"عالمی اردو ادب" حوالہ جاتی مجلہ ہی نہیں بلکہ ایک دستاویز ہے: پروفیسر عتیق الله

"عالمی اردو ادب" حوالہ جاتی مجلہ ہی نہیں بلکہ ایک دستاویز ہے: پروفیسر عتیق الله

رسالہ” عالمی اردو ادب ” کے خصوصی شمارہ ‘ستیہ پال آنند نمبر’ کا اجرا
نئ دہلی۔جامعہ نگر. بٹلہ ہاؤس واقع ڈائنامک انگلش انسٹی ٹیوٹ میں مظہر فاؤنڈیشن انڈیا اور اکادمی اردو زبان و ادب، دہلی کے زیر اہتمام رسالہ عالمی اردو ادب کے اڑتالیسویں شمارے کی رسم اجرا عمل میں آئی. پروگرام کی صدارت پروفیسر عتیق الله نے کی جب کہ ڈاکٹر خالد مبشر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ رسالے کے سرپرست پروفیسر کوثر مظہری نے صدر پروفیسر عتیق الله کا گلدستے سے استقبال کیا۔ فاروق ارگلی کی خدمت میں رسالے کے مدیر یوسف رضا نے گلدستہ پیش کیا جب کہ نند کشور وکرم کے فرزند وکاس دت کا استقبال پروفیسر شہزاد انجم نے گلدستہ پیش کر کےکیا۔
پروفیسر عتیق الله نے اپنے صدارتی کلمات میں رسائل کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور "عالمی اردو ادب" کی اہمیت واضح کی۔ انھوں نے کہا کہ یہ رسالہ صرف حوالہ جاتی ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک دستاویز ہے۔ نند کشور وکرم کی نظر میں تمام رسائل تھے جن سے انھوں نے عطر کشید کیا۔ انھوں نے کبھی بھی اپنے رسالے کو کسی خاص نظریے کا ترجمان نہیں بنایا اور نہ ہی کسی کو خوش کرنے کی خاطر کوئی خصوصی شمارہ نکالا۔ انھوں نے معیار سے کبھی مفاہمت نہیں کی۔ پروفیسر عتیق الله صاحب نے بتایا کہ نئی نسل کو رسائل کا مطالعہ کرنا چاہئیے۔ نئی نسل حس تحیر سے محروم ہوگئی ہے۔ادب کا شوق قدرت کا گراں قدر عطیہ ہے۔ یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ ادب سے جس کو دل چسپی ہے وہ انسان کبھی تنہا نہیں ہو سکتا. ادب سے وابستگی موت کا خوف نکال دیتی ہے۔ انھوں نےنند کشور وکرم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ رسالہ نکالنا ایک طرح سے دیوالیہ ہونا ہے۔ کوئی قلندر ہی یہ کام کرسکتا ہے، وہ قلندرانہ صفت نند کشور وکرم میں تھی۔ فاروق ارگلی نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ انھوں نے نند کشور وکرم سے اپنی دوستی اور گہرے مراسم کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان میں ایک طرح کا دیوانہ پن تھا جو انھیں کام کرنے کے لیے تحریک دیتا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ جب "عالمی اردو ادب" کا پہلا شمارہ وکرم صاحب نے نکالا تھا تو اس کی کتابت انھی نے کرائی تھی۔ فاروق ارگلی صاحب نند کشور وکرم کے قریب تھے اور وکرم صاحب انھیں وقتاً فوقتاً اپنے گھر بلاتے رہتے تھے۔
رسالے کے سرپرست پروفیسر کوثر مظہری نے آج کے دور میں رسائل کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے بتایا کہ بے شک آج سوشل نیٹ ورکنگ کا زمانہ ہے اور لوگ اسی میں زیادہ دل چسپی لیتے ہیں. لیکن اس کے باوجود اخبارات و رسائل مسلسل شائع ہورہے ہیں اور لوگ پڑھ بھی رہے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ اخبارات ختم ہوگئے ہوں۔ انھوں نے آگے کہا کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس رسائل کی جگہ نہیں لے سکتے۔ پروفیسر شہزاد انجم نے بتایا کہ مرحوم نند کشور وکرم اپنے آپ میں ایک انجمن تھے، انھوں نے اردو کی بےلوث خدمت کی۔ ساتھ ہی انھوں نے "عالمی اردو ادب" کے اڑتالیسویں شمارے میں شامل اپنے مضمون سے دو اقتباس بھی پیش کیے۔
صاحب طرز نثر نگار اور ناقد حقانی القاسمی نے اپنے اظہار خیال میں نند کشور وکرم اور پروفیسر ستیہ پال آنند سے متعلق گفتگو کی۔ ڈاکٹر جاوید حسن نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور رسالے کے سرپرست پروفیسر کوثر مظہری کو مبارک باد پیش کی۔
پروگرام میں عادل حیات، نوشادمنظر، امتیاز احمد علیمی، مصطفیٰ علی، ڈائنامک انگلش انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انوارالحق، عاقل زیاد اور شاہنواز ہاشمی کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالرز اور طلبہ نے شرکت کی۔ آخر میں رسالے کے مدیر یوسف رضا نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

تصویر میں دائیں سے۔ ڈاکٹر خالد مبشر، پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر کوثر مظہری، پروفیسر عتیق الله، جناب فاروق ارگلی، جناب وکاس دت، جناب حقانی القاسمی اور یوسف رضا۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :منیجر پانڈے کی رحلت ہندستانی ادبی برادری کے لیے بڑا سانحہ : خالد مبشر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے