یہ علم کا سودا، یہ رسالے، یہ کتابیں

یہ علم کا سودا، یہ رسالے، یہ کتابیں

میرے استاد صفدر امام قادری کی زندگی کے چند اوراق
(٢٨/ اگست یومِ پیدائش کے موقعے سے) 

شگفتہ ناز
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، پاٹلی پترا یونی ورسٹی، پٹنہ، بہار

میرا بی۔اے۔ میں داخلہ ہو گیا تھا اور فطری طور پر میں اردو پڑھنے کے لیے پریشان تھی کہ کس سے اردو کی تعلیم حاصل کروں؟ ایک اسکول دوست کے ذریعہ پہلی بار ’صفدر امام قادری‘ کے نام کو سننے کا موقع ملا۔ اُس وقت تک مجھے اس نام کے وزن کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔یہ نام مجھ تک ایک سینیر ناظرین آپی [ناظرین عشرت] کے ذریعہ آیا تھا، خدا اُن کا بھلا کرے۔ آخر ایک دن فون کے ذریعہ اُن سے ملنے کا میں نے وقت متعین کیا اور دوسرے دن اپنے بھائی کے ساتھ قریب ۹ بجے صبح دروازے تک پہنچ گئی۔ خود سر نے دروازہ کھولا۔ میں اور بھائی جان دونوں کرسی پر بیٹھ گئے۔ سر سے نظر ہٹی تو اُن کے گھر پر پڑی جو میرے لیے نیا تو تھا ہی، اَن جانا بھی تھا۔ جہاں تک میری نظر جا سکتی تھی، میں نے پوری کو شش کی کہ ایسی کوئی معقول جگہ نظر آجائے جہاں پر سر نے کتابیں نہ رکھی ہوں۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ اس کے برخلاف یہاں تو سر نے ہر نا معقول جگہ پر بھی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ حالت یہ تھی کہ باتھ روم کے دروازے کے اوپر، مکڑیوں کے جالے کی طرح ہرطرف کتابوں کا جال بچھا ہواہے۔ ہر ایک کونے پر سلیب اور شیلف ہے جس پر کتابیں بھری پڑی ہیں۔ اس سے پہلے میں نے کسی کے گھر کو اتنا نہیں گھورا ہوگا؛ اور کمال تو یہ ہے کہ ہر بار ایک نئی نظر سے، اور دھیان سے دیکھتی رہی۔
سر نے مجھ سے کچھ فارمل ((Formal) قسم کے سوالات کیے۔ میں بس یہ انتظار کررہی تھی کہ کب مجھے judge کرنے کا سلسلہ شروع ہوگا اور ایک بار پھر مجھے کمزور طالب علم ہونے کا احساس دلایا جائے گا۔اس کے برعکس سر نے میری حوصلہ افزائی کی اور مجھے ایک ورق سفید کاغذ پر لکھ کر لانے کو کہا۔ اگلے دن کا وقت مقرّر ہوا۔ آج تک میں یہ سوچتی ہوں کہ آخر ایک ورق لکھوانے کے پیچھے کی منطق کیا رہی ہوگی؟خیر اس ایک ورق سے ہی مجھے خود کو ثابت کرنا تھا۔میں نے اگلے دن کالے قلم سے لکھ کر ان کے سامنے ایک صفحہ پیش کردیا۔ سر نے اس وقت تو جانے دیا لیکن آج کہتے ہیں اور کبھی کاپی پر املا درست کرتے وقت میری رایٹنگ کی نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں ’مل گئی نارایٹنگ‘!میری رایٹنگ کا تو کچھ ہونے سے رہا لیکن سر اگر اسی طرح غالباً بچّوں کی حوصلہ افزائی کے لیے سب سے اپنی رایٹنگ ملا نے لگ جائیں تو ان کی رایٹنگ کے ساتھ ضرور کچھ بُرا ہو جائے گا۔
٢٠١٥ء سے سر کو جاننے کا مجھے موقع ملا تو پایا کہ جس طرح کتابیں رکھنے کی تنگی ہے، اسی طرح شاگردوں کے بیٹھنے کی جگہ کی بھی تنگی ہے۔ ہر عمر کے لوگ ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ سبھی کو سیکھنے کا جنون رہتا ہے اور سر کو سکھانے کا۔ مجھے اس وقت نِیٹ اور جے آرایف وغیرہ میں کوئی خاص دل چسپی نہیں تھی۔ صرف اپنے بی۔اے۔ کے نصاب پر ہی دھیان تھا۔ سر اتنی ساری باتیں بتاتے کہ سنتے سنتے ہی میں نے کئی شعرا، افسانہ نگار، ناول نگار، تنقید نگاروں سے اچھی طرح واقف ہو گئی اور مجھے بہت سارے شعر بھی یاد ہو گئے۔ یوں تو غالب کو میں پہلے سے بھی جانتی تھی مگر اس شاعر سے محبت سر کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ غالب کے بارے میں سر ِاس خوشی سے بتاتے جیسے سر اُن کی شخصیت کے زبردست قائل ہوں۔ غالب کا ایک شعر جو سر کو بہت پسند ہے، وہ یہ ہے:
جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ؛ جستجو کیا ہے
غالب کے اتنے سارے شعر میں سے سر کو یہی شعر کیوں عزیز ہے، میں اسے کبھی معلوم نہیں کر سکی۔ یہ سر کی شعر و شاعری سے گہری دل چسپی کا ہی نتیجہ ہے کہ انھیں اشعار زبان پر یاد رہتے ہیں۔ میں نے اس سلسلے میں ایک اور چیز یہ پائی ہے کہ سر کبھی کوئی شعر سنتے یا پڑھتے ہیں تو اسے ذہن میں دہراتے رہتے ہیں اور پڑھاتے وقت بھی کوئی ایسا موضوع آ جائے یا کسی شاعر کا نام کسی سبب سے آجائے تو فوراً شعر پیش کر دیتے ہیں۔ کبھی اسی مرحلے میں پوچھ بھی لیتے ہیں اور فوراً کتاب نکال کر دکھا بھی دیتے ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ جو کتاب نکالنی ہو، ایک بار میں نکال لیتے ہیں۔ اتنی ساری کتابوں میں سے انھیں اس خاص کتاب کی جگہ معلوم ہوتی ہے جو ایک پختہ ذہن اور حاضر دماغی کا نتیجہ ہے۔ اسی وجہ سے ہم سب کو مختلف مواقع سے اشعار سن سن کر یاد ہو جاتے ہیں۔ نہ صرف شعر بلکہ کوئی ایسی بات آ جائے تو فلم کی بھی مثال دے دیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ہم لوگوں نے بھی وہ فلم نہیں دیکھی ہوتی ہے۔
ان کی اس بھاگ دوڑ سے بھری زندگی میں انھیں کبھی میں نے پریشان حال نہیں پایا۔ وہ اپنے ہر کام کو enjoy کرتے ہیں۔ وقت کی قدر کرتے ہیں۔ اپنے ایک منٹ کو بھی ضائع نہیں ہونے دیتے۔ اس میں بھی کوئی کام نکال لیتے ہیں۔ اس لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ گھر سنبھالنے سے لے کر، بچّوں کی پرورش تک، مہمان نوازی سے لے کر لذیذ کھانا پکانے تک، اپنا تنقیدی میدان ہو یا کالج سے متعلق کام، خود کو سنبھالنے سے لے کر اپنے طالب علموں کو سمجھنے تک؛ ہر کام خوب صورتی سے اور بڑھ چڑھ کر کرلیتے ہیں۔ ان کے والد مرحوم اشرف قادری جو پیشے سے وکیل تھے، ان کی کبھی جب بات نکلتی ہے تو سر بتاتے ہیں کہ پڑھائی کے معاملے میں والد صاحب کوئی دخل اندازی نہ خود کرتے تھے اور نہ کسی کو کرنے دیتے تھے۔ بھاگل پور اور مظفر پور میں جب وہ تعلیم کے سلسلے سے رہتے تھے تو کسی غرض سے جب رشتے داروں کا آنا ہوتا تھا تو والد صا حب ملنے سے منع کر دیتے اور خود بھی بار بار ملنے سے پرہیز کرتے تھے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے ہر وہ طالب علم سمجھے گا جو اپنا گھر بار چھوڑ کر والدین سے دور حصولِ علم کی غرض سے کسی دوسرے شہر میں رہتا ہے۔ بیشتر میں نے پایا ہے کہ چار موقعوں پر انھیں زیادہ یاد کرتے ہیں: کاروباری خریداری، شادی کی خریداری، امتحانات اور ڈاکٹروں سے دکھانے کا مسئلہ ہو؛ یہ شہر میں رہنے والے ہر لڑکے کے ساتھ ہوتا ہے اور صرف لڑکے ہی نہیں، لڑکیوں کو بھی اس معاملے میں اب ذمّہ داری دی جا نے لگی ہے کیوں کہ اس معاملے میں ہم لوگ ماڈرن ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ان کے والد کی حکمت کی وجہ سے وہ اپنے وقت کی بہتر طریقے سے حفاظت کر سکے۔ میں جس وقت پڑھنے آئی تھی، اس وقت batch میں سب سے چھوٹی تھی۔ پہلی بار مجھے سینیرس کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے سیکھنے کے مواقع ملے۔ سر کہتے ہیں: میرا گھر ایک چڑیا خانہ ہے۔ یہ سچ معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف بہار سے بلکہ دور دور سے پرندے آتے ہیں اور اُڑان بھر کر اگلی منزلوں کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں۔ لاک ڈاون نے لوگوں کی بہت سی عادتیں بدلیں اور نئی لگائی بھی ہیں، اس کا سر پر بھی اثر ہو ا ہے جو میرے لیے فائدہ مند رہا۔ سر ہم سب کو ٹھٹھرتی ہوئی سردیوں میں بھی صبح ۶۔۷ بجے بلاتے تھے اور اس میں بھی بھیڑ کم نہیں رہتی تھی۔ جس وقت ایک قوم سو رہی ہوتی تھی، ہم لوگ پڑھ کر واپس بھی آجاتے تھے۔ اب وہ ہمیں ذرا دیر سے بلاتے ہیں۔ ان دنوں تعلیمی بیچ آٹھ بجے سے شروع ہونے لگے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم جیسوں کے اثر سے وہ بھی دیر تک سونے کے عادی ہوگئے ہیں۔
کوئی Night Reader ہوتا ہے، کوئی Morning Reader لیکن سر all time reader ہیں۔ کبھی جو کلاس کے لیے آئی اور سر کو سویا ہوا پا یا ہو، ایسا نہ ہوا۔ اکثر میں ہی دیر کر دیتی تھی۔ ان کے لیے دن کی شروعات Green tea سے ہوتی ہے۔ ویسے تو ہمارے سر اکثر گرم کھانا پسند کرتے ہیں لیکن چاے ٹھنڈی ہی پیتے ہیں اور دوسروں کے پینے کو بہ طورِ طنز کہتے ہیں گرم شربت۔ ایک دفعہ سر سے میں نے سنا بھی کہ چاے کو چاے کی طرح پیو۔ کیوں کہ سر کی آدھی چاے بھی ختم نہیں ہوئی تھی اور میں نے پوری چاے پی لی تھی۔ اُس دن کے بعد سے میں نے چاے کو اُسی نزاکت سے پینا شروع کر دیا اور اب تو اِس کی عادت بھی ہو گئی ہے مگر اب بھی میری ہی چاے پہلے ختم ہو تی ہے۔
سر چاے پیتے جاتے ہیں اور پڑھاتے جاتے ہیں۔ بہت تفصیل اور گہرائی سے پڑھاتے ہیں اور پڑھاتے وقت سب کے چہروں پر اُن کی نگاہ بھی رہتی ہے کہ کون کتنا سمجھ رہا ہے۔ پھر خود بڑھ کر پوچھ لیتے ہیں اور دوبارہ سمجھاتے ہیں۔ کچھ بھی سمجھانا ہو تو کم سے کم دو مثالیں تو دیتے ہی ہیں۔ اب تو مجھے سر کی پڑھائی پہلے سے اچّھی لگنے لگی ہے۔ اب پتا نہیں، سر پہلے سے زیادہ اچھّا پڑھا نے لگے ہیں یا میں اب زیادہ غور اور توجّہ سے پڑھنے لگی ہوں۔ وہ ایسی باتوں کو ایک بار میں بتا دیتے ہیں جو کسی ایک کتاب میں نہیں مل سکتیں۔ پڑھائی کے وقت کسی طر ح کی کوتاہی نہ خود کرتے ہیں اور نہ وہ اسے برداشت کرتے ہیں۔ اُس وقت اگر کسی کی کال آجائے تو زیادہ تر اُٹھاتے نہیں، اور اگر اٹھا لیں تو سمجھ لیجیے کہ وہ کوئی خاص شخص ہے۔ دماغ اتنا active ہے کہ ایک طرف ہم لوگوں کو پڑھا رہے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی دھیان رکھ رہے ہیں کہ بوا (Maid servant)چاے بنانے کے لیے چینی کے بجاے نمک کا ڈبا اٹھا چکی ہے۔ اور جب بات activeness کی نکلی ہے تو میں یہ بھی بتا دوں کہ میں نے سر سے زیادہ موبائل پر active انسان نہیں دیکھا۔ جو کسی بھی پوسٹ کو اپنے شاگرد سے پہلے دیکھ لیتے ہیں۔ چاہے وہ کوئی بھی میدان ہو، خود کو updateرکھتے ہیں۔ وہ ہم سب کو پلین ورق پر لکھنے کی ہدایت کرتے ہیں اور خود بھی لکھتے ہیں۔ سر کی رایٹنگ سفید کاغذ پر بالکل موتی کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ اُنھیں اپنی اردو اور ہندی کی رایٹنگ میں سے ہندی کی رایٹنگ زیادہ پسند ہے۔
سر اپنے گھر میں Hall میں لگے Bed پر بیٹھ کر پڑھاتے ہیں۔ اگر میں اُسے سنہاسن کہوں تو بے جا نہ ہوگا۔ ساری دنیاداری، تعلیم و تدریس اور سیاست یہیں سے چلتی اور سنبھالی جاتی ہے۔ آپ جب بھی جائیں گے، اکثر و بیشتر سر وہیں مل جائیں گے۔ نہ صرف دن بلکہ آدھی رات بھی وہیں پر گزرتی ہے۔ ہم سب وہیں پر لگے bed کے سامنے والی کرسیوں پر بیٹھتے ہیں اور وہیں سے بیٹھ کر سر سب کی کاپی پر برابر نظر رکھتے ہیں کہ کون غلط لکھ رہا ہے، کون دوسرے کی کاپی دیکھ کر نقل کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں: مجھ سے دوبارہ پوچھ لو لیکن دوسرے کی کا پی مت جھانکو کیوں کہ اس سے نہ صرف آپ اس کی غلطی بھی دہرا لیں گے بلکہ آپ کو اس بات کی عادت بھی پڑ جائے گی۔ اپنے طالب علموں کی ہر اچھّی بُری عادت پر وہ نظر رکھتے ہیں اور انھیں درست بھی کرتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے طلبہ کو حوصلہ بھی دیتے رہتے ہیں۔ سر اپنے طالب علموں کی ہر چیز برداشت کر سکتے ہیں لیکن بدتمیزی بالکل بھی برداشت نہیں کر سکتے۔
ایک اور چیز جو سر بالکل بھی برداشت نہیں کر سکتے، وہ یہ ہے کہ کوئی انھیں خوش خبری دے لیکن مٹھائی کے بغیر، چاہے وہ خوش خبری بڑی ہو یا چھوٹی۔ مٹھائی دوسرے دن آجانی چاہیے، نہیں تو torture سہنے کے لیے تیار رہیں۔ کچھ شریف لوگ بن بولے لے آتے ہیں اور کچھ ایک بار کی وارننگ پر۔ جو اس پہ بھی نہ لائے، اب تو اس کی شامت ہے۔ میں بیچ والے میں آتی ہوں۔ سر اس پر ایک قصّہ سناتے ہیں کہ ایک بار کسی کو نیٹ امتحان میں کامیابی ملی اور سر اُسے دو بار مٹھائی کھلانے کو کہہ چکے تھے لیکن وہ آج کل پرسوں پر ٹالتی رہیں۔ تو سر نے خود دس-دس روپے طلبہ سے چندا کیا۔ باقی بچّوں سے اور خود اپنی جیب سے بھی پیسے نکالے۔ اس کامیاب طالب علم سے ایک روپیہ بھی نہ لیا گیا جس کے لیے مٹھائی آنی تھی۔ وہ یہ قصّہ سنا کر ہم سب کو خوف زدہ کر دیتے ہیں۔ اب یہ سُن کر کوئی کیسے مٹھائی نہ لائے۔ اتنی محنت سر ہم لوگوں کی مٹھائی کھانے کے لیے کرتے ہیں۔ سر کے فریج میں ہر وقت مٹھائی رکھّی ہوتی ہے۔ جب بھی کوئی مٹھائی آئے یا مٹھائی تقسیم کرنی ہو، سر مجھ سے کہتے ہیں۔ ویسے تو میں کبھی ایسی حرکت نہیں کرتی لیکن جو مٹھائی کی اتنی خدمت کرے اور وہ ایک مٹھائی بھی چھپ کر نہ کھالے؛ وہ بھی گلاب جامن ہو تو یہ اس کی بے عزّتی ہے لیکن میں نے صرف ایک بار ایسا کیا۔ سر ڈائے بیٹک ہونے کی وجہ سے مٹھائی خود نہیں کھاتے، اور جس کا ہم سبھی خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کے بدلے میں ان کے لیے کچھ اور آجاتا ہے۔ اب تو یہ عادت ہم سب میں بھی آگئی ہے۔ ایک خوش گوار ماحول ہوتا ہے جس کا سبھی لطف لیتے ہیں اور سر بھی ہم لوگوں کو خود پکا کر پارٹی دیتے ہیں اور تحفہ تحائف کے لیے بھی گنجایش نکال لیتے ہیں۔ ایسا جھکاو اپنے طالب علموں کی طرف مشکل سے ہی کہیں دوسری جگہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
سر کی سب سے اچھّی عادت مجھے یہ لگتی ہے کہ چھوٹی کا میابی ہو یا کوئی چھوٹی کوشش؛ ہم سب کی خوب حوصلہ افزائی کرتے ہیں، خوب شاباشی دیتے ہیں جس سے ہم سب کو آگے بڑھنے، اور بہترکرتے رہنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ اس سے ہم تمام لوگوں کا بھی حوصلہ بلند رہتا ہے۔ آج کے اس دور میں تعریف کرنے والے بہت مل جائیں گے لیکن اس میں مذاق ہے یا تعریف، یہ سمجھ پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے میں صرف سر کی کی ہوئی تعریف پر یقین کرتی ہوں۔ ایک سچّے دل سے کی گئی تعریف اثر کرتی ہے۔ اس لیے مجھے سر سے compliment لینا پسند ہے۔ اس لیے نہیں کہ میں اپنی تعریف سننا چاہتی ہوں بلکہ اِس لیے کہ خود کو اور بہتر کرسکوں۔ اور جو اُستاد آپ کی کمی، خامی، غلطی آپ کو براہِ راست بتادے اور وہ دوسرے لوگوں پہ ظاہر بھی نہ ہو، سمجھ جائیے کہ اُس اُستاد کو آپ کی ترقّی کی فکر ہے۔
سر کے ذریعہ ہی مشہور شعرا، افسانہ نگار، ناول نگار اور تنقید نگار؛ نہ صرف اپنے ملک کے بلکہ دوسرے ملکوں کے بھی ادیبوں کو دیکھنے، سننے اور جاننے کے مواقع ملے۔ ٢٠١٦ء کے انٹرنیشنل سے می نار میں ملک کے ہر کونے سے آئے مشہور ادیب جمع ہوئے تھے جس میں سلطان اختر، شوکت حیات، غزال ضیغم، شگفتہ یاسمین وغیرہ سے مجھے ذاتی طور پر ملنے کا موقع ملا۔ اسی درمیان سر نے مجھے اپنی دوست غزال ضیغم سے روبرو کرایا۔انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا پڑھنا پسندکرتی ہو؟میں نے فوری طور پر جواب دیا: غزل۔ پھر انھوں نے پو چھا: ’افسانہ پڑھنے اور لکھنے کا شوق نہیں رکھتی ہو؟چوں کہ وہ ایک مشہور افسانہ نگار ہیں اور نہ صرف اردو بلکہ ہندی، انگریزی اور مراٹھی میں بھی ان کی تخلیقات شایع ہوئی ہیں، ”سوریہ ونشی۔چندرونشی“، ”بھولے بسرے لوگ“، ”نیک پروین“، مدھوبن میں رادھیکا“، ”خوشبو“ وغیرہ ان کے مشہور افسانے ہیں۔ میں نے جیسا انھیں پایا، وہ مجھے ایک خوش اخلاق اور خوش مزاج معلوم ہوئیں جس کی جھلک ان کے چہرے پر بھی واضح تھی۔ حال ہی میں ١٢ دسمبر کے پروگرام میں ہندی ناول نگار وبھوتی نارائن راے اور معروف اردو مصنّف عبدالصمد اور نظم نگار آلوک دھنوا سے ملنے کی صورت پیدا ہوئی جن کے ناول، افسانے اور نظمیں پڑھا کرتی تھی، ان کو سننے کا موقع ملا۔ سے می نار کے شروع میں عبدالصمد اور آخر میں آلوک دھنوا صاحب کے ساتھ یادگار تصویر یں بھی لی گئیں۔ خود انھوں نے کہا: ”تصویر اچھّی نہیں آ رہی ہے، صحیح طریقے سے تصویر لو۔“ اتنا photo conscious سر کے بعد میں نے انھیں ہی دیکھا۔
سر کے Photo Consciousness کی بات کریں تو مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ سر اتنے match making کیسے ہیں؟ جو شخص اپنے پی جی کلاس تک صرف کرتا پہنتاہو، وہ شخص آج سے می نار میں جاتے وقت یہ دھیان رکھتا ہے کہ دن کے وقت ڈارک رنگ کا سوٹ نہیں پہننا چاہیے۔ اور دوسرے سے می نار میں یہ پایا کہ ایک کرسی پر خود نہ بیٹھ کر، دوسرے شخص کو بیٹھنے کے لیے کہہ دیا کیوں کہ یہاں سے آپ کی اور میری دونوں کی تصویریں اچھّی آئیں گی۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ آپ کی کوئی بھی بات مان لے اُف کیے بغیر۔
حال ہی میں ۳۱۔ ۲۱ نومبرکو بزمِ صدف کی جانب سے ہوئے دوروزہ سے می نار میں جس کے ڈائرکٹر ہمارے سر خود صفدر امام قادری ہیں، میں نے اِس میں دیکھا کہ سر کس مشقّت سے رات کی نیند اور صبح کا چین حرام کرکے اپنے کام کو انجام دیتے ہیں۔ کبھی تو صرف دو گھنٹا سونے کا وقت ملتا اور کبھی تو سوتے بھی نہیں۔ ان سب کاموں کے باوجود اپنے طالب علموں کی نہ صرف طبیعت بلکہ ان کے کھان پان کا بھی برابر دھیان رکھتے ہیں۔ نہ صرف کھان پان بلکہ ان کے علم میں کس طرح اضافہ کیا جائے، اس کی فکر ہم لوگوں سے زیادہ انھیں رہتی ہے۔
کس وقت کون سا فارم بھرنا چاہیے، اس کی ہدایت وہ ہمیشہ کر تے رہتے ہیں۔ مجھے پاٹلی پترا یونی ورسٹی کا فارم بھرنے کی صلاح انھوں نے ہی دی، اور ان کی دی ہوئی تعلیم کی بدولت ہی آج میرا وہاں داخلہ پی اچ- ڈی میں ہوپایا۔ صرف اتنا ہی نہیں، میں نے دیکھا کہ کوئی بھی ملنے آئے تو اس سے ایک بار ناشتے کے لیے پوچھتے ضرور ہیں۔ یہ سب ان کے حسن اخلاق کا نمونہ ہے جو انھیں اپنے والد صاحب سے ملا ہے۔ میں نے ان کی حال ہی میں شائع ہوئی کتاب ”میرے والدین“ میں ان کے حسن اخلاق کے بارے میں پڑھاتھا۔ وہ اپنا نوالہ بھوکے کو کھلا دیتے تھے اور یہی اخلاق میں نے سر میں بھی دیکھا ہے۔
ان سب کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ ہم لوگ سر سے ڈرنا چھوڑ چکے ہیں۔ کیوں کہ سر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کس چھوٹی بات پر بگڑ جائیں گے، یہ کسی کو معلوم نہیں۔ یہ ان کی دماغی حالت پر منحصر ہے۔ سر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جب بھی کوئی بات نکلتی اور انھیں مثال دینی ہو تو کئی بار جسے کہہ چکے ہیں، اس بات کو بھی اسی خوشی اور پُر لطف طریقے سے کہتے ہیں جس طرح پہلی دفعہ کہنے کی کیفیت ہوتی ہے۔ یہ خود میں ایک آرٹ ہے۔
سے می نار کے ذریعہ سر کو کئی طرح سے جاننے کے مواقع ملے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سر ایک good speaker ہونے کے ساتھ ساتھ good listener بھی ہیں۔ سے می نار میں سر ہر ایک کے پیش کردہ مقالے کو بہت غور سے سنتے ہیں اور اہم نکات کو لکھتے جاتے ہیں لیکن جب غصّہ ہو جائیں تو اس وقت صرف good speaker رہ جاتے ہیں اور میں اُس وقت ایک good listener بن جاتی ہوں اور یقین مانیے، اسی میں سب کی بھلائی بھی ہے۔ سے می نار میں سر ایک دوسرے سے گفتگو کرنا پسند نہیں کرتے ہیں اور اگر اُن کی بغل میں بیٹھ کر کوئی گفتگو کرے تو کسی بہانے وہاں سے جگہ بدل لیتے ہیں۔ ایک دفعہ اتفاقاً سر میرے آگے والی کرسی پر بیٹھ گئے تھے، ہم لوگوں کی حرکت دیکھ کر سر نے ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا کہ آخر کون بیٹھا محوِ گفتگو ہے؟ ہم لوگ سر کی اس وارننگ کو سمجھ نہیں سکے، اس لیے دوسری بار سر کی ڈانٹ کاشکار ہو گئے۔
حال ہی میں سر کی شایع شدہ کتاب ”میرے والدین“ میں صفہ نمبر ٧٤ میں ایک جگہ سر نے اپنے والد صاحب سے نااتّفاقی کی بات کی ہے۔ اُس لمحے کے بعد سے اُس نااتّفاقی کے پیچھے کا سبب جاننے کا تجسّس پیدا ہو گیا۔ دوسرے دن جب سر سے ملنے گئی تو سر نے خود بڑھ کر پوچھا کہ’کچھ سوال بھی پوچھنا ہے‘؟ سوال تو مجھے پوچھنا تھا لیکن ہمّت نہیں جٹا پا رہی تھی۔ سر کو اپنے سوال کی واقفیت کا اظہار کراتے ہوئے میں نے پوچھا کہ میں جو پوچھوں گی، وہ آپ بتا دیں گے تو سر ہنستے ہوئے کہنے لگے: ”تم کیا مجھے اتنا کمزور سمجھتی ہو“ تو کسی طرح میں نے ہمّت کرتے ہوئے اُن سے پوچھ ہی لیا کہ ”والد صاحب کو آپ کی زندگی کے کس فیصلے سے اتّفاق نہیں تھا؟“ میری اتنی ہمّت سے کیے ہوئے سوال کو سر نے بڑی کنجوسی سے ایک لفظ میں جواب دیتے ہوئے کہا: ’شادی میں نے اپنی پسند سے کی تھی، اس لیے‘۔ سر یہ جواب دے کر مطمئن ہو گئے تھے لیکن میں کہاں مطمئن ہونے والی تھی۔
لیکن مجھے اُس دن یہ بات معلوم ہوئی کہ سر کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب اُن کا یقین اللہ پرسے اُٹھ گیا تھا۔ بہت پوچھنے کے باوجود بھی سر نے یہی کہا کہ اُس کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی۔ بس خدا سے بھروسہ اُٹھ گیا تھا کہ اِن سب میں کچھ نہیں رکھا ہے۔ میرے لیے یہ ماننا بہت مشکل اِس لیے بھی رہا کیوں کہ سر اپنے ہوش سنبھالنے کی عمر سے ہی اپنے والد صاحب اوربڑے بھائی ظفر امام قادری کے ساتھ فجر کی نماز کے لیے پیچھے پیچھے مسجد جاتے تھے۔ ایک دن اچانک بھروسہ اُٹھ جانا میرے لیے یہ سوچ پانا بہت مشکل ہے کہ کوئی وجہ نہیں رہی ہوگی۔
کوئی بھی شخص نماز دو وجہوں سے پڑھتا ہے: اوّل کہ وہ مسلمان ہے اس لیے اور دوسرا کہ اُسے خدا کی ذات پر یقین اور دل میں اُس کا خوف ہو اِس لیے۔ محبت ہونے کے لیے اُس پر یقین ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ٢٠١٦ء میں ایسی صورت بنی کہ انھیں عمرہ کے لیے جانا ہوا۔سر بتاتے ہیں کہ جب اُن کا جہاز مدینہ منوّرہ میں اُتر رہا تھا تو اُن کے دل میں ایک عجیب سی بے چینی اور گھبراہٹ کی لہر اُٹھی جو اُن کی آنکھوں کو نم کر رہی تھی اور شاید خدا کے وجود کا احساس دلا رہی تھی۔ اُس دن سے لے کر آج تک، سر پانچوں وقت کی نماز ادا کرنے کا وقت اتنی مصروفیت کے باوجود نکال ہی لیتے ہیں جس کی نشانی آپ کو اُن کی پیشانی پر دیکھنے کو آسانی سے مِل جائے گی۔
پھر میں نے سر کی ہر بات کو غور سے سننا اور سمجھنا شروع کر دیا۔ ایک دفعہ جب سر مجھے سمجھا رہے تھے کہ لکھنے کی عادت ڈالو، کچھ بھی لکھو۔ جو دن بھر میں ہوتا ہے یا پھر جو تم محسوس کرتی ہو، وہی لکھو۔تمھیں معلوم نہیں ہے کہ یہ کتنی بڑی طاقت ہے۔ سر یہ کہہ ہی رہے تھے کہ میں نے بے دھڑک ان سے پوچھ لیا کہ ’آپ بھی لکھتے تھے کیا اُس وقت؟ کہنے کا تو کہہ دی لیکن جب سر کے چہرے پر نظر پڑی تو لگا کہ آج تو میری شامت ہی آگئی کیوں کہ ان کے چہرے پر جہاں ہلکا سا غصّہ تھا، وہیں وہ کچھ سوچ میں مبتلا بھی تھے اور میرا سوال اِس طرح ہَوا ہُو جیسے اُس کا کوئی وجود ہی نہ رہا ہو۔ سر اپنی جھکی نگاہوں کے ساتھ موبائل چلاتے رہے۔ میں نے دوبارہ سوال کرنے کا خطرہ نہیں مولا۔ کیوں کہ جب سر غصّہ کرتے ہیں تو بھوئیں اُٹھا لیتے، آنکھیں بڑی بڑی کر لیتے اور چہرہ تمتماتا ہوا سُرخ لال، سامنے والے کو آنکھوں سے ڈرانے اور لفظوں سے دبوچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں ایسا خوفناک منظر دیکھنے کے لیے ذہنی طور پر تیّار نہیں تھی۔
اِس کے باوجود، ایک دفعہ اور میں نے سر سے پوچھنے کی کوشش کی لیکن اِس بار بھی ناکامیابی ہاتھ لگی۔ آخر میں نے سر سے ایک بار کہہ ہی دیا کہ ’میں نے نذیر احمد کاخاکہ پڑھ لیا ہے‘۔ یہ اِس لیے کہا کیوں کہ سر اکثر کہتے ہیں: نذیر احمد کا خاکہ پڑھا ہے؟ اس میں سر مرزا فرحت اللہ بیگ کی شخصیت کو پسند کرتے ہیں کہ جب نذیر احمدنے ناراضگی کے عالم میں دونوں شاگردوں کو واپس جا نے پر جتنا ہی زور دیا لیکن شاگردوں نے بھی ٹھان لی تھی۔ جب تک پڑھیں گے نہیں تب تک ٹس سے مس نہ ہوں گے۔ سر اُن کی اس ضد اور پڑھائی کے شوق کے قائل ہیں۔ اُن کے کئی بار درست کرنے کے باوجود میں شعر غلط پڑھ دیتی ہوں تو سر مجھ سے کہتے ہیں کہ شعر صحیح پڑھو نہیں تو جس طرح نذیر احمد نے صلاح دی تھی اپنے شاگرد رضا کو، میں بھی وہی صلاح دوں گا کہ ”دس پندرہ روز شام کے وقت کالی جان کے یہاں تعلیم میں ہو آؤ“ اور میں یہ سوچ کر زیرِ لب مسکراتی رہی کہ اب تو کالی جان کا ملنا بھی مشکل ہے، اس لیے آپ کو ہی مجھے جھیلنا پڑے گا۔
ایک دن مجھے سر سے کچھ پوچھنا تھا تو میں نے سر سے فون پر ملنے کا وقت متعین کر لیا۔ جب میں گھر پہنچی تو تھوڑے وقفے کے بعد سرنے مجھے خود یاد دلاتے ہوئے کہا کہ تمھیں مجھ سے کچھ پوچھنا تھا؟ جب اُستاد خود بڑھ کر ایسے یاد دلائے تو کوئی ایسا موقع ہاتھ سے کیسے جانے دے۔ میں نے کہا: کچھ بھی پوچھ لوں، اگر میں کچھ بھی پوچھ لوں تو کیا آپ بتا دیں گے؟ جواب میں سر نے کہا: پوچھوگی، تب نا کچھ بتا پاؤں گا! سرکو دیکھ کر ایسا لگا کہ سر کو صرف میرے رسمی سوالات کی ضرورت ہے۔ سر مجھ سے کہہ رہے تھے سوال کرو۔۔۔پہلا سوال جو میں نے سرسے کیا وہ یہ تھا کہ ”آپ نے نماز کیوں چھوڑدی تھی؟ سر نے کہا: تمھیں یہی سوال کرنا تھا؟ مجھے لگا تھا خدا سے کوئی ناراضگی رہی ہو گی لیکن سر نے اس بار بھی وہی جواب دیا جو پہلی بار دیا تھا۔ خیر میں کسی طرح دوسرے سوال کی طرف بڑھی کہ کس وجہ سے آپ اور والد صاحب کے درمیان نااتّفاقی کی صورت پیدا ہوئی؟ سر نے کہا: کیوں کہ میں نے شادی اپنی پسند سے کی تھی اور یہ ایک ١٥ منٹ میں لیا گیا فیصلہ تھا کہ ہم دونوں کو اس رشتے کو آگے لے کر چلنا ہے۔ میں نے والد صاحب کو اپنے اس فیصلے میں شریک کرنا گوارا نہیں کیا اور ١٩٨٦ء میں ہم دونوں ایک الگ سفر طے کرنے، اپنی الگ دنیا بسانے نکل پڑے۔ پھر وہ خود ہی کہتے ہیں: یہ ایک نا سمجھی کا فیصلہ تھا جو اُس بچّے نے لیا تھا جس نے صرف کتابوں کی دنیا دیکھی تھی، اسے اصل دنیا سے قطعاً واقفیت نہیں تھی۔ اسی بات پر مجھے ندا فاؔضلی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے:
دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
٢١ برس کا لڑکا جس کا پی-جی۔بھی مکمّل نہیں ہوا ہے، اور جو اپنے کالج کا ٹاپر رہا ہے، جس کی پہچان نہ صرف صحافت میں ہے بلکہ قومی سطح پر بھی ادب کی سرگرمیوں میں وہ شامل ہے۔ جس سے ہر عمر کے لڑکے اور لڑکیاں دوستی رکھنے کی خواہش رکھتے ہوں، اُن سب کے باوجود وہ لڑکا اپنے اسکول کے زمانے سے لے کر پی-جی۔ تک جس وقت اُس کی زندگی نے کامیابی کا موڑ لے لیا تھا، اُس وقت بھی وہ صرف ایک نظر کے لیے ایمان دار رہا۔ سات سال پہلے بنے اس رشتے کو سر نے اپنی پوری کوشش سے نبھایا بھی۔
علاحد گی کے بعد سر نے خود کو اور اپنے بچّوں کو کس طرح سنبھالا ہوگا، میرے لیے یہ تصّور کر پانا بھی مشکل ہے۔ سر بتاتے ہیں کہ اُس وقت وہ مکھنیا کنواں میں رہتے تھے۔ کالج سے دو بار آنا جانا پڑتا تھا۔ ایک دفعہ کھا نا بنانے، دوسری بار بچّوں کو کھانا کھلانے کے لیے۔ اُس وقت سر کے پاس اپنی گاڑی بھی نہیں تھی۔ اِن تمام ذمّہ داریوں کے باوجود ابھی کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ کسی میدان میں پیچھے ہیں یا یہ کی صفدر اور بھی بہتر کر سکتا تھا لیکن ذمّہ داری کے تحت نہیں کر پا رہا؟سر نے اپنے بچّوں کو سنبھالا اور بچّوں نے اُنھیں جن کی عمر خود بکھرنے کی تھی۔ اِسی طرح دونوں ایک دوسرے کی طاقت بنے۔
سر جتنی خوشی سے میرے سوالوں کو سن رہے تھے اور جواب دے رہے تھے، جس کا جواب دینا اُن کے لیے مشکل تھا لیکن پھر بھی ہمّت جٹا رہے تھے۔ اس دوران میں نے پایا کہ سر کی آنکھوں میں ایک منظر بالکل سنّاٹا تھا جس پر خود سر کا شعر ہے :
پھر وہی کھیل اور سنّاٹا
آگ پانی میں ڈوبتا کیوں ہے
ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب اُن کی آواز میں کپکپی محسوس ہوئی۔ جیسے اچانک ایک سرد ہوا چلی جس نے ان کی آواز کو حلق میں کچھ دیر کے لیے جما دیاہو اور اُس وقت اگر میں فوراً کوئی تسلّی والی بات کہہ دیتی تو شاید یہ بھی ممکن ہوتا کہ اُن کی آنکھیں نَم ہو جاتیں لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ سر نے بڑی ہمّت کے ساتھ اپنے جذبات پر قابو پا لیا۔ اُن کی آنکھوں میں آنسو کے نام پر ایک قطرہ پانی بھی نہیں تھا۔ خود پر اتنا ضبط ہونا بڑا مشکل کام ہے۔
سر نے اور آگے کہا کہ میں آج بھی وہیں کھڑا ہوں، جہاں ١٦ برس پہلے تھا۔ ٢٠١٥ء میں سر نے ایک شعر کہا ہے جس سے اِس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
اُس کو پانے میں کیا نہیں کھویا
اُس کو کھونے سے بھاگتا کیوں ہے
زندگی کے اس موڑ پر جہاں صفدر امام قادری کا پرچم لہرا رہا ہے، جو بے باک ہو کر اپنی بات رکھتے ہیں، یہاں تک کہ لوگوں کو عزّت بھی اپنی priority list کے حساب سے دینا نہ کہ اس لیے کہ ساری دنیا اس کو عزّت دے رہی، وہیں دوسری طرف ایک یہ بھی صفدر ہے جو تنہائی سے گھبراتا ہے کیوں کہ میں یہ اکثر سوچتی ہوں، کیوں کوئی خود کو اتنا مصروف رکھے گا۔ جب انھیں وقت ملتا بھی ہے تو خود کو مصروف کر لیتے ہیں۔ انھیں خود کو مصروف رکھنا، لوگوں کے بیچ گھرے رہنا پسند بھی ہے۔ دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں دنیا میں؛ ایک جو تنہائی پسند ہوتا ہے اور دوسرا جو خود کو لوگوں کے بیچ رکھتے ہوئے خود کو تنہا کر لیتا ہے۔ سر نے ایک بار کہا تھا: ”اگر میں یہ ادبی کام چھوڑ دوں تو میری جان نکل جائے گی“۔ اس بات پر ایک شعر مجھے یاد آ رہا جو مجھے پسند بھی ہے۔ جاں نثار اختر نے کیا خوب کہا ہے:
یہ علم کا سودا یہ رسالے، یہ کتابیں
ایک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں
جہاں تک میں سر کو جان پائی ہوں، اس سے مجھے یہ لگتا ہے کہ وہ کسی کے مطابق خود کو نہیں چلا سکتے بلکہ اپنا راستہ خود بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ ایک مشکل راستہ ہے جس میں شخص کبھی اکیلا ہو جاتا ہے لیکن جسے خود ہمّت بننا آتا ہو، اپنی ہمّت خود بڑھانا آتا ہو، اس کے لیے ترقّی کی راہیں ہوتی ہیں۔ ان کے مزاج میں ضد، پختہ ارادہ اور لگن ہے جسے میں میر کے انداز میں کہوں تو:
اپنے مزاج میں بھی ہے میر ضد نہایت
پھر مر کے ہی اٹھیں گے بیٹھیں گے ہم جو اَڑ کر
کئی لوگوں سے میں نے کہتے سنا ہے: ”بچارے اکیلے ہو کر بچّوں کو سنبھالنا اور سارے کام دیکھنا کتنا مشکل ہوتا ہوگا“ لیکن میرا یہ کہنا ہے کہ مشکل تو رہا ہوگا لیکن باپ ہونے کا مزہ توماں بن کے ہی آتا ہے اور ایک سچّا دوست بھی۔ ایک جنون جو اُن میں کل بھی تھا، آج بھی ہے اور اللہ کرے، آگے بھی رہے کیوں کہ اسی سے ہم لوگوں کی ترقّی ہونی ہے۔ جس محنت سے سر پٹنہ میں اردو کے فروغ کا کام کررہے ہیں، وہ قابلِ تعریف ہے اور میری یہ خوش قسمتی ہے کہ مجھے ایک استاد کے ساتھ ساتھ روحانی باپ بھی ملے۔ اب بس یہی کوشش ہے کہ ان سے زیادہ سے زیادہ سیکھ سکوں اور ان کی طالب علم ہونے کا نام روشن کرسکوں۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : صفدر امام قادری کا تنقیدی شعور

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے