بھارت جوڑو یاترا: یاتراؤں کی سیاست اور سیاست دانوں کی یاترا؟

بھارت جوڑو یاترا: یاتراؤں کی سیاست اور سیاست دانوں کی یاترا؟

ساڑھے تین ہزار کیلو میٹر سے زیادہ کا سفر اور ملک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک عوام سے ملتے ہوئے جانا کس قدر نتیجہ خیز ہوگا، آنے والا وقت ہی اسے طے کر پائے گا۔

صفدرا مام قادری
شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

ہندستانی سیاست میں یاتراؤں کی ہر دور میں اہمیت رہی ہے۔ جنگِ آزادی کے دور میں مہاتما گاندھی نے اسے سیاسی حربے کے طور پر بڑی کامیابی سے آزمایا تھا۔ دانڈی یاترا کے اثرات سے پورا ملک جاگ گیا تھا۔ چھوٹی چھوٹی یاترائیں ہر سیاسی جماعت کرتی رہتی ہے۔ کمیونسٹ پارٹیاں اور ٹریڈ یونین کے افراد بھی یاتراؤں اور مارچ سے اپنی سیاست کو استحکام بخشتے رہے ہیں۔ چلو دلی چلو، پٹنہ چلو جیسے نعرے اور اس انداز کے فقرے ہر علاقے میں رائج رہے ہیں۔ کبھی دیوی لال کی دلی پہنچ کر دلی کو گھیرنے کی یاترائیں اور ریلیاں اب بھی لوگ بھولے نہیں ہیں۔ کسانوں کے قائدین میں شرد جوشی اور مہیندر سنگھ ٹیکیٹ کے دلی اور ممبئی کو گھیر لینے کے واقعات سب کو یاد ہیں۔ ابھی حال میں ایک برس تک پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے دلی کے راستوں پر قبضہ جما لیا تھا اور بالآخر مرکزی حکومت کو جھکا لینے میں کامیاب ہوئے۔
گاندھی جی کی ساری یاترائیں پیدل رہیں، اسی لیے پد یاترا کی اصطلاح رائج ہوتی چلی گئی۔ ٨٤-١٩٨٣ء میں بیالیس سو کیلو میٹر کی پدیاترا سابق وزیر اعظم چندر شیکھر نے کی تھی۔ کنیا کماری سے دلی تک وہ اس یاترا میں آئے تھے۔ لال کرشن اڈوانی نے ١٩٩٠ء میں رام جنم بھومی رتھ یاترا شروع کی تھی جسے لالو یادو کی سرکار نے بہار کے سمستی پور میں روک کر اور اڈوانی جی کو گرفتار کر ملک میں ایک نئی سیاست کی داغ بیل رکھی تھی۔ وہ رتھ یاترا بیچ میں ہی رہ گئی تھی۔ چندر شیکھر نے جس وقت یاترا کی تھی، اس وقت اپنی پارٹی کے وہ تنہا پارلیامنٹ کے ممبر تھے۔  یاترا کے بعد جب قومی سطح پر انھیں نئے سرے سے بہ طورِ قائد جانا جانے لگا تو محض پانچ چھے برسوں کے بعد انھیں مختصر مدت کے لیے وزیر اعظم بننے کا خواب بھی پورا کرنے کا موقع ملا۔ لال کرشن اڈوانی کو بھی سیاست کا پھل پانے میں زیادہ دیری نہ ہوئی اور اٹل بہاری باجپائی سے لے کر نریندر مودی تک بھارتیہ جنتا پارٹی نے جو تاریخ لکھی ہے، اس کی پشت پر کہیں نہ کہیں اس یاترا کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ ١٩٨٤ء میں جب اندرا گاندھی کی شہادت کے بعد عام انتخابات میں پارلیامنٹ کی صرف دو سیٹوں تک قید ہوکر رہ گئی۔ مگر اڈوانی کی یاترا کے بعد اس کے مقاصد بار آور ہوتے چلے گئے۔
گذشتہ آٹھ برسوں میں انڈین نیشنل کانگریس رفتہ رفتہ سمٹ کر ایک علاقائی پارٹی کی طرح ہوچکی ہے۔ پارٹی کا صدر کبھی نامزد ہوتا ہے اور کبھی کارگزار عہدے پر ہی برسوں کام کاج چلتا رہتا ہے۔ صوبائی حکومتوں میں راجستھان اور چھتیس گڑھ میں ابھی تک کانگریس کی سرکار ہے۔ راجستھان میں تو کئی بار سرکار گرتے گرتے بچی ہے۔ ملک کی کسی ریاست میں کانگریس کا تنظیمی نظام اس طرح سے کارگر نظر نہ آتا ہے جیسا کسی بڑی سیاسی جماعت کا ہوتا ہے۔ کئی بار صوبائی قائدین، وزرا اور کانگریس کے صدر دوسری پارٹی میں بے شرمی سے جاکر اقتدار کے مزے لیتے نظر آتے ہیں۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کانگریس کی مرکزی تنظیم اور صوبائی تنظیموں میں تال میل کی واضح طور پر کمی ہے اور ضروری سیاسی معاملات میں تبادلۂ خیالات کا کوئی سلسلہ عام کارندوں سے لے کر صوبائی اور قومی لیڈروں تک ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ راہل گاندھی بہت سارے بنیادی سیاسی مسئلوں پر پریس سے لے کر پارلیامنٹ تک اپنی واضح رائے پیش کرکے اس تاثر کو ظاہر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ وہ سیاسی فراست میں کسی دوسرے سے کم تر نہیں ہیں۔ مگر جب ان کے بڑے بڑے سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے قومی سطح پر گاؤں سے لے کر صوبائی راجدھانیوں اور دلی تک تحریک اور سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو اکثر صفر کی صورت سامنے آتی ہے۔ صاف صاف محسوس ہوتا ہے کہ کانگریس کے قائد جو باتیں پیش کرتے ہیں، اسے زمینی سطح پر پہنچا کر بڑی سیاسی تحریک میں تبدیل کرنے کا کوئی ڈھانچہ انڈین نیشنل کانگریس کے پاس ہے ہی نہیں۔ جس کے نتیجے میں بھارتیہ جنتا پارٹی نہ صرف یہ کہ مرکز میں مستقل طور پر قابض ہوتی چلی گئی بلکہ ساری ریاستوں میں رفتہ رفتہ اس کی حکومتیں قائم ہوگئیں۔
ایسے ماحول میں راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا شروع کی ہے جس میں وہ پیدل کنیا کماری سے کشمیر تک جائیں گے اور پورے راستے میں کانگریس کے لیڈر، صوبائی قائدین اور عوام کے نمایندے ان کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔ طرح طرح کی تصویریں کانگریس اور کانگریس کے مخالفین اپنے اپنے مقاصد کے ساتھ میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک کو اندر سے توڑ رکھا ہے اور نفرت کی سیاست نے سب کو بانٹ رکھا ہے، اس لیے اس بکھراؤ کو ختم کرنے اور ٹوٹے بکھرے ذروں کو سمیٹ کر ایک مکمل بھارت کو نئے سرے سے گڑھنے کے لیے وہ میدانِ کارزار میں اترے ہیں۔ ابھی تک لاکھوں لوگ ان کے شریکِ سفر ہوچکے اور نئے پرانے سینکڑوں مسئلوں پر وہ اپنی باتیں چھوٹی چھوٹی میٹینگوں میں کہہ چکے ہیں۔ دو ہفتوں میں ملک گیر سطح پر اس کے اثرات نظر آنے لگے ہیں۔ خود راہل گاندھی نے بھی اس سے پہلے اپنے ملک کی حقیقی سچائیوں کو ٹھیک سے دیکھا نہ ہوگا جسے وہ آج دیکھ رہے ہیں۔ کیا اب سے تین مہینے کے بعد وہ ایک بدلے ہوئے سیاسی قائد کی طرح ملک کے سامنے آ پائیں گے اور ٢٠٢٤ء تک اپنی نئی پیدا شدہ امیج کے ساتھ بچے رہ سکیں گے؟ یہ سوال سیاسی مبصرین کو سب سے زیادہ چونکاتا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے ان کی اس یاترا کی براہِ راست جیسی تنقید ہورہی ہے، اس سے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ آنے والے خطرات اور سیاسی طوفان سے وہ بے خبر نہیں۔ یہ بات بھی کسی نہ کسی گوشے سے ابھر رہی ہے کہ راستے میں بالخصوص مدھیہ پردیش میں انھیں گرفتار کرکے اس یاترا کو درمیانِ سفر ختم کردینے کی کوشش کی جائے گی۔ ان امکانات سے انکار کرنا مشکل ہے۔ وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔
آثار اور قرائن یہ واضح کر رہے ہیں کہ راہل گاندھی اپنی سیاسی شناخت کو مستحکم بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ پدیاترا اگر روکی گئی تو شاید ان کی اہمیت اور بڑھ جائے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے بعد کانگریس پارٹی کی مردہ تنظیم میں جدوجہد اور تحریک کی قوت شامل ہوجائے گی۔ اس لیے بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے نفع نقصان کو ٹھیک طریقے سے تول کر ہی کوئی قدم اٹھائے گی۔ راہل کی پدیاترا سے ذہن ہٹانے کے لیے امت شاہ سے لے کر موہن بھاگوت تک متعدد جذباتی ایجنڈوں کے ساتھ عوام کے بیچ جارہے ہیں۔ موہن بھاگوت تو ہریانہ میں مسجد تک پہنچ گئے۔ ائمہ، مشائخ اور مسلم دانش وروں کی بھارتیہ جنتا پارٹی سے قربت بھی کچھ نئے سیاسی اشاروں اور عہد و پیمان کی طرف ہمیں متوجہ کرتے ہیں۔ مگر سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ راہل کی اس پدیاترا کے ساتھ کانگریس کی صوبائی تنظیموں کو پنچایت سے لے کر مراکز تک مستحکم کرنے کے لیے کون سا بلیو پرنٹ پیش کرنا چاہیے؟ اسی دوران کانگریس صدر کے انتخاب کی خانہ پُری بھی ہونی ہے اور اشارے واضح ہیں کہ اس دوڑ میں اشوک گہلوت آگے بڑھ جائیں گے۔ راجستھان کے باہر کام کرتے ہوئے وہ کانگریس پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو کتنا بدل پائیں گے اور متحرک کرپائیں گے، یہ وقت کی دیوار پر ٹنگا ہوا سب سے بڑا سوال ہے۔ کانگریس کے کارندوں کی اگر کوئی ٹیم راہل کی پدیاترا میں تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے مقصد سے کام کررہی ہو تو اسے خوش آیند سمجھنا چاہیے ورنہ اس پدیاترا سے پیدا ہوئی نئی امیج ملیامیٹ ہوجائے گی اور راہل گاندھی کے ماضی کی طرح ہی ان کا مستقبل بھی سامنے آئے گا۔ کانگریس اپنی داخلی چپقلش اور گٹ بازی سے نکل کر صرف اپنی تنظیم کو گاؤں سے لے کر دلی تک پھر سے کھڑی کرلے تو بھارت جوڑو یاترا نہ صرف یہ کہ کامیاب ہوگی بلکہ کانگریس کے پژمردہ چہرے پر بہار لوٹ آئے گی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی آنے والے وقت میں حکومت سے بے دخل کرنے میں کامیاب ہوگی۔ بس اپنے تنظیمی ڈھانچے کو درست کرنے کا نشانہ ابھی سے راہل گاندھی اور آنے والے وقت میں نئے صدر قائم کرلیں تو اس پدیاترا کا مقصد بھی پورا ہوگا۔ اتنی بات اب سے ہی یقین کرلیجیے کہ راہل گاندھی نے جس حال میں یہ پدیاترا شروع کی ہے، جب وہ اختتامِ سفر پر پہنچیں گے تو وہ ایک بدلے ہوئے اور ملک کو اس کی سچائیوں کے ساتھ جاننے والے لیڈر بن کر سامنے آئیں گے۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں] 
safdarimamquadri@gmail.com
گذشتہ عرض داشت : انڈین نیشنل کانگریس کا اگلا صدر کون؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے