دل کو اس دل سے ملانے کی ضرورت کیا تھی

دل کو اس دل سے ملانے کی ضرورت کیا تھی

دلشاد دل سکندر پوری

دل کو اس دل سے ملانے کی ضرورت کیا تھی
خود کو اس طرح مٹانے کی ضرورت کیا تھی

لوگ جس موڑ پہ گر تے ہی بکھر جاتے ہیں
خود کو اس موڑ پہ لانے کی ضرورت کیا تھی

جن چراغوں کو ہواؤں سے بڑی تھی رغبت
ان چراغوں کو بجھانے کی ضرورت کیا تھی

تیری ناراضگی برداشت نہیں ہے جس کو
ہاتھ پھر اس پہ اٹھانے کی ضرورت کیا تھی

تیرے کردار سے پہچان تری ہو جاتی
مری تصویر دکھانے کی ضرورت کیا تھی

بوجھ اک دل کا اٹھایا نہیں جاتا مجھ سے
دل تمھیں مجھ سے لگانے کی ضرورت کیا تھی

میں وہ آنسو ہوں جو آنکھوں کو دغا دیتا ہوں
مجھ کو پلکوں پہ بٹھانے کی ضرورت کیا تھی

میں تو ہر راز تیرا جان رہا تھا اے دل
پھر غزل مجھ کو سنانے کی ضرورت کیا تھی
***
صاحب غزل کی گذشتہ غزل:تمھارے عشق کی سینے میں چاہ ہوتے ہوئے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے