کتاب: آزادی کے بعد بہار کے اردو ادبی رسائل

کتاب: آزادی کے بعد بہار کے اردو ادبی رسائل

تبصرہ: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

ڈاکٹر محمد عطا حسین انصاری (ولادت یکم نومبر 1982) بن عابد حسین ساکن برھولیا، دربھنگہ، انتظامی افسر (اردو) بہار قانون ساز کونسل پٹنہ، بہترین ادیب، اچھے محقق، خوش گو شاعر اور بڑے نقاد کی حیثیت سے مشہور و متعارف ہیں، کشاکش حیات اور کارجہاں کی درازی کے باوجود وہ لکھنے کے لیے وقت نکالتے ہیں اور تحقیق کے موتی نکال کر تشنگان علم و ادب کی خدمت میں پیش کرتے رہتے ہیں، وہ اپنے اصلی نام سے کم اور قلمی نام سے زیادہ جانے جاتے ہیں، جو دوناموں کے جزء اول سے مرکب ہے، عطاؔ ان کے نام کا جزء اول ہے اور عابد ان کے والد محترم کے نام کا، اس طرح وہ علمی ادبی دنیا میں عطا عابدی کے نام سے جانے جاتے ہیں، اصلی نام صرف سروس بک میں استعمال ہوتا ہے اور بس، ان کی مطبوعہ کتابیں جن میں شاعری، تنقید و تحقیق، تبصرے، کہانیاں و ترتیب سب شامل ہیں، سترہ (17) ہیں اور نو (9) کتابیں جن میں شاعری، تنقید، شخصی تاثرات اور انٹرویوز ہیں آج بھی منتظر طباعت ہیں۔ بیس (20) کے قریب اعزازات و انعامات حاصل کر چکے ہیں، ایک درجن سے زائد جرائد و رسائل سے صحافتی وابستگی رہی ہے۔
’’آزادی کے بعد بہار کے اردو ادبی رسائل ‘‘موصوف کی پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے، جسے انھوں نے نظرثانی اور کافی اضافہ کے ساتھ اردو ڈائرکٹوریٹ حکومت بہار کے مالی تعاون سے شائع کرایا ہے، تین سو بیس (320) صفحات کی اس کتاب کا پبلشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ہے، جو ادیبوں کی پہلی پسند ہے، معیاری طباعت اور دیدہ زیب گیٹ اپ کے ساتھ یہاں چھپوانے کا ایک فایدہ مارکٹنگ کا بھی ہے، وہاں طبع کرانے سے کتاب ملک و بیرون ملک تک پہنچ جاتی ہے، طلب زیادہ ہو تو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس بغیر علم میں لائے کئی ایڈیشن نکالنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ آپ کو خبر ہونے پر دوبارہ کچھ نسخے آپ تک بھی پہنچ سکتے ہیں، یہ میری تحقیق نہیں، ان لوگوں کی بات ہے جو ان سے معاملات کرتے ہیں، میرے جیسے معتکف آدمی کو ان چیزوں کی ہوا کیسے لگ سکتی ہے۔
کتاب کا انتساب مجاز نوری اور ڈاکٹر حسن رضا رضوی کے نام ہے، جو علی الترتیب عطا عابدی کی ادبی صحافت کے اولین محرک اور اولین صحافتی ہم سفر رہے ہیں، عطا عابدی نے اس کتاب کا انتساب دونوں احباب کے نام کرکے ان سے قیمتی تعلقات کا اظہار بھی کیا ہے اور اعلان بھی، کتاب کا آغاز ’’رسائل کا شناخت نامہ‘‘ سے ہوتا ہے. یہ مرحوم پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی تحریر ہے، جو عطا عابدی صاحب کے پی ایچ ڈی مقالہ کے ممتحن بھی تھے، ڈاکٹر سید احمد قادری کے’’ قابل قدر کارنامہ‘‘ اور ڈاکٹر محسن رضا رضوی کے ’’صحافتی تحقیقی شعور کا آئینہ‘‘ کے بعد مسلسل تین مضامین، ’’یہ کتاب‘‘، ’’اردو ادبی رسائل: نقوش و نکات، ’’اردو ادبی رسائل:ایک تعارف ایک مطالعہ، مصنف کے قلم سے ہے۔
پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی نے لکھا ہے کہ ’’انھوں نے جیسا منظرنامہ سمیٹا ہے ایسی آفاقیت دوسری کتاب میں نہیں ملتی۔ آزادی کے بعد بہار کے حوالے سے صحافتی ذات، شخصیت، موجودگی اور فن سبھی کچھ اس کتاب میں موجود ہے، ڈاکٹر سید احمد قادری اپنے مضمون بہ عنوان ’’قابل قدر کارنامہ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اس خشک موضوع کو ڈاکٹر عطا عابدی نے اپنے منفرد و تخلیقی لب و لہجہ اور خوب صورت اسلوب میں اس طرح پیش کیا ہے کہ اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والا مطالعہ کے دوران متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا ہے‘‘ ڈاکٹر محسن رضا رضوی لکھتے ہیں: ’’آزادی کے بعد بہار کے اردو ادبی رسائل عطا عابدی کی تازہ ترین تحقیقی کتاب ہے، جسے تخلیقی تحقیق کے زمرے میں بھی رکھا جاسکتا ہے، عرق ریزی، جاں فشانی اور سلیقہ مندی سے انھوں نے اپنے تحقیقی مطالعہ کو صفحۂ قرطاس پر پیش کیا ہے‘‘۔
رسائل کے تعارف میں عطا عابدی کاجوطریقۂ کار رہا ہے اس کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’رسالوں کے تعارف و تذکرے کسی خاص فریم کے تحت نہیں لکھے گئے ہیں، معلومات و حالات کے مطابق الگ الگ رسالوں کے تذکرے الگ الگ نوعیت و ہیئت کے حامل ہیں۔‘‘ مصنف نے آزادی کے بعد سے 2019 تک نکلنے والے رسائل، جرائد، مجلات، سوینیر اور گلدستہ کا احاطہ کیا ہے جس کی تعداد دو سو بائیس (222) ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ رسائل وغیرہ کا تعارف سنہ وار کرایا ہے، یہ خود بڑا تحقیقی کام ہے۔ 1947 کے’’ نئی کرن‘‘ دربھنگہ سے اس کا آغاز ہوتا ہے اور 2019 کے ’’اردو اسٹڈیز‘‘ چھپرہ پر جاکر مکمل ہوتا ہے، اس کے بعد مصنف نے خود ہی تعارف و تعلق کے حوالہ سے اپنا جامع ’’من کہ‘‘ پیش کیا ہے، ایک صفحہ یادداشت کے لیے سادہ بھی موجود ہے کہ پڑھتے وقت کوئی بات یاد آجائے یا آپ یاد رکھنا چاہتے ہوں تو اسے وہاں درج کردیں.
کتاب میں نمبر شمار چھ (6) پر کہکشاں رسالہ کا ذکر ہے، جس کے ساتھ مقام اشاعت ’’جروعہ‘‘ لکھا گیا ہے، حالاں کہ یہ جروہہ (ہا کے ساتھ) ہے، گو پروف کی اغلاط اس کتاب میں نہیں کے برابر ہیں، ایک دو غلطیاں قابل ذکر نہیں ہوتیں، لیکن مقام کی تصحیح اس لیے کردی گئی کہ قاری خلجان میں مبتلا نہ ہو۔
کتاب کا وہ حصہ جو اردو ادبی رسائل: نقوش و نکات کے عنوان سے ہے انتہائی اہم ہے، یہ پینسٹھ (65) صفحات پر پھیلا ہوا ہے اور کہنا چاہیے کہ پوری کتاب کا خلاصہ اور نچوڑ اس مقالہ میں آگیا ہے۔ عطا عابدی صاحب کا اسلوب نگارش اور صاف، شستہ تحریر کا ’’جوبن‘‘ اس مقالہ میں شباب پر ہے۔
مبلغ پانچ سو روپے دے کر یہ کتاب بک امپوریم، اردو بازار سبزی باغ پٹنہ، ناولٹی بکس قلعہ گھاٹ دربھنگہ اور مکتبہ افکار، محلہ فقیرا خاں(اردو بازار دربھنگہ سے حاصل کرسکتے ہیں، بک سیلر رعایت کردے تو آپ کی قسمت۔
***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:کتاب: انداز سخن

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے