شکیل بدایونی : شخصیت اور فن

شکیل بدایونی : شخصیت اور فن

ام ماریہ حق ( دہلی)
ummemariahaque@gmail.com

بدایوں شاعروں اور ادیبوں کی سرزمین رہی ہے اور اس زرخیز خطّہ نے بہت سے ممتاز اہل قلم پیدا کیے۔ اس شہر کو زمانہ قدیم سے ادب کے ساتھ ساتھ ایک روحانی مرکز کا شرف حاصل ہے۔ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد اس خطّہ میں علم و ادب کی فراوانی ہوئی۔ اس سے اہلِ نظر بہ خوبی واقف ہے۔ علم و ادب کی کثرت کے باعث اس شہر کو مدینۃ العلم کہا جانے لگا تھا جہاں بے شمار ادبا اور شعرا، تاریخ داں اپنے اپنے قلم کا زور اور تخیل کی پرواز دکھا چکے ہیں اور اپنی طرزِ نگارشات سے ادب کا ایک گلشن کھلائے ہوئے ہیں۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کا مولد بدایوں ہی ہے. آپ کے والد، نانا اور دادا یہی مدفون ہیں۔ بدایوں کا دبستانِ شاعری عرصہ دراز سے شاعرانِ باکمال کی وجہ سے مشہور رہا ہے اور اس شہر کو نامی گرامی شعرا کا وطن ہونے کا فخر حاصل ہے۔ بدایوں کے علمی ماحول کا ذکر ان شعرا کے بغیر نامکمل معلوم ہوتا ہے جو آج تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں. ان شعرا میں بیشتر کو اپنے زمانے میں شہرت و مقبولیت بھی حاصل تھی اور مرتبہ بھی۔
بیسویں صدی کے جن شعرا اور علمی ادبی شخصیتوں نے بدایوں کا نام حرفِ زریں سے رقم کرانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ان شعرا کی فہرست کافی طویل ہے۔ جن میں فانی بدایونی، دلاور فگار، مولانا ضیاء القادری، شاداں بدایونی وغیرہ سر فہرست ہیں۔ یہ وہی دیار ہے جہاں شکیل بدایونی کی ولادت 3 اگست 1916 کو نہایت معزز خاندان میں ہوئی. ان کے والد [کا نام] مولوی جمیل احمد قادری [ہے]، جنھوں نے اپنی پوری زندگی ممبئی کی ایک مسجد میں امامت اور خطابت کے عہدے پر رہ کر بسر کی۔ شکیل بدایونی کا نام غفار احمد رکھا گیا مگر بعد میں شکیل احمد قرار پایا اور اسی نام سے علمی ادبی دنیا میں شہرت ملی۔ شکیل بدایونی نے ابتدائی تعلیم خاندانی روایت کے مطابق اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم سیردہ محلے کے مولوی عبدالغفار سے حاصل کی۔ انگریزی کی تعلیم اپنے ایک پڑوسی بابو رام سے شروع کی اور پھر اپنے ہی گھر پر ماسٹر رفیق احمد سے آگے جاری رکھی۔ اسکول کی تعلیم کے دوران وہ ہر درجہ میں کلاس مانیٹر اور کھیل میں ہاکی ٹیم کے کیپٹن رہے اور پڑھائی میں ہمیشہ اول رہتے تھے۔اس کے علاوہ بدایوں کی مذہبی، علمی اور سماجی تقاریب میں بڑی دل چسپی کے ساتھ شریک ہوتے۔ ہائی اسکول کا امتحان اسلامیہ ہائی سکول بدایوں کے طالب علم کی حیثیت سے الہ آباد بورڈ سے پاس کیا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد ہی ان کے والدین نے قیصر حسین قادری کی بڑی بیٹی سلمہ بیگم سے شادی کر دی۔ رضیہ، صفیہ، بجمہ، جاوید، اور طارق ان کی اولادیں ہیں۔ 1937 میں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں داخلہ لیا اور یہیں سے بی اے کیا۔ اسی بیچ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور انھیں بی اے کے بعد اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ اس کے بعد انھوں نےگورنمنٹ آف انڈیا کے محکمہ سپلائی میں ملازمت حاصل کی اور ان کا قیام دہلی میں رہنے لگا۔ تقریبا چار سال تک انھوں نے یہ نوکری کی۔ اسی بیچ انھوں نے ایک مشاعرہ پڑھا، اسی مشاعرے میں فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر عبدالرشید کاردار نے شکیل کا کلام سنا تو بہت متاثر ہوئے اور انھیں فلمی گیت لکھنے کی پیشکش کی. اس طرح سے شکیل بدایونی کا فلمی سفر شروع ہو گیا۔
شکیل بدایونی کو شیر و نغمہ سے ذوق اس وقت پیدا ہوا جب وہ مولانا ضیاء القادری بدایونی کی درس گاہ میں اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف تھے اور جہاں انھیں فارسی کے نامور شعرا کے کلام کے مطالعے کا وقت ملا۔ مولانا ضیاءالقادری اس زمانے میں بدایوں کے نامور اور معتبر علما میں شمار کیے جاتے تھے۔ بدایوں میں ہر شاعر اور عالم ان سے ملاقات کے لیے ضرور آتا۔ یہاں شکیل بدایونی کو ان سے ملنے اور ان کے کلام کو سننے کا موقع ملتا۔ شکیل بدایونی کی شاعری علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں پروان چڑھی۔ اس دور کی علی گڑھ کی شاعری مکمل طور سے رومانی تھی۔ مجازؔ کی رومانوی شاعری کا چرچا چاروں طرف تھا۔ جذبی اور جگر مراد آبادی بھی اسی رنگ کی شاعری کر رہے تھے۔ شکیل بدایونی کی رومانیت میں جگر مراد آبادی کا اثر نظر آتا ہے۔ جگر مراد آبادی کی صحبت اور ان کی فکرونظر سے شکیل کو مستفیض ہونے کا بھی خوب موقع ملا۔ انھیں اشارے کنایے بھی ملے، جو تغزل کے لیے لازمی جزو ہے۔ شکیل بدایونی نے جن اصناف سخن پر طبع آزمائی کی ہے، ان میں غزلیں، قطعات اور نظمیں شامل ہیں۔ شکیل کی شاعری کا جہاں تک سوال ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے زندگی کو اپنے قلم کا موضوع بنایا۔ انھوں نے خود کو محبت اور محبت سے متعلق نفسیاتی فن کا قلم کار بنا ڈالا۔ یہ کہتے ہوئے کہ محبت کی خوب صورتی اور اخلاقیت زندگی کے خاص اجزا ہیں، جن کے بغیر انسان مکمل نہیں بن سکتا۔ انھوں نے زندگی کے مختلف مسائل کا اظہار کر کے غزل کے دامن کو وسعت عطا کی۔ ان کی شاعری میں بے پناہ احساس کی شدت اور جاذبیت کا عنصر ملتا ہے۔ اسی عنصر نے انھیں ایک نمائندہ اور مقبول شاعر تسلیم کرایا ہے۔ ان کی غزلوں میں ماضی کا لازوال اثاثہ اور تہذیبی اقدار محفوظ ہے۔ ان کی غزلیں انفرادیت پر مبنی ہیں۔ وہ بڑی دل کش زبان کا استعمال کرتے ہیں۔
کتنی لطیف، کتنی حسیں، کتنی مختصر
اک نو شگفتہ پھول کی نکہت ہے زندگی
وہی کارواں وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں
زہر حیات پی کے ہم کھیل رہے تھے موت سے
عشق نے پھر جلا دیا عمر رواں کی خیر ہو
تفسیر دو عالم ہے شکیل اپنا تغزل
میدان غزل چھوڑ کے ہم جا نہیں سکتے
خود داریوں کی موت سمجھنا انھیں شکیل
حاصل ہوں نعمتیں جو بڑی التجا کے بعد
زندگی آ تجھے قاتل کے حوالے کر دوں
مجھ سے اب خون تمنا نہیں دیکھا جاتا
شکیل بدایونی کی غزلوں میں بلند آہنگ اور شیرینی ہے۔ لب و لہجے میں روانی اور سلاست ہے۔ وہ صرف لفظوں سے سحر کاری نہیں کرتے بلکہ زندگی کو ادب کے روبرو لا کر آئینہ دکھانے کا اعلا ہنر رکھتے ہیں۔ جگر مراد آبادی نے ان کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے۔ "شکیل شاعر فطرت ہے شاعر کاری گر نہیں، ان کا کلام محض لفظی طلسم بندیوں کا مجموعہ نہیں بلکہ حقیقتاً ان کا کلام ان کی زندگی کا آئینہ دار ہے"۔ غرض شکیل کی گرفت جدید جست پر نہیں تھی۔ ترقی پسندی سے وابستگی کی کوئی دلیل نہیں پیش کی جاسکتی البتہ وہ غزل کی حمایتوں سے اس بات سے متفق تھے کہ غزل میں بھی نئی طرز اور سماجی شعور کی گنجائش ممکن ہے جس کی واضح مثال اس وقت کے شاعر احمد ندیم قاسمیٓ، مجازؔ، مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی جیسے ترقی پسند شعرا اپنی غزلوں اور نظموں کے ذریعے پیش کر رہے تھے۔ شکیل نے بھی اپنی شاعری میں نئی طرز کو جذب کرنے کی کوشش کی۔ شکیل کی شاعری میں احساس کا کرب نمایاں نظر آتا ہے۔ انھوں نے ایسے جذبات جو ذاتی طور پر محسوس کیے ان کو سادگی، ترنم اور پاکیزگی کے ساتھ پیش کر دیا۔ چند شعر قابل ذکر ہیں۔
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزل عشق میں ہر گام پہ رونا آیا
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
حالِ دل احوالِ غم شرحِ تمنا عرضِ شوق
بے خودی میں کہہ گئے افسانہ در افسانہ ہم
اپنا ہی عکس دیکھتا رہتا ہوں چار سو
عالم تمام آئینہ حسنِ ذات ہے
کس شوق کی تمنا کس درجہ سادگی ہے
ہم آپ کی شکایت کرتے ہیں آپ ہی سے
رہ وفا میں کوئی صاحب جنوں نہ ملا
دلوں میں عزم تو پائے رگوں میں خوں نہ ملا
شکیل بدایونی نے اردو شعر و نغمے کے دامن کو پانچ مجموعے: رعنائیاں شبستاں، نغمہٓ فردوس، صنم و حرم ، رنگینیاں اور دھرتی کو آکاش پکارے سے مالا مال کیا مگر افسوس ہے کہ ایسا کلاسیکل شاعر جس کی عظمت کا اعتراف جگر مراد آبادی اور فراق گورکھپوری جیسے شعرا کر چکے ہوں اس کا ذکر تاریخ ادب میں نہ ہو، کس قدر حیرت کی بات ہے۔ شکیل کی غزلوں نعتوں اور گیتوں کا مطالعہ کیا جائے تو بلا مبالغہ احساس ہوتا ہے کہ شکیل بدایونی نے روایت کے ساتھ اپنا رشتہ استوار رکھا۔ ان کا ہر شعر دل کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کے فلمی نغمے آج بھی سدا بہار ہیں۔ ان میں وہی دل کشی و رعنائی ہے۔ زبان پر بے پناہ قدرت نے کلام میں سادگی پیدا کردی ہے۔ ان کی غزلوں میں گہری معنویت ہے۔ ان کا کلام بیسویں صدی کے شعرا کے دوش بدوش چلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کی غزلوں میں سوز و گداز کی گھلاوٹ اور شیرینی ہے۔ مجروح سلطان پوری نے شکیل بدایونی کی شاعری کے بارے میں کچھ یوں اعتراف کیا ہے "ایمان کی بات یہ ہے کہ جب بھی میں نے ان کے منہ سے اچھے شعر سنے میں رشک کیے بنا نہ رہ سکا"۔ شکیل بدایونی اپنی شاعری کے بارے میں خود بھی کہتے ہیں۔ "میں نے جہاں تک ممکن ہو سکا، اپنی شاعری کو اس راہ پر لانے کی کوشش کی کہ وہ ایک سطح پر قائم رہے اور سننے والے بھی مایوس نہ ہوں۔" وہیں وہ دوسری جگہ فرماتے ہیں۔ "مجھے اور میری غزلوں کو جتنی مقبولیت ملتی گئی تو میں اتنا ہی چوکنا ہوتا گیا۔"
شکیل بدایونی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ غزل کے علاوہ انھوں نے جن اصناف سخن پر طبع آزمائی کی ہے ان میں حمد و نعت، سلام، مرثیے، قطعات اور نظمیں شامل ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سماج کا ہر طبقہ ان کے کلام سے محظوظ اور مسرور ہوا. ان کی حمد و نعت میں قلبی روحانی خلوص اور جوش و جذبہ بڑی شدت سے نمایاں ہے۔ اس حمد میں وہ پروردگار عالم سے اپنی محبت کا اظہار بڑے والہانہ انداز میں کر تے ہیں۔
یہ زمیں آسماں تیرے صدقے
میں ہی کیا دو جہاں تیرے صدقے
نقش ہے لوحِ دل پر تیرا کلام
رحمتِ جاوداں تیرے صدقے
ایک خوب صورت نعت میں وہ سرور کونین ﷺ کی محبت میں یوں فرماتے ہیں۔
ہے دل میں جلوہ رخِ تابان مصطفیٰ
قندیلِ کعبہ ہے تہ دامانِ مصطفیٰ
باہر حدِ خیال سے ہے شانِ مصطفیٰ
ہر عزت و وقار ہے شایانِ مصطفیٰ
شکیل بدایونی غزل گو شاعر ہیں مگر انھوں نے کافی نظمیں بھی کہی ہیں جن میں چور، تصادم، شبِ رنگیں، زلزلہ، رقاصہٰ حیات سے وغیرہ۔ ان کی نظم نمائش علی گڑھ تو اس قدر مقبول ہوئی کہ شاید اسے مشاعروں میں سناتے سناتے شکیل عاجز آ گئے ہوں گے۔ کوئی مشاعرہ ایسا نہیں ہوتا تھا جہاں وہ غزل سنانے بیٹھیں اور ان میں سے کسی نہ کسی نے اس نظم کی فرمائش پر شور نہیں مچایا ہو۔ علی گڑھ کی نمائش جو ایک تاریخی، تجارتی اور ثقافتی میلہ ہے، شکیل بدایونی بھی یہاں پر طالب علم رہے ہیں، اس نمائش میں جا کر وہ بھی لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ ان کی یہ نظم منظر نگاری کا ایک خوب صورت نمونہ ہے۔
وہ بابِ مزمّل پہ جشن چراغاں
فلک پر ہوں جیسے ستارے درخشاں
فضاؤں میں گونجے ہوئے وہ ترانے
وہ جاں بخش نغمے وہ پر لطف گانے
وہ ہر سمت حسن و لطافت کی جانیں
وہ آراستہ صاف ستھری دکانیں
کہیں پر ہے نظارہ کاریگری کا
کہیں گرم ہوٹل ہے "پیشاوری" کا
شکیل بدایونی کی نظم "رقاصہ حیات سے" ترقی پسند عناصر کی نشان دہی کرتی ہوئی گہری معنویت کی نظم ہے۔ یوں تو کبھی کبھی لگتا ہے کہ نظم میں طنزیہ انداز ہے لیکن یہ دراصل زندگی کی تلخی سے مقابلہ کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہ نظم بلند آہنگ ہوتے ہوئے بھی نغمگی و شعریت میں کمتر نہیں معلوم ہوتی بلکہ ذہن پر دیر پا تاثیر قائم کرتی ہے۔
تنظیم کائنات جنوں کی ہنسی اُڑا
اجڑے ہوئے چمن کی بہاروں پہ رقص کر
سہمی ہوئی صدائے دلِ ناتواں نہ سن
بہکی ہوئی نظر کے اشاروں پہ رقص کر
شکیل بدایونی نے ادبی اور فلمیں دنیا میں دونوں ہی جگہ اپنے نام کا ڈنکا بجایا. انھوں نے زلفِ غزل سلجھا کر نغمات کے جام کو عوام وخواص کو اس قدر پیار و محبت سے پلایا، جو آج بھی ہمارے آپ سب کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ آپ نے بیک وقت دونوں میدانوں میں وہ شہرت حاصل کی جو کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ شکیل بدایونی کے لافانی نغموں کا وہی معیار ہے جو ان کی غزلوں کا ہے۔ ان کے فلمی گیتوں میں ادبی شاعری کی طرح معنی کی وسعت، گہرائی، لفظیات کی بندش اور وجدان و شعور کی کارفرمائی ہے۔ جو فلمی گیتوں میں کم ہی پائی جاتی ہے۔ فلمی دنیا کے چکاچوند کر دینے والے ماحول میں بھی انھوں نے فن و ادب سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور اپنا ایک الگ معیار بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے عرصہ کے بعد بھی ان کے گیت گائے اور پسند کیے جاتے ہیں۔ ان کے کچھ مشہور لافانی نغمے ملاحظہ فرمائیں۔
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج تیرے نام پہ رونا آیا

پھر آہ دل سے نکلی ٹپکا لہو جگر سے
شاید وہ جا رہے ہیں چھپ کر میری نظر سے

یہ زندگی کے میلے
دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
اک دن پڑے گا جانا
کیا وقت کیا زمانہ
کوئی نہ ساتھ دے گا
سب کچھ یہیں رہے گا
جائیں گے ہم اکیلے

ستاروں کی محفل سجی تم نہ آئے
تمھیں ہم نے آواز دی تم نہ آئے

ممبئی آکر انھوں نے سب سے پہلی فلم "درد" کے گانے لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ تھما نہیں۔ انھوں نے بے شمار فلموں کے گیت لکھے جو شکیل بدایونی کی پہچان بن گئے، جن میں چودھویں کا چاند، گھرانہ، دل لگی، دلاری، داستان، انوکھی ادا، مدر انڈیا، بابل، مغل اعظم، گنگا جمنا، میرے محبوب، آدمی، رام اور شیام، دو بدن، بیس سال بعد، صاحب بیوی اور غلام، پالکی، دیوانہ، کوہ نور وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام فلموں کی مقبولیت کا دارومدار ان کے نغمے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج بھی یہ فلمیں مشہور ہیں۔ شکیل، نوشاد اور محمد رفیع ان تینوں نے مل کر فلمی دنیا کو ایسے ایسے گیت دیے ہیں جن کی اہمیت کسی بھی دور میں کم نہ ہوگی۔ فلم "بیجو باورا" میں محمد رفیع کی آواز، نوشاد کی دھن اور شکیل کے قلم کا جادو دیکھیے۔

او دنیا کے رکھوالے، سن درد بھرے میرے نالے
آس نراس کے دو رنگوں سے دنیا تو نے سجائی

اسی فلم کا ایک دوسرا نغمہ جس میں شکیل نے تشبیہ اور استعاروں کا بہت خوب صورتی سے استمال کیا ہے۔

تو گنگا کی موج میں جمنا کی دھارا
رہے گا ملن یہ ہمارا تمھارا
اگر تو ہے ساگر تو منجدھار میں ہوں
تیرے دل کی کشتی کا پتوار میں ہوں

شکیل بدایونی نے اپنے نغموں میں صرف عشق و محبت ہی کی باتیں نہیں کی بلکہ انھوں نے نئی نسل کو نصیحت، حالات سے مقابلہ کرنے اور ہمیشہ آگے بڑھنے کی تلقین کی ہے۔

انصاف کی ڈگر پہ بچو دکھاؤ چل کے
یہ دیش ہے تمھارا نیتا تمہیں ہو کل کے

ٹھہرو پکارتی ہے تمھاری زمیں تمھیں
کہتا ہے آسمان ہے جینا یہی تمھیں

انصاف کا مندر ہے یہ بھگوان کا گھر ہے
کہنا ہے جو کہہ دے تجھے کس بات کا ڈر ہے

شکیل بدایونی کے گیت داخلی جذبات اور زاتی احساسات کے ترجمان ہوتے ہیں۔ ذاتی احساسات اور داخلی جذبات ہی دراصل گیت کی اساس ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ انتہائی موثر ہیں۔ گیت کی نمایاں خصوصیات اس کی غنائیت و موسیقی ہے۔ بعض لوگ اردو میں گیت کے تصور ہی سے اختلافات کرتے ہیں لیکن گیت کا تصور بہت قدیم ہے جو ترقی یافتہ صورت میں اردو میں داخل ہوا اور شروع ہی سے ہندستانی شاعروں نے گیت کو جذباتی اظہار کا ذریعہ بنا لیا۔ شکیل بدایونی سے جب ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ آپ فلمی شعرا میں کن شعرا کو پسند کرتے ہیں تو انھوں نے ساحر لدھیانوی اور راجندر کرشن کے نام لیے۔ لیکن اگر ساحر اور شکیل کی غزلوں کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ شکیل کے رنگِ شاعری پر نہ تو ساحر کا اثر ہے اور نہ ہی ساحر کی شاعری پر شکیل کا۔ مجروح جو شکیل بدایونی کے مکتب خیال سے اختلاف کرتے تھے وہ بھی جب ان کے اچھے شعر سنتے تھے تو رشک کیے بغیر نہیں رہ پاتے تھے۔ شکیل بدایونی کی تین سو صفحات سے زائد کلیات میں ہر شخص  اپنی اپنی پسند کا شعر ملاحظہ کر سکتا ہے۔ انھوں نے جو کچھ بھی لکھا ہے اسے سوچ سمجھ کر اور بنا سنوار کر کہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ شکیل بدایونی کی وہ قدر نہیں ہوئی جس کے وہ حق دار تھے۔ ۲۰ اپریل ۱۹۷۰ کو ممبئی کے باندرہ قبرستان میں شکیل بدایونی کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ بہرحال فن کار کو موت اپنے آہنی شکنجہ میں جکڑ سکتی ہے مگر فکر و فن کے سایہ کو کبھی چھو نہیں سکتی. مانا کہ وہ آج ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کا لازوال شاعرانہ فن  ہمیشہ زندہ رہے گا اور اپنی سحر انگیز غزلوں، پر اثر نظموں، جادوئی مترنم آواز اور فلمی گیتوں کی بدولت ہماری یادوں کا سرمایہ رہیں گے۔
حشر تک گرمی ہنگامہ ہستی ہے شکیل
سلسلہ ختم نہ ہوگا میرے افسانے کا
* * *
ام ماریہ حق کی گذشتہ نگارش:والی آسی: شخصیت اور شاعری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے