قومی یومِ اطفال اور قوم کے بچے

قومی یومِ اطفال اور قوم کے بچے

علی شاہد دلکش
کمپیوٹر سائنس اینڈ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ،کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج، مغربی بنگال ، ہند
رابطہ:8820239345

یومِ اطفال، جو چلڈرن ڈے یا بال دِوس کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کا عام فہم مطلب ہوتا ہے ”بچوں کا دن”۔ قدرت نے انسان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے، ان میں بچے بہت بڑی نعمت ہیں۔ بچے ہی مستقبل کے معمار بھی کہلاتے ہیں۔ بچے ہی اصل میں کسی بھی ملک اور قوم کی امیدوں کا مرکز ہوتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں مستقبل اپنی شناخت کے لیے بچوں ہی کا محتاج ہوتا ہے۔ قوموں اور ملکوں کی بلندی اور عروج کا بچے ہی ضامن ہوتے ہیں۔ جب کہ یہ دنیا ان کے لیے بازیچہ ہے۔ بہ قول مرزا غالب؎ ”بازیچۂ اطفال ہے دنیا“ ۔ اسی تناظر میں کسی شاعر نے کہا ہے کہ:
وقت اور بخت کے تعلق میں
ایک بچہ ہے اک کھلونا ہے
دنیا کی ہر قوم و ملک کے لوگوں کے گھروں میں رونقیں بچوں ہی کے دم سے ہوتی ہیں۔ بچوں کے بغیر ہر گھر سونا سونا لگتا ہے۔ جس گھر، محلے، علاقے اور خطے میں بچوں کی کلکاریاں اور ان کے کھیلنے کی آواز نہ آتی ہو، اسے خوش گوار نہیں مانا جاتا ہے۔ اس ضمن میں معروف شاعر عباس تابش ؔ کہتے ہیں:
فقط مال و زر دیوار و در اچھا نہیں لگتا
جہاں بچے نہیں ہوتے وہ گھر اچھا نہیں لگتا
لہذا بچوں کی افزائش و پرورش، بچوں میں تعلیم کی ترغیب، ذہنی نشوونما، حقوق کی بیداری، ان کے تحفظ اور تعمیری سرگرمیوں کی تجسس کو بڑھاوا دینے کے مقصد سے ھمارے عزیز ملک ہندستان میں ہر 14نومبر کو ”قومی یومِ اطفال/نیشنل چلڈرن ڈے" منایا جاتا ہے۔ واضح ہو کہ 14 نومبر ہمارے آزاد ہندستان کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا یومِ پیدائش ہے۔ چونکہ جواہر لال نہرو جی کو بچوں سے حددرجہ شفقت، محبت اور انسیت رہتی تھی، لہذا موصوف نہرو جی، قوم کے بچوں کے نقطۂ نگاہ سے ”چچا نہرو“ کہلانے لگے۔ اس لیے ان کی تاریخِ پیدائش کو ہی بہ طور یادگار قومی یوم اطفال منایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے وطن عزیز بھارت میں آزادی کے بعد پہلی بار چلڈرنس ڈے 1959ء میں 20 نومبر کو منایا گیا تھا، جو کہ آج بھی پوری دنیا میں عالمی یومِ اطفال (ورلڈ چلڈرنس ڈے) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مگر آزاد ہندستان کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لال کی موت کے بعد سال 1964ء میں یہ طے کیا گیا کہ 20 /نومبر کے متبادل 14 /نومبر کو قومی یومِ اطفال منائے جانے کی روایت شروع کی جائے۔ وہ دن تھا اور آج کا دن ہے کہ ہمارے بھارت میں قومی یومِ اطفال کا چلن نسبتاً زوروں پر ہے۔ بہرحال جس دن بھی منائی جائے یہ روایت بڑی اچھی ہے۔ جب کسی قوم میں یومِ اساتذہ کا چلن ہے تو اس تناظر میں یومِ اطفال کا منایا جانا لازم و ملزوم ہے۔ چونکہ بچے ہی روشن مستقبل کے ضامن و معمار ہوتے ہیں، اگر انھیں مناسب تعلیم اور صحیح تربیت دی جائے تو نتیجے میں ایک اچھا اور مستحکم معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ بچوں کی اچھی نشوونما اور عمدہ پرداخت ایک مثالی ماحول اور صالح مستقبل کا سبب بنتے ہیں؛ اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔ بچپن کی تربیت نقش علی الحجر کی طرح ہوتی ہے۔ بچپن میں ہی اگر بچہ کی صحیح دینی و اخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے تو بڑا ہونے کے بعد بھی وہ ان پر عمل پیرا رہتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر درست طریقہ و قاعدے سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے فلاح کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی۔ خدانخواستہ بلوغت کے بعد وہ جن برے اخلاق و اعمال کا مرتکب ہوگا۔ اس کے ذمہ دار اور قصوروار والدین واساتذہ ہی ٹھہرائے جائیں گے. جنھوں نے ابتدا سے ہی ان کی صحیح رہ نمائی نہیں کی. اس حقیقت کے اعتراف کے طور پر دنیا کی مختلف اقوام مختلف ایام میں یومِ اطفال مناتی ہیں۔ واضح ہو کہ پوری دنیا میں ہر 20 نومبر کو عالمی یوم اطفال یعنی ورلڈ چلڈرن ڈے، بچوں سے محبت و شفقت، کیئر، اور ان کے حقوق کی پاس داری کی غرض سے منایا جاتا ہے۔ امسال بچوں کے عالمی دن کا تھیم ہے، ”شمولیت، ہر بچے کے لیے"۔ اس تھیم کا مطلب یہ ہے کہ ہر بچہ جس کا تعلق کسی بھی معاشرے، برادری یا قومیت سے ہو برابر کے حقوق کا حق دار ہے۔ یونیسیف UNICEF /(United Nations International Children’s Emergency Fund) اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی ہے۔ اس کی ہدایت مطابق ہر 20 نومبر کو ہوڑہ برج، برلا میوزیم، مرکزی کولکاتہ پولس تھانہ، جواہر چلڈرن بھون اور مغربی بنگال کے اطفال تحفظ کے جادو گھر و دیگر اہم مقامات روشنیوں سے جگمگائے جاتے ہیں۔ اسی لیے ہر 20 نومبر کو عالمی پیمانے پر ورلڈ چلڈرن ڈے /عالمی یومِ اطفال منایا جاتا ہے۔ پہلی بار عالمی یومِ اطفال(ورلڈ چلڈرن ڈے) 1953ء کو انٹر نیشنل یونین فار چلڈرن ویلفیئر کے تحت منایا گیا، جسے بعد میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی منظوری دے دی۔ پہلی بار جنرل اسمبلی کی طرف سے 20/نومبر 1954ء کو یہ دن منایا گیا، اس طرح ہر سال 20 نومبر کو یہ دن(ورلڈ چلڈرن ڈے) منایا جاتا رہا ہے۔
سکے کا دوسرا پہلو بھی موضوع بحث و تحریر کا متقاضی ہے کہ آج جدید و مہذب دور میں بھی تقریباَ دنیا کا ہر خطہ کم و بیش ”بچہ مزدوری“ کے نرغے میں نظر آتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پوری دنیا میں آج ہر دس میں ایک بچہ مزدوری کرتا ہے اور یہ شرح پچھلے دس سالوں میں اپنی اعلا ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ 2016ء سے لے کر 2020ء کے درمیان بچہ مزدوری میں اسّی لاکھ بچوں کا اضافہ ہوا ہے۔۔ حیران کن طور پر وبائی مرض کوویڈ-19 نے مزید 90 لاکھ بچوں کو بچہ مزدوری کے بھنور میں دھکیل دیا ہے۔ حالانکہ اطفال کے تحفظ کو قانونی شکل سال 1908ء میں دے دیا گیا تھا۔ مگر عالمی سطح پر بچہ مزدوری کی روک تھام پر لڑی جانے والی لڑائی تعطل کا شکار ہوگئی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اس لڑائی کے خلاف پیش رفت جیسے تھم سی گئی۔ لہذا اسکول واپسی اور سماجی تحفظات کے منصوبہ پر پہلی فر صت میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ ریل ڈبوں میں کام کرنے والے بچہ مزدور کے تعلق سے منور رانا جیسے کسی شاعر کو زیر نظر شعر نہ کہنا پڑے:
فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
ہم حکومتوں اور بین الاقوامی ترقیاتی بینکوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ایسے پروگراموں میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو ترجیح دیں جو بچوں کو مزدوری کے دلدل سے نکال کر اسکولوں میں واپس لے جاسکیں اور سماجی تحفظات کے منصوبے بنائے جائیں تاکہ غریب خاندان اپنے بچوں کو مزدوری کرانے پر مجبور نہ ہوں۔
تاریخی حقائق کے مطابق 1950ء کے عشرے میں بچوں کے بارے میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ترقی پذیر ممالک کے بچے صحت، تعلیم اور تفریح کی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں؛ جب کہ ترقی یافتہ ممالک کے بچے غیرمعیاری کتابوں اور رسالوں کے ذریعے ذہنی آسودگی حاصل کرتے ہیں۔ نتیجتاً بچوں کے لیے کسی نامعلوم شاعر کا زیرِ نظر دعائیہ شعر ہے:
پھول سے بچوں کو دے شاداب موسم کی نوید
خشک سالی میں بہت برگ و ثمر بھی دے انھیں
بچوں کا عالمی دن ہم میں سے ہر ایک کو بچوں کے حقوق کی وکالت، فروغ اور جشن منانے کے لیے ایک متاثر کن داخلی نقطہ پیش کرتا ہے، مکالموں اور اعمال میں ترجمہ کرنا جو بچوں کے لیے ایک بہتر دنیا کی تعمیر کرے گا۔ بچوں کا عالمی دن منانے کے لیے اقوام متحدہ ادارہ یونیسیف، بچوں سے متعلق ایک خاص عنوان تجویز کرتا ہے جس کا تعلق بچوں کی تعلیم و تربیت اور نشوونما سے ہوتا ہے۔ لہذا آئیے ہم عہد کریں کہ ہم اپنے اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ قوم و معاشرے کے بچوں کی بھی ذہنی، تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی تربیت میں تعمیری کردار ادا کریں گے تاکہ ہمارا معاشرہ ترقی یافتہ اور مہذب ہو۔ بالواسطہ یا بلاواسطہ جب ہمارا سماج مثبت سمت پر ہو گا، تو ضلع آگے بڑھے گا۔ ضلع آگے بڑھے گا تو صوبہ میں بھی مثبت سرعت ہوگی اور جب ریاست آگے بڑھے گی تو ملک خود بہ خود ترقی یافتہ کہلائے گا۔ لہذا اب اپنی بات کو اختصار دینے کے لیے یہیں قلم و روشنائی کو سمیٹ رہا ہوں۔ جیسا کہ عظیم مفکر اور ادب اطفال پر ناقابل فراموش تخلیقی و تعمیری کام کرنے والے ڈاکٹر علامہ اقبال (رح) کا پیغام بچوں کے نام ہے:
”انسان اپنے نام سے نہیں اچھے کام سے پہچانا جاتا ہے."
متذکرہ مسائل کے مدنظر حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے بچوں کے سلسلے میں جو ہدایات دی ہیں، وہ نہ صرف بچوں کی فطرت کے عین مطابق ہیں بلکہ خاندان، سماج اور معاشرے کے لیے بھی انتہائی مفید ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان پر عمل درآمدکو یقینی بنایا جاے۔ تاکہ فلاح اطفال کا کام صحیح ڈھنگ اور قاعدے سے انجام دیا جاسکے۔
***
علی شاہد دلکش کی گذشتہ تحریر :عالمی یوم اردو اور ہماری ذمے داریاں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے