اردو کی ابتداکے نظریات: تحقیقی کوتاہیاں

اردو کی ابتداکے نظریات: تحقیقی کوتاہیاں

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
پاٹلی پترا یونی ورسٹی، پٹنہ

اردو زبان و ادب اور لسانیات بالخصوص تاریخی لسانیات کے طالبِ علم کے پیشِ نظر یہ مسئلہ ہمیشہ مشکل راستوں کی طرف لے جانے کے لیے مجبور کرتا ہے کہ آخر ہماری زبان کب پیدا ہوئی؟ اردو کہاں پیدا ہوئی؟ کن قومیتوں اور آبادیوں یا بولیوں کے حلقے میں اِس زبان کی اوّلین بنیادیں پڑیں؟ ’اردو کی ابتدا سے متعلق جن بڑے اور نہایت محترم ناموں کی ہم گردان کرتے رہتے ہیں، عجب اتّفاق ہے کہ اُن کی تحقیق، مواد کی تلاش اور تحلیل و تجزیے کی حدود پر ہماری نگاہ کم کم پہنچتی ہے۔ علمی اور ادبی اعتبار سے یہ نام اِس قدر با اعتبار ہیں کہ اُن کے تحقیقی طریقۂ کار پر بہت کم سوالیہ نشان لگائے گئے۔ اکثر افراد نے صرف نتائج سے اتّفاق و اختلاف کو مرکزی موضوع بنایا اور اِسی دائرے میں رہتے ہوئے طول طویل تبصرے کیے یا کتابیں لکھ ڈالی گئیں۔ نتائج کو قبول کرنے یا فرمانِ منسوخی جاری کرنے کے مراحل بہ عجلت سامنے آتے رہے جسے مشکل سے کسی علمی اور پیچیدہ کام کو سلجھانے کی حکمتِ علمی قرار دیا جا سکتا ہے۔
اردو کی ابتدا کے نظریات وضع کرنے میں اکثر محققین کے لیے ہندستان میں مسلم بادشاہوں، تاجروں اور صوفیہ کی آمد، محمد غوری کی فتحِ دہلی اور امیر خسرو کا ہندوی کلام جیسے وقوعات مرکزی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ تاریخی لسانیات اور ہندستانی معاشرے میں سرمایۂ الفاظ کی سطح پر جو تبدیلیاں ہورہی تھیں، ان کے مطابق یہ ایک ایسا خطِ مستقیم ہے جس سے نتائج اخذ کرنے میں ہزار سہولتیں پیدا ہوئیں۔ گذشتہ دو سو برسوں میں اگرچہ اولاً انگریزی راج اور ثانیاً ہندو پاک کی آزاد مملکتوں کی سیاسی اور سماجی بصیرتوں نے ماہرینِ لسانیات کی تربیت کی تھی مگر نفسیاتی اعتبار سے تمام معاملات کے داخل میں اُتر کر دیکھیں تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حقیقی طور پر ان میں سے اکثر محققین اگرچہ انگریزی سامراجیت کے َدور کے تعلیم یافتہ تھے مگر اس سے زیادہ عہدِ سلطنت اور مغل حکمرانوں کے ذریعہ ان کی جو شاہی فوق بشری ذہن سازی ہوئی تھی، اسی نے ہمارے علما کی فکر و نظر کو کچھ اس طرح صیقل کیا تھا جس نے نئی مملکت اور جمہوری ادارہ سازی کے دور میں بھی تحقیقِ زبان کے نئے راستوں کی طرف دیکھنے کے بجاے فارسی، عربی اور ترکی روایت اور کہیں کہیں حسبِ ضرورت ایک اور اشراف زبان سنسکرت سے خوشہ چینی کرلینے کو منتہا سمجھ لینے میں کاربند رہے۔
ساتویں صدی عیسوی سے بارھویں تیرھویں صدی عیسوی کے پانچ چھے سو برسوں کے ان معاملات سے صرفِ نظر کرنا اس وجہ سے بھی مشکل ہے کیوں کہ ہندستانی سماج سازی کا نیا دور اس بیچ شروع ہوا چاہتا ہے۔ شہرکاری، تعلیم کی توسیع کی غرض سے محدود پیمانے پر ہی سہی مگر اس کے عام ہونے کے وسائل پیدا ہورہے تھے اور مختلف مذاہب کے افراد اور ان کے پیشواؤں کے درمیان رابطے کی ایک شاہ راہ نکلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ برہمنی نظام کے زوال کے ساتھ بودھ اور جین مذاہب کے ابھرنے، غیر سنسکرت زبانوں کے پھیلنے اور رشدوہدایت کے کام میں آزمانے کے امکانات اس عہد کے سب سے بڑے اور نئے رجحانات ہیں۔ اہلِ اسلام نے مذاہب کو زبانوں کی گانٹھ میں باندھ دینے کے ماقبل مزاج کو رد کرتے ہوئے کثیر لسانی، کثیر تہذیبی اور روادارانہ ماحول پیدا کرنے کی اسی دوران ایک کوشش کی تھی۔ ذات برادری میں منقسم ہندو سماج کے سامنے بودھ مذہب نے ایک مساویانہ زندگی کا سبق ضرور پیش کیا تھا مگر اسلام کی آمد سے ایک اہم اضافہ یہ ہوا کہ ایک ہم مشربانہ سماجی اور مذہبی ماحول پیدا ہونے لگا جس کا نقطۂ عروج صوفیۂ کرام کی زندگی، تعلیمات اور معاشرہ سازی کے نئے اصول و ضوابط میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
ہندآریائی کے ارتقائی مراحل میں اردو کے تمام ماہرینِ لسانیات پراکرتوں کی اہمیت اور بودھوں کے سرمایۂ علمی سے فیض اٹھانے میں کتراتے رہے۔ اس کام میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہوجاتی ہے کہ جس علاقے میں پراکرتوں کا اور بالخصوص پالی زبان کا فروغ ہوا اور اس خطے میں جس طرح نئی بولیوں اور زبانوں کے نمونے بکھرے پڑے تھے، ان کا کسی نے علمی اعتبار سے جائزہ ہی نہیں لیا تھا۔ مسلمانوں کی آمد، مسلمان حکمراں اور ہمارے محترم درباری شاعر امیر خسرو کے غیر مستند کلام کی گردان نے کبھی ہمیں بودھوں کے لسانی اجتہاد اور اس کے ہندستانی سماج پر گوناگوں اثرات کو سمجھنے کے لیے غالبا موقع ہی نہیں دیا جس کے نتیجے میں ہم ایک بنی بنائی لکیر جو کہیں نہ کہیں سلاطین پرستی کی روایت سے پیدا ہوئی تھی، اسی پر چل کر تاہنوز بڑھتے رہے ہیں جسے میر امن سے لے کر محمود شیرانی اور مسعود حسین خاں تک محققین نے اپنی توجیہات اور تجزیوں سے مستحکم کیا۔
اردو کے آغاز کی اوّلین کڑیوں کو جوڑنے کے لیے پراکرتوں، بودھ اور جین ادب کے ساتھ ساتھ بھکتی کال کے مصنّفین جو تمل ناڈو سے لے کر پنجاب، گجرات اور کشمیر تک پھیلے نظر آتے ہیں۔ صوفیا اور بھانت بھانت کے مذہبی پیش واؤں اور مصلحین کے سرمایۂ ادب پر ہمارے ماہرینِ لسانیات کی بہت کم نگاہ گئی۔ کسی کسی نے اُچٹتی ہوئی نظر سے اِن حقائق کو ضرور دیکھا مگر نفسیاتی اعتبار سے وہ اسلامی حکومت اور عربی و فارسی یا ترکی روایت کی اشرافیت کے دائرے میں پلے بڑھے لوگ تھے جس کے سبب اُنھیں دوسرے مذاہب، اسلام سے الگ اعتقادات کے افراد کے سرمایۂ علم سے استفادہ اور سب سے بڑھ کر سماجی اعتبار سے کمزور اور عرفِ عام میں اَن پڑھ اور گنوار طبقے کو زیرِ بحث لانا کبھی پسند نہیں آیا۔ اِس لیے اردو لسانیات کے مباحث کی کون کہے، اردو ادب کے جغادری مورخین بھی اتنی تیزی سے اِن ادوار کے صفحات پلٹتے جاتے ہیں کہ آپ کو پتا ہی نہیں چلے گا کہ گفتگو کی روانی میں کبھی تین اور کبھی پانچ سو برس ہمارے جائزے سے الگ تھلگ رکھ دیے جاتے ہیں۔ اُن محققین کو یہ فائدہ ضرورحاصل ہوا کہ نتائج کی مقبول ڈگر پر وہ چلتے رہے اور اُن کے پڑھنے والوں کو بھی معمول کی یہ باتیں پسندیدہ معلوم ہوئیں۔
ہندستانی مورخین نے ہڑپا اور موہن جودڑو سے لے کر اشوک کے کتبوں تک معدوم حقائق کی تلاش میں کاغذی دستاویزات کے پہلے کے دور کی تاریخ مرتَب کرنے میں بڑی کامیابی پائی تھی۔ ہر مذہبی کتاب کو مورخین نے تاریخ نویسی کے مآخذ کے طور پر استعمال کرکے طرح طرح کے نتائج اخذ کیے اور علم کی نئی روشنی سے ہمیں مالا مال کیا۔ حکومتوں کے فرمان، کاشت کاری کے دستاویزات اور مذہبی پیشواؤں کی تحریروں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مورخین نے تاریخ کے کتنے اندھیرے گوشوں کو روشن کر دیا۔ عہدِ جدید میں سب الٹرن مورخین نے تو ذاتی خط و کتابت، فکشن اور شاعری، لوک گیت اور باغیانہ نعروں کی بنیاد پر تاریخی منظر نامہ مرتَب کر دیا۔ پرانے اور نئے مورخین میں روایتی اور نئے ذرایع کے استعمال کے معاملے میں گھماسان مچا رہتا ہے مگر سب نئے نئے ذرایع تحقیق کے استعمال کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں اور اسی لیے تھوڑے تھوڑے وقفے سے بالکل نئے مآخذ کی بنیاد پر تاریخ کے کسی دور کی نئی صورت گری سامنے آ جاتی ہے۔
اردو کے لسانیاتی محققین کی فہرست پر ایک نظر ڈالیں تو آزادی کے بعد ایک بڑی تعداد اُن لوگوں کی سامنے آئی جنھوں نے خاص طور پر انگریزی وسائل کا استعمال کرکے لسانیات کے حوالے سے زیادہ کام کیا۔ ان میں مٹھی بھر ایسے لوگ ہیں جنھیں سنسکرت کی شد بد ہو اور اِسی کے ساتھ پالی اور پراکرتوں کے بارے میں بھی واضح اکتساب کی تیّاری نظر آئے۔ اِس کے علاوہ ہندستان کے مختلف علاقوں کی بولیوں سے براہِ راست واقفیت نہیں ہونے کی صورت میں بھی بہت سارے قدیم متون سے پورے طور پر استفادہ کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ بولیوں کی اتنی بڑی دنیا ہے کہ کوئی بھی اِس میں کھو جائے گا۔ سنسکرت اشرافیت کے زیرِ اثر مدھیہ دیش کی بولیوں تک اردو کے علما نے خوب خوب دادِ تحقیق دی مگر وہ الٰہ آباد سے پورب کی طرف دستیاب متون کی چھان بین کرنے میں اکثر ناکام رہے۔ کبیر داس کو کھڑی بولی، بَرج اور اودھی کے بھنور میں الجھانے کی کوشش ہوئی جب کہ سب کو معلوم تھا کہ وہ بنارس کے علاقے میں آباد تھے اور اُس خطّے کا کم از کم کھڑی اور بَرج سے کوئی تعلق تو تھا ہی نہیں۔ مگر عجلت میں کبیر کے متن کو اُس کی اصل پوربی زبان سے علاحدہ کرنے کی ایک غیر علمی کوشش ہوئی۔ کبیر سے بھی پہلے اور امیر خسرو کے بعد کی ایک کڑی کے طور پر پورب میں ودّیاپتی جیسا کثیر التصانیف ادیب و شاعر ملتا ہے جس کے یہاں عربی فارسی کے الفاظ اُسی طرح سے موجود ہیں جس طرح کسی دوسرے متن پر اردو کی پہچان کے لیے ہمارے محققین نے منطبق کیا۔ ایک سے ایک لایعنی متن اور غیر مستند صحائف کے لسانی تجزیے کے بعد اُس پر اردو کے اثرات یا رشتے کو ثابت کرنے میں محققین کی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہوئی مگر ودّیاپتی کی تمام تصنیفات اور بالخصوص ’کیرتی لتا‘ اور ’کیرتی پتاکا‘ کے لسانیاتی تجزیے کے بعد قدیم اردو سے اُس کی قربت کی جانچ پڑتال کی جا سکتی تھی۔ ہندی ادب کی تاریخ میں اُس عہد کے ادب کو ’اوہٹ‘ کے نام سے پہچاننے کی کوشش ہوئی مگر اِس سرمایۂ علم کا اردو کے آغاز کے حوالے سے کوئی مصرف اِس لیے نہیں لیا جاسکا کہ لسانیاتی محققین کو الٰہ آباد سے پورب کی زبانوں اور بولیوں کی اردو کے حوالے سے تحقیق کی کبھی ضروت ہی نہ پڑی۔ یہ اردو کی لسانیاتی تحقیق میں جمود کی ایک واضح مثال ہے کیوں کہ ستّر پچھتّر برس میں کسی محقق نے پورب کی زبانوں اور وہاں کے مستند علمی نمونوں کا ایک ذرا جائزہ لینے کی کوشش ہی نہیں کی۔
[مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں۔] 
Safdar Imam Quadri
Department of Urdu, College of Commerce, Arts & Science, Patna
Patliputra University, Patna
Email: safdarimamquadri@gmail.com
Mob: 09430466321, 7903688448
گذشتہ عرض داشت یہاں پڑھیں :بھارت جوڑو یاترا: یاتراؤں کی سیاست اور سیاست دانوں کی یاترا؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے