سیمانچل کی تاریخ

سیمانچل کی تاریخ

(پانچویں اور آخری قسط)

احسان قاسمی
رابطہ : ehsanulislam1955@gmail.com

قدیم پورنیہ ضلع/ سیمانچل: اسلامی حکومت کا تیسرا دور:-
تیسرے دور میں قدیم پورنیہ (چند مثالوں کو چھوڑ کر ) موٹے طور پر مغلیہ سلطنت کے زیر نگیں رہا۔ اس دور کی شروعات میں بنگال و بہار کی راجدھانی خواص پور ٹانڈہ رہی۔ خواص پور ٹانڈہ حالیہ مالدہ شہر کے جنوب کچھ فاصلے پر واقع تھا۔ بنگال و بہار کا یہ دارالحکومت بھی قدیم پورنیہ کے حدود اربعہ میں داخل تھا۔ اس طرح گور، پنڈوہ اور خواص پور ٹانڈہ یہ تینوں راجدھانیاں قدیم پورنیہ ضلع کا ہی حصہ تھیں۔ خواص پور ٹانڈہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی نذر ہوکر بےنشان ہو گیا۔
سلیمان خاں کریانی- مدبر اور انتظام ملکی میں ہوشیار شخص تھا، اپنی دور اندیشی کے سبب اس نے بادشاہ اکبر سے منعم خان خان خاناں کے توسط سے صلح کر لی۔ اکبری حملوں سے تحفظ حاصل کر اس نے اڑیسہ و کوچ بہار کو فتح کر اپنی سلطنت میں ضم کر لیا۔ 979 ھ (1571ء) میں اس کا انتقال ہو گیا۔
داؤد خاں کریانی– سلیمان خاں کریانی کے بعد اس کے بڑے بیٹے بایزید خاں نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ اس نے بادشاہ اکبر سے ہوئے صلح نامہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خودمختاری کا اعلان کیا۔ بانسو عماد نے اس کا قتل کر ڈالا۔
لودی خان جو سلیمان خاں کریانی کا وزیر تھا، اس نے بانسو عماد کو قتل کر سلیمان خاں کے چھوٹے بیٹے داؤد خاں کو تخت پر بٹھایا۔
اس زمانے میں اس خطے میں شورش پھیل گئی۔ خان خاناں نے بادشاہ اکبر سے افواج منگوایا اور سون ندی عبور کر پڑاؤ ڈالا۔ داؤد خاں پٹنہ کے قلعے میں چھپ گیا۔ خان خاناں نے اس قلعے کا محاصرہ کر لیا لیکن کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ اس کی مدد کو خود بادشاہ اکبر بذریعہ کشتی 983ھ (1575ء) میں آگرہ سے پٹنہ آیا۔ داؤد خاں چپکے سے بھاگ کر اڑیسہ چلا گیا۔ خان خاناں نے وہاں بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ بالآخر داؤد خاں کو صلح کرنی پڑی۔ اسے اڑیسہ کی حکومت دی گئی۔
منعم خان خان خاناں کا انتقال 983ھ میں گور میں ہوا۔
خان خاناں کے انتقال کے بعد داؤد خاں کے دوبارہ پر پرزے نکل آئے۔
حسین قلی خان جہاں- داؤد خاں کی سرکوبی کے لیے بادشاہ اکبر نے حسین قلی خان جہاں کو بہار و بنگال کا صوبیدار بنا کر بھیجا۔ داؤد خاں اس کے حملے کی تاب نہ لاکر جب میدانِ جنگ سے فرار ہوا، اس کا گھوڑا دلدل میں پھنس گیا اور وہ خود گرفتار ہو گیا۔ حسین قلی خان جہاں نے اس کا سر کاٹ کر بادشاہ اکبر کی خدمت میں آگرہ بھیج دیا اور دھڑ خواص پور ٹانڈہ۔
حسین قلی خان جہاں کا انتقال 986ھ میں بہ مقام ٹانڈہ ہوا۔
اس کے انتقال کے بعد شہنشاہ اکبر نے مظفر خاں کو صوبیدار بنا کر بھیجا جسے معصوم خاں نے قتل کر ڈالا۔
معصوم خاں کی بغاوت کی خبر سن کر شہنشاہ اکبر نے خان اعظم کوکلتاش، راجا ٹوڈر مل اور شہباز خاں کو اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ بعد ازاں خان اعظم کوکلتاش کو بہار و بنگال کی صوبہ داری تفویض کی گئی۔ چند عرصہ بعد اس نے فوج کی حکم عدولی سے ناراض ہو کر استعفیٰ دے دیا۔
شہنشاہ اکبر نے شہباز خاں کو صوبیدار مقرر کر بھیجا۔ اسے بھی امرائے افواج کی ناچاقی کا سامنا کرنا پڑا۔ شہنشاہ اکبر نے شہباز خاں کی مدد کے لیے دوسری فوج بھیجی۔ بعد میں اسے آگرہ بلا لیا گیا۔ اس کا انتقال 1008ھ میں ہوا۔
شہباز خاں کی وفات کے بعد وزیر خاں ہروی کو صوبیدار بنا کر بھیجا گیا۔ اس نے قتلو خاں لوحانی جو اڑیسہ پر قابض تھا کو شکست سے دوچار کیا۔ قتلو خاں لوحانی کو بالآخر ہار مان کر صلح کرنی پڑی۔ وزیر خاں کی وفات خواص پور ٹانڈہ میں ہی ہوئی۔
راجا مان سنگھ– وزیر خاں ہروی کے انتقال کے بعد شہنشاہ اکبر نے راجا مان سنگھ کو بہار و بنگال کا صوبیدار مقرر کیا۔ لیکن بنگال کی آب و ہوا اسے راس نہیں آئی لہذا اس نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ 1014ھ میں شہنشاہ اکبر کے انتقال کے بعد شہنشاہ جہانگیر نے دوبارہ اسے بہار و بنگال کی صوبیداری عطا کی۔ کچھ عرصہ بعد جہانگیر نے ضرورتاً اسے اپنے پاس واپس بلا لیا۔
راجا مان سنگھ کی واپسی کے بعد قطب الدین خاں کوکلتاش، ابراہیم خاں فتح جنگ، خانہ زاد خاں اور فدائی خاں منصبِ صوبیداری پر فائز ہوئے۔
قاسم خاں اور نواب الہ یار خاں– بادشاہ شاہ جہاں نے قاسم خاں کو بہار و بنگال کی صوبیداری عطا کی۔ اس زمانے میں پرتگالیوں نے ہگلی بندرگاہ پر شورش برپا کر رکھا تھا اور رعایا کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ قاسم خاں نے شاہ جہاں کی تخت نشینی کے چوتھے سال میں اپنے لڑکے عنایت اللہ کو نواب الہ یار خاں کی معیت میں ہگلی بھیج کر پرتگالیوں کا قلع قمع کر دس ہزار شاہی رعایا کو آزاد کرایا۔
نواب الہ یار خاں کے ایک بیٹے ماہ یار خاں نے قصبہ (پورنیہ) کے قریب ایک موضع ماہ یار پور کے نام سے آباد کیا تھا جو اب مہیاپور کے نام سے مشہور ہے۔
شاہ شجاع بن شاہ جہاں– قاسم خاں کے بعد اعظم خاں اور اس کے بعد اسلام خاں صوبیدار مقرر کیے گئے۔ بعد ازاں شاہ جہاں نے اپنے فرزند شاہ شجاع کو بہار و بنگال کی صوبیداری عطا کی۔ شاہ شجاع کے دورِ حکومت میں بھی بنگال و بہار کا دارالحکومت خواص پور ٹانڈہ ہی تھا۔ شاہ جہاں کے انتقال کے بعد الہ آباد کے قریب جنگ میں اپنے بھائی اورنگ زیب عالم گیر سے شکست کھاکر ٹانڈہ واپس آ گیا۔ سلطان عالم گیر نے میر جملہ خان خاناں کو شاہ شجاع کی بیخ کنی کے لیے بڑی فوج کے ساتھ جانبِ بنگال روانہ کیا۔ شاہ شجاع جان بچانے کو جہانگیر نگر (ڈھاکہ) پہنچا لیکن وہاں بھی قیام نہ کر سکا اور زخنگیوں کے ملک میں جاکر پناہ حاصل کی۔ وہاں بھی ایسے حالات پیش آئے کہ زخنگیوں کے راجا سے جنگ کی نوبت آ گئی۔ شاہ شجاع کی شہادت کے بعد اس کی بیوی اور تینوں بیٹیوں نے اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے خودکشی کرلی۔
میر جملہ خان خاناں نے پورے بہار، بنگال، اڑیسہ اور کوچ بہار پر سلطنت عالمگیری کا تسلط قائم کر دیا۔
نواب مرشد قلی خان- نواب مرشد قلی خان سلطان عالم گیر کا وفادار اور تربیت یافتہ تھا۔ وہ بہار و بنگال کا ناظم و دیوان تھا۔ سلطان عالم گیر نے اپنے پوتے شاہ زادہ عظیم الشان کو بہار و بنگال کا صوبیدار بنا کر بھیجا تھا۔ ان دونوں کے درمیان ناچاقی کی خبر جب سلطان کو پہنچی تو سلطان نے شہزادے کو متنبہ کرتے ہوئے لکھا کہ اگر بار دیگر مرشد قلی خاں کے بارے میں تمھاری جانب سے کسی برے برتاؤ کی خبر موصول ہوئی تو تمھاری شاہزادگیت کا کچھ خیال نہ کیا جائے گا۔ شاہزادہ عظیم الشان نے مرشد قلی خاں کو بنگال کی دیوانی و نظامت سپرد کر بنگال بھیج دیا اور خود پٹنہ کو اپنی قیام گاہ مقرر کیا۔
مرشد قلی خاں نے بنگال پہنچ کر خواص پور ٹانڈہ کے بجائے مخصوص آباد کا نام اپنے نام پر "مرشد آباد" کر اپنی قیام گاہ بنایا۔
سلطان عالم گیر کے انتقال 1118ھ کے بعد جب شاہ زادہ محمد معظم بہادر شاہ کے لقب سے دلی کے شاہی تخت پر بیٹھا تو شاہ زادہ عظیم الشان نے اپنے باپ سلطان بہادر شاہ کے قریب رہنا زیادہ مناسب خیال کیا۔ لہذا مرشد قلی خاں کو بہار و بنگال کا مستقل صوبیدار مقرر کر وہ دلی واپس چلا گیا۔ مرشد قلی خاں نے مرشد آباد کو بنگال و بہار کا نیا دارالحکومت مقرر کیا۔ 1826ء میں کوسی دریا میں آنے والے ایک بھیانک سیلاب نے خواص پور ٹانڈہ کا نام و نشان ہی مٹا ڈالا۔
پورنیہ پر فوجداروں کی حکومت:- مغلیہ حکومت سے قبل پورنیہ میں کوئی فوجدار رہتا تھا یا نہیں اس کی صحیح جانکاری نہیں ملتی۔ لیکن جب ہمایوں اور شیر شاہ سوری کے درمیان جنگ ہوئی تو سید خاں دستور نے اپنی فوج کے ساتھ ہمایوں کا ساتھ دیا تھا۔ جنگ میں فتح حاصل ہونے کے بعد ہمایوں نے سید خاں دستور کو سرجاپور پرگنہ بہ طور جاگیر عطا کی تھی۔ یہی سید خاں دستور راجگان کھگڑہ کے مورثِ اعلا تھے۔
پورنیہ گزٹیئر میں بھی اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ مغلیہ عہدِ حکومت میں پورنیہ میں ایک فوجدار رہتا تھا۔ یہ فوجدار بنگال و بہار کے صوبیدار کے ماتحت ہوا کرتا تھا۔ فوجدار پورنیہ کی کل سرحدی افواج کا حاکم اور سپہ سالار اور مالی و ملکی صیغوں کا مالک ہوا کرتا تھا۔
انسان کے پورنیہ نمبر میں مولوی محمد سلیمان کے مضمون "پورنیہ کے فوجدار" میں یہ سلسلہ مختصراً یوں بیان کیا گیا ہے:
1 – استوال خاں
2 – عبداللہ خاں
3 – اسفند یار خاں ۔ عہد حکومت بارہ سال
4 – بہمن یار خاں ۔ تیس سال
5 – سیف خاں
6 – محمد غابد خاں
7 – بہادر خاں ۔ ایک سال
8 – صولت جنگ ۔ سات سال
9 – شوکت جنگ ۔ نو مہینے
10 – رائے نیک راج خاں ۔ گیارہ مہینے
11 – حاضر علی خاں ۔ تین مہینے
12 – قادر حسین خاں/ خادم حسین خاں ۔ تین سال
13 – علی قلی خاں ۔ چار مہینے
14 – شیر علی خاں ۔ تین سال
15 – اسپدار جنگ ۔ دو سال
16 – راجہ سوچیت رائے
17 – رضی الدین محمد خاں
18 – محمد علی خاں
محمد علی خاں کو معزول کر 14 فروری 1770ء کو پورنیہ کو انگریزی حکومت نے ضلع کا درجہ عطا کیا۔
Mr . Gerard Gustaus Ducarrel
پورنیہ ضلع کے پہلے سپروائزر کلکٹر بحال ہوئے۔
مندرجہ بالا فوجداران کی فہرست میں شامل تین فوجداروں کے بارے میں کچھ تفصیلی گفتگو کرنا میں یہاں ضروری سمجھتا ہوں۔
نواب معین الدین سیف خاں– سیف خاں کابل کے مشہور حکمران امیر خاں کا پوتا تھا جو سادات میں سے تھا۔ وہ جس زمانے میں پورنیہ کا فوجدار مقرر ہوا مرشد قلی خاں بنگال و بہار کا صوبیدار تھا۔ اس نے شہنشاہ اورنگزیب سے درخواست کی تھی کہ کوئی جری شخص بھیجا جائے جو سرحدی علاقوں کو قابو میں لا سکے۔ مرشد قلی خاں نے سیف خاں کو پورنیہ کا فوجدار مقرر کیا اور دھرم پور و گوندوارہ کی جاگیریں عطا کیں۔ لیکن سیف خاں کے لیے اس سے ہونے والی آمدنی ناکافی تھی۔ اس نے شہنشاہ اورنگزیب سے شکایت کی۔ اورنگزیب نے مرشد قلی خاں کو اپنے مکتوب میں لکھا کہ "میں نے تمھیں ایک شیر ببر پنجڑے میں بند کرکے دیا ہے۔ اگر اسے پوری خوراک مہیا نہ کروگے تو وہ تم کو تکلیف دےگا"۔
شہنشاہ اورنگزیب کے اس اشارے کو سمجھ کر مرشد قلی خاں نے سیف خاں کو کل اختیارات دے دیے۔ سیف خاں نے بیر نگر کے راجا دُرجن سنگھ کو مطیع کیا، پرانی کوسی سے مغرب کا علاقہ اپنے قبضے میں لیا، باغی زمین داروں کی سرزنش کی اور پہاڑیوں کو اتر جانب مار بھگایا۔ اس کے زمانے میں پورنیہ کی آمدنی جو پہلے دس گیارہ لاکھ تھی بڑھ کر اٹھارہ لاکھ ہو گئی۔
اس نے سیف گنج شہر بسایا جو اب کٹیہار نام سے جانا جاتا ہے۔ سیف خاں سلطان عالمگیر کی سلطنت کے اخیر زمانے سے محمد شاہ بادشاہ کے دورِ سلطنت تک پورنیہ کا فوجدار رہا۔
اس کی حکومت کے آخری دور میں تخت مرشد آباد پر نواب مہابت جنگ علی وردی خاں نے نواب سرفراز خاں کو قتل کر قبضہ جمایا تھا۔ سیف خاں علی وردی خاں کو غاصب گردانتا تھا اور اسے اس بات کی امید تھی کہ تخت شاہی سے اس کے خلاف تادیبی کاروائی ہوگی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور علی وردی خاں بنگال و بہار کا نواب بن گیا۔ علی وردی خاں آخر تک سیف خاں کا دشمن ہی بنا رہا۔
سیف خاں کی وفات 1750ء میں ہوئی۔ اسی کے دور فوجداری میں شاہ کفایت اللہ نے 1728ء میں مشہور مثنوی "بدیادھر" کی تخلیق کی تھی۔
مہام الدولہ سعید احمد خاں المعروف صولت جنگ- سیف خاں کے بعد اس کا لڑکا فخرالدین حسین خاں اس کا جانشین ہوا۔ لیکن وہ سیف خاں کی طرح جری اور کامیاب ثابت نہ ہوا۔ نواب علی وردی خاں (مشہور نواب سراج الدولہ کے نانا) نے اپنے داماد سعید احمد خان صولت جنگ کو پورنیہ کا فوجدار بنا کر بھیجا۔ فخرالدین حسین خاں دہلی بھاگ گیا جہاں اس کا انتقال ہو گیا۔
نواب علی وردی خاں کی تین بیٹیاں تھیں جن کی شادی انھوں نے اپنے بڑے بھائی حاجی احمد کے تین بیٹوں کے ساتھ کروائی تھی۔ بڑی بیٹی مہرالنساء عرف گھسیٹی بیگم کی شادی نوازش احمد خاں کے ساتھ ہوئی جو ڈھاکہ کا نائب ناظم تھا۔ اپنے لے پالک بیٹے کی موت اور بیماری کے سبب ڈھاکہ میں اس کا انتقال ہو گیا تھا۔
دوسری بیٹی منیرہ بیگم کی شادی سعید احمد خاں صولت جنگ سے ہوئی۔ شوکت جنگ اس کا بیٹا تھا جو بعد میں پورنیہ کا فوجدار بنا۔
تیسری اور سب سے چھوٹی بیٹی امینہ بیگم کی شادی زین الدین خاں سے ہوئی تھی جو ایک جنگ میں مارا گیا۔ امینہ بیگم کے بڑے بیٹے کو گھسیٹی بیگم نے گود لے لیا تھا کیونکہ وہ لاولد تھی۔ لیکن چیچک کی وبا کا شکار ہو کر وہ لڑکا چل بسا۔
امینہ بیگم کا چھوٹا بیٹا سراج الدولہ اپنے نانا علی وردی خاں کا چہیتا تھا جسے علی وردی خاں بنگال و بہار کا نواب بنانا چاہتے تھے۔
سعید احمد خاں صولت جنگ 1741ء میں اڑیسہ کا حاکم بنایا گیا تھا لیکن ناکام ثابت ہوا۔ علی وردی خاں نے 1749ء میں اسے بہار کا نائب حکمران بنایا لیکن سراج الدولہ کو یہ تقرری پسند نہ آئی۔ علی وردی خاں نے اپنے چہیتے سراج الدولہ کو یہ جگہ دی اور سعید احمد خاں کو پورنیہ کی فوجداری۔ صولت جنگ نے پورنیہ کا فوجدار بننے کے بعد اپنی تمام بےراہ روی ترک کرنے کی کوشش کی اور نہایت کامیاب فوجدار ثابت ہوا۔
غلام حسین مصنف سیرالمتاخرین نواب صولت جنگ کے خصوصی مصاحبین میں سے تھا۔ اسے پرگنہ سری پور کی زمینداری حاصل تھی۔ اس کا قیام پورنیہ میں سات سال رہا، اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ نواب صولت جنگ صبح اٹھ کر فجر کی نماز سے فارغ ہو کر دربار میں آ بیٹھتا تھا۔ عصر کی نماز کے بعد بھی وہ مصاحبین کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا جس میں علما مثلاً ملا غلام یحییٰ بہاری، مفتی ضیاء اللہ، میر توحید، مولوی لال محمد، شیخ ہدایت اللہ اور سید عبد الہادی وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ دیگر رفقا مثلاً سیف علی خان برادر سیف خاں، نقی علی خاں برادر غلام حسین، امیر علی یار خاں وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ 1756ء میں صولت جنگ کا انتقال ہو گیا۔
شوکت جنگ – صولت جنگ کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا شوکت جنگ پورنیہ کا فوجدار بنا۔ شوکت جنگ ایک ناتجربہ کار، بد دماغ اور ناعاقبت اندیش شخص تھا۔ وہ اپنے بزرگوں اور امرا سے بھی نہایت بدتمیزی سے پیش آیا کرتا تھا جس وجہ سے اس کی فوج کے افسر وغیرہ اس سے نالاں رہتے تھے۔
میر جعفر اور بڑی خالہ گھسیٹی بیگم نے نواب علی وردی خاں کی رحلت کے بعد اسے بہار و بنگال کا نواب بننے پر اکسایا کیونکہ دونوں نواب سراج الدولہ کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھتے تھے۔ اس نے کافی مال و زر دلی پہنچ کر تخت شاہی کی نذر کی اور وہاں سے بہار و بنگال کی نوابی کا پروانہ حاصل کیا۔ اس نے نواب سراج الدولہ کو مرشد آباد کا تخت خالی کرنے کے لیے خط لکھا۔ نواب سراج الدولہ خط پڑھ کر چراغ پا ہو گیا۔ اس نے راجا رام نارائن کو عظیم آباد سے مع افواج پورنیہ کی جانب پیش قدمی کا حکم دیا اور خود بھی عازم سفر ہوا۔ راجا موہن لال اس کی فوج کا کمانڈر تھا۔ منیہاری اور نواب گنج کے درمیان بارلی کے مقام پر جنگ ہوئی۔ ہاتھی پر سوار شوکت جنگ کی پیشانی پر گولی لگی اور وہ نوابی کا پروانہ اپنی جیب میں لیے 16 اکتوبر 1756ء کو عالم بالا کی جانب سدھارا۔
میر قاسم خاں – نواب میر جعفر انگریزوں کی حمایت سے نواب سراج الدولہ کو قتل کر بہار و بنگال کا نواب بنا تھا۔ اس نے اپنے داماد میر قاسم خاں کو پورنیہ کی فوجداری عطا کی تھی۔ میر جعفر کو مہرہ بناکر انگریزوں نے خوب لوٹ پاٹ مچائی۔ نواب میر جعفر نے جب مخالفت کی تو اسے معزول کر میر قاسم خاں کو اکتوبر 1760ء میں بہار و بنگال کا نواب مقرر کیا گیا۔ آگے چل کر نواب میر قاسم نے بھی انھی وجوہات کی بنا پر بغاوت کر دی۔ اس نے مرشد آباد کی بجائے مونگیر میں اپنا دارالحکومت قائم کیا۔ لیکن 1764ء میں انگریزوں سے بکسر کی جنگ ہار گیا۔ 8 مئی 1777ء کو بہ مقام کوتوال نزد دہلی اس کی وفات ہو گئی۔
اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گنگا ندی کے کنارے مونگیر کا قلعہ اسی کا بنوایا ہوا ہے۔ لیکن بعض تاریخ داں اسے غلام خاندان کے دور کا تعمیر شدہ مانتے ہیں۔
جلال گڑھ کا قلعہ – بابو بھوانن سنگھ پورنیہ کے جلال گڑھ قلعہ سے متعلق اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سلطان جلال الدین خلجی کے زمانے (96 – 1290) میں جب کہ دارالحکومت گور میں واقع تھی بنگال و بہار کے صوبہ دار کے حکم پر سلطان جلال الدین خلجی کے نام پر اس قلعے کی تعمیر کی گئی تھی۔ 1326ء میں جب سلطان محمد تغلق نے چین پر فوج کشی کرنے کی کوشش کی تھی، اس کی فوج نے جلال گڑھ کے قلعے میں قیام کیا تھا۔
احسن التوارخ کے مصنف مولوی محمد یوسف رشیدی ہری پوری یوں رقم طراز ہیں: "کھگڑا ریاست کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قلعہ کا بانی راجہ سید محمد جلال الدین ہیں۔ راجہ سید محمد جلال الدین نے جہانگیر بادشاہ کی سلطنت کے زمانہ میں نواب اسفند یار خاں فوجدار پورنیہ کے حکم اور اعانت سے نیپالیوں کے حملے کو روکنے کے لیے بنایا تھا-"
ختم شد
نوٹ :- تفصیلی جانکاری حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔
1 – Bengal District Gazetteers : PURNEA
by S S S O’ Malley
2 – An account of the district of Purnea in 1809 – 10 by Francis Buchanan
3 – Bihar District Gazetteers : PURNEA
by P C Roy Choudhury
4 – पुरैनिया ( Purainia ) : Published by PURNEA administration
5 – سیر المتاخرین از غلام حسین طباطبائی
6 – احسن التوارخ از مولانا محمد یوسف رشیدی ہری پوری 1936 / 2017 ء
7 – انسان کشن گنج کا پورنیہ نمبر 1955ء
***
چوتھی قسط یہاں پڑھیں:سیمانچل کی تاریخ (قسط چہارم)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے