استاد محترم

استاد محترم

امان ذخیروی
رابطہ: 8002260577

بے شک وہ اپنی ذات میں تھے شخصیت عظیم
استاد محترم تھے مرے، مولوی شمیم

ہے ان کی محبت کو بھلانا بہت محال
رکھتے تھے ہر قدم وہ ہمارا بہت خیال
تازہ ہے ذہن و دل میں سبق ان کا آج بھی
تھا ان کا پڑھانے کا طریقہ وہ بے مثال

وہ عین، غین، لام ہو یا پھر ہو نون، میم
استاد محترم تھے مرے، مولوی شمیم

حرفوں کی انھوں نے مجھے پہچان کرائی
تعلیم کی الفت مرے سینے میں جگائی
کیا فرق ہے بتایا ہمیں، خیر و شر کے بیچ
روکا برائیوں سے بھلی بات بتائی

دکھلائی آپ ہی نے ہمیں راہ مستقیم
استاد محترم تھے مرے، مولوی شمیم

وہ کھیل کھیل میں ہی پڑھانے کا اہتمام
گننے کے لیے مٹی کی گولی کا انتظام
اس طرح سبق کو وہ بناتے تھے دل پذیر
وہ ان کی ادائیں ہمیں رکھتی تھیں شادکام

رکھ کر شکر میں تلخ دوا جیسے دے حکیم
استاد محترم تھے مرے، مولوی شمیم

آتی ہے خوب پانچ ستمبر کو ان کی یاد
لگتی، بغیر ان کے خوشی ساری بے مراد
اسکول میں جب جب بھی ہوا اس کا اہتمام
ناشاد ان کی یاد میں ہوتا ہے دل شاد

پھرتا ہے ان آنکھوں میں زمانہ وہی قدیم
استاد محترم تھے مرے، مولوی شمیم

اے کاش! لوٹ آئیں وہ بچپن کے شب و روز
مل جائے زندگی کو وہی ساز وہی سوز
ہاتھوں میں پھر سے آئے وہی گولیوں کا ہار
ہو جائے کھڑا پھر سے وہ کھپریل زمیں دوز

تا عمر جو اس ٹوٹے مکاں میں رہے مقیم
استاد محترم تھے مرے، مولوی شمیم

یارب ! دعا ہے تو انھیں فردوس کر عطا
تیرے کرم کی ان پہ بھی چھائی رہے گھٹا
تربت میں ان کی، تیری تجلی رہے مدام
یوں حشر تک بھی اس کی کبھی کم نہ ہو ضیا

تو بخش ان کی ساری خطائیں مرے کریم
استاد محترم تھے مرے، مولوی شمیم
***
امان ذخیروی کی گذشتہ تخلیق :استاد

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے