سیمانچل کی تاریخ (قسط چہارم)

سیمانچل کی تاریخ (قسط چہارم)

احسان قاسمی
رابطہ : ehsanulislam1955@gmail.com

سیمانچل اسلامی دورِ حکومت میں:- سیمانچل کی تاریخ میں اسلامی دورِ حکومت کا آغاز 598ھ (1200ء) میں سلطان قطب الدین ایبک (1210- 1150) کے جنرل اختیارالدین محمد بختیار خلجی (پیدائش نامعلوم، وفات 1206ء) کے فتح بنگال سے ہوتا ہے۔
سیمانچل نے اسلامی حکومت کے تین دور دیکھے۔
1 – سلطانی دورِ حکومت: سلطان قطب الدین ایبک یعنی 598ھ سے سلطان غیاث الدین تغلق 747ھ تک یعنی 149 برس تک سترہ سپہ سالاروں نے سلاطین دہلی کے ماتحت رہ کر بنگال و بہار پر فرماں روائی کی۔
2 – خودسر سلاطینِ بنگال: ملک فخرالدین سلاحدار 771ھ سے داؤد خاں افغان 995ھ یعنی 224 برس تک تینتیس خودسر حکمرانوں نے بنگال و بہار پر حکومت کی۔
3 – شاہ داؤد خاں کریانی ( جس کو حسین قلی خاں جہاں جو امرائے بادشاہ اکبر میں سے تھا، نے قتل کرنے کے بعد) یعنی 995ھ/1587ء سے بادشاہ عالم گیر ثانی کے عہدِ حکومت میں انگریزی سرکار کا غلبہ ہونے تک سلطنت دہلی کے زیر نگیں مختلف صوبے داروں، نوابوں اور فوجداروں کی حکومت میں رہا۔
4 – انگریزی حکومت نے آخری نواب محمد علی خان کو معزول کر 14 فروری 1770ء کو پورنیہ کو ضلع کا درجہ عطا کیا۔
پہلا دور : ملک محمد بختیار خلجی- سین خاندان کے آخری راجہ، راجا لکھمن سین کو 1200ء میں شکست دے کر محمد بختیار خلجی نے بنگال کو دہلی سلطنت میں شامل کیا تھا۔ وہ سلطان قطب الدین ایبک کا مشہور اور جری سپہ سالار تھا۔
اس زمانے میں بنگال کا دارالحکومت شہر ندیا تھا۔ محمد بختیار خلجی نے لکھنوتی جو اب گور کے نام سے مشہور ہے اور جس کا تفصیلی ذکر اس مضمون کے شروع میں کر چکا ہوں، کو بنگال و بہار کا دارالحکومت مقرر کیا۔
تاریخ فرشتہ سے پتہ چلتا ہے کہ ملک محمد بختیار خلجی نے لکھنوتی اور دیگر پرگنات پر قابض ہوکر خطبہ اور سکہ اس ملک کا اور جاج نگر، دیو کوٹ (بیر بھوم) اور باریسال کا اپنے نام سے جاری کیا۔ اس نے رنگ پور نامی شہر بھی بسایا۔
بنگال و بہار کی فتحیابی کے بعد اس نے کوچ بہار کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس نے خود کو یہیں تک محدود نہیں رکھا بلکہ بھوٹان، تبت اور چین تک پر چڑھائی کر دی۔ لیکن اسے وہاں سخت حزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور بہ ہزار دقت و پریشانی اس کی واپسی ہوئی۔ 1206ء میں اس کی موت واقع ہو گئی۔
اعزالدین محمد شیرانی- بختیار خلجی کی وفات کے بعد اعزالدین شیرانی جسے خلجی نے باریسال کا عامل بنایا تھا خودسری پر آمادہ ہو گیا۔ سلطان قطب الدین ایبک نے اپنے ایک امیر قمر خاں رومی کو اسے سبق سکھانے کو بھیجا۔ قمر خاں رومی، اعزالدین اور اس کے معاونین کا قلع قمع کر واپس لوٹ گیا۔
علاءالدین علی مردان خان- رومی کی واپسی کے بعد سلطان قطب الدین ایبک نے علی مردان خان کو بنگال و بہار کا حاکم بنا کر بھیجا۔ سلطان قطب الدین ایبک کے انتقال (1210ء) کے بعد علی مردان خان نے خود مختار ہوکر یعنی سلطنتِ دہلی کے تصرف سے باہر نکل کر آزادی کے ساتھ اپنی حیات تک حکومت کی۔
حسام الدین عوض- علی مردان خان کے بعد غیاث الدین کے لقب سے بنگال و بہار کا خود مختار حاکم بنا۔ سلطان شمس الدین التمش نے اس پر فوج کشی کردی۔ اس نے سلطان سے سمجھوتہ کر لیا لیکن سلطان کے واپس جاتے ہی اس نے دوبارہ بغاوت کر دی۔ سلطان شمس الدین التمش نے اپنے شہزادے ناصر الدین کو اس کی سرکوبی کے لیے گور بھیجا۔ جنگ میں غیاث الدین مارا گیا۔
سلطان ناصر الدین بن سلطان شمس الدین التمش- سلطان ناصر الدین کے وقت کتاب "طبقات ناصری" لکھی گئی تھی۔ ناصر الدین کم عمری میں ہی 627ھ (1229ء) راہی ملک عدم ہوا اور سرزمینِ گور میں دفن ہوا۔
اس کی موت کے بعد امیر علاءالدین نے چار سال حکومت کی۔ اس کے انتقال کے بعد سیف الدین نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ لیکن محض تین سال بعد ہی کسی نے اسے زہر دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
طغاں خاں- سیف الدین کے بعد طغاں خاں نے بنگال و بہار کی حکومت سنبھالی۔ یہ وہ دور تھا کہ سلطان التمش کے بعد اس کی بیٹی سلطانہ رضیہ دلی کی تختِ شاہی پر براجمان تھی۔ طغاں خاں نے اس کی اطاعت قبول کی۔ طغاں خاں کے انتقال کے بعد تیمور خاں نے دو برس حکومت کی۔ اس کے انتقال کے بعد سیف الدین خاں نامی ایک ترکی غلام نے سات سال تک بہار و بنگال پر حکومت کی۔
طغرل خاں- سلطان التمش کے غلاموں میں سے تھا۔ چند دنوں بعد شاہی اطاعت سے منحرف ہو گیا۔ سلطان غیاث الدین بلبن نے اس پر فوج کشی کر انجام تک پہنچایا اور اپنے بیٹے ناصر الدین بغرا خاں کو حاکم بحال کیا۔
ناصر الدین بغرا خاں- اپنے باپ سلطان غیاث الدین بلبن کے زمانے سے سلطان علاءالدین خلجی کی ابتداے سلطنت کے زمانے تک بنگال و بہار کا حکمراں رہا۔ بعد میں اس نے استعفیٰ دے دیا۔
سلطان علاءالدین خلجی نے بنگال کے دو حصے کر مشرقی بنگال (دارالحکومت سونار گاؤں) بہادر خاں کے اور مغربی بنگال (دارالحکومت گور) بغرا خاں کے حوالے کر دیا۔ ان دونوں کے بعد مشرقی بنگال تاتار خاں اور مغربی بنگال قدر خاں کی ماتحتی میں آئے۔
ان دونوں حکمرانوں نے چودہ برس تک بنگال و بہار پر حکومت کی۔
2 – خودسر حکمرانوں کا دور : –
فخر الدین سلاح دار – سلطان محمد شاہ تغلق جب گجرات کے انتظامات میں مصروف تھا۔ تاتار خاں کا انتقال ہو چکا تھا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فخرالدین سلاحدار نے جو تاتاریوں کے امرا میں سے تھا، نے مغربی بنگال پر قبضہ کر لیا۔ اس نے 747ھ (1346ء) میں قدر خاں کو سازش کر مروا دیا اور شاہی خزانہ بھی لوٹ لیا۔ اس نے بارہ سال تک خودسر سلطان کی حیثیت سے اس پورے خطے پر حکومت کی۔
علاءالدین عرف ملک علی جیو نے فخر الدین سلاح دار کا قتل کر چار سال اور کچھ مہینے حکومت کی۔
حاجی الیاس- حاجی الیاس ( بانی شہر حاجی پور) نے علاءالدین کو قتل کر سنار گاؤں کے بجائے جو قدر خاں کے وقت سے بنگال کا پایۂ تخت تھا، پنڈوہ کو بنگال و بہار کا دارالحکومت بنایا۔ سلطان شمس الدین بھنگڑہ عرف حاجی الیاس کے زمانے میں دہلی کا بادشاہ سلطان فیروز شاہ تھا۔ حاجی الیاس نے بارہ سال تک خودمختار رہ کر حکومت کی ۔
سکندر شاہ- سکندر شاہ حاجی الیاس کا بیٹا تھا۔ اس نے بھی بارہ سال خودسر سلطان کی حیثیت سے اس پورے خطے پر حکومت کی۔ 1353ء اور 1359ء میں دو بار دلی سلطنت کو شکست سے ہمکنار کر اس نے پنڈوہ شریف میں سلطنتِ بنگال کی شاہی مسجد کی شکل میں مسجد آدینہ کی تعمیر کی تھی۔ اس مسجد کے صرف ایک طرف 180 گنبد تھے۔ یہ مسجد اس خطے کی سب سے بڑی مسجد تھی۔ اس مسجد کو دیکھنے آج بھی ہزاروں لوگ ہر سال جایا کرتے ہیں۔ پنڈوہ بھی قدیم پورنیہ ضلع/ سیمانچل کا ہی حصہ تھا۔ پنڈوہ اس زمانے میں بزرگان دین کا مسکن اور تبلیغِ اسلام کا اہم مرکز تھا۔ اس وجہ سے اسے پنڈوہ شریف کے نام سے پکارتے ہیں۔ 1813ء میں مالدہ نام کا نیا ضلع بننے کے بعد اب یہ مالدہ ضلع کا حصہ ہے۔
غیاث الدین شاہ سکندر- حضرت مخدوم نور قطب عالم پنڈوی اور اس خود مختار سلطان کا زمانہ ایک ہے۔
اسی شاہ غیاث الدین نے حضرت حافظ شیرازی کی شہرت سن کر انھیں اپنے دربار میں آنے کی دعوت دی تھی۔ حافظ شیرازی جب دریائے سندھ کے کنارے پہنچے، دریا کی طغیانی دیکھ کر شیراز واپس چلے گئے اور وہاں سے ایک غزل لکھ کر بادشاہ کی خدمت میں بھیج دی۔ اس غزل کے اس شعر نے ہندستان میں دھوم مچا دی ؂
شکر شکن شوند ہمہ طوطیانِ ہند
زیں قند پارسی کہ بہ بنگالہ می رود
اور اس غزل کے مقطع نے سلطان غیاث الدین کو زندہ جاوید بنا دیا ؂
حافظ ز شوق مجلسِ سلطان غیاث دیں
خامش مشو کہ کارِ تو از نالہ می رود
***
قسط سوم یہاں ملاحظہ فرمائیں :سیمانچل کی تاریخ (قسط سوم)
قسط پنجم کا انتظار کریں :

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے