وحید عرشی : یادوں کے ریگزاروں پر ایک آبلہ پا شاعر

وحید عرشی : یادوں کے ریگزاروں پر ایک آبلہ پا شاعر

نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398

ہر عہد کے کچھ یاد گار واقعات ہوتے ہیں جو اس عہد کو مخصوص بناتے ہیں اور ایسے واقعات ایسی شخصیات کی مرہون منت ہوتے ہیں جو زمانے کی دیوار پر اپنا نام ایسا لکھ جاتی ہیں جن پر بدلتے موسم کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جنھیں تاریخ اپنے مکمل ہونے کے لیے ان کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو راہ کے کانٹوں کو اپنے با برکت قدموں سے پھول بناتے ہیں تاکہ ان کے بعد آنے والی نسلوں کو ان کانٹوں بھری راہ سے نہ گزرنا پڑے۔ ساحر لدھیانوی کہتے ہیں۔
مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے
کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم
اپنے کاندھوں پر اپنا صلیب لٹکائے زندگی کی پر پیچ راہوں پر چلتے ہوئے جس کے لب پر قسمت کے خلاف کبھی حرف شکایت نہ رہا، وہ جس نے اردو کا چراغ روشن رکھنے کے لیے آسانیوں کو ٹھوکر مار کر صعوبتیں برداشت کیں وہ ایک مصور، ایک موسیقار اور شاعر پروفیسر وحید عرشی کی بابرکت ذات تھی، ذات کیا تھی ایک کائنات تھی۔ جی ہاں مفاد پرست دنیا میں اس فریم کے بہت کم لوگ ہی بنے تھے جو آج کم یاب نہیں نایاب ہیں۔
وحید عرشی کے اندر ایک ساتھ کئی فنکار سانس لے رہے تھے. کمال ظرف ہے کہ سب کو یکساں حقوق اور اختیار دے رکھا تھا۔ معلمی سے فراغت ملی تو برش اٹھا لیا اور سفید قرطاس پر اپنے خیالات کے رنگین نقوش ابھار دیے. جب چاہا مٹی کو اظہار کا ذریعہ بنا لیا اور اپنی لگن اور جنون کو لکڑی، مٹی پتھروں کی زبان بنا ڈالی اور رات گئے جب نیل گگن پر تاروں کی برات نکلی تو اپنے پرواز تخیل سے ان سے محو گفتگو ہوگئے اور احساسات کو قرطاس پر بکھیرنے کے لیے برش رکھ کر قلم اٹھا لیا۔ اس ہر فن مولا شخص کی شاعری کا ایک وصف ان کا منفرد اسلوب ہے۔ کھردرے لب و لہجے میں مصائب ہستی کو ویسے ہی پیش کردی جیسی وہ تھیں۔ شاعری میں پیشکش سے زیادہ خیال کو ترجیح دی۔ جیسے وحید عرشی کی شخصیت منفرد تھی ویسے ہی ان کی شاعری کا اسلوب بھی منفرد ہے۔
"یادوں کا زنداں" موصوف کا شعری مجموعہ ہے۔جس میں غزلیں، قطعات، متفرق اشعار کے علاوہ نظمیں ہیں۔ ٨ ٨ صفحات پر مشتمل اس شعری آئینے میں ہم ایک ایسے شاعر کی تصویر دیکھتے ہیں جس کے سینے میں ایک حساس دل تھا۔ موصوف کی شاعری میں زندگی کے نشیب و فراز کی کہانیوں کے علاوہ روز مرہ میں واقع ہونے والے ان تمام واقعات کی روداد ملتی ہے جو ایک فنکار کے فن پر دال ہے۔فن کار کی زندگی فن کے لیے ہوتی ہے. درحقیقت یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فن کار اپنی پسند کی زندگی صرف اپنے فن میں ہی جیتا ہے. ویسے جیسے وہ چاہتا ہے. ورنہ زندگی ایک روٹین بن چکی ہے، ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے والا آج کا آدمی کب جیتا ہے وہ تو ایک مشین بن چکا ہے. سب کام وقت پر کرنا اس کا نصب العین ہے۔ اپنی شاعری میں احساسات کے مختلف رنگ و بو کو بسانے والے وحید عرشی نے وقت کی ہتھیلی پر یادوں کا زنداں بسایا۔ وہ اس زنداں سے نکلنے کی کوشش بھی کرتے تو نہ نکل پاتے. اس ضمن وہ خود رقمطراز ہیں۔
بھاگ چلوں یادوں کے زنداں سے اکثر سوچا لیکن
جب بھی قصد کیا تو دیکھا اونچی ہے دیوار بہت
غزل احساس کا سفر کرتی ہے۔ لفظوں کی ہنر کاری سے اسے ظاہری حسن تو ملتا ہے پر خیال کی ندرت، اظہار کی برجستگی، فکر کی شائستگی اسے باطنی حسن بخشتی ہے. اس کی مثال اردو شاعری میں بہت ملتی ہے، جہاں ظاہری حسن تو ملتا ہے مگر باطنی احساس بیدار نہیں ہوتا۔ غزل وہ روگ ہے جس تن لگے اس تن جانے. موصوف نے غزل کی روایت کو ملحوظ خاطر رکھا اور کلاسیکی شاعری کے گلشن کو آباد رکھا۔ موصوف کی غزلوں کے کچھ اشعار دیکھیں اور ان کی شگفتگی پر دل کو تھامیں۔
کیا جانے کیوں تکتے رہے راہ کسی کی
آنے کا وعدہ بھی کیا تھا نہ کسی نے
حسرت دیدار لےکر کوئی ڈوبا تھا کبھی
چشم بن کر آب سے اٹھتا ہے اب تک بلبلا
کس کو کہیے گا خرد اور کس کو کہیے گا جنوں
اک خودی نا آشنا اک بے خودی میں مبتلا
عقل اور دل میں ترے حسن پہ اک بات چلی
کل بہت رات بہت رات گئے رات ڈھلی
ڈوب جائے گی کائنات کی نبض
تم خدارا نہ بے حجاب آؤ
موصوف کی شاعری میں یادیں، جنوں، رات اور محبوب کا سراپا بنیادی عناصر ہیں۔ ان کی غزلوں کا تیور بتاتا ہے کہ موصوف نے جنوں کو خرد پر فوقیت دی۔ اپنی ذاتی زندگی میں بھی اور اپنی شاعری میں بھی. اس بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ موصوف کی شاعری محض بزور تخیل نہیں بلکہ تجربوں کی بنیاد پر ہے۔ ان کی شاعری میں ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کا کرب بھی ہے اور امید کا روشن چراغ بھی ہے۔زندگی کے کسی موڑ پر وہ شکستہ نہیں دکھائی دیتے۔ غموں سے لدے پھندے ضرور ہے پر جنوں کا غلبہ ان کے یہاں ایسا ہے کہ وہ غم کو جینے کا استعارہ سمجھتے ہیں۔
ان کی غزلوں کے ان موضوعات میں "یادیں" مرکزی اہمیت رکھتی ہیں۔ یاد ہوتی بھی بڑی بے رحم ہے. یہ نہ دکھائی دینے والی تیر ہے جو دل کو ایک بار نہیں بلکہ مسلسل چھلنی کرتی رہتی ہے۔ ایک حساس دل لاکھ کوشش کرلے ان یادوں کے زنداں سے چنداں نہیں نکل سکتا۔ یادیں وہ اثاثہ ہے جس سے سکون بھی ملتا ہے اور جس سے سکون بھی چھنتا ہے اور یہ دونوں حالتیں حساس دلوں پر گزرتی ہیں۔موصوف کی بیاض میں یادوں کے تعلق سے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
بحر غم دوراں میں اک اک چیز تمھاری پھینک دی میں نے
یاد مگر بن بیٹھی ساحل ڈوب سکی نہ موجوں میں
مرجھا نہ سکا یاد کی شاخوں کا کوئی پھول
اتنا تو کیا ہے میری آنکھوں کی نمی نے
ایک تنہائی تھی وہ بھی نہ ہوئی مجھ کو نصیب
کیوں تری یاد کی پرچھائیں میرے ساتھ چلی
موصوف کی شاعری میں جنون کی تصویریں بھی آپ کی فن شناس نظروں کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
صدیوں جو رہ عقل میں گمراہ رہا ہے
اے راہ جنوں تجھ کو پکارا ہے اسی نے
وہ نشاں اہل خرد کہتے ہیں جس کو منزل
نقش پا سے ہے جنوں کے وہ ہویدا اے دوست
موصوف کے شعری گلشن میں خوب صورت قطعات ملتے ہیں۔ شاعر کے نزدیک انسان ہونا قدرے مشکل ہے فرشتہ ہونے سے۔ انسان کو رب دو جہاں نے بلند مرتبہ عطا کیا ہے اور کائنات کی ہر شے پر فوقیت دی ہے مگر انسان کے اعلا مقام پر وہی انسان فائز ہو سکتا ہے جس کے دل میں انسانیت ہو. کیونکہ خالق دوسرا نے انسان کو انسان سے محبت کرنے کا پیغام دیا ہے۔ ہم انسانی عظمتوں کو اس وقت تک قطعی نہیں سمجھ سکتے جب تک کہ ہمارے اندر انسانیت کی بو باس نہ ہو۔ وہ انسان کا دل ہے جہاں رب رہتا ہے۔ شاعر نے اس عظمت انسان کو یوں اپنے قطعے میں بیان کیا ہے۔
ہو جسے انسانیت کا احترام
وہ فرشتوں سے بھی ہے بالا مقام
عظمت انسان تو دیکھو وحید
قلب میں ہے قید رب نا تمام
عصر حاضر کے پس منظر میں ان کا یہ قطعہ کتنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
نہ جانے بات ہے کس کی، چھڑی ہے جو سر بزم
یہ بات بات پہ تم کیوں صفائی دینے لگے
اب اور زیادہ نہ رکھو مجھے اندھیرے میں
کہیں ہو ایسا نہ مجھ کو سجھائی دینے لگے
بنگال کی یہ سرزمین شاعروں کی سر زمین ہے، انقلابوں کی سرزمین ہے، سر فروشوں کی سرزمین ہے۔ یہ فن کاروں کی ماں ہے۔ یہاں مختلف زبانوں کا ادب شاداب ہے اور ہر زبان میں محبت کے نغمہ خواں ہیں۔ یہاں نظموں کا سحر چلتا ہے جس سے کوئی شاعر بچ نہیں سکتا۔ لہذا موصوف نے بھی نظموں کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اس حسین دنیا کا ایک ایسا حسین نام "ماں" ہے جس کا نعم البدل اس جہاں میں کچھ نہیں۔ کسی زبان میں بھی جب کوئی ماں کہتا ہے تو اس کا سیدھا سیدھا اثر ایک بیٹے کے دل پر پڑتا ہے۔ اس لفظ کو کسی بھی زبان میں بول کر دیکھیں محبت سے لبریز ہوگا۔ موصوف نے بہت خوب صورت نظم "بچھڑی ہوئی ماں کےنام" اپنی والدہ محترمہ کو بہ طور خراج نذر کی ہے۔ اس نظم کو پڑھنے کے بعد آنکھوں میں بے اختیار آنسو بھر جاتے ہیں۔ اس نظم کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں۔
جب گھنیری شب میں سو جاتی ہے ساری کائنات
پھر مرے فکر و تصور کی ہے محور تیری ذات
اشک کے ایندھن سے روشن کرتا ہوں شمع حیات
پھر اسی ضو میں تیری تصویر سے کرتا ہوں بات
حال غم تو دیکھ اپنے گوہر پندار کی
جل گئی ہوں جیسے تخلیقیں کسی فنکار کی
موصوف نے گاندھی جی اور پنڈت جواہر لال نہرو پر بھی خوب صورت نظمیں رقم کی ہیں اور اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ موصوف کی ایک نظم "گمنام پھول" ہے جس میں شاعر نے ایک پھول کی خواہش کو بہت خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔ ایک پھول جس کی کوئی آرزو نہیں بس اسے غم ہستی کا شوق ہے۔ یہ نظم جذبات نگاری کی بہترین مثال ہے۔ نظم کا تسلسل قابل تحسین ہے۔
توڑ لے توڑ بھی لے دیر نہ کر
دھول اپنی بھی نہ قسمت ہو کہیں
ہار بن جاؤں گلے کا یہ تمنا بھی نہیں
زلف میں تیری جگہ پاؤں یہ حسرت بھی نہیں
مجھ کو پوجا کے لیے چن لے یہ چاہت بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔بس یہ خواہش ہےمری
زندگی اب جو ملی تو غم ہستی بھی ملے
اس سے محروم نہ کر
موصوف کی ایک انتہائی خوب صورت نظم "تنقید" ہے. اس نظم کے مطالعے کے بعد شاعر کے مشاہدے اور ذہانت کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ تنقید ایک طویل موضوع بحث ہے۔ تنقید وہی قابل قدر ہے جو فن کو جلا بخشے. اس میں نئے امکانات ڈھونڈے اور اس فن کو مذید نکھار دے مگر جب تنقید تنقیص کے زمرے میں چلی جاتی ہے تو اس سے فن کو بہت نقصان پہنچتا ہے اور ساٹھ ہی ساتھ فن کار کو بھی لیکن موصوف نے تنقید کو راہ کا پتھر سے تعبیر کرکے ایک نیا نقطہ پیش کیا ہے کہ یقیناَ وہ آگے بڑھ رہا ہے ورنہ راہ کا پتھر اس کی راہ میں کیسے آ جاتا؟نظم کے دوسرے اور آخری بند میں شاعر نے اپنے بدلے نظریے کو نئی فکر کے ساتھ پیش کیا ہے۔
میں بھی اک شاعر ہوں راہی اس اندھیری راہ کا
ہاں مگر میں ہوتا ہوں احسان مند اس سنگ کا
جب مجھے لگتی ہے ٹھوکر اس اندھیری راہ میں
سوچتا ہوں کس قدر اچھا یہ سنگ راہ ہے
یہ گھنیری تیرگی میں ہے دلیل اس بات کی کہ
بڑھ رہا ہوں کچھ نہ کچھ آگے ضرور
ورنہ ٹھوکر لگ نہ سکتی تھی مجھے
موصوف کی ایک نظم "یٹ ٹو" ہے۔ یہ نظم دور رواں کی منھ بولتی تصویر ہے. نظم میں دو تجربے کو پیش کیا گیا ہے. ایک ماضی کا اور دوسرا حال کا۔ماضی میں اعتبار کا ڈھلنا باعث شرم کی بات تھی لہذا جب کوئی دوست خنجر لیے سامنے آتا تھا تو حیرانی ہوتی تھی. آنکھ کے دیکھے پر یقین نہیں ہوتا تھا اور منھ سے یہ جملہ نکل پڑتا تھا "تم بھی"! مگر یہ ماضی کی بات تھی، آج ہر کوئی ایسے کسی خطرے سے نہیں چونکتا بلکہ حد سے زیادہ محتاط رہتا ہے کیونکہ پہلے ایسا ہونا اتفاق تھا پر آج ایسا ہونا بہت معمولی بات ہے۔ آج آدمی کو غیر اعتمادی پر اتنا اعتماد ہے کہ وہ پوچھنا بھی گوارہ نہیں کرتا کہ "تم بھی" گویا وہ ذہنی طور پر ایسے کسی سانحے کے لیے تیار رہتا ہے۔ دور جدید کی اعلا خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے۔
دل کو چھو لینے والے احساسات سے مزین نظموں میں انسانی روز مرہ زندگی کی عکاسی ملتی ہیں۔گہرے تجربوں سے گوندھی ہوئی ان نظموں میں عہد کی عکاسی، ٹوٹتے بکھرتے خواب، رات کے پچھلے پہر کا درد، گزرے ہوئے لمحوں کی کسک اور بھی ایسے موضوعات ملتے ہیں جن سے ہماری شناسائی ہے مگر انھیں اس روپ میں اور اس شدید جذبے کے ساتھ نہیں دیکھا تھا۔ "اقلیت"، "فساد"، "منزل"، "زندگی"، "بے بسی"، "منظر پس منظر"، "عورت" بہت خوب صورت نظمیں ہیں. ان نظموں کا ذائقہ منفرد ہے۔
موصوف کی شاعری میں ترقی پسندی بھی جابجا ملتی ہے۔ موصوف اپنے فن میں ماہر دکھائی دیتے ہیں. وہ لفظوں کے انتخاب و ترتیب میں بڑی چابک دستی سے کام لیتے ہیں۔ ان کے یہاں زندگی اور زندگی کے تقاضوں سے قریب تر کی شاعری ملتی ہے جو حقیقت پسندی سے علاقہ رکھتی ہے۔ حقیقت بیانی کے ساتھ انسانی تہذیبی قدروں کی شکست و ریخت کی روداد بھی ملتی ہے اور ان روداد میں دردمندی اور انسانی ہمدردی کے آفاقی جذبات کے دیے بھی جل رہے ہیں۔
احساسات کے کورے کاغذ پر ایک خود دار اور غیرت مند مصور اور شاعر نے غم ذات، غم عشق اور غم دوراں کے جو نقوش ابھارے ہیں اس کی تابندگی دیر پا ہے۔
موصوف کا یہ شعر آپ کےحوالے کرتا ہوا میں تھوڑا وقفہ لیتا ہوں۔
شوق کی کشتی میں عقل و ہوش بھی تھے ساتھ ساتھ
اک بیچارے دل کو لیکن نذر طوفاں کر گئے
***
نسیم اشک کی گذشتہ نگارش:اردو شاعری کا خمریاتی رنگ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے