کتاب: انجانی راہوں کا مسافر

کتاب: انجانی راہوں کا مسافر

تبصرہ نگار: مظہر اقبال مظہر، لندن 

"انجانی راہوں کا مسافر" پروفیسر امانت علی کی پہلی تصنیف ہے جسے پریس فار پیس فاؤنڈیشن (یُوکے) نے حال ہی میں شائع کیا ہے. افریقی اور یوریشیائی ممالک کی سیر کا احوال سنانے کی ابتدا ابن بطوطہ نے کی۔ بتیستہ اور ترک سفرنگار شیلیبی نے اسے جاری و ساری رکھا۔ ہمارا آج کا سفر نگار بھی اسی سفر پر ہے۔ سفر حجاز مقدس کا ہو، کسی کرشماتی افریقی ملک کا ہو یا طلسماتی ایشیائی سیر گاہوں کا، یورپ کے روشنیوں سے بھرپور ساحلی شہروں کا ہو یا دیوار چین کا، آج کا سفر نگار سفرنامے کا مرکزی کردار بہرحال ضرور ہے۔ جدید سفر نگار جغرافیہ سے زیادہ تہذیبی، سماجی اور ثقافتی تاروں کو چھیڑنا چاہتا ہے۔ ترکی یاترا کرنے والے کئی سفرنگاروں کی تخلیقات حالیہ برسوں میں سامنے آ چکی ہیں جن میں ساجد چوہدری کا سفرنامہ استنبول، عبدالمجید عابد کا سفرنامہ ترکی اور ثنا ضیا کا سفرنامہ ترکی شامل ہیں۔ میری یہ کم علمی ہے کہ کینیا کے سفر پر ابھی تک میری نظر سے کوئی کتاب نہیں گزری ۔
اردو میں کئی سفرنامے ایسے ملتے ہیں جن میں سفرنگار نے کسی غیر ملک کی سیر کے تناظر میں نہ صرف اپنی رائے اور پسند و نا پسند کا برملا اور بے تکلف اظہار کیا ہو بلکہ وطن عزیز کے عمومی سیاحتی منظر سے اس کا موازنہ بھی کیا ہو۔ اور یہی بات پروفیسر امانت علی کے اس سفرنامہ کو یوں ممتاز بناتی ہے کہ انھوں نے موازنہ و مشاہدہ بین السطور میں نہیں بلکہ کھلم کھلا کیا ہے۔ پروفیسر امانت علی نے سفرنگاری میں اپنی ذات کی سرجری تو نہیں البتہ اس درد کا رونا ضرور رویا ہے جو بیرون ملک جانے والے ہر دردمند شہری کے دل میں اٹھتا ہے۔ سفر نگار نے اگرچہ کئی حوالوں سے کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے اپنے اس کام کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہیں کی ہے مگر انتہائی دیانت داری سے "پیش لفظ" میں یہ ضرور بیان کر دیا ہے کہ سفرنامہ لکھنے کی اصل توجیہہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ خوب صورت و تاریخی مقامات کی سیر کو محض سیر ہی نہ لیا جائے بلکہ وہاں سے کچھ سیکھنے کا جتن بھی کیا جا ئے ۔
امانت علی لکھتے ہیں کہ ان کا "مقصد نہ تو سفر کی روداد سنانا ہے اور نہ ہی دل چسپ قصے سنا کر محظوظ کرنا بلکہ تجربے سے سیکھنا اور زندگی میں مثبت تبدیلی لانا ہے۔" اور واقعتاً یہ سفرنگار روایتی انداز میں اپنی روداد بیان نہیں کرتا بلکہ شہر اغیار کی گلیوں میں گھومتے گھومتے اس کا دل وطن عزیز کے سیاحتی مقامات کی ناقدری پر مسلسل روتا ہے۔
اس کتاب کا سرورق کینیا اور ترکی کے ثقافتی رنگ بکھیرتی کئی تصاویر کا مجموعہ ہے۔ کتاب کی زبان شستہ اور لہجہ دھیما ہے۔ پہلا صفحہ بسم اللہ کی خطاطی کے ایک خوب صورت نمونے کی شکل میں وجہ لطف و سرور برائے دیدہ و دل ہے۔ اگلے صفحے پر کتاب کے عنوان پر مشتمل ایک اور دیدہ زیب ڈیجٹل ڈیزائن کتاب کے ڈیزائنر سید ابرار گردیزی کی مہارت و محنت کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ پبلشر کے لیے مختص صفحے پر مصنف کے نام کے علاوہ مقام اشاعت لندن، سنہ اشاعت 2022 اور قیمت 500 روپے ( 5 پاؤنڈز) درج ہے۔ نظرثانی کے لیے علم و ادب سے حددرجہ محبت رکھنے والی مدیرہ قرات العین عینی کا نام دیکھ کر خوشی ہوئی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ خطاط کا نام بھی یہاں درج ہوتا۔ امانت علی نے کتاب کا انتساب اپنے والد محترم کے نام کیا ہے۔ کتاب کی اشاعت کے روح رواں پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر پروفیسر ظفر اقبال نے مصنف کا سادہ و دل کش انداز میں تعارف لکھ کر قاری اور مصنف کے بیچ حائل فاصلے پلک جھپکنے میں ختم کر دیے ہیں۔
حسن ترتیب کے عنوان کے تحت مختلف شخصیات کے قلم سے اس کتاب پر لکھی گئی آراء کو جمع کیا گیا ہے۔ "تلاش کا سفر" میں ممتاز سماجی شخصیت اور قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے سربراہ جناب قاسم علی شاہ نے "انجانی راہوں کا مسافر" کے لکھاری کے "تجرباتی نگینوں" اور بے حد خوب صورت انداز کو سراہا ہے۔ "مسرت سے لبریز تصنیف" کے عنوان کے تحت ایوارڈ یافتہ کہانی نویس اور افسانہ نگار رابعہ حسن نے مصنف کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ "یہ مصنف کی پہلی باقاعدہ تصنیف ہے لیکن ایک کہنہ مشق قلم کار کا آہنگ اور انداز جھلکتا ہے جو ان کے روشن ادبی مستقبل کی نوید ہے۔"
سعودی عرب میں مقیم پروفیسر عبد الجبار چوہدری نے حرف اول میں مصنف کے عمدہ انداز بیان اور ان کے اندر ایک مشاق نثر نگار کے عکس کی تعریف کی ہے۔ ان کے خیال میں مصنف اصلاح احوال کے سلسلے میں ایک مخلصانہ تڑپ رکھتے ہیں۔ حرف دوئم اسسٹنٹ کمشنر ضلع سدھنوتی عفت اعظم چوہان نے لکھا ہے۔ جس میں وہ اس کتاب کی روانی اور برجستگی کو اردو ادب میں ایک اچھا اضافہ قرار دیتی ہیں۔ پیش لفظ میں امانت علی نے تتلیوں اور بھنوروں کی تلاش کی بجائے ملک کے طول و عرض میں کچرے کے ڈھیر وں پر ماتم کیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا قلم ادب میں مقصدیت کا پرچار کرنے والا ہوگا۔
اس سفرنامے کا پہلا حصہ اتاترک کا ترکی کے عنوان کے تحت لکھا گیا ہے۔ جس میں ترکی کے تہذیبی و ثقافتی ورثے کا احوال بھی مذکور ہے اور مصنف کی رنگا رنگ شخصیت کا پرتو بھی۔ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے زیر انتظام ترکی کے سفر کی تیاری کے ابتدائی مراحل کے تفصیلی تذکرے کے بعد مصنف ہمیں استنبول میں اتار کر خود سلطنت عثمانیہ کی تاریخ کھنگالنے میں لگ جاتے ہیں۔ تاریخ کا تڑکا تو سفرنامے کی ہانڈی کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ تاہم اس میں اگر اہم واقعات کے تاریخی تذکرے کو چھیڑ دیا جائے تو بات طویل ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ قاری کو باندھ کر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ واقعاتی تسلسل اور مختلف ادوار کے تاریخی مدارج کی بجائے موجود شہادتوں کے دل چسپ پہلو پر نظر رکھی جائے۔ اس سے تاریخی پہلو کی اہمیت و افادیت سے غفلت بھی نہیں برتی جائے گی اور سفرنگار کی ذاتی کتھا بھی شامل ہو جائے گی۔
"سلطنت عثمانیہ کے روشن پہلو" کے عنوان کے تحت لکھی گئی تحریر میں مصنف نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ تاریخی تذکرے کے باوجود تحریر جاذب نظر، پرتاثیر اور دل چسپ لگے۔ نیلی مسجد اور تاریخی عمارت آیا صوفیہ کی سیر کا احوال مصنف نے بہت دل چسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح توپ کاپی محل اور اس کے اطراف کی عمارتوں کا تذکرہ بھی بہت عمدگی سے کیا گیا ہے۔ مصنف کی تاریخی معلومات پر دسترس بھی قابل ستائش ہے۔ مولانا جلال الدین رومی کے حوالے سے قافلہ سالار عشق، محبت کے مرشد اور شہر تصوف جیسی اصطلاحیں اس سفرنامے کو گہرائی اور معنویت بخشتی ہیں۔
قونیہ میں مدفون اس عظیم ہستی کے مزار پر حاضری اور اس سے جڑے ہوئے تاثرات کا بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ مصنف علمی و ادبی ذوق ہی نہیں بلکہ نگاہ حسن شناس بھی رکھتے ہیں۔ ترک موسیقی اور بانسری کی سریلی آواز کے باجود مصنف کو قونیہ شہر روحانیت کے حصار میں لپٹا دکھائی دیتا ہے۔ اور وہ یہ لکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ "کئی بار کئی مقامات پر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہاں عشق و مستی کا آج اگر یہ رنگ ہے تو تب کیا ہوگا." استنبول میں فیری اور کروز کے سفر کے بعد مضافات کے کئی اہم مقامات کی سیر کے بعد مصنف اپنے قافلے کے ہمراہ حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار پر پہنچتے ہیں۔ آیا صوفیہ عجائب گھر کی ایک بھرپور سیر کے بعد یہ سفر تقریباً اختتام پذیر ہو جاتا ہے مگر اس کی متاثر کرنے والی باتوں میں صوفیا اور صوفی شعرا کے نسبتی حوالوں پر مبنی مصنف کی بپتا دل چسپ اور منفرد ہے۔ استنبول سے روشنیوں کے شہر کراچی کے سفر کے بعد اس سفرنامے کا پہلا حصہ اختتام پذیر ہوجاتاہے۔
سفرنامے کا دوسرا حصہ مصنف کے کینیا کے 17 روزہ دورے کے احوال پر مشتمل ہے۔ مصنف چونکہ پیشہ معلمی سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے اپنی بات سیاق وسباق اور وجہ تسمیہ کی تفصیلات کے ساتھ کہنے پر بھرپور ملکہ رکھتے ہیں۔ پہلے حصے کی طرح یہاں بھی فاضل مصنف نے ضروری سمجھا کہ کینیا پہنچنے سے پہلے کے مراحل جیسے کراچی کی پرواز اور پھر دوبئی کی پرواز کی تیاریوں اور دوران پرواز کی تفصیلات کے ذریعہ قاری کو یہ ذہن نشین کرا دیا جائے کہ مصنف کن حالات و واقعات سے گزرنے کے بعد کینیا پہنچے تھے۔ ان تفصیلات میں زبان و بیان کی روانی، شائستگی اور تہذیبی رچاؤ کا ہر ممکن خیال رکھا گیا ہے۔ جس سے یہ بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ مصنف صاحب مطالعہ، باذوق اور سلجھی ہوئی شخصیت کے مالک ہیں۔
سفرنگار کئی مقامات پر تجزیہ نگار، نقاد اور سماجی رہ نما کا روپ دھارتے نظر آتے ہیں۔ چونکہ شروع میں ہی انھوں نے یہ ذکر کر دیا ہے کہ سماجی خدمت کے شعبے سے تعلق کی وجہ سے ہی یہ سفر کر رہے تھے اس لیے انھیں اپنی بات کہنے میں کہیں بھی دقت پیش نہیں آئی۔ اس سفرنامے میں مصنف ہمارے عمومی قومی مزاج کی سرجری بھی کرتے نظر آتے ہیں اور انفرادی شخصی رویوں کی بہتری کی خواہش کا اظہار بھی ان کی تحریر میں جا بجا ملتا ہے۔ نیروبی پہنچنے سے قبل قاری کو اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے کہ قاسم علی شاہ کے ہمراہ سماجی خدمت و اصلاح احوال کے شدید متمنی اور [؟] کے جذبے سے سرشار ایک سفرنگار کے سفر کی غرض و غایت کیا ہوگی۔ امانت علی سماجی خدمت کے جذبے سے سرشار نوجوان تخلیق کار ہیں۔ ان کی تخلیق کاری میں درد مندی اور صلاح عام کا عنصر غالب ہے۔ و ہ انجانی راہوں پر چلنے والا ایک جانا پہچانا کردار ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کا سفر نامہ زندگی سے زیادہ قریب ہے، بلکہ یہ کہا جائے کہ یہ ہمارے اردگرد بکھری زندگی کا ہی بیان ہے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔
صاحب تبصرہ کی یہ نگارش بھی پڑھ سکتے ہیں :کتاب: بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے