ڈاکٹر دیبا ہاشمی کی منٹو شناسی

ڈاکٹر دیبا ہاشمی کی منٹو شناسی

 کتاب "احتجاجی ادب اور منٹو" کے حوالے سے 

نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9،گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ(شمال) مغربی بنگال
پن۔743125
فون۔9339966398

ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے. اس آئینے میں ہم زندگی کے مختلف پہلوؤں کو دیکھتے ہیں۔ کچھ تصویریں جب ہمارے موافق آئینے میں نظر آتی ہیں تو ہم خوشی سے اچھل پڑتے ہیں اور جب کچھ ایسی تصویریں آئینے کی سطح پر نمودار ہوتی ہیں جن سے ہم نظریں چراتے ہیں تو اس وقت ہمارا جی چاہتا ہے کہ اس شیشے کو توڑ دیں جو ایسی بے وقعت اور بد مزہ نقوش کو ابھارتا ہے جس سے دم گھٹنے لگتا ہے۔کبھی کبھی ہم ایسے شیشے کو توڑ بھی دیتے ہیں اور وقتی تسکین حاصل کرلیتے ہیں، مگر ہمارے شیشے توڑ دینے سے یہ حقیقتیں نہیں ٹوٹتیں، یہ اور دیو قامت ہو جاتی ہیں۔ بس اس آئینے کو سامنے رکھنے کے مجرم سعادت حسن منٹو ہیں. جب کہ انھوں نے آئینہ دکھانے کی سعی نہیں کی، بس سامنے رکھا. کیونکہ اس آئینے میں منٹو بھی گوشت پوست کے آدمی دکھائی دیتے ہیں نہ کہ کوئی فن کار۔ اس جرم کا مرتکب ہونے پر منٹو کے چہرے کو سیاہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی جب کہ منٹو خود انسان ہونے کے سارے شرائط پر پورا اترتے تھے، بشری کم زوریوں کے شکار اور کبھی اس سے بڑھ کر شاہ کار بھی بنے، پھر ان کا مقصد قطعی خود کو اچھا ثابت کرنا نہیں تھا، وہ تو محض چند سوالات لیے محفل شرفا میں کھڑے رہے. البتہ سوالوں کے جواب کے بدلے انھیں اذیتیں ملیں، ہاں مگر منٹو نے سب کچھ یوں ہی خاموشی سے نہیں سہا بلکہ انھوں نے بھی اپنی کلائی پکڑے ہوئے ہاتھوں میں اپنے دانت گڑا دیے۔
وقت گزرتا رہا منٹو کی باتیں کتابوں کی الماریوں سے چیختی رہیں اور پھر منٹو اپنے افسانے لیے دور حاضر میں آ کھڑا ہوئے اور اب بھی ان کی زبان پر وہی سوالات تھے۔ اب ان سوالوں کے جواب ملنے شروع ہوگئے تھے. اب آئینے پر ابھرے نقوش سے، بیدار اذہان نظریں ملا رہے تھے اور منٹو کے افسانوں کو حقیقت سے تعبیر دے رہے تھے۔ یہ طرز فکر ادب کے حق میں نیک ثابت ہوا۔ کسی بھی چیز کو خواہ وہ صنف ہو یا نظریہ نہ پوری طرح قبول کیا جاتا ہے اور نہ رد کیا جاتا ہے، کیونکہ انسان کا کہا کبھی بھی حرف آخر نہیں ہو سکتا۔
منٹو بہ ذات خود اردو ادب کا ایک شاہ کار ہیں۔ ان کی زندگی کے مختلف گوشوں نے کئی ادبی چراغ جلائے، منٹو نے افسانے لکھتے وقت کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ فن پارے تحریر کر رہے ہیں، انھوں نے انسانی سماج میں غیر انسانی روے کے خلاف اپنا احتجاج کیا، سماج میں پھیلی برائیوں کے خلاف احتجاج کیا اور سینہ تان کر احتجاج کیا۔
ڈاکٹر دیبا ہاشمی نے منٹو کے اس احتجاجی ادب کو اپنا میدان عمل چنا اور تحقیقی سفر کیا۔ ڈاکٹر دیبا ہاشمی کا تعلق درس و تدریس کے مقدس پیشے سے ہے. انھوں نے جس دیانت داری اور لگن کے ساتھ اپنے پیشے سے انصاف کیا ہے ویسی ہی لگن اور دیانت داری انھوں نے اپنی تخلیقی زندگی میں بھی دکھائی ہے۔
ڈاکٹر دیبا ہاشمی کی تھیسس کا موضوع "منٹو: بہ حیثیت احتجاجی افسانہ نگار" رہا ہے. ان کی کتاب "احتجاجی ادب اور منٹو" اس کی ایک کڑی ہے۔ ڈاکٹر دیبا ہاشمی سب سے پہلے اس کام کے لیے مبارک باد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک ایسے موضوع کا انتخاب کیا جو کسی طور آسان نہ تھا. اپنی تدریسی خدمات اور دوسری ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ادب میں غوطہ زن ہونا سب کے بس کی بات نہیں اور دوسرا کام یہ کہ انھوں نے نہ صرف ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی بلکہ اپنی تھیسس کو کتابی شکل میں منظر عام پر بھی لایا۔ ان کے عزم و حوصلے کی داد پیش کرتا ہوں۔ دو سو چھتیس صفات پر مشتمل یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔
پہلے باب میں موصوفہ نے اردو میں احتجاجی ادب کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ ادب میں اس کے مقام کا تعین کیا ہے. نیز احتجاجی ادب کے مشہور افسانہ نگاروں پر عمیق مطالعہ اور سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ موصوفہ اپنی اس کتاب کے تعلق سے "چند باتیں" میں رقم طراز ہیں۔
"ایم-اے کے بعد جب میں نے پی-ایچ-ڈی کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے موضوع کے انتخاب کا مسئلہ آیا۔ چوں کہ افسانہ میرا پسندیدہ صنف رہا ہے اور سعادت حسن منٹو میرے پسندیدہ فسانہ نگار، اس لئے میں نے "منٹو: بہ حیثیت احتجاجی افسانہ نگار" کو اپنے تحقیقی مقالے کا موضوع بنایا".
موصوفہ کا یہ بیان اس ضمن میں بہت اہمیت کا حامل ہے کہ انھ وں نے اسی صنف اور فنکار کو چنا جو ان کا پسندیدہ تھا. ظاہر بات ہے جب کوئی اپنی پسند کے مطابق کام کرتا ہے تو اس کام میں اس کے صرف ہاتھ ہی نہیں ہوتے وہ پورا کا پورا اس کام میں مصروف ہوتا ہے۔ موصوفہ بھی اس کام میں ہمہ تن مصروف رہیں، جس کا بین ثبوت ان کی یہ کتاب ہے۔ منٹو پر کام کرنا ویسے بھی آسان نہیں مگر انھوں نے اس مشکل کام کو کامیابی سے ہم کنار کیا ہے۔
باب اول میں موصوفہ نے احتجاج کے تعلق سے جو تعریف پیش کی ہے وہ قابل تعریف ہے اور کمال کی بات یہ ہے کہ ان کا اسلوب احتجاجی ادب کو بیان کرتے وقت خود ایک احتجاج معلوم ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے احتجاج اپنی زبان سے اپنی پہچان بتا رہا ہو۔
"احتجاج کیا ہے؟ جب سے دنیا عالم وجود میں آئی اور انسان نے عقل و شعور سے آگہی حاصل کی، تب سے ہی احتجاج کا وجود ظہور پذیر ہوا۔ (لوگ ایک دوسرے کا) جب جب سماج کے ٹھیکے داروں نے مظلوموں پر ظلم روا رکھا، جہاں جہاں بربریت، جور و ستم اور استبداد کی آندھیاں چلیں، جہاں جہاں روح انسانیت گھائل ہوئی، دلوں کے نازک آبگینوں کو ٹھیس پہنچی، وہاں وہاں احتجاجی صدائیں بلند ہوئیں۔ احتجاج ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔"
اس باب کے تحت موصوفہ نے اردو زبان میں احتجاجی ادب کے حوالے سے عمدہ بحث کی ہے۔ افریقہ کے کالے گورے کا جھگڑا ہو یا کالی داس کی ابھیگیان شاکنتلم، بنکم چندر چٹرجی، بھارتیندو، سرت چند چٹرجی، رابندر ناتھ ٹیگور، پریم چند، اقبال اور دوسرے قلم کاروں کے یہاں احتجاجی ادب ملتا ہے۔ موصوفہ نے احتجاجی ادب کے مشہور افسانہ نگاروں کا تذکرہ کرتے وقت کرشن چندر بیدی، اپندر ناتھ اشک، احمد ندیم قاسمی، حیات اللہ انصاری، اختر اورینوی جیسے بڑے افسانہ نگاروں کی تخلیقات میں احتجاجی پہلوؤں کی نشان دہی کی ہے۔ اس دوران انھوں نے ان تحاریک کا بھی احاطہ کیا ہے جو احتجاجی ادب کو پروان چڑھانے میں معاون رہیں۔
باب دوم میں مختصر افسانہ نگاری کی ترقی میں منٹو کے کردار کا تعین کیا گیا ہے۔ منٹو کے افسانوں کے متعلق اطہر پرویز مرتبہ "منٹو کے نمائندہ افسانے" کے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں:
"شخصیت کی بے باکی اور مزاج کی ضد نے ان کے افسانوں میں ایک تلخی اور تیکھا پن پیدا کردیا ہے اور یہی منٹو کا فن بن گیا ہے۔ ہمیں منٹو کے فن کو سمجھنے کے لیے افسانہ نگاری کے اصولوں کے مطالعہ سے اتنا فائدہ نہیں پہنچے گا جتنا خود منٹو کے افسانوں کے مطالعہ سے منٹو کے فن کا اندازہ ہوگا۔ یوں بھی میں سمجھتا ہوں کہ ادب کا معیار نقادوں کی فلسفیانہ موشگافیاں نہیں ہوتیں بلکہ خود ادب ہوتا ہے اور ان کی مدد سے ہی اس مخصوص فن کار کے فن کو سمجھا جا سکتا ہے."
(منٹو کے نمائندہ افسانے) اطہر پرویز، ناشر ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ ص:٩
منٹو اردو ادب کا وہ مایہ ناز افسانہ نگار ہیں جنھوں نے مختصر افسانے کو ایک نئی جہت دی، ایک نیا نظریہ دیا، ایک بیدار ذہن دیا۔ منٹو کا بیانیہ لہجہ اور تیکھے تیور نے افسانوں کو دیکھنے، پڑھنے اور سمجھنے کا طریقہ بدل دیا۔ منٹو نے وہ کہا جس کا سوچنا ممکن نہ تھا۔ منٹو کے یہاں ایک تاثر کو افسانہ بنانے کا فن تھا جو منٹو کا جمالِ فن بھی تھا اور کمالِ فن بھی۔ فحش نگاری کا الزام اٹھانے والے منٹو کے افسانوں میں احتجاجی رویے کے مظاہرہے کے حوالے سے موصوفہ نے ان کے بہترین افسانوں کا تجزیہ پیش کیا ہے اور ان کے افسانوں سے ان اقتباسات کو اخذ کرکے پیش کیا ہے جو منٹو کے احتجاجی ادب کی بہترین ترجمانی کرتے ہیں۔ موصوفہ نے بہت عرق ریزی سے ان افسانوں میں احتجاج ڈھونڈا ہے اور ایک بہترین محقق ہونے کا فرض ادا کیا ہے۔
منٹو کے اثرات کو دوسرے افسانہ نگاروں نے بھی قبول کیا۔ منٹو نے جو جو اثرات اردو ادب میں چھوڑے اس کا اثر دیر پا رہا اور ہر تحریک کے ہم نواؤں نے اسے خوش دلی سے اپنے افسانوں میں برتا۔ موصوفہ نے قرۃالعین حیدر، انتظار حسین، جیلانی بانو، غیاث احمد گدی، بلراج مینرا، سلام بن رزاق، شام بارکپوری وغیرہ کے افسانوں میں احتجاجی رویے کو پیش کیا ہے جن کے تانے بانے منٹو کے افسانوں کی تکنیک سے ملتے ہیں۔
باب سوم کے تحت اردو کے مختصر افسانوں میں منٹو کے مقام کے تعین کے ساتھ ان کے افسانوں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ منٹو خود اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ افسانہ نہیں لکھتے بلکہ افسانہ انھیں لکھتا ہے۔ منٹو نے جس تلخ حقیقت کو پیش کیا اس میں ذرا بھی شکر نہیں ڈالا. اس لیے اس کو گلے میں اتارنے میں بہت دشواریاں ہوئیں۔ منٹو کو میں نفسیات کا افسانہ نگار سمجھتا ہوں۔ انسانی نفسیات کو منٹو نے جس شدت سے محسوس کیا شائد ہی کسی نے کیا ہو۔ منٹو کو سماج سے دشمنی نہیں تھی بلکہ بے انتہا محبت تھی. ان کے افسانوں میں جو irony پائی جاتی ہے اس میں درد کا ایک پہلو بسا ملتا ہے. مگر بہ ظاھر دکھائی نہیں دیتا۔موصوفہ نے منٹو کے افسانوں سے کچھ ایسے اقتباسات اخذ کیے ہیں جو اپنے آپ میں ایک افسانہ معلوم ہوتا ہے۔موصوفہ نے منٹو کے اٹھائیس الفاظ پر مشتمل افسانہ (صدقے اس کے) کو پیش کر کے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بغیر تمہید اور فضا بندی کے منٹو نے کتنی گہری معنویت پیدا کی ہے۔ اس افسانے کو پیش کرنا یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے۔
"مجرا ختم ہوا۔ تماشائی رخصت ہوئے. استاد جی نے کہا سب کچھ لٹا پٹا کر آئے تھے لیکن اللہ میاں نے چند دنوں میں ہی وارے نیارے کردیے"(صدقے اس کے)
منٹو کی بے باکی منٹو کا فن تھا۔ موصوفہ کا منٹو پر ان کی ذہانت اور بے باکی کے تعلق سے جو مضمون شامل ہے، نہایت عرق ریزی سےلکھا ہوا مضمون ہے۔ اس مضمون میں موصوفہ کا انفرادی طرز نگارش قابل رشک ہے۔ مضمون میں مواد کی فراہمی بہت متاثر کرتی ہے۔
منٹو کے افسانوں میں ذہانت اور بے باکی کے تعلق سے موصوفہ کا یہ اقتباس دیکھیں:
"تقسیم ہند سے ہونے والی تباہی اور آبرو ریزی اور اس سے انتقام کی آگ جو لوگوں کے دلوں میں بھڑکی، اس کی نمائندگی انھوں نے”شریفین" جیسے افسانوں میں کی ہے، جہاں عورتوں میں لاچاری سے سر اٹھانے والی بغاوت کی بات چلی تو وہاں انھوں نے "سو کینڈل پاور کا بلب" پیش کیا، جب جدیدیت کی بات ہوئی تو "پھندنے" کی کہانی پیش کی، جب مذہب کی ایمان داری کی بات چلی تو "گورمکھ سنگھ کی وصیت" ہمیں ملی۔ جب جنس پرور زن کی بات چلی تو مسز ل اور لتیکا رانی ہمارے سامنے آئیں۔"
منٹو سماج کی نبض پر ہمیشہ انگلی رکھے رہے اور وقت اور حالات کے مطابق ایسے ہی افسانے پیش کیے، یہ منٹو کی ذہانت پر دال ہے۔
منٹو کے افسانوں میں انسانی نفسیات کا تجزیہ بہت باریک بینی سے کیا گیا ہے اور منٹو فہمی خصوصی طور پر منٹو کے افسانوں میں انسانی نفسیات کے متعلق یہ مضمون دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضمون موصوفہ کے عمیق مطالعے اور محققانہ نگاہ کا ثمرہ ہے۔تجزیے کے دوران موصوفہ کی تحریر کی روانی، شگفتگی اور شائستگی بے حد متاثر کرتی ہے۔
منٹو کو انسانی نفسیات پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اپنی بڑی بہن اقبال بیگم جو بعد میں ناصرہ اقبال ہوگئیں۔ایک خط میں جب ان کی بہن نے ان کا ذکر نہیں کیا تھا تو منٹو کو اس کا دکھ ہوا تھا اور وہ اسے دانستہ کیا گیا کام سمجھتے تھے. اس لیے اپنے خط میں اپنی بہن سے شکایتی لہجے میں کہتے ہیں۔
"باجی! آپ کا بھائی غیر تمدن یافتہ، ٹھوس اور چڑ چڑا سہی مگر وہ اپنے پہلو میں ایک حساس دل رکھتا ہے جس کی ہر حرکت میں "محبت" صرف محبت پوشیدہ ہے۔ اس لیے اس کے لیے چھوٹی سی غلطی ایک عظیم واقعہ کے مترادف ہے۔۔۔۔۔۔یہ "کمزوری" مجھے قدرت سے عطا ہوئی ہے اس میں میرا کوئی قصور نہیں ۔۔۔۔"
(منٹو کے نادر خطوط، کچھ اپنوں کچھ اوروں کے نام) تحقیق و ترتیب، فاروق اعظم قاسمی، ص:-8-7
آخری باب میں اردو کے احتجاجی ادب کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا گیا ہے اور منٹو کے کارواں کو دور رواں سے ملادیا گیا ہے۔ احتجاج زندہ دل ہونے کا ثبوت ہوتا ہے۔ وہ فن کار جو غلط کو غلط نہ بول سکے اور حقیقت نگاری کا دعویٰ کرے تو وہ دعویٰ جھوٹا ہوگا۔ احتجاج انسانی خمیر میں ہے. جب ظلم و ناانصافی کا باغ ہرا ہونے لگتا ہے تو سرکش طوفان کو بھی یہ دعوت دے دیتا ہے۔ ظلم خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو اس پر احتجاج ہونا ضروری ہے اور ذی شعور، بالغ نظر، حوصلہ مند اور دلیر لوگ ظلم سہتے نہیں ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، اپنی اپنی بساط کے مطابق۔ مختلف لوگ مختلف طریقوں سے اپنا احتجاج درج کرتے ہیں اور اپنی زندہ ضمیری کا ثبوت دیتے ہیں۔ ایک فن کار کے احتجاج کا پلیٹ فارم اس کا فن ہوتا ہے ،ایک سچا فن کار اپنی شعوری کوششوں کے باوجود بھی اپنے دل کو احتجاج سے نہیں روک پاتا ہے۔ موصوفہ نے اردو کے احتجاجی ادب کا جائزہ لیتے وقت اردو ادب کے بہترین افسانہ نگاروں کی تخلیقات کا احاطہ کیا ہے۔ کرشن چند، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، احمد عباس، احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، بلراج مینرا، سریندر پرکاش، احمد ہمیش وغیرہ افسانہ نگاروں کے ہاں احتجاجی عنصر ڈھونڈ نکالا ہے۔ اردو میں احتجاجی ادب کے حوالے سے یہ کتاب بہت اہم ہے۔ ڈاکٹر دیبا ہاشمی مبارک باد کی مستحق ہیں. انھوں نے منٹو کے احتجاجی ادب پر اپنی معیاری کتاب قارئین اردو ادب کو پیش کی۔ کتاب کا گیٹ اپ جاذب نظر ہے۔ ہاتھ میں آنے کے بعد چھوٹتی نہیں۔سرورق بہت معنی خیز ہے، جس میں منٹو کی سب سے مشہور تصویر ہے اور تصویر کے نیچے احتجاجی کارواں کو دکھایا گیا ہے۔ کمپوزنگ، باننڈنگ لاجواب ہیں۔المختصر یہ کتاب نہ صرف منٹو شناسی میں مدد گار ثابت ہو گی بلکہ اردو ادب کے احتجاجی ادب کا بھر پور جائزہ لینے میں بھی بہت مفید ثابت ہو گی۔ قوی امید ہے کہ ادبی حلقوں میں ڈاکٹر دیبا ہاشمی کی اس کتاب کو بھر پور پزیرائی حاصل ہوگی۔
مختار کل سے دعا گو ہوں کہ ڈاکٹر دیبا ہاشمی کا قلم یوں ہی ادب کے صفحوں پر نت نئے نقش و نگار ابھارتا رہے۔ آمین۔
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :وحید عرشی : یادوں کے ریگزاروں پر ایک آبلہ پا شاعر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے