اقبال: جہان نو کا شاعر (قسط دوم)

اقبال: جہان نو کا شاعر (قسط دوم)

عمیر محمد خان
مہاراشٹر
رابطہ: 9970306300

جہان نو کی آبادکاری ایک ایسا امر ہے جیسے غیر مزروعہ زمین پر باغبانی و گلہ بانی۔ نئے زمانے، نئے صبح و شام اندرونی خصائل و خصائص اور بیرونی کردار و افعال جلیلہ سے عالم شہود میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ عالم وجود کے لیے ضروری ہے کہ حیات کے جملہ میدانوں میں حقیقی ماہرین کا اخلاص و تندہی سے کام ۔ قومیں اور سلطنتوں کا دوام اسی وقت ممکن ہے جب اربابِ فن، صاحبِ علم و ہنر، امروز و فردا کے معمار، افکارِ عمیق، بینش و بصیرت، ذوق و شوق، افعال و اعمال جیسی نعمتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ نے تمھارے لیے مسخر کیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں کامل کر دی ہیں اور (اس کے باوجود) کچھ لوگ اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس نہ علم ہے اور نہ ہدایت اور نہ کوئی روشن کتاب۔(لقمان)
اقبال کچھ اس انداز سے گویا ہے:
عالم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں
جانبازی، ولولۂ شوق، ذوقِ تسخیر، بے باکی، جستجو، امنگیں، گر سرد ہوجائیں تو گھسے پٹے ایام، محکومی و تقلید، غلامی اور اسیری انسانوں کا مقدر بن جاتی ہے۔ لاچاری و مجبوری، ضعف و کمزوری میں وہ گرفتار ہوجاتے ہیں۔ وہ راکب تقدیر نہیں ہو سکتے اور فسانہ ہائے زمانہ بن کر ختم ہو جاتے ہیں۔ ایسے افراد ہنگامہ زمانہ کی گرداب میں دب کر محو ہو جاتے ہیں۔
انسان اگر اپنے مقام سے آگاہ نہ ہو تو اس میں ولولۂ شوق، تعمیرات جہاں کا ذوق، تسخیرِ کائنات کی جستجو، نئے جہانوں کی کھوج اور معماری کے اوصاف کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ سلسلۂ حیات یہی ہے کہ سلسلہ ہائے واقعات وقوع پذیر ہوتے رہیں۔ کارواں بنتے رہیں اور پیش قدمی کرتے رہیں۔ اس لیے سلسلۂ حیات و ممات تمام عالمات میں جاری وساری ہیں۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں
ستاروں کی پیدائش و موت آسمانوں کو حسن و جمال بخشتے ہیں۔ نئے ستاروں کا جنم اور قدیم ستاروں کی موت عالمِ افلاک کو نیرنگی عطا کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح انسانی واقعات کی وقوع پذیری انسانوں کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔ انسان اگر ان واقعات کے تغیر و تبدل کا محرک ثابت نہ ہو تو قوموں کا زوال یقینی ہے۔ جو قومیں جہاں بانی، جہاں گیری، جہاں داری، جہاں آرائی کے فن سے نا آشنا ہوتی ہیں وہ گرد زمانہ و حوادث زمانہ میں کچل جاتی ہیں۔ وقت خود انھیں اکھاڑ پھینکتا ہے بوسیدہ عمارات و اشجار کی طرح۔۔۔۔!!!
سالک اگر ایک مقام پر ٹھہر جائے تو حیات تھم جاتی ہے۔ زندگی کی رونقیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ تبدیلی اور تغیر ہو نہیں پاتی ہے. قوموں کا عروج اور ترقی بعید از قیاس ہوجاتا ہے۔ مقام در مقام سفر حیات جاری رہنا چاہیے. ایک مقام پر پہنچنے کے بعد دوسرے مقام پر پہنچنے کی جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔
دنیا ایک رہگزر ہے۔ چلنا ۔۔۔۔چلنا۔۔۔ اور مدام چلنا ہی زندگی کی علامت ہے۔ سفر ہی زندگی کی رمق ہے۔ سفر ہی زندگی ہے ۔
زندگی کے اس سفر میں راستے، زندگی، مرحلے اور ادوار وہی ہوتے ہیں، صرف مسافر و راہی بدل جاتے ہیں. اشخاص کی تبدیلی اور الٹ پھیر زندگی کا اصول ہے۔
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ بھی نہیں
ایک مقصد حیات کو پا لینے کے بعد زندگی کا کارواں رک نہیں جاتا ہے بلکہ رواں دواں رہتا ہے۔ منازل کے حصول کے بعد جذبہ شوق ٹھنڈا نہیں پڑتا ہے۔ اور نئے منازل اور نئے مقامات کے لیے انسان تگ و دو کرتا ہے، اسی میں اس کی اور قوموں کی زندگی کا راز مضمر ہے۔ ہر گذشتہ دن، آنے والے دن سے مختلف ہونا چاہیے، اسی میں قوموں کی زندگی پوشیدہ ہے۔ ایک نسل جن حصولِ حیات کو حاصل کر چکی ہو، جن مقامات کو جن منازل کو طے کر چکی ہو، اب آنے والی نسل ان منازل، مقامات اور حصول کو آگے اور آگے بڑھائیں گے اور اس عمل کو جاری رکھیں گے۔ اسی پر قوموں کی زندگی موقوف ہے۔ ہر آنے والی نسل کا فرض ہے کہ وہ میراث گراں کو سنبھالے، سنوارے اور نئے زاویے سے آگے بڑھائیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر قومیں تنزلی اور پستی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ان کے حالات دگرگوں ہوجاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ مقامات کو سر کرنے کے لیے حالات پر مکمل دسترس رکھیں اور ایک منظم لائحہ عمل کے مطابق قوم اور ان کی آنے والی نسلیں آگے بڑھتے رہیں۔ ہر دور میں اور ہر حال میں زندگی کا کارواں آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ سفر عروج جاری رہنا چاہیے، اس لیے علامہ اقبال ہم سے خطاب کر تے ہیں:
تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سےگزر
مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر
اسی کا نام ندرت اور نیرنگی ہے۔
نئےمنازل نئے راستے، نئے سفر، نئے افراد، نئے زوایے، نئے مقاصد، نئے نظریے، نئے نظام، نئی جولان گاہیں، غرض ظاہری و باطنی احیا و جدت سے ہی اقوام کی اوج و رفعت پر پہنچنے کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ مقام اوج و کمال ان اقوام کی تقدیر بنتا ہے جو ان اوصاف کے حاملان ہوتے ہیں۔ قسط اول (ذیل میں لنک موجود ہے) میں یہ بات واضح کی گئی تھی کہ نئے صبح و شام، نئے زمانے کی نمود کچھ افعال جلیلہ سے وجود میں آتے ہیں۔ کردار و عمل سے ہی انسانی زندگی میں معجزات کے ممکنات ہیں۔ کردار کسی ظاہری حلیے، موشگافیوں، تکلفات، آداب و اطوار کا نام نہیں بلکہ انسان کے نجی معاملات سے لےکر اس کے زندگی کے جملہ میدانوں کے معاملات سے اس کا تعلق ہے۔ انسان کے اطراف و اکناف میں پڑنے والے اثرات ہی اصل اس کے کردار کی جھلک ہیں۔ شوق کردار، ذوقِ عمل، ولولہ سفر، تمنائے تبدل، آرزوئے منازل، حوصلہ ہائے انقلاب، جستجوئے عروج، معجزاتِ حیات اور کراماتِ واقعات کے پروردہ ہیں۔ جب ایسے فکر و عمل کے افکار انسان کے قلوب میں انگڑائیاں لیتے ہیں پھر زندگی کے مصائب و آلام انسان کے لیے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ گل بہاراں و بدخشاں کے خواب ندرت خیال سے ہی پیدا ہوتے ہیں اور بہار لالہ و گل ہنرمندی و محنت سے ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ خارِ مغیلاں سے بہار لالہ زار کا وجود ممکن نہیں ۔۔۔۔! ملت کے چمن کی آبیاری سمن و سنبل، سوسن و نسترن کی نکہت و جمال کی رعنائیوں سے ہی پرکشش بن سکتے ہیں۔ اسی طرح ندرت فکر و عمل سے ہی ملت کی شیرازہ بندی ممکن ہے۔ کردار فکر و عمل قوم کے انقلاب کی دستک ہے۔
ندرت فکر و عمل کیا شے ہے؟ ذوقِ انقلاب
ندرت فکر و عمل کیا شے ہے؟ ملت کا شباب
***
پہلی قسط یہاں پڑھیں:اقبال : جہان نو کاشاعر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے