نام کتاب : کہکشاں ہے یہ مرے خوابوں کی

نام کتاب : کہکشاں ہے یہ مرے خوابوں کی

مصنفہ : نصرت نسیم (کوہاٹ) پاکستان
تبصرہ نگار: ڈاکٹر وصیہ عرفانہ، بہار، انڈیا

نصرت نسیم کا تعلق خیبر پختونخوا کے سرسبز و شاداب علاقے کوہاٹ سے ہے جہاں ہندکو اور پشتو زبانوں کو فوقیت حاصل ہے لیکن نصرت صاحبہ نے اردو زبان کے حوالے سے اپنی شناخت بنائی۔ ادبی، علمی اور سماجی حلقوں میں انھیں خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان کا شمار اہل علم میں کیا جاتا ہے جنھوں نے نہ صرف علم کو اپنی میراث بنایا بلکہ اسکول و کالج سے وابستہ رہ کر درس و تدریس کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔ بچوں کی کہانیاں بھی تحریر کی اور عالمی اخبار سے بہ طور مضمون نگار بھی منسلک رہیں۔ عوامی مفاد اور خواتین کی فلاح و بہبود کی خاطر کونسلر کا منصب بھی سنبھالا۔ گویا انھوں نے زندگی گزارا نہیں ہے بلکہ بسر کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ خدا کی عطاکردہ مہلت کو مثبت کاموں میں صرف کرنے کی مخلصانہ سعی کی ہے۔
ایک دن فیس بک پر پوسٹ کی گئی ان کی کتاب ’’کہکشاں ہے یہ مرے خوابوں کی‘‘ کے عنوان نے بے اختیار چشم و دل کو اپنی طرف ملتفت کیا۔ ہر وہ آنکھ جو خواب بُنتی ہے اور ہر وہ دل جو خوابوں کا اسیر ہوتا ہے، اس کے لیے اس کتاب کے عنوان میں بڑی کشش ہے۔ بے اختیار پوسٹ پر لکھ دیا کہ کتاب دیکھنے میں اتنی خوب صورت ہے، کاش پڑھنے کے لیے بھی مل جاتی۔ کتاب جب ہاتھ میں آئی تو پتہ چلا، کتاب اپنے عنوان سے زیادہ دل کش اور دل پذیر ہے۔ یہ کتاب مجھ تک پہنچنے کا ایک الگ قصہ ہے۔ سرحدوں کے دونوں اطراف میں رہنے والے لوگوں کے دل بھلے مل جائیں لیکن حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے کتابوں کی ترسیل ممکن نہیں رہی۔ نصرت نسیم صاحبہ کی محبت اور لائق تحسین خلوص ہے کہ انھوں نے مجھے کتاب بھیجنے کی سعی کی۔ دبئی میں مقیم میری پیاری دوست شمع ناہید کوانھوں نے کتاب دی اور شمع نے مجھے انڈیا کتاب بھجوائی۔میں نصرت نسیم اور شمع ناہید کی محبتوں کی مقروض ہو گئی۔
یہ کتاب زندگی کے مختلف رنگوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ زندگی ہموار نہیں ہوتی۔ اس ناہموار راستے میں انسانی ذہن مختلف کیفیات کا اسیر ہوتا ہے اور اسی تناسب سے ذہن میں متنوع تاثرات جذب ہوتے رہتے ہیں۔ اپنے احساسات و تاثرات کو قلم بند کرنے کا ہنر جنھیں ودیعت ہوتا ہے، وہ انھیں قارئین تک منتقل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ نصرت نسیم صاحبہ کا شمار ایسے ہی خوش نصیبوں میں ہوتا ہے۔
نصرت نسیم نے کتاب کے اول صفحے پر ’’مختلف موضوعات پر متنوع مضامین کا مجموعہ‘‘ تحریر کر کے اس کتاب کے موضوع اور نوعیت کی وضاحت کردی ہے۔ اس کہکشاں میں کل اکتالیس (۴۱) مختصر مضامین ہیں۔ مصنفہ نے مختلف مشاہدات و کیفیات کو سادہ لفظوں میں اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے۔اس لفظی کفایت شعاری نے بلا شبہ تحریر کی اثر انگیزی میں اضافہ کیا ہے۔
کتاب کی ابتدا میں جناب صفدر ہمدانی، ناصر علی سید، شجاعت علی راہی، ثروت رضوی کی تقاریظ اور شاہین اشرف علی کی نظم شامل ہیں جو ان کی جولانی طبع اور تخلیقی ہنرمندی کا واضح اعتراف کررہی ہیں۔ اس کتاب کے حوالے سے جناب صفدر ہمدانی کے اس خیال سے مجھے مکمل اتفاق ہے کہ ہر تحریر میں کوئی نہ کوئی پیغام، کوئی نہ کوئی زریں بات اور کوئی نہ کوئی زندگی کی نئی جہت ملے گی۔ناصر علی سید نے درست فرمایا کہ نصرت نسیم جی نے ’جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے‘ کا عَلم اٹھا کر اپنی یادوں اور یاد داشتوں کی امانت کو پوری دیانت داری اور محبت کے ساتھ اپنے پڑھنے والوں تک پہنچانے کی سعی کی ہے۔ اس سے ان کی تحریر ایک سچے شعر کی طرح ’ازدل خیزد بردل ریزد‘ کی حامل بن گئی ہے۔ ناصر علی سید کا یہ جملہ نہایت معنی خیز اور مبنی بر حقیقت ہے کہ وہ لکھاری بہت متاثر کرتا ہے جو متاثر کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ نصرت نسیم کی سادگی اور سادہ بیانی نے اس کتاب کے لفظ لفظ کو اثر انگیز بنا دیا ہے۔ ایک بار کتاب کا مطالعہ شروع کیا جائے تو آخر تک روانی اور تسلسل کے ساتھ یہ سفر جاری رہتا ہے۔ ڈاکٹر ثروت رضوی نے بھی نصرت نسیم کے انداز تحریر اور اسلوب کی روانی اور تسلسل کا اعتراف کیا ہے۔ نصرت صاحبہ کی اس تحریر کے سلسلے میں شجاعت علی راہی کا یہ تجزیہ کتاب کی اہمیت اور قدر و قیمت متعین کرتا ہے کہ نصرت نسیم کا ادبی، تخلیقی اور ثقافتی تحفہ ’’کہکشاں ہے یہ مرے خوابوں کی‘‘ ایک مونتاژ ہے جسے مختلف رنگ اور روپ کی تخلیقی تحریروں سے ترتیب دیا گیا ہے اور جو اپنے رس بھرے اسلوب کے دریچے کھول کر آپ کو ماضی قریب و بعید کے ان مناظر کی جھلکیاں دکھاتا ہے جو رفتہ رفتہ لوگوں کے حاشیہ خیال سے محو ہوتے چلے جارہے ہیں اور جنھیں محفوظ کرنا ہماری تہذیبی و ثقافتی ذمہ داری ہے۔
کتاب کا آغاز بچپن کے دن کی یادوں سے ہوا ہے جو کم و بیش ہر انسان کے لیے اہم دور ہوتا ہے۔ بچپن کے دنوں کا شب برآت اپنی تمام جلوہ سامانیوں کے ساتھ نظر کے سامنے آگیا۔ وہ زمانہ جب محبت، دوستی، رشتہ داریاں اثاثہ حیات تھیں۔ بدعات و مکروہات کے فتوے نہیں تھے۔ اقربا پروری کے مواقع ڈھونڈے جاتے تھے۔ گھر کی عورتیں جاں فشانی سے پکوان بناتیں اور رشتہ داروں اور پڑوس میں تقسیم کرواتیں۔ مختصر سی یہ یادداشت قارئین کے ذہن پر یادوں کا طویل منظرنامہ پیش کرتی ہوئی اسے ماضی کے گلیارے میں پہنچادیتی ہے۔ شب برآت کے علاوہ انھوں نے اس زمانے کے محرم کے پکوان، نوحہ و غم اور عزاداری کا بیان بھی سادہ پیرایے میں تحریر کیا ہے۔ بچپن کی ہر یاد دل نشیں ہوتی ہے لیکن جب بات بچپن کے رمضان، سحری اور افطاری کی رونقوں کی ہو تو پھر کیا کہنے۔ جنھوں نے بھی چار پانچ دہائی پہلے اپنا بچپن جیا ہو، وہ نصرت صاحبہ کی ان یادداشتوں کا اسیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
جس طرح بچپن کے دن انسانی یادداشت کا سب سے توانا حصہ ہیں، اسی طرح بچپن سے جُڑے رشتے انسانی زندگی میں سب سے اہم ہوتے ہیں جن میں سرِفہرست رشتہ ماں کا رشتہ ہوتا ہے۔ نصرت نسیم نے اپنی والدہ کے اوصاف اور ان کے آخری لمحات کا ذکر نہایت دلدوزی سے کیا ہے۔ ماں لفظ میں ہی اس قدر شیرینی اور لطافت ہے کہ دل سَیر ہوجاتا ہے اور اگر ماں بہترین اخلاقی اوصاف سے متصف ہو کہ زمانہ اس کا اعتراف کرے تو انسان اپنی خوش بختی پر نازاں ہوتا ہے۔ مائیں تو سبھی اچھی ہوتی ہیں لیکن جو عورت تمام رشتوں میں اچھی اور احساس بندگی میں بہترین ہو، اس کے درجات و مراتب کا بیان ممکن نہیں۔ والدین کے بعد بھائی بہن دل کو عزیز ہوتے ہیں۔ نصرت صاحبہ نے اپنے بھائی کی وفات کے حوالے سے جو یادداشت اس کتاب میں شامل کی ہے وہ خون دل میں انگلیاں ڈبوکر تحریر کی گئی ہے۔ سوزو غم، رنج و الم اور جذب کی ایک انوکھی اور اثر انگیز کیفیت طاری ہے جو قاری کو بھی اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ اس کیفیت کو ہر وہ شخص سمجھ سکتا ہے جس نے اپنے ماں باپ یا بھائی بہن کو کھویا ہو۔
شاعروں اور ادیبوں نے موسم بہار کی رعنائیوں کو اپنی تخلیقات میں خوب برتا ہے لیکن نصرت نسیم کا فکر و تدبر آمیز ذہن پت جھڑ کے رنگوں میں زندگی کا استعارہ دیکھتا ہے۔ بہار اور پت جھڑ کے حوالے سے وہ زندگی کے عروج و زوال کی داستان سناتی ہوئی اور ناامیدی میں امید کی کونپل کھلاتی ہوئی نہایت معتبر لگتی ہیں۔ دین ہمیں بار بار فکر و تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ قدرت کے تمام مظاہر میں کائنات کے راز پوشیدہ ہیں۔ ان سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کے لیے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ چنندہ روحیں اس دعوت کو قبول کرلیتی ہیں۔ دن کے مختلف اوقات کو زندگی کے مختلف ادوار سے تعبیر کرکے نصرت نسیم نے نہایت دل کش تصویر پیش کی ہے۔ صبح کی پاکیزگی کو اگر بچپن کی معصومیت سے مماثل کیا ہے تو نصف النہار کے وقت کو انسانی زندگی کی جدوجہد کے عروج کا وقت قرار دیا ہے۔شام کا وقت اطمینان، سکون اور فراغت کا وقت ہے لیکن یہ دورانیہ مختصر ہوتا ہے اور جلد ہی سورج غروب ہونے لگتا ہے. گویا کہ شام زندگی آ پہنچی۔ اب دوسرے دن کی تیاری اور انتظار یعنی زندگی کا سفر تمام اور ابدی زندگی کی شروعات درپیش ہے۔ نصرت نسیم نے تمثیلی انداز میں انسانی زندگی کی معنویت کو عرق ریزی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔
اس رنگ برنگی کتاب کا ایک اہم مضمون سیٹھی ہاؤس پشاور پر مبنی ہے۔ اس قدیم تاریخی ورثہ کی تصویر کشی انھوں نے نہایت مشاقی سے کی ہے۔ چوبی دروازے، ڈیوڑھیاں، بالاخانے، کنڈیاں، لکڑی کے بلند قامت دروازوں پر کندہ نقش و نگار، میناکاریاں وغیرہ پشاوری تہذیب و ثقافت کی منہ بولتی تصویریں ہیں جنھیں اپنے اثرآفریں لفظوں کے ذریعے مصنفہ نے قارئین تک بہ خوبی پہنچا دیا ہے۔ ان صفحات کے مطالعے کے دوران بار بار یہ خیال آتا رہا کہ کاش انھوں نے سیٹھی ہاؤس کی چند رنگین تصویریں بھی لگائی ہوتیں تو ہم جیسے قاری بیٹھے بیٹھے اس تاریخی مقام کی سیر کرلیتے۔ گو کہ فیس بک پر انھوں نے سیٹھی ہاؤس کی تصویریں پوسٹ کی ہیں لیکن کتاب کے صفحات پر بھی یہ ایک اہم اضافہ ہوتیں۔
کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر ہے۔ نصرت صاحبہ کی یادداشت میں کئی چھوٹے بڑے سفر کی یادیں محفوظ ہیں۔ خواہ وہ سفر کتاب میلہ میں شرکت کی غرض سے اسلام آباد تک کیا گیا ہو جہاں ضمنی طور پر سیٹھی ہاؤس کی بھی سیر ہو گئی یا مری کی دل کش وادیوں کا نظارہ ہو، دوبئی کی سیر ہو یا موہنجوداڑو کے تاریخی کھنڈرات کا مشاہدہ۔ ان تمام سفروں پر حاوی رہنے والا سفر انھوں نے ارض مقدس مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا کیا جس کی تفصیلی روداد قارئین کو بھی اپنا ہم سفر و ہم قدم بنا لیتی ہے۔
نصرت نسیم کی تحریروں میں مجھے سب سے زیادہ جو چیز پسند آئی ہے، وہ ہے عشق و بندگی کی وہ روحانی اور نورانی فضا جو روح اور قلب کو اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہے۔ رب پاک کا یہ خاص کرم ہر ایک کے لیے مخصوص نہیں ہوتا۔ جب وہ عشرہ ذی الحجہ کو عشرہ عشق منانے کی بات کرتی ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ سیدنا ابراہیم کی اطاعت خداوندی، بی بی ہاجرہ کا راضی بہ رضا ہونا، اسمٰعیل کا آداب فرزندی عشق الٰہی اور تسلیم و رضا کے سوا اور کیا ہے؟ حرم پاک میں اعتکاف کی تفصیلی روداد بھی عشق و بندگی کے رنگ و نور سے لبریز ہے۔ ان کی اس تحریر میں اس قدر جذب و کیف ہے کہ قاری خود کو اللہ پاک کے مقدس و محترم گھر کے انوار و برکات میں نہایا ہوا محسوس کرتا ہے اور اس کا قلب بھی پُر نور کیفیات سے معمور ہوجاتا ہے۔ روضہ اقدس کی جالیوں کا لمس انگلیوں میں سرسرانے لگتا ہے اور دل سے بے اختیار وہاں حاضری کی دعا نکلتی ہے۔ خانہ کعبہ کا جلال اگر مبہوت کرتا ہے تو شہر مدینہ کا جمال ایک وارفتگی کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ بلاشبہ یہ اوراق جن میں حرم پاک کا ذکر کیا گیا ہے وہ قارئین کے تزکیہ قلب کا سبب اور نصرت صاحبہ کے قلم کا قیمتی سرمایہ نظر آتے ہیں۔ اعتکاف کی فضیلت اور اس کے مقاصد کا بیان انھوں نے ایک الگ عنوان کے تحت کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنے رب کے ساتھ تنہائی میں گزارے ہوئے لمحات ہمیں عشق الٰہی کا وجدان عطا فرماتے ہیں، بہ شرطے کہ دل کو دنیا کی آلائشوں سے بے نیاز کر کے رب سے لَو لگائی جائے اور اسے اپنے قریب محسوس کیا جائے۔
چاند رات کو عموماً بازار کی رونقوں کے عروج، مہندی، چوڑی اور درزی کی دکان کے پھیروں کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان تمام بکھیڑوں میں اکثر لوگ رب پاک کے سب سے افضل انعام لیلۃ الجائزہ کو فراموش کردیتے ہیں۔ نصرت نسیم نے نہایت خوش اسلوبی سے اس مبارک رات کی فضیلت کو بیان کیا ہے۔ جب وہ فطرانہ کا ذکر کرتی ہیں تو یہی حساسیت یہاں بھی عیاں ہوتی ہے۔ عورتوں کی حیثیت اور ان کے حقوق کی بات کرتی ہیں تو دین اسلام کے عطاکردہ حقوق پر شاداں اور اپنے عورت ہونے پر نازاں ہوتی ہیں کہ باری تعالیٰ اپنی محبت کو ماں کی محبت سے موازنہ کرکے مثال پیش کرتا ہے۔ نصرت صاحبہ نے شعوری یا ارادی طور پر دینی یا مذہبی نوعیت کی تحریریں نہیں لکھی ہیں لیکن دین ان کی شخصیت، مزاج اور کردار میں جذب ہے جس کی تابناکیاں ان کی تحریر کے بین السطور میں نظر آتی رہتی ہیں۔
نصرت نسیم ایک کتاب دوست، ادب نواز اور علمی شخصیت ہیں۔ ادبی تقریبات میں شرکت اور اہل علم سے استفادہ ان کی ترجیحات میں شامل رہتا ہے۔ اسی ضمن میں انھوں نے فیض احمد فیض کی شاعری، اویس قرنی کی تصنیف ’’اگلی بار‘‘، محمد ولی رازی کی غیر منقوط سیرت ’’ہادی عالم‘‘ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی ہے۔ ’’ہادی عالم‘‘ کے چند اقتباسات پڑھ کر رشک و حیرت کا عالم طاری رہا لیکن قلم کی ساحری سے روبرو ہوتے ہی احساس ہوا کہ یہ قلم ہی تو ہے جو خالق کے فیصلوں اور مخلوق کی خلاقانہ صلاحیتوں کو ورق حیات پر تحریر کراتا ہے۔ قلم نے ہی غالب، میر، اقبال، فیض، فراق، فراز، پروین شاکر اور بے شمار لوگوں کو دلوں اور صفحوں پر ہمیشہ کے لیے رقم کردیا۔ قلم کی ایسی مدح سرائی شاید ہی کسی اور مصنف نے کی ہو جیسی نصرت نسیم نے کی ہے اور ہمیں قلم کی صفات کا معترف اور اس کے احسانات کا ممنون بنا دیا۔ ’’کہکشاں ہے یہ مرے خوابوں کی‘‘ کے ذریعے نصرت نسیم نے بھی اپنے قلم کی قوت کا برملا اظہار کردیا ہے۔ خوابوں کی یہ کہکشاں نہ صرف حسین اور دل کش ہے بلکہ اپنے اوراق میں ایک جہانِ معانی سمیٹے ہوئے ہے جو ہر آن اپنے قاری پر نت نئے اسرار منکشف کرتا جاتا ہے۔ تفکر و تدبر اور فلسفہ حیات کی گنجلک ادا کو سادگی و سلاست اور اختصار کے ساتھ پیش کرنے کا انداز بے اختیار غالبؔ کی سہل ممتنع کی یاد دلاتا ہے۔
***
تبصرہ نگار کا مختصر تعارف :
ڈاکٹر وصیہ عرفانہ کا تعلق بہار (انڈیا) کے دربھنگہ ضلع سے ہے۔ بچپن سے ہی اردو زبان سے والہانہ لگاؤ رہا۔۔ ایم فل ، پی ایچ ڈی تک بہترین گریڈ سے کامیابی حاصل کرتی رہیں۔ فی الحال انتظامیہ سے متعلق ایک ضلعی ادارے میں اردو مترجم کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ عصمت چغتائی پر تفصیلی تنقیدی مطالعہ ”عصمت شناسی: افسانوں کے تناظر میں" کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ تین چار رسالوں کی ترتیب و تزئین کی ہے۔ اردو کے اہم رسائل و جرائد میں ان کے تنقیدی مضامین شائع ہوتے رہے ہیں.
ایم فل میں عصمت چغتائی کے ایک افسانوی مجموعے ”چوٹیں" کو موضوع بنایا اور پی ایچ ڈی میں ان کے تمام افسانوں کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ پیش کیا۔ بعد میں ”عصمت شناسی: افسانوں کے تناظر میں" کے عنوان سے کتاب منظر عام پر آئی۔
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :کتاب: بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے