یوم اقبال پر ندامت کے چند آنسو

یوم اقبال پر ندامت کے چند آنسو

نظم نگار: سیدعارف معین بلے

ہم سے بچھڑے بیت گئے اقبال کو اب چوراسی سال
اب بھی درخشندہ و زندہ ہے اُن کا، ایک ایک خیال
بابا جانی کو نہیں بھولے، کیایہ نہیں کافی ہے دلیل
بستی بستی شہر شہر میں برپا ہے جشنِ اقبال
تقریروں، تحریروں میں بھی چرچا اُنہی کا رہتا ہے
پَر فکرِ اقبال سے تو ہم رنگ نہیں اپنے اعمال
ہم تو ان کے ساتھ نہیں، وہ ساتھ ہمارے رہتے ہیں
باتیں دوش و فردا کی ہم کرکے رہتے ہیں بے حال
بابا جانی نے کھولے تھے ہم پہ کبھی اسرارِ خودی
بھول گئے ایک ایک سبق، ہے ایسی گردشِ ماہ و سال
جو بھی رستہ ہمیں سُجھایاتھا، ہے یاد کہاں ہم کو؟
ہم یوں چُپ کے روزے سے ہیں، بول رہے ہیں سب اعمال
قائدِ اعظم کو خط لکھ کر آپ نے ہی بلوایا تھا
آپ بھی اُن سے شرمندہ ہیں، کب ہے ہمیں اس کابھی ملال
رنگ و زبان و نسل کے جھگڑوں میں پڑ کر کمزور ہوئے
یکجہتی ہی بن سکتی ہے سارے تعصبات کی ڈھال
اب بھی حکیم الامت کی گر تعلیمات کو اپنا لیں
اب بھی کرسکتی ہیں بہاریں آکے ہمارا استقبال
ہاتھ میں جو کشکول ہے، اِس کو توڑ دیں، اس میں عزت ہے
دوست ممالک کے آگے ہم کرسکتے ہیں کتنے سوال
بابا جانی اب کیا کریں ہم، رُکا ہوا ہے اپنا سفر
ہم کو آگے بڑھنے کہاں دیتی ہے گردشِ ماہ و سال
قائدِ اعظم کا آدھا احسان اُتارا ہے ہم نے
کوئی سبق سیکھا ہی کہاں ہے؟ ہم نے کھوکر بھی بنگال
روز ہی جاکر ڈوب رہا ہے سورج دیکھیے مغرب میں
بات ترقی کی ہو تو ہم دیتے ہیں مغرب کی مثال
کر تو رہا ہے دور ہماری منزل سے ایک ایک قدم
راہ نما ہے آپ سا پھر بھی، بے ڈھنگی ہے اپنی چال
منزلِ گُم گشتہ پالیں گے، مایوسی کی بات نہیں
سچ ہے رَل مِل کر ہی ممکن ہے اِصلاحِ احوال
یہ دولت ہم کام میں لے آئیں تو دِن پھر سکتے ہیں
بابا جانی کے افکار سے اب بھی ہیں ہم مالا مال
آپ سے ہم نے رُخ موڑا تو ہل کررہ گئی ہے بنیاد
بابا جانی بنیادوں میں رہنے لگے ہیں اب بھونچال
بابا جانی یہ سچ ہے احساسِ زیاں جاگا ہی نہیں
اپنی جانچ کبھی ہم نے کی اور نہ کبھی کی ہے پڑتال
اپنے من میں ڈوب کے خود کو پانا ہم نے چھوڑ دیا
استعدادِ  کار بڑھا کر ہوسکتے ہیں ہم خوش حال
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، اتنا ہی کرسکتے ہیں
دیکھ کے دُنیا کی خوش حالی، ٹپک رہی ہے اپنی رال
ہر دشمن اِس سوچ میں ہے کہ اُس نے اَب کیا کرنا ہے
کرتو رہے ہیں ہم اپنی تہذیبی قدریں خود پامال
جُڑ ا رہے گا پیارا رشتہ دیکھنا بابا جانی سے
نظمیں بابا جانی کی تم پیاروں کو کر دو ارسال
روشنیوں کی قدر کرےگا اپنے سوا اب کون بھلا؟
نرگس صدیوں روتی رہی تب پایا ہے ہم نے اقبال
بابا جانی کہہ نہیں سکتے، آپ سے ہم شرمندہ ہیں
آنکھیں ملانا بھی مشکل ہے، سامنا کرنا اور محال
دل بوجھل ہے، گنگ زباں، آنکھوں میں ندامت کےآنسو
کیسے کہیں کہ آپ سے نادم آج کے دن ہیں ہم اقبال
***
سیدعارف معین بلے کی گذشتہ تخلیق :دھرتی کا بدن خشک ہے، برسات نبی ﷺ جی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے