوں تہاری
پنپا بھرت کاہ جائے نہ دہئیں
شیام بھرے پچکاری
تھر تھر کانپت لاجن حسرت
دیکھت ہیں نر ناری
ہولی پر جلیل مانک پوری کا ایک بہت خوب صورت شعر ہے:
بہار آئی کہ دن ہولی کے آئے
گلوں میں رنگ کھیلا جارہا ہے
کلاسیکی شاعروں میں فائز، شیخ ظہورالدین حاتم کی مثنویوں میں بھی ہولی دیوالی کا ذکر ہے تو جدید شاعروں میں عرش ملسیانی، بیکل اتساہی اور دیگر شاعروں نے بھی ہولی، دیوالی پر بھی نظمیں کہی ہیں:
دسہرہ بھی ایک مقدس تہوار ہے۔ اس کے حوالے سے بھی شاعری ملتی ہے۔ اردو کے ایک اہم شاعر نوبت رائے نظر کی ایک نظم ہے۔ دیکھیے کتنی خوب صورت عکاسی کی ہے:
ہے دسہرہ یادگارِ عظمتِ ہندوستاں
ہندؤں کے قدیمی فتح و نصرت کا نشاں
اک مٹی سی یہ نشانی دولت و اقبال کی
یاد دلواتی ہے اُن ایام فرح فال کی
فوجِ راون لاتعداد تھی ریگِ صحرا کی طرح
اور امنڈ آئی تھی وقت جنگ دریا کی طرح
ہم نے اپنے دشمنوں پر فتح پائی تھی کبھی
اپنے حصے میں بھی یہ معجز نمائی تھی کبھی
آج وہ دن ہے کہ ہم اس یاد کو تازہ کریں
روئے زیبائے عروس فتح پر غازہ کریں
مل کے گائیں رام کے گن دل میں ہو جوش و سرور
قلب صافی مخزن وحدت ہو سینہ رشک طور
یہ دسہرہ عشرۂ عشرت ہے اپنے واسطے
خالق کونین کی نعمت ہے اپنے واسطے
راکھی بھی ایک پاکیزہ تہوار ہے دیکھیے نظیر نے کیسی منظر کشی کی ہے:
پھریں ہیں راکھیاں باندھے جو ہر دم حسن کے تارے
تو ان کی راکھیوں کو دیکھ اے جاں چاؤ کے مارے
پہن زُنّار اور قشقہ لگا ماتھے اُپر بارے
نظیر آیا ہے باہمن بن کے راکھی باندھنے پیارے
بندھا لو اس سے تم ہنس کر اب اس تہوار کی راکھی
اردو شاعری میں ہندستانیت کے اتنے ثبوت ہیں کہ شاید اس کے لیے ایک دفتر درکار ہو۔ کیا محسن کاکوروی کے نعتیہ قصیدے کا یہ شعر ہندستانی رنگ میں نہیں :
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل
کیا میر انیس کے اس خالص اسلامی مرثیے میں ہندستانیت کا عنصر نہیں ہے:
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری ہے
صندل سے مانگ، بچّوں سے گودی بھری رہے
سچ کہا جائے تو اردو ہندستانیت کے عناصر قومیت، وطنیت اور محبت کے جذبات سے مملو ہے۔ اردو ہی کا ایک شاعر ہے لال چند فلک جس نے کہا تھا:
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
اردو دراصل ایک ایسی زبان ہے جس کا مذہب صرف اور صرف انسانیت، مودت اور محبت ہے۔ سچ کہیے تو یہ دل کی زبان ہے، جس میں مذہبی تفریق اور تہذیبی تقسیم کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تبھی تو اردو کے شعرا اس طرح کے شعر کہتے ہیں:
اے شیخ و گبر سبحہ و زنار توڑیے
پر دل کسی بشر کا نہ زنہار توڑیے
(ناسخ)
بت خانہ کھود ڈالیے مسجد کو ڈھائیے
دل کو نہ توڑیے یہ خدا کا مقام ہے
(حیدر علی آتش)
کیسا مومن کیسا کافر، کون ہے صوفی، کیسا رند
سارے بشر ہیں بندے خدا کے سارے جھگڑے شر کے ہیں
(ذوق)
***
(تیسری قسط)

اردو کے حوالے سے ان تمام اعتراضات کا تعلق دراصل لسانی بالادستی تفوق اور تسلط سے ہے۔ یہ زبان ’نان انڈین‘ نہیں ہے بلکہ یہ مکمل طور پر ہندستانی زبان ہے۔ کیوں کہ اس زبان کا جنم ہندستان کی دھرتی پر ہوا اور یہی وہ زبان تھی جو پہلے ہندی یا ہندوی کہلاتی تھی۔ غالب اور سرسید نے بھی اسے ہندی ہی کہا ہے۔ ہندوی کے سب سے پہلے شاعر کی حیثیت سے مسعود سعد سلمان کا نام ملتا ہے۔ اس عہد کے بیشتر شعرا کی زبان کو ہندی کہا جاتا تھا۔ مصحفی جس نے پہلی بار اردو کا لفظ استعمال کیا اس نے خود اپنے تذکرے کا نام ’تذکرہ ہندی گویان‘ رکھا اور اس زبان کو ہندوی کہا۔ انھی کا ایک شعر ہے:
مصحفی فارسی کو طاق میں رکھ
اب ہے اشعارِ ہندوی کا رواج
سودا، شاہ حاتم نے بھی اردو کے لیے ہندی ہندوی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ آتش کے یہاں بھی ہندی کا لفظ اردو کے لیے ملتا ہے۔ اور انشا نے اردو کے لیے ہندی شبد کا استعمال کیا ہے۔ باقر آغا مدراسی کے دیوان کا نام ’دیوانِ ہندی‘ ہے۔ جرأت نے بھی ہندی اور ہندوی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ فضل علی فضلی نے کربل کتھا کو نثر ہندی کا نام دیا ہے۔ تو محمد حسین خاں عطا تحسین نے ’نو طرزِ مرصع‘ کو عبارت رنگین زبان ہندی کہا ہے۔ میرا یعقوب نے اپنی کتاب ’شمائل الاتقیاء‘ کو بھی ہندی اور قاضی بدرالدولہ نے فوائد بدریہ کو ہندی کہا ہے اور باقر آگاہ کا یہ شعر تو بہت مشہور ہے جو انھوں رسالہ فرقہ ہائے اسلام میں لکھا:
ولے بعض یاروں کا ایماں ہوا
سو ہندی زباں یہ رسالہ ہوا
حتیٰ کہ اردو میں شاہ عبدالقادر نے جو قرآن کا ترجمہ کیا ہے اسے بھی ترجمۂ ہندی کہا گیا ہے۔ اردو کا پہلے نام ہندی اور ہندوی ہی تھا۔ سب سے پہلے ولی دکنی نے اس کے لیے ریختہ کا لفظ استعمال کیا۔ بعد میں اسے اردو کا نام دیا گیا۔ شمس العلماء سید علی محمد شاد نے یہ لکھا ہے کہ:
’’کچھ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اس زبان کا نام اردو اس لیے پڑا کہ یہ مسلمانوں کے فاتح لشکروں میں پیدا ہوئی، کیا یہ لوگ مجھے کوئی تاریخ کی کتاب، کوئی روز نامچہ یا تذکرہ چھٹی صدی سے لے کر تیرہویں صدی تک دکھا دیں گے جس میں یہ زبان اردو کے نام سے لکھی گئی ہو۔ جہاں کہیں اس کا نام لیا گیا ہے اس کو ہندی یا ہندستانی کہا گیا ہے۔‘‘
یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ یہ ہندی لفظ بھی مسلمانوں ہی کی دین ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹراُدے نارائن نے لکھا ہے اور ہندستان اور ہندو بھی مسلمانوں کا عطا کیا ہوا لفظ ہے جس کا معنی مذہب اور قوم نہیں بلکہ یہ ایک جغرافیائی حد بندی ہے جس کے حدود میں رہنے والے تمام لوگوں کو ہندو کہا جاتا ہے۔ ہندو کے بہت سے منفی معنی اور مفہوم لکھے گئے ہیں تاہم یہ بات طے ہے کہ ہندی، ہندستان اور ہندو نہ ہندی کا لفظ ہے اور نہ ہی سنسکرت نژاد ہے۔
جہاں تک اردو کا تعلق ہے تو اس کے بہت سارے نام ہیں اور اس کے مقام پیدائش کے حوالے سے بھی الگ الگ رائیں ہیں. دہلی، نواحِ دہلی، پنجاب ، سندھ ، مشرقی مہارشٹر ، دکن اور ہریانہ کواس کا جنم بھومی بتایا جاتا ہے۔ اردو کو کیا نام دیا جائے اس کے تعلق سے بھی بہت سی باتیں کہی جاتی رہی ہیں۔ سید سلیمان ندوی نے اپنے ایک صدارتی خطبہ میں کہا تھا:
’’لفظ اردو ہماری زبان کے نام کی حیثیت سے محض ایک غلط فہمی ہے جس کو نکال دینا چاہیے۔ ہماری زبان کو آئندہ سے ہندوستانی کہنا چاہیے، اسی اصول کی بنا پر جیسے انگلستان کی زبان انگریزی، فرانس کی فرانسیسی، اٹلی کے اٹالین وغیرہ کہلاتی ہیں۔‘‘
سیدسلیمان ندوی نے اسے ہندوستانی کہے جانے کی وکالت کی تھی مگر اس کا نام اردو پڑ گیا۔ جو ایک ترکی لفظ ہے۔ اور لشکر گاہ کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ کنول ڈیبائیوی نے اپنی کتاب ’اردو زبان اس کا نام‘ میں تفصیل سے اس پر گفتگو کی ہے۔ اُن کے مطابق تاریخِ جہاں کشا اور رشید الدین فضل اللہ کی جامع التواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے مستقر حکومت کو اردو کہا جاتا تھا اور اس زمانے میں جو چنگیز خان کی لشکر گاہیں تھیں وہ اردو مطلا کہلاتی تھیں۔ طبقات ناصری، فیروز شاہی اور بابرنامے میں بھی یہ لشکر گاہ کے معنی میں تھا۔ شاہی لشکر کو اردوئے معلی اور بازار لشکر کو اردو بازار کہا جاتاتھا۔
کچھ لوگ اسے سنسکرت کا لفظ ’اورداؤ‘ بتاتے ہیں، جس کا معنیٰ دو دلوں کو ملانے والا ہے اور اس کا رشتہ ویدک عہد سے جوڑتے ہیں۔ ڈاکٹر اجے مالوی نے اپنی کتاب میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔ اردو کو بہت بعد میں زبان سے مختص کیا گیا۔ انگریزوں کے زمانے میں اسے ہندوستانی ہی کہا جاتا رہا۔ ڈنکن فاربس نے بھی اس کا نام اردو اور ہندوستانی ہی رکھا ہے اور گستاولی بان جو ایک فرانسیسی محقق ہے اس نے یہ لکھا ہے کہ: ’’ہندوستان میں آریہ طبقے کی تقریباً سولہ زبانیں ہیں، ان میں سے ہندوستانی یعنی اردو زبان بھی ہے۔‘‘
اس کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی اردو اور ہندستانی کو ایک زبان کہا ہے۔ اردو اور ہندی کا افتراق بہت بعد میں ہوا۔ پہلے دونوں زبانیں ایک ہی کہلاتی تھیں، کیونکہ دونوں کی گرامر، صرفیات اور نحویات اور صوتیات میں یکسانیت ہے اور دونوں ہی ہندآریائی زبانیں ہیں۔ مگر گجراتی برہمن للو لال جی کے زمانے میں یہ زبان الگ ہوگئی۔ منشی للو لال جی کے ’پریم ساگر‘ سے اردو کے خلاف نفرت کا آغاز ہوا۔ للو لال جی نے فورٹ ولیم کالج کی ایک کتاب سے عربی اور فارسی کے سارے الفاظ نکال کر اس میں سنسکرت کے الفاظ ڈال دیے، تبھی سے یہ تنا زع بڑھتا گیا اور اردو مخالف بیانیے کی بنیاد سی پڑ گئی اور اردو زبان کے تعلق سے بہت ساری بے بنیاد باتیں کہی جانے لگیں۔ اسے غیر سیکولر، شدید مذہبی رجحان کی حامل زبان کہا گیا۔ اسے مسلمانی اور ملیچھ تک کہا گیا۔ سنیتی کمار چٹر جی نے بھی یہ لکھا کہ اردو صاف طور پر مسلمانی زبان ہے اور اپنے رجحان اور رویے کے اعتبار سے بھی غیر ہندوستانی ہے۔ پریم چند کے بیٹے امرت رائے نے بھی ایک غیر سیکولر زبان قرار دیا۔ آچاریہ رام چندر شکل نے ’ہندی اور مسلمان‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں اردو کو غیر فطری زبان لکھا اور اس کی ہندستانیت سے انکار کیا۔ حتّیٰ کہ ہندستان کے آئین کے آٹھویں شیڈول میں اردو کو جگہ دینے پر بھی اعتراض کیا گیا۔ اس طرح کے اور بھی اردو مخالف بیانات دیے جاتے رہے ہیں۔ جب کہ اردو کی پوری نثری اور شعری روایت پر نظر رکھی جائے تو اردو جمہوری اور سیکولر زبان قرار پائے گی۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بہت صحیح بات لکھی ہے۔
’’اردو کا ایک نام سیکولرزم یعنی غیر فرقہ واریت اور بقائے باہم بھی ہے۔‘‘
جوں جوں اردو زبان پر اعتراضات بڑھتے گئے تو اردو زبان کے تعلق سے تحقیقات کا سلسلہ بھی دراز سے دراز تر ہوتا گیا۔ اردو زبان کے تعلق سے بہت سی کتابیں لکھی گئیں. حافظ محمود شیرانی، سید محی الدین قادری زور، مسعود حسین خاں، عبد القادر سروری، شوکت سبزواری اور گیان چند جین، مرزا خلیل بیگ، سہیل بخاری اور دیگر نے اردو زبان کے آغاز و ارتقا کے حوالے سے کتابیں تحریر کیں اور مختلف رسائل میں اردو اور ہندی تنازع کے حوالے سے بہت سے مضامین شائع ہوئے، جن میں رسالہ زمانہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس رسالہ میں جعفر علی خاں لکھنوی، حامداللہ افسر میرٹھی، بیتاب بریلوی، شیام موہن لال جگر بریلوی، عظیم بیگ چغتائی، ح۔ی۔ع۔حق پرست، موہن سنگھ دیوانہ، رادھا رمن، منوہر لال زتشی، سلیم جعفر، منوہر لال طالب چکوانی، عبدالماجد دریاآبادی، عشرت لکھنوی، کلیم اعظم گڑھی، محمود علی خاں وغیرہ کے مضامین ’اردو، ہندی، ہندوستانی‘ کے مباحثے کے تحت شائع ہوئے۔ یہ تمام مضامین بہت قیمتی ہیں۔ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو ہندی کا یہ قضیہ بہت پرانا ہے اور ہنوز اس قضیے کا کوئی حل نہیں نکل پایا ہے۔ اسی تنازع کی وجہ سے اردو تنازع کے تعلق سے پروفیسر معین الدین دردائی کی کتاب ’ہندوستان کی قومی زبان اور رسم الخط‘ فرمان فتح پوری کی ’ہندی اردو تنازعہ‘ اور پروفیسر اویس احمد ادیب کی’اردو زبان کی نئی تحقیق‘ جیسی کتابیں شائع ہوئیں۔ اویس احمد ادیب نے اپنی کتاب میں یہ لکھا کہ: ’’سنسکرت ہندوستان کی اولین اردو ہے کیوں کہ وسط ایشیا سے جب آریہ بھارت آئے تھے تو ان کی کوئی ایک زبان نہیں تھی اور یہ مخلوط زبان بولتے تھے۔‘‘
سنسکرت لشکر کی زبان تھی، جسے آریوں نے دیویہ بانی کا نام دیا۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ "اردو آریوں کے ساتھ ہندوستان میں آئی۔ اس وقت ایک نوعمر بچی کی مانند تھی۔ اس نے غیر اقوام سے سبق حاصل کیا۔ ان کی صحبت میں رہی اور انہیں سے بہت سی باتیں مستعار لی۔ حتیٰ کہ ان کے الفاظ فقرے تک لے لئے۔ غرض ابتداء سے آج تک اردو ہندوستانی زبان بن کر رہی اور صحیح معنوں میں ہندوستان کی ہندوستانی یہی ہے اور ہندی دراصل اردو سے ہی پیدا ہوئی۔"
انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ:
’’للولال جی سے پہلے ہندی کا وجود نہیں تھا اور ہندو مسلمان دونوں ہی اردو ہی بولتے تھے۔‘‘ اور یہ حقیقت ہے کہ قدامت کے لحاظ سے ہندی کا وجود اردو کے بعد ہوا۔ اردو کی عمر تقریباً سات سو برس ہے جب کہ ہندی کی عمر زیادہ سے زیادہ دو سو سال ہے۔ اردو کو ہندی پر جو زمانی تقدم حاصل ہے اس کے کئی شواہد بھی ہیں۔ اردو زبان دراصل آریائی اور سامی زبانوں کا امتزاج ہے۔ اس میں یونانی، افغانی، فارسی، عربی، ترکی، سنسکرت، انگریزی سبھی زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ پنڈت سندر لال کا کہنا ہے کہ:
’’اردو نہ مسلمانوں کی اور نہ کسی اور کی مذہبی زبان ہے اور نہ کبھی تھی۔ وہ محض اس ملک کے لاکھوں رہنے والوں کی زبان تھی جن میں ہندو مسلمان، عیسائی اور جین سب شامل ہیں۔ یہ قدرتی اور مادری زبان ہے۔‘‘
سرتیج بہادر سپرو نے بھی کہا کہ ’مجھے اردو زبان سے محبت ہے۔ میں اس کو اپنی زبان سمجھتا ہوں اور اپنے ہندوستان کی زبان۔ مجھے یہ کہتے ہوئے ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ اردو میری مادری اور قومی زبان ہے۔
لسانیات کے ماہرین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اردو خالص ہندستانی زبان ہے۔ یہ انڈک زبان ہے۔ مگر ہندستان کی قدامت پسند دائیں بازوں کی تنظمیں اس زبان کو مسلمانوں سے منسوب کرکے اسے ملک بدر کرنے کی سازشیں کرتی رہیں ہیں اور ہندی ہندو اور ہندوستان کا نعرہ دے کر اس زبان کا رشتہ اس ملک سے توڑنا چاہتی ہیں۔ جب کہ یہ وہ زبان ہے جو مکمل طور پر ہندستان میں جنمی، پلی اور بڑھی۔ اور بقول گارساں دتاسی:
’’ ہندوستان کی عام بولیوں میں ہندوستانی (اردو) سب سے زیادہ وسیع البیان اور لچکدار زبان ہے‘‘ جے بیمز نے بھی لکھا ہے کہ ’’ آج کل عام طور پر زبان اردو کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے جو عدالتوں اور دفتروں میں رائج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اردو جن عناصر سے مرکب ہے وہ اجنبی ہیں اور آپس میں میل نہیں کھاتے۔ میں اپنے سات سال کے تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ اردو ہی سب سے زیادہ ترقی پسند اور سب سے زیادہ مہذب زبان ہے۔ زبان کی یہ واحد شاخ ہے جو یہاں کے باشندوں کی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے۔ اردو سے عربی اور فارسی کے الفاظ کا خارج کرنا ایسا ہے جیسے انگریزی زبان سے لاطینی الفاظ نکالنے کی کوشش کی جائے، یہ چاہا جائے [کہ] اس میں صرف اصل سیکسن کے الفاظ باقی رہیں۔‘‘
حیرت کی بات یہ ہے کہ وسط ایشیا سے آئے ہوئے آریوں کی زبان سنسکرت تو ہندستانی کہلاتی ہے اور جس زبان نے یہیں جنم لیا اسے غیر ملکی کہا جاتا ہے۔ اور تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ اردو جو دائیں طرف سے لکھی جاتی ہے دائیں بازو کی جماعتوں کو اُسی سے نفرت ہے۔ اور افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ پنجابی، بنگلہ، مراٹھی، گجراتی، تمل، کنڑ، ملیالم دوسرے رسم الخط میں لکھی جاتی ہے پھر بھی وہ ہندستانی زبان ہے۔ پنجابی جوشاہ مکھی اردو رسم الخط میں لکھی جاتی [ہے]، اسے تو کبھی کسی نے غیر ملکی زبان نہیں کہا۔ ایک غیر ملکی انگریزی زبان کے لیے سرکاری دفتروں اور دیواروں پر جگہ تو ہے مگر یہیں جنم لینے والی زبان کے لیے اس بھارت ورش میں کوئی گنجائش نہیں۔ یہ کیسی نفرت و عداوت اور معاندت اور مخاصمت ہے۔ شدید افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ اردو مخالف تحریک میں بیشتر وہ افراد بھی تھے جن کا اردو زبان سے ایک گہرا رشتہ بھی رہا ہے۔ بھارتیندو ہریش چند جو پہلے رسا کے تخلص کے ساتھ اردو میں شعر و شاعری کرتے تھے اور بقول شیونندن سہائے عربی فارسی کے پرم انوراگی تھے۔ انھی کی غزل کے یہ اشعار ہیں:
دل آتش ہجراں سے جلانا نہیں اچھا
اے شعلہ رخو آگ لگانا نہیں اچھا
رسا حاجت نہیں کچھ روشنی کی کنج مرقد میں
بجائے شمع یاں داغ جگر ہر وقت جلتے ہیں
اس طرح کے شعر کہنے والے نے ہی ’ہندی ہندو اور ہندوستان‘ کا نعرہ دیا تھا۔ اور اس کے بعد سے ہی بنارس اور الہ آباد سے اردو کے خلاف تحریکیں اور تنظمیں متحرک اور فعال ہوگئیں۔ ناگری پرچارنی سبھا قائم کی گئی جس میں یہ کہا گیا کہ اردو زبان میں فارسی عربی لفظ ضرورت سے زیادہ ہیں۔ بھارت ورش میں اس چیز کی اب گنجائش نہیں۔ بابو پرشاد منڈل، بابو نوین چند، بابو راجیندر لال مشر، بابو شیو پرشاد، جے کشن داس جیسے لوگ ناگری ہندی کے لیے متحرک ہوئے۔ بعد میں اردو کے مایہ ناز محقق پروفیسر گیان چند جین بھی ’’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘‘ لکھ کر اسی کارواں میں شامل ہوگئے اور انھوں نے ایک نیا اردو مخالف بیانیہ تشکیل کیا اور اردو کے بارے میں وہ باتیں کہیں جو انھیں زیب نہیں دیتی تھیں۔ اردو سے اتنی نفرت بڑھی کہ بابو نوین چندرا رائے نے تو یہاں تک کہا کہ ’اردو کے پرچلت ہونے سے دیش واسیوں کو کوئی لابھ نہ ہوگا کیوں کہ وہ بھاشا خاص مسلمانوں کی ہے۔ اس میں مسلمانوں نے ویرتھ بہت سے عربی فارسی کے شبد بھر دیے ہیں۔ پدیا چھند و پد رچنا کے بھی اردو اپیکت نہیں ہے۔ ہندوؤں کا یہ کرتویہ ہے کہ وہ اپنی پرمپراگت بھاشا کی انتی کریں۔ اردو میں عاشقی کے اترکت کسی گمبھیر وشے کو ویکت کرنے کی شکتی نہیں ہے۔‘ جب کہ یہ خیال بہت غلط اور گمراہ کُن ہے ۔اردو میں سائنسی، سماجی، اقتصادی، طبی علوم کا بیش بہا ذخیرہ ہے۔ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کی ’اردو میں سائنسی ادب کا اشاریہ‘، خواجہ حمید الدین شاہد کی ’اردو میں سائنسی ادب‘، خواجہ حمید الدین ایم کی ’شمس الامراء کے سائنسی کارنامے‘، ڈاکٹر محمد شکیل خان کی ’اردو میں سائنسی تکنیکی ادب‘ کے علاوہ انجمن ترقی ہند کا رسالہ ماہنامہ سائنس اور دیگر رسائل اس ناواقفیت پر مبنی بیان کی تردید اور تغلیط کے لیے کافی ہیں۔
احیا پرست تنظیموں نے اردو کے تعلق سے ایک پرسیپشنل ڈسٹینس پیدا کیا اور عوامی ذہنوں میں یہ بات نقش کرنے کی کوشش کی کہ اردو سے ہندستانی قومیت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ جب کہ برطانوی دور میں یہ عدالتی زبان تھی اور ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد اس زبان سے وابستہ تھی، حتیٰ کہ بہت سے اصناف میں اولیت اور افضلیت کا شرف ہندوؤں کو حاصل تھا۔ پریم چند، رتن ناتھ سرشار، نول کشور، لالہ سری رام اور رام بابو سکسینہ جیسے بڑے نام ہیں۔ خود تاراچند نے بھی یہی بات کہی ہے کہ: ’’اردو کے آغاز و ارتقا کا سہرا صحیح معنوں میں ہندؤں کے سر ہے، وہی اس کی پیدائش کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔‘‘ اردو کے تعلق سے ان تمام حقائق کے باوجود اردو کے خلاف اس طرح کے بیانات مستقل دیے جاتے رہے، جس کی وجہ سے ایک مشترکہ زبان کا وجود خطرے میں پڑ گیا۔ اور ہندی اردو کا بہناپا بھی ٹوٹ سا گیا. جب کہ پنڈت دتاتریہ کیفی نے اپنی ایک نظم میں لکھا تھا:
ایسی زباں میں وجہ شرف کی یہی ہے بات
اردو کو ہر زبان سے ہے ربط و التفات
فرقوں کے ربط وضبط کا ہے اس سے انتظام
قومی یگانگی کا ہے قائم اسی سے کام
اردو بنی ہے مسلم و ہندو کے میل سے
دونوں نے صرف اس پہ دماغ و دل کیے
بہناپا اس کا دوسری بھاشاؤں سے رہا
اس نے کسی کو غیر نہ سمجھا کبھی ذرا
اردو ہی دوستو وطنیت کی جان ہے
یہ یاد رکھو اس سے اخوت کی شان ہے
مگر یہی زبان بعد میں تقسیم کی تلوار بن گئی اور اسے مسلم تشخص (Identity) سے جوڑ دیا گیا اور لوگوں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا. بقول جاوید اختر: ’زبان کا تعلق ریلجن نہیں بلکہ ریجن سے ہوتا ہے۔‘ تمام تر سیاسی تعصبات اور فرقہ وارانہ تحفظات کے باوجود بہت سارے روشن خیال افراد تھے جنھوں نے اردو کی وکالت اور حمایت کی۔ حکم چند نیر بھی اپنی ایک کتاب میں اردو پر غیرملکی ہونے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں: اردو ایک خالص ملکی اور ہندوستانی زبان ہے۔ اس کی بنیاد خالص ہند آریائی عناصر پر ہے۔ صرفی اور نحوی اعتبار سے اردو بھی برج، ہریانی، اودھی، گجراتی، مراٹھی، بنگالی، پنجابی اور سندھی زبانوں کی مانند ایک خالص ملکی اور ہندوستانی زبان ہے۔ اگر کسی وجہ سے اردو کو غیر ملکی زبان کہا جا سکتا ہے تو پھر ہندوستان کی کسی بھی نئی اور پرانی زبان کو دیسی اور ملکی نہیں کہا جا سکتا ہے۔‘‘ یہی سوال اپنی ایک نظم میں راشد بنارسی نے اٹھایا تھا:
بہت سمجھے تھے ہم اس دور کی فرقہ پرستی کو
زباں بھی آج شیخ و برہمن ہے ہم نہیں سمجھے
اگر اردو پر بھی الزام ہے باہر سے آنے کا
تو پھر ہندوستان کس کا وطن ہے ہم نہیں سمجھے
چمن کا حسن تو ہر رنگ کے پھولوں سے ہے راشد
کوئی بھی پھول کیوں ننگ چمن ہے ہم نہیں سمجھے
مجھے پنڈت گنگا ناتھ جھا کی یہ بات اس تعلق سے بڑی اچھی لگی کہ ’’روحانی نقطۂ نظر سے ہندی اور اردو ہی نہیں بلکہ ملک کی تمام زبانیں ایک ہیں اور رہیں گی۔ ‘‘
مگر اب حالات کا جبر دیکھیے اورسیاست کی ستم ظریفی کہ ہندستان میں سب سے زیادہ تنازع اردو ہندی ہی کو لے کر ہے جب کہ یہ دونوں ہی ہندآریائی زبانیں ہیں۔ ہندی کی کوئی لڑائی تمل، ملیالم، کنڑ جیسی دراوڑی زبانوں سے نہیں ہے اور نہ ہی انگریزی زبان سے ہے۔ ساری لڑائی صرف اس زبان سے ہے جس سے اس کی سب سے زیادہ قربت ہے۔ گوپی چند نارنگ نے بڑی اچھی بات لکھی ہے کہ:
’’اس بات کو اچھی طرح خاطر نشاں کرنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کی تمام ہند آریائی زبانوں میں اردو زبان ہندی سے سب سے زیادہ قریب ہے۔ اور ان دونوں میں اٹوٹ رشتہ ہے۔ دونوں زبانوں کا جد امجد انڈک ہے۔‘‘
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ زبانوں کی جنگ میں زیاں لسانی لطافتوں اور جوہروں کا ہی ہوتا ہے۔ زبانوں کو ذریعہ اظہار کے بجائے میدان کارزار بنانے والوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ان کے عمل سے ہی زبانوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ زبان کا جغرافیہ محدود سے محدود تر ہوتا جاتا ہے۔ زبانوں کے تشکیلی عناصر اور اس کی نزاکتوں، نکہتوں سے ناواقف افراد نے ہی زبانوں کے نمو اور ارتقا کی راہیں مسدود کی ہیں۔ ان لوگوں نے کبھی اس حقیقت پر غور نہیں کیا کہ زبانوں کی جنگ میں ہار اکثر قوت اظہار کی ہوتی ہے اور مکالمہ مفلسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ترسیل تنگ ہوجاتی ہے۔ زبانوں کی قوت و وسعت کا سارا انحصار جذب و انجذاب پر ہوتا ہے۔ لیکن مذہبی احیا پسندی کے زیر اثر یک لسانی نظام کو ایک مخلوط اور کثیر طبقاتی سماج پر مسلط کرنے والی ذہنیتیں یہ سمجھ نہیں پاتیں کہ زبان داخلی جذبات اور احساسات کے اظہار کا ایک ذریعہ ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کا بھی خیال تھا کہ ’زبان اظہار مطالب کا ایک انسانی ذریعہ ہے۔ کوئی بت نہیں کہ جس کی پرستش کی جائے۔‘ زبانوں کے باب میں جبر سے تہذیب، اقدار ہی نہیں سماجی ساخت بھی مجروح ہوتی ہے اور لسانی استعماریت سے اظہاری منطقہ، علاقہ، رقبہ وسیع نہیں محبوس اور مختصر ہوجاتا ہے۔ جبر سے آزاد فضا میں زبانوں کو جب اپنے حصے کی زمین ملتی ہے تو اس کے فطری نشو و نما سے لسانی راہداریاں کشادہ سے کشادہ تر ہوتی جاتی ہیں۔ مگر محبوس اور مدقوق ذہن کے افراد ہمیشہ ایسی روش اختیار کرتے ہیں کہ غیر ضروری طور پر زبانوں میں جنگ چھڑ جاتی ہے اور شاید یہی جنگ ان کی بلند سیاسی خواہشات اور آرزؤں کی تکمیل کا ذریعہ کے علاوہ ان کے وجود کا جواز بن جاتی ہے۔
اردو کو متعصبانہ سیاست نے گو مسلمانوں سے منسوب کرکے ملک بدر کرنے کی سازش کی ہے مگر اس زبان نے جس کا کوئی علاقہ نہیں اس نے ہر علاقہ میں اپنی موجودگی درج کرائی ہے. یہ وہ سخت جان زبان ہے کہ جتنا اسے دبائیں گے اتنی ہی ابھرتی جائے گی۔ رسالہ ساقی کے مدیر شاہد احمد دہلوی نے بہت اچھی بات کی تھی کہ: ’صاحب یہ غضب کی ڈھیٹ زبان ہے، بڑی سخت جان، عجب بلا ہے کہ یونانی صنمیات کے ہائیڈرا کی طرح اگر اس کا سر قلم کیا جاتا ہے تو ایک کے بدلے دو سر نکل آتے ہیں۔ اردو کسی کے مارے مر نہیں سکتی۔ مرتی وہ زبانیں ہیں جو تنگ دل ہوتی ہیں۔‘ اردو ایک کشادہ دل زبان ہے جس نے تمام زبانوں کی لفظیات، استعارات، علامات، تلمیحات، تمثیلات کو اپنے اندر جذب کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں اردو کی نئی نئی بستیاں وجود میں آرہی ہیں۔ یہ زبان پہلے بھی ہندستانی تھی اور آج بھی ہندستانی ہے اور مستقبل میں بھی ہندستانی ہی رہے گی۔ اس کی شہریت اور ہندستانیت کوئی بھی چھین نہیں سکتا۔
***
حقانی القاسمی کی گذشتہ نگارش:ظفر کمالی کا کمالِ ہنر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے