اقبال : جہان نو کاشاعر

اقبال : جہان نو کاشاعر

عمیر محمد خان
رابطہ: 9970306300

تخیلِ اقبال زماں و مکاں کی قیود سے بہت آگے بندہ حر کی طرح آزاد نظرآتا ہے۔ شعور و آگہی سے پرے مستقبل کی جلوہ آفرینیوں میں ڈوبا ایک شاعر، حسین و تابناک عظمت گذشتہ کے پس منظر میں عظمت فردا کی شان اور کر و فر کا ایک خواب ہمیں دکھاتا ہے۔ شوکت رفتہ کے مناظر دل کو لبھانے کے لیے ہمارے سامنے پیش نہیں کیے جاتے ہیں بلکہ اسی شوکت اور اوج و کمال کو دوبارہ زندہ کرنا مقصود ہے۔ شان مومن، نگاہ مسلماں، پیغام لا الہ الا، تیغِ خودی، عشقِ ربوبیت، وفا محمد، عروجِ آدم، ذوقِ خدائی، ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا حوصلہ، براہیمی نظر، ضربِ کلیمی، علومِ وحی، زور حیدری، جرات حسینی، ایثار و صدق بوبکری، معرکہ بدر و حنین، سطوت ایوبی، خالد کی جاں بازی، شوکتِ سنجر وسلیم، فقر حسین و بایزید، تمام ہی جہان نو کی نمود کے لیے ضروری ہے۔ ماضی کے واقعات اور قصے مستقبل کی ایک شان دار، عظیم الشان شوکت و کر وفر کو وجود میں لانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ماضی کے حسین واقعات و معرکے دل کی تسکین اور طمانیت اور گراں خوابی کے لیے نہیں ہیں۔ بلکہ ذہن و روح کی بالیدگی کے لیے ہے جس سے عظمت گذشتہ کا سراغ پایا جا سکتا ہے اور داغ حاضرہ کو دھویا جاسکتا ہے. عناصر میں سے کوئی ایک بھی کم ہوں تو عروج خام خیالی ہے۔ سوز و تڑپ، بغیر جدوجہد کے لا حاصل سرچشمہ حیات ہے۔ امت واحدہ کا خواب اسی وقت ممکن ہے جب پرچمِ یک رنگ پر سب متفق ہوں۔ چیدہ چیدہ کوششیں اور پرچمِ صد رنگی امت واحدہ کی شان نہیں۔۔۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر

اقبال ایک ایسی دنیا کے خواہاں تھے جو اپنے قوت بازو سے پیدا کی جاسکتی ہے اور دوسروں کے احسان اور سہاروں کی پیداوار نہیں۔ نیرنگی اس دنیا کی خصوصیت ہے۔ جہاں ہر دن گذشتہ دن سے بہتر ہوتا ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مومن کا ہر گزرا ہوا دن گذشتہ دن سے بہتر ہوتا ہے۔ ایسے ہی دن کے نمو وہ چاہتے تھے۔ ایسے ہی زمانے کی نمود ان کی تخیل کی جولانی ہے۔ ایسے صبح و شام کی آفرینش کے وہ دل دادہ تھے جو ہر لحظہ نئی شان و رنگ لیے ہوئے ہوں. وہی بے چارگی اور صید زبوں حالی سے انھیں سخت نفرت تھی. ان کے خیال میں ساحر افرنگی اور دوسرے اقوام کے احسانات سے نئے زمانے اور نئے صبح و شام پیدا نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ نئے زمانے اور نئے صبح و شام کے محرکین و معمار وہی ہوسکتے ہیں جو فطرت سیماب کے مالک ہوتے ہیں۔ جو طرز کہن پر اڑتے نہیں اور آئین نو، انقلاب، تغیر و تبدل کے خواہاں ہوتے ہیں اور انھیں تسلیم کرتے ہیں۔ شاہینی نظر اور چیتےکا جگر کے اوصاف سے جو مالامال ہوتے ہیں۔ مستعار لینے والے اور تخیلات کے اسیر نئے زمانے اور نئے صبح و شام کے تخلیق کار نہیں بن سکتے ہیں۔ اس لیے وہ دنیا میں کاری ضرب نہیں رکھتے ہیں۔ اور نہ ہی زمانہ ان کی تقلید کرتا ہے۔

نشان یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
قلندرانہ ادائیں ، سکندرانہ جلال
یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں

ایک اور نظم میں انھوں نے معمار جہاں کے صفات اور ان کے جذبۂ اندرون کو اس طرح بیان کیا ہے۔

دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں
سفال ہند سے مینا وجام پیدا کر

حرکت، تغیر، تبدیلی، انقلابی واقعات، حادثات، چلنا، پیش رفت اور عمل تمام زندگی کی علامات ہیں۔ ناکارگی، جمود، ٹھہراؤ، سکوت، رکنا، تھم جانا موت کی نشان دہی کرتا ہے۔ جہان نو کی آفرینش و پیدائش حرکات، افعال، تازہ واقعات اور نت نئے کارناموں کی بدولت ممکن ہے۔ دنیا کی کایا پلٹ عمل کی تیزی پر منحصر ہے۔ جس قدر سبکی و رفتار سے سفر حیات ہوتا ہے اور ایک منضبط و منصوبہ بندی سے آگے بڑھا جاتاہے اس قدر نئے صبح و شام وجود میں آتے ہیں۔ عروج و کمال کے کلس پر اسی صورت پہنچا جاسکتا ہے جب جدت کو اپنایا جاتا ہے اور روایت پسندی سے ہٹ کر زمانے میں چلا جاتا ہے۔ قوموں پر تسلط اور ترقی نئے شعور و آگہی سے ممکن ہے۔ آدابِ خود آگاہی سے ہی افراد زمام اقتدار و زمانے کی لگام تھامے آگے بڑھتے ہیں۔

سمجھے گا زمانہ تیری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
ناپید تیرے بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تیری آہوں کے شرارے
تعمیر خودی کر، اثر آہ رسا دیکھ

کارنامے، واقعاتِ تازہ، نمود صبح و شام، نئے زمانے، تغیرات ایام کا نام ہے۔ دنیاوی علوم و فنون کی نیرنگی، حیات کی جملہ سامانیوں کی ندرت ہی نئے کارنامے و واقعات برپا کرسکتے ہیں۔ افعال جلیلہ اور اقدار اعلا فتح و نصرت کی اپج ہے۔ خورشیدِ جہاں تاب ان ہی اقوام کا ممکن ہے جو ہنر و نظر میں یکتا و نیرنگی لیے ہوں۔ وہ افراد جو دنیا کے ہر میدانوں کی نکیل اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں وہ محنتی، ہنرمند، سرگرم عمل ہوتے ہیں۔ جن کی امیدیں قلیل اور مقاصد، ارادے جلیل ہوتے ہیں۔ تنگ نظری، کوتاہ بینی، بغض و عناد سے اذہان و قلوب پاک ہوتے ہیں۔ جہاں تخت و طاؤس، مسند و امارت کا حصول شمیر و سناں کے بعد ظہور پذیر ہوتا ہے۔ واقعاتِ تازہ جہاں بینی و جہاں گیری سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ لفظی کاروائیوں اور دوسروں کے سہاروں کی امید سے جلیل کارنامے و واقعاتِ تازہ عالم وجود میں نہیں آتے ہیں۔ تازہ واقعات و نئے کارنامے مجتمع عمل، کردار، بے باکی، جرات و استقلال، شمشیر و تدبیر سے مؤجب وجود میں آتے ہیں۔

خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ایک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ

متحرک و سر گرم رہنا واقعات کا رونما ہونا اشد ضروری ہے۔ مہمات کو سر کرنے کا نام زندگی ہے۔ نئے اہداف بنانا اور آگے بڑھنا جہان نو کی پیداوار ہے۔تحریک و فعالیت آنے والوں کے لیے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ کامیابی کی شاہ کلید ہے۔ نئی نسل کے لیے ایک ساز گار اور مثالی ماحول پیدا کرنا عمدہ معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ قوموں کی زندگی انہی نکات پر موقوف ہے۔

زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیر تقدیر
خواب میں دیکھتا ہے عالمِ نو کی تصویر
اور جب بانگِ اذاں سے کرتی ہے بیدار اسے
کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دُنیا تعمیر

ان اوصاف کے حاملان اگر نا پید ہوں تو قدرت انسانوں کو بخشے ہوئے مقامات سے محروم کردیتی ہے۔ زوال اور پس ماندگی ان پر مسلط ہو جاتی ہے۔ بے چارگی اور کسل مندی ان میں پیدا ہوجاتی ہے۔ قدرت کئ مواقع فراہم کرتی ہے۔ اور جب کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ہے۔ طویل انتظار کے بعد قدرت ان کی جگہ کسی اور کو لا کھڑا کرتی ہے۔ جب فرنگی عروج پر تھے۔ مادیت کا حصول زندگی کا جز لاینفک سمجھا جاتا تھا۔ اقبال اس دور میں بھی جہان نو کے خواب سے سرشار تھے۔ ایسا جہاں جو بازوئے قوت مسلم سے پروان چڑھا ہو۔ وہ جہاں جو مرد مومن کے ذریعہ عالم وجود میں آتا ہے۔ وہ عالم پیری کے اندیشوں کا شکار نہ ہو۔ بلکہ جس کی پرواز لولاکی ہو، آسماں جس کا نخچیر ہو، جس کی نگاہ پاک اور وہ صاحبِ ادراک ہو۔

جہان نو ہورہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنادیاہے قمار خانہ
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ

نئے زمانے، نئے صبح و شام، معرکے، واقعات کا ظہور، عروج و کمال کا حصول ممکن کیوں نہیں اس کی وجوہات بھی علامہ اقبال نے عیاں کردیے ہیں۔ اس کی حصول یابی کے لیے درکار اوصاف کو بھی بیان کیاہے ۔

اے لا الہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتارِ دلبرانہ، کردار قاہرانہ
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ

اگر افعال و اعمال جاری ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ زمام زمانہ ہمارے ہاتھ میں نہیں، نہ ہی ہماری ضرب کاری ہے۔ قدرت کے مطلوبہ معیار سے ہماری سعی و جدوجہد نہیں ہے۔ ہم اس منصب کے اہل نہیں جو قدرت کو مطلوب ہے۔

دل سوز سے خالی ہے نگاہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا کہ تو بےباک نہیں ہے
ہے ذوقِ تجلی بھی اس خاک میں پنہاں
غا فل! تو نرا صاحبِ ادراک نہیں ہے

اقبال خاکی تھے مگر انداز افلاکی رکھتے تھے۔ انھیں پختہ یقین تھا کہ ایک مردِ مومن ہی نئے زمانے، نئے صبح و شام اور انقلاب کا بانی و محرک ہے۔ مومن جو ضربِ کلیمی رکھتا ہو، عشق خلیلی رکھتا ہو۔ عالم اس کازیر نگیں ہے. جس کے زمانے عجیب جس کے فسانے عجیب۔ جو تابع ستارہ نہیں بلکہ زندہ خاک ہے۔

عالم ہے فقط مومنِ جاں باز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے

عمیر محمد خاں کی یہ نگارش بھی پڑھیں:سچر کمیٹی کی سفارشات اور ریزرویشن: کیاہم خواب بیچتے ہیں ؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے