خالی چیک پر دستخط

خالی چیک پر دستخط

مظہر اقبال مظہر ، لندن

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی آفات سے نبٹنے کے لیے دنیا کے غریب ممالک ایک خطیر رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر امیر ممالک کی ایک ہی ضد ہے کہ ہم زرِ تلافی ادا نہیں کریں گے اور خالی چیک پر دستخط بھی نہیں کریں گے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار دنیا بھر کے زیادہ تر غریب اور کمزور ممالک کو امیر ممالک کی جانب سے کل تک یہی جواب مل رہا تھا۔ یہاں تک کہ مصر کے شہر شرم الشیخ میں جاری اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہی اجلاس COP27 میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کے حوالے ہونے والی بات چیت رُک گئی تھی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے امیر ممالک نقصانات کے ازالے کے لیے ایک خالی چیک پر دستخط کرنے سے گھبرا رہے تھے۔ دو ہفتوں تک جاری رہنے والی بات چیت کے بعد یہ سربراہی اجلاس اپنے اختتام کے قریب تھا کہ چند ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے اس بات چیت کو مزید آگے بڑھانے کے وعدے نے پیش رفت کی تازہ امیدیں پیدا کر دی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اس اجلاس میں اب اتفاق رائے کی کوشش کی جا رہی ہے اور بات چیت کو ہفتے کے آخر تک بڑھا دیا گیا ہے۔
جمعہ کی صبح جاری ہونے والے معاہدے کے مسودے میں نقصانات کے حوالے سے رقوم یا وعدوں کا ذکر نہیں تھا۔ البتہ اس میں تمام اقوام عالم پر زور دیا گیا تھا کہ وہ عالمی اوسط درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سیلسیس (2.7 ڈگری فارن ہائیٹ) سے زیادہ بڑھنے سے روکیں۔ یہ وہ حد ہے جس سے آگے سائنس داں کہتے ہیں کہ تباہ کن آب و ہوا کے اثرات کا امکان نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔ ہفتے کے شروع میں، کچھ ممالک کو خدشہ تھا کہ سربراہی اجلاس اس ہدف کو ترک کر دے گا۔
اب تازہ ترین پیش رفت کے تحت اس اجلاس میں یورپی یونین نے موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے لیے غریب ممالک کی مدد کے لیے ایک نئے فنڈ کی تجویز دی ہے۔ ترقی پذیر ممالک اس حوالے سے بہترین نتائج کے لیے بھرپور لابنگ کرتے رہے ہیں۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ لیکن یہ خدشہ تھا کہ یہ اجلاس مذکورہ فنڈ کے لیے کسی خطیر رقم کے ممکنہ بندوبست کے بغیر ہی اختتام پذیر ہوجائے گا۔ پاکستان سمیت غریب اور کمزور ممالک کی رائے یہ ہے کہ امیر ممالک اس زرِ تلافی کے پابند ہیں، کیونکہ انھوں نے تاریخی طور پر زیادہ تر گرین ہاؤس گیسیں چھوڑی ہیں جو گلوبل وارمنگ کا سبب بنتی ہیں۔
مثال کے طور پر اس موسم گرما میں پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا جس میں تقریباً 1700 افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ مصر میں ہونے والی بات چیت کے دوران پاکستان کے حالیہ سیلاب کو ایک طاقتور پس منظر کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن امیر قومیں خالی چیک پر دستخط کرنے سے پریشان ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سربراہی اجلاس کے آغاز میں، امریکہ اس بات پر قائم تھا کہ کوئی نیا فنڈ نہیں ہوگا، اور وہ مذاکرات میں خاموش رہا ہے۔جمعہ کی صبح ایک ممکنہ پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ یورپی یونین نے ایک خصوصی فنڈ کی تجویز پیش کر دی ہے۔ اس فنڈ کے میکینزم کے طور پر مالی اعانت کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے رقوم کا بندوبست زرِ تلافی کے بجائے عطیات کی صورت میں کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
اس حوالے سے چین کا کردار دنیا کے باقی تمام ممالک سے مختلف ہے۔ صنعتی ترقی کی دوڑ میں سرِ فہرست ہونے کے باوجود چین عام طور پر ترقی پذیر ممالک کے گروپ میں شامل رہا ہے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہ ایک ایسا ملک ہے جو خود بھی بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسیں خارج کرتا ہے (وہ گیسیں جو ماحول کو گرم کرتی ہیں)۔ مگر چین نے اب تک تاریخی طور پر گلوبل وارمنگ کے حوالے سے ہونے والی کوششوں میں بہت کم حصہ ڈالا ہے۔ لیکن یہ مذکورہ بالا فنڈ چین سے مدد کے لیے درخواست کر سکتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ زرِ تلافی کے ایجنڈے نے کلائمیٹ چینچ کے حوالے سے ہونے والی اب تک کی کامیابیوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
کوئی بھی ایک ملک اتنے بڑے پیمانے پر نقصانات کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا تھا۔ حالانکہ آب و ہوا کی تباہی سے شدید خطرہ والی قومیں تقریباً تین دہائیوں کی کوششوں کے بعد اس بات کو ایجنڈے میں شامل کرنے پر خوش تھیں۔ اس لحاظ سے دو ممالک امریکہ اور چین پر سب کی نظریں ہیں۔ یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ مذاکرات کی ٹیبل پر دو سو کے لگ بھگ ممالک امریکہ اور چین کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
امریکہ اب تک دنیا کا سب سے بڑا آلودگی پھیلانے والا ملک ہے۔ اس نے آب و ہوا کی تبدیلیوں کے حوالے کمزور اور غریب ملکوں میں آنے والی قدرتی آفات کے لیے معاوضے کے خیال کی بھرپور مزاحمت کی ہے۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کو خوف ہے کہ اسے لامحدود ذمہ داری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن جمعہ کے روز ہونے والی ڈرامائی پیش رفت کے بعد امریکا تنہا ہوگیا ہے۔ یورپی یونین اور ترقی پذیر ممالک کے ایک مضبوط گروپ نے اس سال کے اوائل میں ہی ایک نیا فنڈ قائم کرنے کے مختلف منصوبوں کی حمایت کر دی ہے۔ جان کیری جو صدر بائیڈن کے خصوصی ایلچی برائے موسمیاتی تبدیلی کے طور پر اس وقت مشکل میں گھرے ہوئے ہیں اب دنیا بھر کے میڈیا کی نظریں ان کی جانب ہیں۔ دیکھا یہ جائے گا کہ وہ اب امریکا کو اس مخمصے سے نکالنے کے لیے کیا تجویز پیش کرتے ہیں.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا اس مشکل صورت حال سے دوچار کیسے ہوا ہے؟ یاد رہے کہ امریکا اور دیگر دولت مند ممالک غریب ممالک کو صاف توانائی کی طرف منتقل ہونے اور موسمیاتی خطرات کے مطابق اپنی معیشتوں کو ڈھالنے میں مدد کرنے کے لیے امیر ممالک سے سالانہ 100 بلین ڈالر کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ اور امریکا ایک دہائی سے یہ خطیر رقم مہیا کرنے کے پرانے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس صورت حال میں ترقی پذیر ممالک کے ناراض رہنما سربراہی اجلاس کی کامیابی کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ وہ اب جھوٹے وعدوں پر یقین کرتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس حوالے سے کسی بھی معاہدے کے لیے تقریباً 200 ممالک کے نمائندوں کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے اگرکوئی ایک ملک بھی اعتراض کرتا ہے تو پورا معاہدہ ٹوٹ سکتا ہے۔
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: کتاب: انجانی راہوں کا مسافر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے